بسم اللہ الرحمن الرحیم
زمین پر انسانی زندگی کی تاریخ کے آغاز اور اس وقت سے جب قابیل کا ہاتھ ہابیل کے خون سے رنگین ہوا، حق اور باطل کی بنیاد پڑ گئی، ایمان ، سچائی اور خلوص کی علامت ہابیل تاریخ کے پہلے شہید ہیں،دوسری طرف کینہ رکھنے والا،لالچی اور حسد اور نفرت سے بھرے ہوئے وجود کا مالک قابیل تھا جس نے اپنے بھائی کے ناحق خون سے اپنے دامن کو داغدار کیا،یہ تاریخ کا پہلا شقی تھا جس کے ہاتھوں تاریخ میں حق اور باطل کے دو محاذوں کا آغاز ہوا۔
وقت کا پیہ گھومتا رہا ، کبھی حق کی روشنی کے دھارے نے معاشروں پر غلبہ پایا اور کبھی جھوٹی تاریکی کے دھارے نے معاشرے کو تباہی، بربادی اور غلاظت کا نشانہ بنا ڈالا،مختلف اوقات میں انبیا کو حق کے چہرہ سے داغ صاف کرنے اور انسانوں کو اپنی الوہی طبیعت کی طرف لوٹنے کی ترغیب دینے کے لئے بھیجا گیا، انسانیت کے کارواں کو آخری الہی مذہب کے ظہور کا ایک مناسب پلیٹ فارم مہیا کرنے کے لئے پوری تاریخ میں منزل بہ منزل سفر طے کرنا تھا یہاں تک کہ اور اس طرح حضرت محمد مصطفی ﷺ کی باری آئی،پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک جامع اور انسانی مکتب کے قیام کے لئے 23 سال تک سخت محنت کی اور ایک بے مثال فکری – عملی نظام، ایک عظیم جامع اور ثقافتی مکتب اور ایک عظیم تہذیب کی بنیاد ڈالی، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسلامی کے اسلام کے حیات بخش مکتب کومضبوط کرنے کے لیے23 سال کی جدوجہد کے بعد اپنے معبود سے جاملےجبکہ آپ ؐ نے انسان کے راستے سے بھٹکنے کو روکنے کے لیے دو گرانقدر چراغ اپنی میراث میں چھوڑے جو تاریخ میں ہمیشہ باقی رہیں گے،جوایک طرف ہستی کے مالک کی طرف سے انسان کے لیے کھلا خط قرآن مجید ہے اور دوسری طرف مجسم قرآن اور ایمان وعمل صالح میں بہترین نمونۂ عمل آپ کے اہلبیت عصمت وطہارت ہیں،اگرچہ وحی کا سلسلہ رک گیا لیکن پیغمبر اکرم ﷺ کی میراث یہ دوچیزیں بشریت کے لیے چراغ راہ بن گئیں تاکہ قیامت تک آنے والا ہر زمانے اور ہر نسل کا انسان ان کے پرچم تلے حق اور باطل کے راستوں کو پہچان سکے،دنیا پرستوں نے شروع سے ہی حق کو دبانے کی کوشش کی اور اس طرح آئمۂ معصومین ؑایک ایک کرکے شہید ہوگئے سوائےالہی ذخیرے حضرت بقیہ اللہ الاعظم(عج) کہ دلکش روحیں جن کے ظہور کے تڑپ رہی ہیں۔
اس دوران سیدالشهداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے جاری اور پاکیزہ خون نے کائنات میں حیرت انگیز لمحات ایجادکیے جو پچھلی 14 صدیوں سے حق اور انصاف کی متلاشی تحریکوں کے قیام کا نقطہ آغاز بنے ہوئے ہیں، وقتافوقتا تحریکیں شروع ہوتی رہیں اور مزاحمت ، جہاد اور شہادت کی سرخ لکیر میں توسیع ہوتی رہی یہاں تک کہ اس شاندار اسلامی انقلاب تک پہنچیں، اس بارحضرت روح اللہ ؒنے فیصلہ کیا کہ شاہی ظالم حکومت کے دوران اندورنی ظلم و استعمار اور غیر ملکی استحصال کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اور ایک زبردست تحریک چلائیں، چنانچہ آزادی ، استقلال اور اسلامی جمہوریہ کے تین ستونوں پر شاندار اسلامی انقلاب تشکیل پایا جس نے دنیا کی تباہ کن لہروں کے درمیان سے اپنا سر اوپر اٹھایا، عظیم اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ساتھ ہی ایک طرف دنیا کے پریشان،مظلوم اور محروم لوگوں کے دلوں میں امید کی کرن چمک اٹھی جبکہ دوسری طرف ظالم وجابر سامراج کے میناروں پر لرزہ طاری ہوگیا،اس طرح کہ انہوں نے خطے اور دنیا میں اپنا تسلط برقرار رکھنے کی کوششیں کرتے ہوئےانقلاب کی کامیابی کے پہلے ہی دن سے اس گھٹنیوں چلتےہوئےاسلامی انقلاب کے گھٹنے ٹکانے اور اسے ناکام بنانے کے لئے بہت ساری سازشیں تیار کیں اور استعمال کیں لیکن اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سےجب ان کی کوئی بھی سازش کارگر اور کامیاب نہیں ہوسکی تو آخر کارانھوں نے ہمارے ملک پر بھاری اور ظالمانہ جنگ مسلط کردی لیکن انھیں یہ خبر نہیں تھی کہ حضرت حق کے لطف وکرم سے اور مرحوم عظیم الشان امام ؒکی قیادت میں ایرانی قوم ممکنہ طریقے سے اپنے جوہر دکھائے گیاور مسلط جنگ کے خطرے کو مقدس دفاع کے مواقع میں بدل دے گی تاکہ غدار دشمنوں کے ابتدائی تاثر کے برخلاف یہ آٹھ سالہ دور ایک باشعور ، وفادار ، بہادر اور انقلابی قوم کی مزاحمت کی ایک شاندار دستاویز کے طور پر دنیا کے سامنے اور تاریخ میں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو کر رہ جائے گی، آٹھ سال کے مقدس دفاع کے دوران ، مزاحمت، جہاد اور شہادت کے جذبے کی گہرائیوں کو ملک کے مرکز سے لے کر انتہائی دور دراز دیہاتوں تک کے معاشرے میں پہنچا دیا۔
اس عرصے کے دوران پورے اسلامی ایران سے بڑی بڑی صلاحیتیں ابھر کر سامنے آئیں اور عظیم افسران ظاہر ہوئے اور مہاکاویاں ایجاد کرتے ہوئے اس سرزمین کے لئے شاندار اور حیرت انگیزاعزاز حاصل کیے،اس دوران ایران کے دلاور مردوں اور خواتین کا ایک سیلاب تھا جنہوں نے محاذ پر شہروں میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے ملک کی علاقائی سالمیت انقلاب اور خالص محمدی اسلام ؐ کے نظام و تقدس کا دفاع کیا، مقدس دفاع کا دور پگھلا دینے والی بھٹی کی طرح تھا جس میں پاکیزہ اور مخلص روحیں اپنے آپ کو صیقل کرتی تھیں۔
اس دوران سپاہ پاسدران ، فوج اور عوامی رضا کار فوج کے کتنے بہادر سپاہیوں نے ترقی کی اور ممتاز کمانڈر بن گئے ، جن میں سے کچھ شہید ہوگئے ،کچھ زخمی اور کچھ برسو ں بعد عراقی جیلوں سے رہا ہو کر آئےلیکن خدا وند عالم کی مرضی یہ تھی کہ ان میں سے کچھ باقی رہ جائیں جوجوانوں وفادار ، انقلابی اور عسکریت پسند قوتوں کی تربیت کریں تاکہ وہ مزاحمت کی راہ اور روایت کو زندہ ، وسیع، اور متحرک رکھا جاسکے۔
مقدس دفاع کے ابتدائی ایام میں ، صحرائی خطے سے تعلق رکھنے والاایک کرمانی نوجوان مجاہدین کے عظیم لشکر سے آملا، یہ مؤمن، بہادر ، ذہین اور ہوشیار نوجوان چالیس سالوں سے اتنا جلوہ گر ہوا ، چمکا اور کمال وسعادت کی راہ میں اتنا آگے پہنچ گیا کہ رہبر معظم جیسے عظیم مفکر کے ہاتھوں اس کے نام سے منسوب مکتب کی بنیادڈالی گئی اس طرح سے آج ہر انصاف پسند او رآگاہ انسان ان الفاظ ’’اسلام او رولایت کا ادنی سا سپاہی‘‘یعنی اسلام کا سرفراز سردار جنرل شہید قاسم سلیمانی، کی گواہی دیتا ہے اور ان پر تصدیق کی مہر لگاتا ہے۔
واقعتا کسی شخص کی زندگی میں کون سا عمل ہوتا ایسا ہوتا ہےجو اسے ایک مکتب کی شکل میں بنا دیتا ہے؟ایسا کیا ہوتا ہے کہ ایک شخص اکیلے ایک مکتب بن جاتا ہے؟ جواب واضح ہےکہ جب انسان اپنی انفرادیت کے دائرے کو چھوڑ دیتا ہے اور اس کے وجود کا دائرہ اس قدر وسیع ہوجاتا ہے کہ انسانی نفوس کے کمال کی راہ پر اس کا نمایاں اثر پڑتا ہے تو وہ در حقیقت ایک مکتب بن جاتاہے، جب وہ کمال تک پہنچی ہوئی شخصیت کے اجزاء کا ایک مربوط اور جامع نظام مختلف جہتوں اور سیاق و سباق میں تشکیل پاتا ہے تو ، ایک مکتب، ایک آئیڈیل اور ایک سبق آموز مکتب کے طور پر ابھرکر سامنے آتاہے، آگاہ اور آزاد قوموں کے دلوں کے سردار قاسم عزیز ایسے ہی تھے، جس طرح ان کے مومن مخلص اور بہادر ساتھی ابو مہدی المہندس(خدا وند عالم کا بے پناہ درو وسلام ہو ان پر) بھی ایسے ہی تھے ۔
اب ہم اس مکتب کے بانی کی کچھ نمایاں خصوصیات کی وضاحت کریں گے ، جو اس مکتب کے عناصر ہیں۔
۱۔ فوجی صلاحیت ، سردار سلیمانی فوجی امور میں ایک خاص فوجی ذہانت کے مالک تھے، وہ مارشل آرٹس میں ماہر تھےکہ عملی طور پر محض نظریاتی انداز میں نہیں اس علم ،عمیق اورحساس مہارت کو حاصل کرنے کے لئے انسان کو میدان جنگ میں مستقل طور پر موجود رہنا پڑتا ہے اور آہستہ آہستہ اس کے مختلف زاویوں اور بہت ساری پیچیدگیوں سے واقف ہونا پڑتا ہے، انھوں نے کم از کم تین بڑے جنگی میدانوں کا تجربہ کیا تھا: مقدس دفاع کا میدان، مسلح شرپسندوں کے خلاف جنگ کا میدان ، اور آخر کار عراق اور شام میں سرحد پار اور انٹر ریجنل جنگ کا میدان جہاں سامراجی طاقتوں اور ان کے خونخوار چیلوں کی طرف سے حاصل کردہ تمام تر حمایت کے ساتھ ابھرنے والی بدنام زمانہ تنظیم داعش کے ساتھ مقابلہ نیز ہر اس جگہ پر جہاں ان کی موجودگی ضروری تھی۔
۲۔عسکریت پسندی اور لڑائی کا جذبہ، وہ کیمپوں میں رہتے ہوئے آپریشن کے مختلف مراحل کی رہنمائی کرنے کے علاوہ بہادری کے ساتھ اور بے خوف ہوکر محاذ کی فرنٹ لائنوں پر موجود ہوتے تھے، وہ میدان جنگ میں دشمن کا مقابلہ کرنے میں کسی بھی قسم کا خوف نہیں کھاتے تھے۔
انہوں نے اپنے تمام وجود کے ساتھ ، امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام کے ان الفاظ پر عمل کیا جن میں آپ نے ارشاد فرمایا ہے کہ: تَزُولُ الْجِبَالُ وَ لَا تَزُلْ عَضَّ عَلَى نَاجِذِكَ أَعِرِ اللَّهَ جُمْجُمَتَكَ تِدْ فِي الْأَرْضِ قَدَمَكَ ارْمِ بِبَصَرِكَ أَقْصَى الْقَوْمِ وَ غُضَّ بَصَرَكَ وَ اعْلَمْ أَنَّ النَّصْرَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ سُبْحَانَهُ
خبردار! پہاڑاپنی جگہ سے ہٹ جائے۔ تم نہ ہٹنا، اپنے دانتوں کو بھینچ لینا۔ اپنا کاسہ سر اللہ کے حوالے کردینا۔زمین میں قدم گاڑ دینا ۔نگاہ آخر قوم پر رکھنا(دشمن کی تعداد اور سازوسامان سے مت ڈرنا)۔آنکھوں کو بند رکھنا اور یہ یاد رکھنا کہ مدد اللہ ہی کی طرف سے آنے والی ہے۔
یقیناً سردار سلیمانی ایسے ہی تھے، وہ میدان جنگ کے وسط میں پہنچ جاتے تھے اور بہادری سے لڑتے تھے، اس طرح کی موجودگی کا بہت موثر نتیجہ نکلتا تھا اور اس کی وجہ سےمجاہدین کا جذبہ ، قوت اور نقل و حرکت دوگنا ہوجاتی تھی،ان کی بے مثال کمانڈ اور بہادری کی وجہ سے وہ کئی فتوحات کے بعد پہلی بار مسلح افواج کے سپریم کمانڈ کے ہاتھوں ملک کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ذوالفقار حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
۳۔ شہادت کا جذبہ، ہمارے پیارے قاسم شہادت کے عاشق تھے، وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ جدائی کی تپش میں جل رہے تھے اور اپنی رات کی اپنی مناجاتوں میں حضرت حق سے شہادت کی دعائیں مانگتے تھے، ان کے جسم کا ذرہ ذرہ شہادت کا طلبگار تھا، وہ شہداء سے باتیں کرتے تھے اور ان سے التجا کرتے تھے کہ وہ انھیں بھی اپنے پاس بلا لیں اور اپنی روحانی بزم میں مدعو کریں، ان کی سب سے بڑی آرزو جس میں کبھی بھی کمزوری اور کمی دیکھنے کو نہیں ملی، شہادت تھی اور آخر کار اس دور کے سب سے شقی انسان کے ہاتھوں شہید ہوکر وہ اپنی اس آرزو تک بھی پہنچ گئے۔
۴۔ خلوص، وہ ریاکاری اور دکھاوے بہت ہی شدت کے ساتھ گریز کرتے تھے،وہ ایسے ہی تھے جیسے دکھائی دیتے تھے، ان کا ظاہر اور باطن ایک جیسا تھا،وہ جیسےاندر سے تھے ویسے ہی دکھائی دیتے تھے، ان کا پاک وپاکیزہ ظاہر ان کے باطن کی پاکیزگی اور طہارت کا پتا دیتا تھا،آیۂ مبارکہ’’ سِیمَاهُمْ فِی وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ‘‘ کے مصداق تھے،خلوص کے راستے میں ثابت قدم تھے، وہ کبھی بھی اپنے آپ کو ظاہر کرنے کے پیچھے نہیں رہتے تھے،وہ باطنی پر کمال کی اس حد تک پہنچ چکے تھے کہ ظاہری جلوے دکھانے سے بے نیاز ہو چکے تھے، وہ پانی کی طرح صاف اور آئینے کی طرح شفاف تھے۔
۵۔ اہل بیت علیہم السلام سے عقیدت اور انھیں سے لو لگانا، وہ دل کی گہرائیوں سے اہل بیت عصمت وطہارت کے عاشق تھے، خاندان رسالت کے ساتھ عقیدت اور محبت ان کے وجود میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی،مسلسل امامت و ولایت کے آسمان پر چمکتے ستاروں کی بارگاہ میں دست بہ دعا رہتے تھے، جب بھی کسی معصوم ؑ کے روضہ مقدس میں شرفیاب ہوتے تھے تو ان کے جوار میں ہونے کا نشہ ان کی آسمانی روح کو مزید جِلا عطا کرتا تھا، وہ پرواز کرنے لگتے تھے اور ان کی عاشق روح پر مکمل سرور اور وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی،مجالس عزا کا اہتمام کرتے تھے اور امام حسین علیہ السلام کی مجلس میں خدمت کر نے کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتے تھے۔
۶۔ولایت کی پیروی،وہ ولایت کے مکمل پیروکار تھے اور اپنے رہبراور مولا کے عاشق تھے، لشکر اسلام کے ایک اعلی آفیسر کی حیثیت سے ولی امرمسلمین اور مسلح افواج کے سپریم کمانڈر کے بارے میں ان کی نظر صرف فوجی درجہ بندی کے لحاظ سے نہیں تھی بلکہ اس سے کہیں زیادہ آگے تھی، اوراس کو عقیدہ کے نقطہ نظر سےدیکھتے تھے ، ان کے الفاظ ، ان کی تحریریں ، ان کے نظریات ، ان کے فیصلے ، ان کی سرگرمیاں اور ان کے اقدامات سبھی ولایت کی پیروی میں تھے، ایسے ہی نہیں ہے کہ انھیں ’’ولایت کے مالک اشتر‘‘ کا لقب دیا گیا ہے۔
۷۔ عبادت اور روحانیت، وہ اپنے واجبات کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ مستحبات پر بھی خصوصی توجہ دیتے تھے، جیسے ہی موقع ملتا تھا قرآن مجید کی تلاوت کرنے اور دعائیں مانگنے میں مشغول ہو جاتے تھے،نمازشب کے پابند تھے، رات کی تاریکی میں ان کا گریہ اور راز ونیازانسان کے ذہن میں ان کی تصویر ایک پہنچے ہوئے عارف کی حیثیت سے نمایاں ہوتی ہے، اگرچہ عرفان اور مہاکاوی دو مختلف طرز عمل ہیں لیکن جب عرفان شریعت کے ذریعہ حق کا حصول ہو اور مہاکاوی خدا کی راہ میں جہاد ہوتو ان کی بنیاد ایک ہوجاتی ہے، آئیے ہم یادکرتے ہیں مقدس دفاع کا دور جب ہمارے پیارے مجاہدین اپنی لڑائی کے جذبے اور دشمنوں سے لڑتے ہوئے عروج پر تھے تو انہوں نے اپنے مورچوں کو نہایت ہی نورانی اور روحانی عبادت گاہوں میں تبدیل کردیا تھا جہاں وہ حضرت حق کے عاشقانہ ذکر ، دعاؤں اور راز میں مشغول رہتے تھے، یہ گویا وہ ایسے عارف تھے جو منزل بہ منزل اپنے روحانی سفر کو طے کر رہے تھے، قاسم بھی انھیں میں سے ایک تھے۔
۸۔سرحدوں سے بڑھ کر ہونا، قدس فورس کو کمانڈ کرنے سے حاج قاسم کو نئے تجربات حاصل کرنے کا موقع ملا، اس عرصے کے دوران ، وہ نہ صرف خطے میں مزاحمتی تحریک کے مختلف زاویوں سے واقف ہوئے بلکہ اپنی ذہانت ، کمانڈ اور انتظامی صلاحیت کے لحاظ سے بھی وہ اس شعبے میں تیزی سے موثر بننے میں کامیاب رہے، لبنان کی 33 روزہ جنگ اور فلسطین کی مزاحمتی تحریک مزاحمت سے واقفیت نے اس کی کمان کا درجہ بلند کیااور پھر جب داعش جیسی غیر انسانی تنظیم جو ریاستہائے متحدہ کے مجرم رہنماؤں کے اعتراف کے مطابق ان کی تخلیق کردہ تھی ، نے عراق اور شام میں اپنا بدصورت چہرہ دکھایا تو اس گندگی اور غلاظت کے ساتھ میدان میں آمنے سامنے تصادم اور آخر کا اس خاتمہ کرنے میں کامیابی نے ہمارے کمانڈر کی رونق کی انتہا تک پہنچا دیا۔
جب ہم ان برسوں کی طرف جاتے ہیں ، جب اس خطے کے بے گناہ لوگ پر گھبراہٹ طاری تھی اور داعش نے سامراجی طاقتوں، ان کے علاقائی اتحادیوں اور صیہونیت کی مالی اور میڈیا اعانت سے کوئی جرم باقی نہیں چھوڑا،داعش سرزمین عراق اور شام کے بے دفاع لوگوں کی جانوں ، اور عزتوں پر بے دردی سے حملہ کرتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی اور ان سرزمینوں میں مستقل آبادکاری اور مستقل تسلط کے بارے میں سوچ رہی تھی، ہم واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ اس وقت تمام دعوے دار میدان چھوڑ گئے تھے اور ایک طویل عرصے تک یہ واحد اسلامی ایران تھا جس نے رہبر معظم کی بصیرت ، تدبیر اور ذہانت سے اپنے عظیم افسران کو خطے کے بے دفاع عوام کے درمیان سلامتی اور امن کی بحالی کے لئے میدان جنگ میں بھیجااس کے بعد مدافعین حرم کے نام سے ایک مبارک تنظیم تشکیل پائی جس کی بنیاد ایران شجاع مجاہدین تھےاور آخر کار ، دنیا کے فوجی اور سیاسی تجزیہ کاروں کے تعجب اور حیرت کے باجودہمارے اس عظیم کمانڈر ، جو داعش کے شر وجود کی غلاظت کے خطے کو پاک کرنے کے لئے پرعزم تھے ، نے داعش کی حکومت کو ختم کرنے اور اس خطے پر اس کے تسلط کے خاتمے کا اعلان کیا، آج نہ صرف خطے کی سلامتی ، بلکہ دنیا کی سلامتی بھی اس عظیم عالمی حکمت عملی یعنی جنرل سلیمانی کی انتھک کوششوں کی مرہون منت ہے۔
انہوں نے جہاں بھی جنگ کی وہاں کے لوگوں کی سلامتی اور امن کے قیام کے لیے کی نیز ان کی موجودہ اور فطری زندگی کو ان تک بحال کرنے کے لئے جنگ کی، اس سلسلے میں اور آئندہ ان کے غیر معمولی اقدامات کے سلسلے میں تحقیق کی جانا چاہئے ، کتابیں لکھی جانی چاہیے اور بین الاقوامی کانفرانسیں منعقد کی جانی چاہیے نیز ان کے سلسلہ میں مختلف علمی، تجزیاتی ، تعلیمی کاموں کے ساتھ ساتھ عمدہ ثقافتی اور فنکارانہ مصنوعات بھی تخلیق کی جانا چاہیے۔
۹۔ ایک ممتازسفارتکار، سردار سلیمانی کا علاقائی اور عالمی اثر و رسوخ نہ صرف ان کی کمانڈنگ طاقت اور فوجی اقدامات کے لحاظ سے تھا بلکہ جہاں بھی ضرورت ہوتی ہے وہ ایک تجربہ کار اور ممتاز سفارتکار کی صورت میں ظاہر ہوتے تھے، ایک طرف ان کی مسحور کن شخصیت اور دوسری طرف سفارت کاری کے میدان میں اس کے آداب و مزاج اور گفت و شنید کی تکنیک پر ان کی مہارت نے انہیں اس میدان میں زبردست اثر و رسوخ عطا کیا تھا، اس خصوصیت نے ان کے فوجی کمانڈ کو چار چاند لگا دیے،وہ ضرورت پڑنے پر سخت طاقت کا استعمال کرتے تھے اور وقت کے تقاضے کے مطابق نرم طاقت سے استفادہ کرتے تھے، اس سلسلے میں بہت سارے نکات ہیں کہ بین الاقوامی تعلقات کے تجزیہ کاروں اور عصری تاریخ دانوں کو ان پرتوجہ دینی چاہئے۔
۱۰۔محنت، وہ ایک نہ تھکنے والے انسان تھے، کسی بھی پریشانی سے خوفزدہ نہیں ہوتے تھے اورنہ کبھی سستی اور جمود کا شکار ہوئے ، وہ انتہائی محنتی تھے اور اپنی راحت کے بارے میں سوچتے بھی نہیں تھے، متعدد کارروائیوں میں زخمی ہونے کے باوجود وہ محاذ پر واپس آنے اور جتنی جلدی ممکن ہو فرنٹ لائن پر واپس آنے پر اصرار کرتےتھے، کسی ایسے شخص کے لئے جس نے اپنی بابرکت زندگی جنگ اور جہاد میں گزاری ہو ، پرسکون زندگی کا جواز بالکل قابل قبول ہوسکتا ہے لیکن ان کی بے چین روح سکون اور آسانی سے بھاگتی تھی اور وہ اپنی زندگی کے اختتام اور آخری سانسوں تک محنت اور جدوجہد کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے تھے۔
۱۱۔ کاموں میں نظم و ضبط اور درستگی،وہ ایک منظم ذہن کے مالک تھے ، نہایت ہی باریک بین اور نظم و ضبط والا تھے، وقت پر میٹنگوں میں شریک ہوتےتھے ، بعض اوقات کسی اہم میٹنگ میں شریک ہونے کے لیے دمشق سے تہران آتے تھے اور اس میں شرکت کے بعد براہ راست ائرپورٹ پر جاتے تھےاور دمشق چلے جاتےتھے، وہ نہایت ہی باریک بین اور ذمہ داری کا احساس کرنے والے تھے۔
۱۲۔کام کو تیز رفتاری سے اور وقت پر انجام دینا، بلاشبہ کسی بھی فوجی کمانڈر کی ضروری خصوصیات میں سے ایک تیزرفتاری ہے لیکن جس مہم میں وہ داخل ہوئے تھے اس کی نوعیت ایسی تھی کہ انھیں غدار دشمن پر بجلی کی طرح گرنا پڑتا تھا۔
ان کے ساتھ علاقائی عہدیداروں کی گفتگو اور داعش کے ان کے قریب پہنچنے کی اطلاع اور ان سے مدد طلب کرنا ، کم سے کم وقت میں بجلی کی طرح میدان کے وسط میں ان کی موجودگی اور اس محاصرے کو توڑنا جس کو داعش لمحہ بہ لمحہ تنگ کر رہی تھی ، علاقائی عہدیداروں کی پائیدار یادوں میں سے ایک ہے جس کو حیرت سے یاد کیا جاتا ہے۔
۱۳۔اثرانداز بیان، نفسیاتی تجزیہ کار اور شخصیت کے ماہرین فن خطابت میں مہارت کو انتہائی بااثر (کرشمائی) شخصیات کی خصوصیات میں سے ایک قرار دیتے ہیں،وہ ایسے تھے کہ جب وہ بولتے تھے تو ان کا بیان اظہار عقلیت اور جذبات کا ایک مرقع ہوتا تھا چونکہ ان کے الفاظ دل سے نکلتے تھے لہذا ان کا انسانی نفوس پر گہرا اثر پڑتا تھا۔
۱۴۔ ثقافت اور فن میں دلچسپی، کتابیں پڑھنا اس کا ایک باقاعدہ معمول تھا، دستاویزی مطالب پڑھنے کے علاوہ وہ ناول اورسبق آموز کہانیاں بھی پڑھتے تھے خاص طور پر حسرت اور جوش وخروش کے ساتھ شہدا کی زندگی سے متعلق کتابوں کو پڑھتے تھے اور جہاں انھیں سرور آتا تھاکتاب پر حاشیہ لکھتے تھے،ان کی پڑھی ہوئی کتابوں پر ان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تقریظیں بھی پڑھنے کے لائق ہیں، وہ شاعری ، ادب اور فن سے دلچسپی رکھتے تھے ، اچھی فلمیں دیکھتے تھے اوران ہدایت کاروں اور فنکاروں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے جو انسانی خصوصیات کو پیش کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
۱۵۔ انقلابی جذبہ،وہ فرزند انقلاب تھے اور اس کی آئیڈیالوجی سے وابستہ اور اس کو عام کرنے کی کوشش کرتے تھے، وہ واضح طور پر دیکھتے تھے کہ انقلاب مستحکم درخت کی طرح مستقل طور پر بڑھ رہا ہے اور اس کے پودے کی نمو اور بڑھتی ہوئی شاخیں دنیا کی انصاف پسند قوموں تک پھیلتی جارہی ہیں۔
۱۶۔ اعتدال پسندی، وہ جگہ حاشیہ میں پڑنے سے گریز کرتے تھے،نہ حد سے زیادہ آگے بڑھ جاتے تھے اور نہ ہی کمی رکھتے تھے،پارٹیوں سے بالاتر تھے، انقلاب کے خیمے کے تحت کام کرنے والے مختلف سیاسی دھاروں کے بارے میں ان کا نظریہ مختلف ذوق و شوق کے حامل ایک خاندان کے افراد کی حیثیت سے تھا، وہ پورے ایرانی معاشرے کو ایک کنبہ سمجھتے تھے،ان کی دید وسیع تھی اور زیادہ سے زیادہ افراد کو ساتھ ملانے کی کوشش کرتے تھے، ان کے لئے ، قومی اتحاد اور یکجہتی انتہائی اہم تھا چونکہ ان کا ایک وسیع اور جامع نقطہ نظر تھا لہذا وہ افراد اور شخصیتوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کے بجائے ان کے کرداروں اور اجتماعی طریقوں کی مشترکات کو نظر میں رکھتے تھےلیکن اسی کے ساتھ انہوں نے ایک انقلابی پالیسی اختیار کی اور اس کے تسلسل کو بالکل ضروری سمجھا ۔
۱۷۔ معاملات میں تدبر اور تدبر، اس کے فیصلے نپے تلے اور حساب کتاب کے مطابق ہوتے تے اور وہ کاموں کو تدبیر کے ساتھ آگے بڑھتاتے تھے،خلاق ذہن کے مالک تھے،اچھی طرح سنتے تھے،اچھی طرح غور کرتے تھے،باریک بینی کے ساتھ صحیح فیصلہ لیتےتھے اور پھر اس پر اچھی طرح عمل کرتے تھے،مختلف امور میں مسائل کو حل کرنے کے طریقۂ کار کو کارآمد ہونے اور اثرانداز ہونے کی دو بنیادوں اپناتے تھے اور دوسروں سے مشورہ بھی کرتے تھے، اجتماعی کام پر یقین رکھتے تھے اور اس کی قدر کرتے تھے،عمل میں یقین پر توجہ دیتے تھے اور ذمہ داری کے ساتھ انجام دینے کا قائل ہونے کے باوجود نتیجہ کو مدنظر رکھتے تھے نیز کام کے مقصد اور نتیجہ کے بارے میں سوچتے تھے۔
۱۸۔ سادگی اور پاکیزگی، معمولی سی سہولیات کے ساتھ ایک عام زندگی گزارتے تھےاگرچہ جائز طریقہ سے اس سے زیادہ رکھ سکتے تھےلیکن نہیں چاہتے تھے، آسائشوں سے دور تھا اور رسومات سے متنفر ، مختلف پرگراموں میں آسانی سے شریک ہوجاتےتھے،عاجزی اور خاکساری ان کا وطیرہ تھا ،ان کے پاکیزہ اور نورانی وجود میں تکبر اور خود غرضی نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔
۱۹۔اپنے آپ کو عام لوگوں کی طرح سمجھتے تھے، وہ اپنے لوگوں سے پیار کرتے تھے اسی لئے لوگ ان سے پیار کرتے تھے، وہ یتیموں کے لیے مہربان باپ اور مسکینوں اور محروموں کی پناہ گاہ تھے، انھیں دل کی گہرائیوں سے یقین تھا کہ لوگوں ہی کے باعث ہمیں نعمتیں ملی ہیں اور یہ انقلاب اور نظام ان کی کوششوں کا نتیجہ ہے اور انہیں کا ہے، انہوں نے مسلسل اس بات پر زور دیا کہ ہم ان پیارے لوگوں کے مقروض ہیں اور ہمیں ان کی خدمت کرنااپنے لیے ایک بہت بڑا اعزاز سمجھنا چاہئے، وہ مختلف واقعات میں لوگوں کے درمیان ہوتے تھے اور ان کی مدد کے لئےدوڑ پڑتے تھے، رواں سال کے شروع میں سیلاب زدگان کے درمیان ان کی موجودگی کی میٹھی یاد کو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا ۔
۲۰۔ نوجوانوں سے رابطہ،اگر چہ وہ درمیانی عمرکے اور بزرگوں سمیت مختلف عمر کے گروہوں کا بہت احترام کرتے تھےلیکن نوجوانوں میں انھیں خصوصی دلچسپی تھی، وہ نوجوانوں کو ملک کا سب سے قیمتی اور عظیم سرمایہ سمجھتے تھے اور ان میں سے بہت ساروں کے ساتھ ان کے گہرے تعلقات بھی تھے، وہ وطن کے پرجوش نوجوانوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے تھے اور ان کی ترقی کے لئے کوئی کسر باقی نہیں چھورتے تھے۔
۲۱۔ پرسکون اور اطمینان بخش،وہ ایک ہی وقت میں سخت بھی اور پرسکون نیز تسلی بخش بھی ہوتے تھے، ان کا دلی سکون اس سے متاثر تھا کہ وہ مستقل طور پر خداوند متعال کی یاد میں رہتے تھے اور ہمیشہ اپنے آپ کو خدا کی بارگاہ میں حاضر سمجھتے تھے، وہ اپنی جگہ فیصلہ کن تھے لیکن کسی سے جھگڑا نہیں کرتے تھے، ان کی شخصیت کی کشش ثقل کا مرکز ان کے اندر تھا باہر نہیں لہذا بیرونی اتار چڑھاو کے ساتھ ان کے اندرکا استحکام نہ بدلتا تھا اور نہ ڈگمگاتا تھا، وہ شائستہ ،با وقار ، پرسکون تھے۔
۲۲۔ہنس مکھ، وہ ایک اچھےاورہنس مکھ انسان کی واضح مثال تھے اور ان کی میٹھی مسکراہٹ نے ان کے چہرے کی کشش دوگنی کردی تھی، اپنے اچھے اخلاق کے مقناطیس سے انہوں نے بے شمار لوگوں کے دلوں کو اپنی طف راغب کرلیا تھا،وہ محبت کرنے کے لائق تھے،جتنے دشمن کے سامنے سخت تھے اور ان کو لرزہ براندام کرتے تھے اتنے ہی عام لوگوں منکسر اور خاکسار تھے،وہ سورۂ فتح آیت ۲۹ کی واضح مثال تھے جس میں ارشاد ہوتا ہے:’’ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ‘‘۔
۲۳۔اپنے کنبہ کے ساتھ گہرا تعلق، وہ اپنے کنبے سے گہری محبت کرتے تھے، والدین کے تئیں ان کی عقیدت اور احترام مشہور تھا اور اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ ان کے جذباتی تعلقات نے ان کے گھرانے کو مضبوط کیا ہوا تھا، کام کی بہت ساری ذمہ داریاں،پریشانیاں اور حساسیتیں کبھی بھی اس بات کا سبب نہیں بنیں کہ وہ اپنے کنبہ کی دیکھ بھال کرنے اور انھیں جتنا وقت دے سکتے ہوں نہ دیا ہو، وہ رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحم کرنےکو کبھی نہیں بھولتے تھے، یہ کہ انسان کے کندھوں پر اتنی بڑی ذمہ داری ہو جوا س کے دماغ اور وقت کو ہمیشہ مشغول رکھے لیکن پھربھی وہ اپنے گھروالوں، رشتہ داروں ، دوستوں اور جاننے والوں کی جذباتی خواہشات کا خیال رکھے ، واقعاً لائق تعریف ہے ۔
۲۴۔ اس دنیا اور آخرت کی حقیقت کی گہری تفہیم، وہ دراصل دنیاوی زندگی کی حقیقت کو دل کی گہرائیوں سے جانتےتھے اوراس کی سطح سے گہرائی تک چلا گیا نیر دنیا کو اس کی ظاہری شکل سے ہٹ کر دیکھتے تھے، وہ اچھی طرح سمجھ گئے تھے کہ دنیا اپنی تمام تر کششوں ، اپنی شان و شوکت ، اپنی تمام خوشیوں اور اپنی ساری اور میٹھاس کے باوجود غیر مستحکم اور عارضی ہے، وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے کہ دنیا گزرجانے والی ہے اور آخرت ہی اصل گھر ہے ، وہ دنیا کو اوپرسے نیچےکی طرف دیکھتے تھے لیکن اس معنی کو سمجھنا باعث نہیں بنا کہ وہ دنیا کو چھوڑ دیں ،تنہائی کا گوشہ اختیار کرلیں اور صرف خانقاہ میں بیٹھ کر عبادت میں مشغول ہوجائیں بلکہ انھوں نے پیغمبر اکرم ﷺ کی اس حدیث شریف کہ:’’ الجهاد رهبانیه الاسلام ‘‘۔ پرمکمل عمل کیا۔
وہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے اس جملہ:’’ حملو ابصارهم علی اسیافهم ‘‘(متقی مجاہدین بصیرت کے ساتھ تلوار چلاتے ہیں)کی واضح مثال تھے، خوفناک اور خطرناک وقتوں میں اور خدا کی خاطر جہاد کی بھاری لڑائیوں میں داخل ہونا ان کے لئے عبادت اور رہبانیت کا ایک اصول تھا (جس رہبانیت کی پیغمبر اکرم ﷺ نے تاکید کی ہے)، دنیا کے بارے میں اور اس کے فانی ہونے کے بارے میں ان کی نگاہ نے ان کے طرز عمل کو یوں شکل دی تھی جیسے وہ دنیا سے ہیں ہی نہیں، انھیں مسلسل محسوس ہوتا تھا کہ وہ اس دنیا میں ایک مسافر ہیں جسے جلد یا دیرسے آخرت کی طرف جانا پڑے گا، وہ دنیا کو ایک غیر مستحکم مجاز اور آخرت کو ایک دائمی حقیقت کے طور پر دیکھتے تھے،انھیں اس آیۂ مبارکہ پر دل کی گہرائیوں سے یقین تھاکہ’’ وللآخره خیرلک من الدنیا ‘‘،ان کا رجحان آخرت کی طرف تھا اسی لیے عبد صالح خدا اور اس کا بابرکت بندہ بن گئے،’’آخرت کو نظر میں رکھنے والا اس کا مبارک بندہ ہوتا ہے‘‘،وہ کائنات کے انتہائی خوبصورت رنگ میں رنگ گئے تھے جو الہی رنگ ہے’’ صِبْغَةَ اللَّهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً ‘‘اور یہ ان کے فلسفۂ تخلیق ، خالق کی عظمت ، دنیا سے دوری اور آخرت کی طرف توجہ دینے کے درست علم کا نتیجہ تھا، انھوں نے اپنی خواہشات کو خدا کی مرضی کی سمت موڑدیا تھا ۔
۲۵۔ کمال پسندی کے اصول پر توجہ، انھوں نے ہمیشہ اپنے الہی عقائد کو گہرا کرنے اور تعمیری طرز عمل کو بلند کرنے کی راہ پر گامزن رہنے کی کوشش کی۔
مستحکم اور بڑھتا ہوا ایمان اور نیک اعمال انجام دینے کی کوشش جس میں دن بہ دن گہرائی اور وسعت ہوتی جارہی ہو ،انسانی شخصیت کو تقویت بخشتا ہے اور اسے کمال کے قریب اور قریب تر لاتا ہے،وہ اس راستے میں نہ ڈگمگائے اور نہ ہی پیچھے ہٹے،وہ وہ سیدھے راستے پر کھڑے رہے اور آہستہ آہستہ کمال کی سیڑھیاں چڑھتےرہے وہ ایک راہی تھے جو ایک کوہ پیما کی طرح چوٹی پر پہنچنے کے لئے اپنے مستحکم قدموں کو گن گن کر رکھ رہے تھے۔
یہ اور بہت سی دوسری خصوصیات اس عظیم شخصیت کے اجزاء کو ظاہر کرتی ہیں،وہ اجزاء جو جب مل جاتے ہیں تو کسی کردار کی جامعیت کو پیش کرتے ہیں اور اسےایک مکتب ، ایک چراغ اور ایک تھاٹ کے طور پر متعارف کرواتے ہیں، ایک ایسا نظام جس میں اس کے سارے اجزاء ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہوں ، ہمیں اس شخصیت کے اس ڈھانچے میں تضاد ، شبہ یا شک وتردید نظر نہیں آتاہے۔
وہ ایک افسانہ ہے لیکن قدیم زمانے کا افسانہ نہیں ، بلکہ ہماری نظروں کے سامنے کا افسانہ ہے جوٹھوس اور ہمارے موجودہ معاشرے سے متعلق ہے ، جو بھی کمال کی راہ پر گامزن ہو چاہتا ہے اس کے لیے نمونہ ٔ عمل ہے۔
ہمارا یہاں مبالغہ آرائی کرنے کا ارادہ نہیں ہے، ہم نے ان کی جوبھی تصویر کشی سبھی چیزیں سچ ہیں۔
اس نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو نکھارنے اور موجودہ دور میں ہمارے معاشرے اور دنیا کو ایک جہت نہیں بلکہ کئی ایک جہت کے حامل انسانی چہرے کی تصویر دکھانے کی کوشش کی ہے، ، انھوں نے ایک بار پھر اپنے آپ کو ان لوگوں کی صف میں شامل کیا ہےجن میں سے ہر ایک نے ایک چراغ جلایا اور انفرادیت کے حصار سے نکل کر معاشرے کی خدمت کی تھی، ایک روشن چراغ جلایا ، اس نے ایک بار پھر عملی طور پر ہمیں دکھایا کہ انسان کے اندر بہت سی صلاحیتیں ہیں جو اگر وہ کوشش کرے توانھیں اچھی طرح سے نکھارسکتا ہے، ان کی شخصیت کے طول و عرض ایسے ہیں کہ وہ کسی بھی حیثیت ،کسی بھی صورتحال میں کسی بھی انسان کے لئے نمونۂ عمل ثابت ہوسکتے ہیں۔
ایک نکتہ جو یہاں ذکر کرنا ضروری ہے کہ در حقیقت اس سردار سرفراز کی شہادت کا اثر ہے، دشمن کا خیال تھا کہ وہ سردار سلیمانی کو شہید کر کے اور اپنے مقاصد کو حاصل کرے گا جبکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ شہید سلیمانی سردار سلیمانی سے زیادہ مؤثر ہیں۔
ان کی بے مثال تشییع جنازہ نے دنیا میں حیرت انگیز لہر پیدا کردی، دشمن شہادت کے راز سے بے خبر ہے، اس کے اجداد نے 51 ھ میں سید الشہداءامام حسین علیہ السلام کو سرزمین کربلا میں شہید کیا،ان کا خیال تھا کہ انہوں نے حسین ؑ کا کام تمام کردیا ہےلیکن انھیں یہ نہیں معلوم تھا کہ خدا کے نور کو بجھایا نہیں جا سکتا، آج اس تاریخ کے قریب 1400 سال بعد بھی کائنات کے گنبد سے حسینؑ کا نام گونجتا ہے اور اربعین مارچ ان کا ایک معجزہ بنا ہوا ہے ، سید الشہداءامام حسینؑ کے پیروکار بھی ایسے ہی ہیں، سردار سلیمانی کی شہادت کے بعد عالمی سطح پر مزاحمت کی لہر اٹھی ہے جو دن بدن بڑھتی جارہی ہے،یہ خدا کا قانون ہے،ارشاد ہوتا ہے:’’ یرِیدُونَ لِیطْفِؤُا نُورَ الله بِأَفْواهِهِمْ وَاللهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ کرِهَ الْکافِرُونَ ‘‘
آخر میں اس نکتہ کی طرف اشارہ کرتے چلیں کہ شہید سلیمانی محض فوجی اور جنگ کے میدان میں ایک نمونۂ عمل نہیں تھےبلکہ وہ ملک کے مختلف حصوں کی انتظامیہ کے تمام کارکنوں اور اہل وطن خصوصا اس سرزمین کے نوجوانوں کے لئے اخلاقی ، فکری ، معرفتی ، روحانی میدان میں جہادی انتظامیہ کا ایک نمایاں نمونہ ٔ عمل ہیں۔
یہاں ہمیں گذشتہ سال عظیم اسلامی انقلاب کی فتح کی 40 ویں سالگرہ کے موقع پررہبر معظم کی جانب سے انقلاب کے دوسرے مرحلے کے اسٹریٹجک بیان کی طرف اشارہ کرناچاہئے اور یہ کہ اس بیان کے اہداف اور نقطہ نظر کو حاصل کرنے کے لیےہمیں شہید سردار سلیمانی کےمکتب کے اجزاء پر توجہ دینا چاہئے اور عملی طور پر ان کی پیروی کرنا چاہئے۔
اس جذبے اور ایسی خصوصیات کے ساتھ اگر ایک روشن اور پرامید مستقبل کی طرف بڑھیں گے توراہ یقینا زیادہ درست اور تیز تر ہوگی۔
ہم جتنا جتنا ان کے قریب اور ان کی روحانی اور فکری زندگی اور اخلاقی خوبیوں جو انقلاب کی روش کے ساتھ ایک جہادی انتظامیہ کی حیثیت سے سے تھیں ان کے قریب تر ہوجاتے ہیں اتنا اتنا انقلاب کے دوسرے مرحلے کے بیانات کے مقاصد کے حصول کے نزدیک ہوتے چلے جائیں گے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی پبلک کلچر کونسل کی سیکرٹریٹ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے 40 ویں کے موقع پر ایک بار پھر اس عظیم شہید کی عظیم روح کو مبارک باد پیش کرتی ہے اورحضرت بقیہ اللہ اروحنا لہ الفداء رہبر معظم مد ظلہ العالی،شہید کے معزز اہلخانہ،شہید کے مجاہد ساتھیوں اور اسلامی ایران کی بہادر قوم کی خدمت میں تعزیت پیش کرتی ہے۔
انشاء اللہ ، اس شہید سرفراز کی شہادت کے 40 ویں روز ، 22 بہمن مارچ میں اپنی پُرجوش اور وسیع تر موجودگی کے ساتھ ہم ایک بار پھر عظیم الشأن امامؒ ،رہبر معظم اور پھولوں کے کفن میں سجے ہوئے شہدا کی بیعت کریں گے نیزایک بار پھر اپنے قومی اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی سرزمین کے قسم کھائے ہوئے دشمن کو شکست دیں گے۔
سَیعلَمُ الّذینَ ظَلَموا أَی مَنقَلَبٍ ینقَلِبونَ
زمین پر انسانی زندگی کی تاریخ کے آغاز اور اس وقت سے جب قابیل کا ہاتھ ہابیل کے خون سے رنگین ہوا، حق اور باطل کی بنیاد پڑ گئی، ایمان ، سچائی اور خلوص کی علامت ہابیل تاریخ کے پہلے شہید ہیں،دوسری طرف کینہ رکھنے والا،لالچی اور حسد اور نفرت سے بھرے ہوئے وجود کا مالک قابیل تھا جس نے اپنے بھائی کے ناحق خون سے اپنے دامن کو داغدار کیا،یہ تاریخ کا پہلا شقی تھا جس کے ہاتھوں تاریخ میں حق اور باطل کے دو محاذوں کا آغاز ہوا۔
وقت کا پیہ گھومتا رہا ، کبھی حق کی روشنی کے دھارے نے معاشروں پر غلبہ پایا اور کبھی جھوٹی تاریکی کے دھارے نے معاشرے کو تباہی، بربادی اور غلاظت کا نشانہ بنا ڈالا،مختلف اوقات میں انبیا کو حق کے چہرہ سے داغ صاف کرنے اور انسانوں کو اپنی الوہی طبیعت کی طرف لوٹنے کی ترغیب دینے کے لئے بھیجا گیا، انسانیت کے کارواں کو آخری الہی مذہب کے ظہور کا ایک مناسب پلیٹ فارم مہیا کرنے کے لئے پوری تاریخ میں منزل بہ منزل سفر طے کرنا تھا یہاں تک کہ اور اس طرح حضرت محمد مصطفی ﷺ کی باری آئی،پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک جامع اور انسانی مکتب کے قیام کے لئے 23 سال تک سخت محنت کی اور ایک بے مثال فکری – عملی نظام، ایک عظیم جامع اور ثقافتی مکتب اور ایک عظیم تہذیب کی بنیاد ڈالی، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسلامی کے اسلام کے حیات بخش مکتب کومضبوط کرنے کے لیے23 سال کی جدوجہد کے بعد اپنے معبود سے جاملےجبکہ آپ ؐ نے انسان کے راستے سے بھٹکنے کو روکنے کے لیے دو گرانقدر چراغ اپنی میراث میں چھوڑے جو تاریخ میں ہمیشہ باقی رہیں گے،جوایک طرف ہستی کے مالک کی طرف سے انسان کے لیے کھلا خط قرآن مجید ہے اور دوسری طرف مجسم قرآن اور ایمان وعمل صالح میں بہترین نمونۂ عمل آپ کے اہلبیت عصمت وطہارت ہیں،اگرچہ وحی کا سلسلہ رک گیا لیکن پیغمبر اکرم ﷺ کی میراث یہ دوچیزیں بشریت کے لیے چراغ راہ بن گئیں تاکہ قیامت تک آنے والا ہر زمانے اور ہر نسل کا انسان ان کے پرچم تلے حق اور باطل کے راستوں کو پہچان سکے،دنیا پرستوں نے شروع سے ہی حق کو دبانے کی کوشش کی اور اس طرح آئمۂ معصومین ؑایک ایک کرکے شہید ہوگئے سوائےالہی ذخیرے حضرت بقیہ اللہ الاعظم(عج) کہ دلکش روحیں جن کے ظہور کے تڑپ رہی ہیں۔
اس دوران سیدالشهداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے جاری اور پاکیزہ خون نے کائنات میں حیرت انگیز لمحات ایجادکیے جو پچھلی 14 صدیوں سے حق اور انصاف کی متلاشی تحریکوں کے قیام کا نقطہ آغاز بنے ہوئے ہیں، وقتافوقتا تحریکیں شروع ہوتی رہیں اور مزاحمت ، جہاد اور شہادت کی سرخ لکیر میں توسیع ہوتی رہی یہاں تک کہ اس شاندار اسلامی انقلاب تک پہنچیں، اس بارحضرت روح اللہ ؒنے فیصلہ کیا کہ شاہی ظالم حکومت کے دوران اندورنی ظلم و استعمار اور غیر ملکی استحصال کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اور ایک زبردست تحریک چلائیں، چنانچہ آزادی ، استقلال اور اسلامی جمہوریہ کے تین ستونوں پر شاندار اسلامی انقلاب تشکیل پایا جس نے دنیا کی تباہ کن لہروں کے درمیان سے اپنا سر اوپر اٹھایا، عظیم اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ساتھ ہی ایک طرف دنیا کے پریشان،مظلوم اور محروم لوگوں کے دلوں میں امید کی کرن چمک اٹھی جبکہ دوسری طرف ظالم وجابر سامراج کے میناروں پر لرزہ طاری ہوگیا،اس طرح کہ انہوں نے خطے اور دنیا میں اپنا تسلط برقرار رکھنے کی کوششیں کرتے ہوئےانقلاب کی کامیابی کے پہلے ہی دن سے اس گھٹنیوں چلتےہوئےاسلامی انقلاب کے گھٹنے ٹکانے اور اسے ناکام بنانے کے لئے بہت ساری سازشیں تیار کیں اور استعمال کیں لیکن اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سےجب ان کی کوئی بھی سازش کارگر اور کامیاب نہیں ہوسکی تو آخر کارانھوں نے ہمارے ملک پر بھاری اور ظالمانہ جنگ مسلط کردی لیکن انھیں یہ خبر نہیں تھی کہ حضرت حق کے لطف وکرم سے اور مرحوم عظیم الشان امام ؒکی قیادت میں ایرانی قوم ممکنہ طریقے سے اپنے جوہر دکھائے گیاور مسلط جنگ کے خطرے کو مقدس دفاع کے مواقع میں بدل دے گی تاکہ غدار دشمنوں کے ابتدائی تاثر کے برخلاف یہ آٹھ سالہ دور ایک باشعور ، وفادار ، بہادر اور انقلابی قوم کی مزاحمت کی ایک شاندار دستاویز کے طور پر دنیا کے سامنے اور تاریخ میں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو کر رہ جائے گی، آٹھ سال کے مقدس دفاع کے دوران ، مزاحمت، جہاد اور شہادت کے جذبے کی گہرائیوں کو ملک کے مرکز سے لے کر انتہائی دور دراز دیہاتوں تک کے معاشرے میں پہنچا دیا۔
اس عرصے کے دوران پورے اسلامی ایران سے بڑی بڑی صلاحیتیں ابھر کر سامنے آئیں اور عظیم افسران ظاہر ہوئے اور مہاکاویاں ایجاد کرتے ہوئے اس سرزمین کے لئے شاندار اور حیرت انگیزاعزاز حاصل کیے،اس دوران ایران کے دلاور مردوں اور خواتین کا ایک سیلاب تھا جنہوں نے محاذ پر شہروں میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے ملک کی علاقائی سالمیت انقلاب اور خالص محمدی اسلام ؐ کے نظام و تقدس کا دفاع کیا، مقدس دفاع کا دور پگھلا دینے والی بھٹی کی طرح تھا جس میں پاکیزہ اور مخلص روحیں اپنے آپ کو صیقل کرتی تھیں۔
اس دوران سپاہ پاسدران ، فوج اور عوامی رضا کار فوج کے کتنے بہادر سپاہیوں نے ترقی کی اور ممتاز کمانڈر بن گئے ، جن میں سے کچھ شہید ہوگئے ،کچھ زخمی اور کچھ برسو ں بعد عراقی جیلوں سے رہا ہو کر آئےلیکن خدا وند عالم کی مرضی یہ تھی کہ ان میں سے کچھ باقی رہ جائیں جوجوانوں وفادار ، انقلابی اور عسکریت پسند قوتوں کی تربیت کریں تاکہ وہ مزاحمت کی راہ اور روایت کو زندہ ، وسیع، اور متحرک رکھا جاسکے۔
مقدس دفاع کے ابتدائی ایام میں ، صحرائی خطے سے تعلق رکھنے والاایک کرمانی نوجوان مجاہدین کے عظیم لشکر سے آملا، یہ مؤمن، بہادر ، ذہین اور ہوشیار نوجوان چالیس سالوں سے اتنا جلوہ گر ہوا ، چمکا اور کمال وسعادت کی راہ میں اتنا آگے پہنچ گیا کہ رہبر معظم جیسے عظیم مفکر کے ہاتھوں اس کے نام سے منسوب مکتب کی بنیادڈالی گئی اس طرح سے آج ہر انصاف پسند او رآگاہ انسان ان الفاظ ’’اسلام او رولایت کا ادنی سا سپاہی‘‘یعنی اسلام کا سرفراز سردار جنرل شہید قاسم سلیمانی، کی گواہی دیتا ہے اور ان پر تصدیق کی مہر لگاتا ہے۔
واقعتا کسی شخص کی زندگی میں کون سا عمل ہوتا ایسا ہوتا ہےجو اسے ایک مکتب کی شکل میں بنا دیتا ہے؟ایسا کیا ہوتا ہے کہ ایک شخص اکیلے ایک مکتب بن جاتا ہے؟ جواب واضح ہےکہ جب انسان اپنی انفرادیت کے دائرے کو چھوڑ دیتا ہے اور اس کے وجود کا دائرہ اس قدر وسیع ہوجاتا ہے کہ انسانی نفوس کے کمال کی راہ پر اس کا نمایاں اثر پڑتا ہے تو وہ در حقیقت ایک مکتب بن جاتاہے، جب وہ کمال تک پہنچی ہوئی شخصیت کے اجزاء کا ایک مربوط اور جامع نظام مختلف جہتوں اور سیاق و سباق میں تشکیل پاتا ہے تو ، ایک مکتب، ایک آئیڈیل اور ایک سبق آموز مکتب کے طور پر ابھرکر سامنے آتاہے، آگاہ اور آزاد قوموں کے دلوں کے سردار قاسم عزیز ایسے ہی تھے، جس طرح ان کے مومن مخلص اور بہادر ساتھی ابو مہدی المہندس(خدا وند عالم کا بے پناہ درو وسلام ہو ان پر) بھی ایسے ہی تھے ۔
اب ہم اس مکتب کے بانی کی کچھ نمایاں خصوصیات کی وضاحت کریں گے ، جو اس مکتب کے عناصر ہیں۔
۱۔ فوجی صلاحیت ، سردار سلیمانی فوجی امور میں ایک خاص فوجی ذہانت کے مالک تھے، وہ مارشل آرٹس میں ماہر تھےکہ عملی طور پر محض نظریاتی انداز میں نہیں اس علم ،عمیق اورحساس مہارت کو حاصل کرنے کے لئے انسان کو میدان جنگ میں مستقل طور پر موجود رہنا پڑتا ہے اور آہستہ آہستہ اس کے مختلف زاویوں اور بہت ساری پیچیدگیوں سے واقف ہونا پڑتا ہے، انھوں نے کم از کم تین بڑے جنگی میدانوں کا تجربہ کیا تھا: مقدس دفاع کا میدان، مسلح شرپسندوں کے خلاف جنگ کا میدان ، اور آخر کار عراق اور شام میں سرحد پار اور انٹر ریجنل جنگ کا میدان جہاں سامراجی طاقتوں اور ان کے خونخوار چیلوں کی طرف سے حاصل کردہ تمام تر حمایت کے ساتھ ابھرنے والی بدنام زمانہ تنظیم داعش کے ساتھ مقابلہ نیز ہر اس جگہ پر جہاں ان کی موجودگی ضروری تھی۔
۲۔عسکریت پسندی اور لڑائی کا جذبہ، وہ کیمپوں میں رہتے ہوئے آپریشن کے مختلف مراحل کی رہنمائی کرنے کے علاوہ بہادری کے ساتھ اور بے خوف ہوکر محاذ کی فرنٹ لائنوں پر موجود ہوتے تھے، وہ میدان جنگ میں دشمن کا مقابلہ کرنے میں کسی بھی قسم کا خوف نہیں کھاتے تھے۔
انہوں نے اپنے تمام وجود کے ساتھ ، امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام کے ان الفاظ پر عمل کیا جن میں آپ نے ارشاد فرمایا ہے کہ: تَزُولُ الْجِبَالُ وَ لَا تَزُلْ عَضَّ عَلَى نَاجِذِكَ أَعِرِ اللَّهَ جُمْجُمَتَكَ تِدْ فِي الْأَرْضِ قَدَمَكَ ارْمِ بِبَصَرِكَ أَقْصَى الْقَوْمِ وَ غُضَّ بَصَرَكَ وَ اعْلَمْ أَنَّ النَّصْرَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ سُبْحَانَهُ
خبردار! پہاڑاپنی جگہ سے ہٹ جائے۔ تم نہ ہٹنا، اپنے دانتوں کو بھینچ لینا۔ اپنا کاسہ سر اللہ کے حوالے کردینا۔زمین میں قدم گاڑ دینا ۔نگاہ آخر قوم پر رکھنا(دشمن کی تعداد اور سازوسامان سے مت ڈرنا)۔آنکھوں کو بند رکھنا اور یہ یاد رکھنا کہ مدد اللہ ہی کی طرف سے آنے والی ہے۔
یقیناً سردار سلیمانی ایسے ہی تھے، وہ میدان جنگ کے وسط میں پہنچ جاتے تھے اور بہادری سے لڑتے تھے، اس طرح کی موجودگی کا بہت موثر نتیجہ نکلتا تھا اور اس کی وجہ سےمجاہدین کا جذبہ ، قوت اور نقل و حرکت دوگنا ہوجاتی تھی،ان کی بے مثال کمانڈ اور بہادری کی وجہ سے وہ کئی فتوحات کے بعد پہلی بار مسلح افواج کے سپریم کمانڈ کے ہاتھوں ملک کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ذوالفقار حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
۳۔ شہادت کا جذبہ، ہمارے پیارے قاسم شہادت کے عاشق تھے، وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ جدائی کی تپش میں جل رہے تھے اور اپنی رات کی اپنی مناجاتوں میں حضرت حق سے شہادت کی دعائیں مانگتے تھے، ان کے جسم کا ذرہ ذرہ شہادت کا طلبگار تھا، وہ شہداء سے باتیں کرتے تھے اور ان سے التجا کرتے تھے کہ وہ انھیں بھی اپنے پاس بلا لیں اور اپنی روحانی بزم میں مدعو کریں، ان کی سب سے بڑی آرزو جس میں کبھی بھی کمزوری اور کمی دیکھنے کو نہیں ملی، شہادت تھی اور آخر کار اس دور کے سب سے شقی انسان کے ہاتھوں شہید ہوکر وہ اپنی اس آرزو تک بھی پہنچ گئے۔
۴۔ خلوص، وہ ریاکاری اور دکھاوے بہت ہی شدت کے ساتھ گریز کرتے تھے،وہ ایسے ہی تھے جیسے دکھائی دیتے تھے، ان کا ظاہر اور باطن ایک جیسا تھا،وہ جیسےاندر سے تھے ویسے ہی دکھائی دیتے تھے، ان کا پاک وپاکیزہ ظاہر ان کے باطن کی پاکیزگی اور طہارت کا پتا دیتا تھا،آیۂ مبارکہ’’ سِیمَاهُمْ فِی وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ‘‘ کے مصداق تھے،خلوص کے راستے میں ثابت قدم تھے، وہ کبھی بھی اپنے آپ کو ظاہر کرنے کے پیچھے نہیں رہتے تھے،وہ باطنی پر کمال کی اس حد تک پہنچ چکے تھے کہ ظاہری جلوے دکھانے سے بے نیاز ہو چکے تھے، وہ پانی کی طرح صاف اور آئینے کی طرح شفاف تھے۔
۵۔ اہل بیت علیہم السلام سے عقیدت اور انھیں سے لو لگانا، وہ دل کی گہرائیوں سے اہل بیت عصمت وطہارت کے عاشق تھے، خاندان رسالت کے ساتھ عقیدت اور محبت ان کے وجود میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی،مسلسل امامت و ولایت کے آسمان پر چمکتے ستاروں کی بارگاہ میں دست بہ دعا رہتے تھے، جب بھی کسی معصوم ؑ کے روضہ مقدس میں شرفیاب ہوتے تھے تو ان کے جوار میں ہونے کا نشہ ان کی آسمانی روح کو مزید جِلا عطا کرتا تھا، وہ پرواز کرنے لگتے تھے اور ان کی عاشق روح پر مکمل سرور اور وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی،مجالس عزا کا اہتمام کرتے تھے اور امام حسین علیہ السلام کی مجلس میں خدمت کر نے کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتے تھے۔
۶۔ولایت کی پیروی،وہ ولایت کے مکمل پیروکار تھے اور اپنے رہبراور مولا کے عاشق تھے، لشکر اسلام کے ایک اعلی آفیسر کی حیثیت سے ولی امرمسلمین اور مسلح افواج کے سپریم کمانڈر کے بارے میں ان کی نظر صرف فوجی درجہ بندی کے لحاظ سے نہیں تھی بلکہ اس سے کہیں زیادہ آگے تھی، اوراس کو عقیدہ کے نقطہ نظر سےدیکھتے تھے ، ان کے الفاظ ، ان کی تحریریں ، ان کے نظریات ، ان کے فیصلے ، ان کی سرگرمیاں اور ان کے اقدامات سبھی ولایت کی پیروی میں تھے، ایسے ہی نہیں ہے کہ انھیں ’’ولایت کے مالک اشتر‘‘ کا لقب دیا گیا ہے۔
۷۔ عبادت اور روحانیت، وہ اپنے واجبات کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ مستحبات پر بھی خصوصی توجہ دیتے تھے، جیسے ہی موقع ملتا تھا قرآن مجید کی تلاوت کرنے اور دعائیں مانگنے میں مشغول ہو جاتے تھے،نمازشب کے پابند تھے، رات کی تاریکی میں ان کا گریہ اور راز ونیازانسان کے ذہن میں ان کی تصویر ایک پہنچے ہوئے عارف کی حیثیت سے نمایاں ہوتی ہے، اگرچہ عرفان اور مہاکاوی دو مختلف طرز عمل ہیں لیکن جب عرفان شریعت کے ذریعہ حق کا حصول ہو اور مہاکاوی خدا کی راہ میں جہاد ہوتو ان کی بنیاد ایک ہوجاتی ہے، آئیے ہم یادکرتے ہیں مقدس دفاع کا دور جب ہمارے پیارے مجاہدین اپنی لڑائی کے جذبے اور دشمنوں سے لڑتے ہوئے عروج پر تھے تو انہوں نے اپنے مورچوں کو نہایت ہی نورانی اور روحانی عبادت گاہوں میں تبدیل کردیا تھا جہاں وہ حضرت حق کے عاشقانہ ذکر ، دعاؤں اور راز میں مشغول رہتے تھے، یہ گویا وہ ایسے عارف تھے جو منزل بہ منزل اپنے روحانی سفر کو طے کر رہے تھے، قاسم بھی انھیں میں سے ایک تھے۔
۸۔سرحدوں سے بڑھ کر ہونا، قدس فورس کو کمانڈ کرنے سے حاج قاسم کو نئے تجربات حاصل کرنے کا موقع ملا، اس عرصے کے دوران ، وہ نہ صرف خطے میں مزاحمتی تحریک کے مختلف زاویوں سے واقف ہوئے بلکہ اپنی ذہانت ، کمانڈ اور انتظامی صلاحیت کے لحاظ سے بھی وہ اس شعبے میں تیزی سے موثر بننے میں کامیاب رہے، لبنان کی 33 روزہ جنگ اور فلسطین کی مزاحمتی تحریک مزاحمت سے واقفیت نے اس کی کمان کا درجہ بلند کیااور پھر جب داعش جیسی غیر انسانی تنظیم جو ریاستہائے متحدہ کے مجرم رہنماؤں کے اعتراف کے مطابق ان کی تخلیق کردہ تھی ، نے عراق اور شام میں اپنا بدصورت چہرہ دکھایا تو اس گندگی اور غلاظت کے ساتھ میدان میں آمنے سامنے تصادم اور آخر کا اس خاتمہ کرنے میں کامیابی نے ہمارے کمانڈر کی رونق کی انتہا تک پہنچا دیا۔
جب ہم ان برسوں کی طرف جاتے ہیں ، جب اس خطے کے بے گناہ لوگ پر گھبراہٹ طاری تھی اور داعش نے سامراجی طاقتوں، ان کے علاقائی اتحادیوں اور صیہونیت کی مالی اور میڈیا اعانت سے کوئی جرم باقی نہیں چھوڑا،داعش سرزمین عراق اور شام کے بے دفاع لوگوں کی جانوں ، اور عزتوں پر بے دردی سے حملہ کرتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی اور ان سرزمینوں میں مستقل آبادکاری اور مستقل تسلط کے بارے میں سوچ رہی تھی، ہم واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ اس وقت تمام دعوے دار میدان چھوڑ گئے تھے اور ایک طویل عرصے تک یہ واحد اسلامی ایران تھا جس نے رہبر معظم کی بصیرت ، تدبیر اور ذہانت سے اپنے عظیم افسران کو خطے کے بے دفاع عوام کے درمیان سلامتی اور امن کی بحالی کے لئے میدان جنگ میں بھیجااس کے بعد مدافعین حرم کے نام سے ایک مبارک تنظیم تشکیل پائی جس کی بنیاد ایران شجاع مجاہدین تھےاور آخر کار ، دنیا کے فوجی اور سیاسی تجزیہ کاروں کے تعجب اور حیرت کے باجودہمارے اس عظیم کمانڈر ، جو داعش کے شر وجود کی غلاظت کے خطے کو پاک کرنے کے لئے پرعزم تھے ، نے داعش کی حکومت کو ختم کرنے اور اس خطے پر اس کے تسلط کے خاتمے کا اعلان کیا، آج نہ صرف خطے کی سلامتی ، بلکہ دنیا کی سلامتی بھی اس عظیم عالمی حکمت عملی یعنی جنرل سلیمانی کی انتھک کوششوں کی مرہون منت ہے۔
انہوں نے جہاں بھی جنگ کی وہاں کے لوگوں کی سلامتی اور امن کے قیام کے لیے کی نیز ان کی موجودہ اور فطری زندگی کو ان تک بحال کرنے کے لئے جنگ کی، اس سلسلے میں اور آئندہ ان کے غیر معمولی اقدامات کے سلسلے میں تحقیق کی جانا چاہئے ، کتابیں لکھی جانی چاہیے اور بین الاقوامی کانفرانسیں منعقد کی جانی چاہیے نیز ان کے سلسلہ میں مختلف علمی، تجزیاتی ، تعلیمی کاموں کے ساتھ ساتھ عمدہ ثقافتی اور فنکارانہ مصنوعات بھی تخلیق کی جانا چاہیے۔
۹۔ ایک ممتازسفارتکار، سردار سلیمانی کا علاقائی اور عالمی اثر و رسوخ نہ صرف ان کی کمانڈنگ طاقت اور فوجی اقدامات کے لحاظ سے تھا بلکہ جہاں بھی ضرورت ہوتی ہے وہ ایک تجربہ کار اور ممتاز سفارتکار کی صورت میں ظاہر ہوتے تھے، ایک طرف ان کی مسحور کن شخصیت اور دوسری طرف سفارت کاری کے میدان میں اس کے آداب و مزاج اور گفت و شنید کی تکنیک پر ان کی مہارت نے انہیں اس میدان میں زبردست اثر و رسوخ عطا کیا تھا، اس خصوصیت نے ان کے فوجی کمانڈ کو چار چاند لگا دیے،وہ ضرورت پڑنے پر سخت طاقت کا استعمال کرتے تھے اور وقت کے تقاضے کے مطابق نرم طاقت سے استفادہ کرتے تھے، اس سلسلے میں بہت سارے نکات ہیں کہ بین الاقوامی تعلقات کے تجزیہ کاروں اور عصری تاریخ دانوں کو ان پرتوجہ دینی چاہئے۔
۱۰۔محنت، وہ ایک نہ تھکنے والے انسان تھے، کسی بھی پریشانی سے خوفزدہ نہیں ہوتے تھے اورنہ کبھی سستی اور جمود کا شکار ہوئے ، وہ انتہائی محنتی تھے اور اپنی راحت کے بارے میں سوچتے بھی نہیں تھے، متعدد کارروائیوں میں زخمی ہونے کے باوجود وہ محاذ پر واپس آنے اور جتنی جلدی ممکن ہو فرنٹ لائن پر واپس آنے پر اصرار کرتےتھے، کسی ایسے شخص کے لئے جس نے اپنی بابرکت زندگی جنگ اور جہاد میں گزاری ہو ، پرسکون زندگی کا جواز بالکل قابل قبول ہوسکتا ہے لیکن ان کی بے چین روح سکون اور آسانی سے بھاگتی تھی اور وہ اپنی زندگی کے اختتام اور آخری سانسوں تک محنت اور جدوجہد کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے تھے۔
۱۱۔ کاموں میں نظم و ضبط اور درستگی،وہ ایک منظم ذہن کے مالک تھے ، نہایت ہی باریک بین اور نظم و ضبط والا تھے، وقت پر میٹنگوں میں شریک ہوتےتھے ، بعض اوقات کسی اہم میٹنگ میں شریک ہونے کے لیے دمشق سے تہران آتے تھے اور اس میں شرکت کے بعد براہ راست ائرپورٹ پر جاتے تھےاور دمشق چلے جاتےتھے، وہ نہایت ہی باریک بین اور ذمہ داری کا احساس کرنے والے تھے۔
۱۲۔کام کو تیز رفتاری سے اور وقت پر انجام دینا، بلاشبہ کسی بھی فوجی کمانڈر کی ضروری خصوصیات میں سے ایک تیزرفتاری ہے لیکن جس مہم میں وہ داخل ہوئے تھے اس کی نوعیت ایسی تھی کہ انھیں غدار دشمن پر بجلی کی طرح گرنا پڑتا تھا۔
ان کے ساتھ علاقائی عہدیداروں کی گفتگو اور داعش کے ان کے قریب پہنچنے کی اطلاع اور ان سے مدد طلب کرنا ، کم سے کم وقت میں بجلی کی طرح میدان کے وسط میں ان کی موجودگی اور اس محاصرے کو توڑنا جس کو داعش لمحہ بہ لمحہ تنگ کر رہی تھی ، علاقائی عہدیداروں کی پائیدار یادوں میں سے ایک ہے جس کو حیرت سے یاد کیا جاتا ہے۔
۱۳۔اثرانداز بیان، نفسیاتی تجزیہ کار اور شخصیت کے ماہرین فن خطابت میں مہارت کو انتہائی بااثر (کرشمائی) شخصیات کی خصوصیات میں سے ایک قرار دیتے ہیں،وہ ایسے تھے کہ جب وہ بولتے تھے تو ان کا بیان اظہار عقلیت اور جذبات کا ایک مرقع ہوتا تھا چونکہ ان کے الفاظ دل سے نکلتے تھے لہذا ان کا انسانی نفوس پر گہرا اثر پڑتا تھا۔
۱۴۔ ثقافت اور فن میں دلچسپی، کتابیں پڑھنا اس کا ایک باقاعدہ معمول تھا، دستاویزی مطالب پڑھنے کے علاوہ وہ ناول اورسبق آموز کہانیاں بھی پڑھتے تھے خاص طور پر حسرت اور جوش وخروش کے ساتھ شہدا کی زندگی سے متعلق کتابوں کو پڑھتے تھے اور جہاں انھیں سرور آتا تھاکتاب پر حاشیہ لکھتے تھے،ان کی پڑھی ہوئی کتابوں پر ان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تقریظیں بھی پڑھنے کے لائق ہیں، وہ شاعری ، ادب اور فن سے دلچسپی رکھتے تھے ، اچھی فلمیں دیکھتے تھے اوران ہدایت کاروں اور فنکاروں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے جو انسانی خصوصیات کو پیش کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
۱۵۔ انقلابی جذبہ،وہ فرزند انقلاب تھے اور اس کی آئیڈیالوجی سے وابستہ اور اس کو عام کرنے کی کوشش کرتے تھے، وہ واضح طور پر دیکھتے تھے کہ انقلاب مستحکم درخت کی طرح مستقل طور پر بڑھ رہا ہے اور اس کے پودے کی نمو اور بڑھتی ہوئی شاخیں دنیا کی انصاف پسند قوموں تک پھیلتی جارہی ہیں۔
۱۶۔ اعتدال پسندی، وہ جگہ حاشیہ میں پڑنے سے گریز کرتے تھے،نہ حد سے زیادہ آگے بڑھ جاتے تھے اور نہ ہی کمی رکھتے تھے،پارٹیوں سے بالاتر تھے، انقلاب کے خیمے کے تحت کام کرنے والے مختلف سیاسی دھاروں کے بارے میں ان کا نظریہ مختلف ذوق و شوق کے حامل ایک خاندان کے افراد کی حیثیت سے تھا، وہ پورے ایرانی معاشرے کو ایک کنبہ سمجھتے تھے،ان کی دید وسیع تھی اور زیادہ سے زیادہ افراد کو ساتھ ملانے کی کوشش کرتے تھے، ان کے لئے ، قومی اتحاد اور یکجہتی انتہائی اہم تھا چونکہ ان کا ایک وسیع اور جامع نقطہ نظر تھا لہذا وہ افراد اور شخصیتوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کے بجائے ان کے کرداروں اور اجتماعی طریقوں کی مشترکات کو نظر میں رکھتے تھےلیکن اسی کے ساتھ انہوں نے ایک انقلابی پالیسی اختیار کی اور اس کے تسلسل کو بالکل ضروری سمجھا ۔
۱۷۔ معاملات میں تدبر اور تدبر، اس کے فیصلے نپے تلے اور حساب کتاب کے مطابق ہوتے تے اور وہ کاموں کو تدبیر کے ساتھ آگے بڑھتاتے تھے،خلاق ذہن کے مالک تھے،اچھی طرح سنتے تھے،اچھی طرح غور کرتے تھے،باریک بینی کے ساتھ صحیح فیصلہ لیتےتھے اور پھر اس پر اچھی طرح عمل کرتے تھے،مختلف امور میں مسائل کو حل کرنے کے طریقۂ کار کو کارآمد ہونے اور اثرانداز ہونے کی دو بنیادوں اپناتے تھے اور دوسروں سے مشورہ بھی کرتے تھے، اجتماعی کام پر یقین رکھتے تھے اور اس کی قدر کرتے تھے،عمل میں یقین پر توجہ دیتے تھے اور ذمہ داری کے ساتھ انجام دینے کا قائل ہونے کے باوجود نتیجہ کو مدنظر رکھتے تھے نیز کام کے مقصد اور نتیجہ کے بارے میں سوچتے تھے۔
۱۸۔ سادگی اور پاکیزگی، معمولی سی سہولیات کے ساتھ ایک عام زندگی گزارتے تھےاگرچہ جائز طریقہ سے اس سے زیادہ رکھ سکتے تھےلیکن نہیں چاہتے تھے، آسائشوں سے دور تھا اور رسومات سے متنفر ، مختلف پرگراموں میں آسانی سے شریک ہوجاتےتھے،عاجزی اور خاکساری ان کا وطیرہ تھا ،ان کے پاکیزہ اور نورانی وجود میں تکبر اور خود غرضی نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔
۱۹۔اپنے آپ کو عام لوگوں کی طرح سمجھتے تھے، وہ اپنے لوگوں سے پیار کرتے تھے اسی لئے لوگ ان سے پیار کرتے تھے، وہ یتیموں کے لیے مہربان باپ اور مسکینوں اور محروموں کی پناہ گاہ تھے، انھیں دل کی گہرائیوں سے یقین تھا کہ لوگوں ہی کے باعث ہمیں نعمتیں ملی ہیں اور یہ انقلاب اور نظام ان کی کوششوں کا نتیجہ ہے اور انہیں کا ہے، انہوں نے مسلسل اس بات پر زور دیا کہ ہم ان پیارے لوگوں کے مقروض ہیں اور ہمیں ان کی خدمت کرنااپنے لیے ایک بہت بڑا اعزاز سمجھنا چاہئے، وہ مختلف واقعات میں لوگوں کے درمیان ہوتے تھے اور ان کی مدد کے لئےدوڑ پڑتے تھے، رواں سال کے شروع میں سیلاب زدگان کے درمیان ان کی موجودگی کی میٹھی یاد کو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا ۔
۲۰۔ نوجوانوں سے رابطہ،اگر چہ وہ درمیانی عمرکے اور بزرگوں سمیت مختلف عمر کے گروہوں کا بہت احترام کرتے تھےلیکن نوجوانوں میں انھیں خصوصی دلچسپی تھی، وہ نوجوانوں کو ملک کا سب سے قیمتی اور عظیم سرمایہ سمجھتے تھے اور ان میں سے بہت ساروں کے ساتھ ان کے گہرے تعلقات بھی تھے، وہ وطن کے پرجوش نوجوانوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے تھے اور ان کی ترقی کے لئے کوئی کسر باقی نہیں چھورتے تھے۔
۲۱۔ پرسکون اور اطمینان بخش،وہ ایک ہی وقت میں سخت بھی اور پرسکون نیز تسلی بخش بھی ہوتے تھے، ان کا دلی سکون اس سے متاثر تھا کہ وہ مستقل طور پر خداوند متعال کی یاد میں رہتے تھے اور ہمیشہ اپنے آپ کو خدا کی بارگاہ میں حاضر سمجھتے تھے، وہ اپنی جگہ فیصلہ کن تھے لیکن کسی سے جھگڑا نہیں کرتے تھے، ان کی شخصیت کی کشش ثقل کا مرکز ان کے اندر تھا باہر نہیں لہذا بیرونی اتار چڑھاو کے ساتھ ان کے اندرکا استحکام نہ بدلتا تھا اور نہ ڈگمگاتا تھا، وہ شائستہ ،با وقار ، پرسکون تھے۔
۲۲۔ہنس مکھ، وہ ایک اچھےاورہنس مکھ انسان کی واضح مثال تھے اور ان کی میٹھی مسکراہٹ نے ان کے چہرے کی کشش دوگنی کردی تھی، اپنے اچھے اخلاق کے مقناطیس سے انہوں نے بے شمار لوگوں کے دلوں کو اپنی طف راغب کرلیا تھا،وہ محبت کرنے کے لائق تھے،جتنے دشمن کے سامنے سخت تھے اور ان کو لرزہ براندام کرتے تھے اتنے ہی عام لوگوں منکسر اور خاکسار تھے،وہ سورۂ فتح آیت ۲۹ کی واضح مثال تھے جس میں ارشاد ہوتا ہے:’’ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ‘‘۔
۲۳۔اپنے کنبہ کے ساتھ گہرا تعلق، وہ اپنے کنبے سے گہری محبت کرتے تھے، والدین کے تئیں ان کی عقیدت اور احترام مشہور تھا اور اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ ان کے جذباتی تعلقات نے ان کے گھرانے کو مضبوط کیا ہوا تھا، کام کی بہت ساری ذمہ داریاں،پریشانیاں اور حساسیتیں کبھی بھی اس بات کا سبب نہیں بنیں کہ وہ اپنے کنبہ کی دیکھ بھال کرنے اور انھیں جتنا وقت دے سکتے ہوں نہ دیا ہو، وہ رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحم کرنےکو کبھی نہیں بھولتے تھے، یہ کہ انسان کے کندھوں پر اتنی بڑی ذمہ داری ہو جوا س کے دماغ اور وقت کو ہمیشہ مشغول رکھے لیکن پھربھی وہ اپنے گھروالوں، رشتہ داروں ، دوستوں اور جاننے والوں کی جذباتی خواہشات کا خیال رکھے ، واقعاً لائق تعریف ہے ۔
۲۴۔ اس دنیا اور آخرت کی حقیقت کی گہری تفہیم، وہ دراصل دنیاوی زندگی کی حقیقت کو دل کی گہرائیوں سے جانتےتھے اوراس کی سطح سے گہرائی تک چلا گیا نیر دنیا کو اس کی ظاہری شکل سے ہٹ کر دیکھتے تھے، وہ اچھی طرح سمجھ گئے تھے کہ دنیا اپنی تمام تر کششوں ، اپنی شان و شوکت ، اپنی تمام خوشیوں اور اپنی ساری اور میٹھاس کے باوجود غیر مستحکم اور عارضی ہے، وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے کہ دنیا گزرجانے والی ہے اور آخرت ہی اصل گھر ہے ، وہ دنیا کو اوپرسے نیچےکی طرف دیکھتے تھے لیکن اس معنی کو سمجھنا باعث نہیں بنا کہ وہ دنیا کو چھوڑ دیں ،تنہائی کا گوشہ اختیار کرلیں اور صرف خانقاہ میں بیٹھ کر عبادت میں مشغول ہوجائیں بلکہ انھوں نے پیغمبر اکرم ﷺ کی اس حدیث شریف کہ:’’ الجهاد رهبانیه الاسلام ‘‘۔ پرمکمل عمل کیا۔
وہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے اس جملہ:’’ حملو ابصارهم علی اسیافهم ‘‘(متقی مجاہدین بصیرت کے ساتھ تلوار چلاتے ہیں)کی واضح مثال تھے، خوفناک اور خطرناک وقتوں میں اور خدا کی خاطر جہاد کی بھاری لڑائیوں میں داخل ہونا ان کے لئے عبادت اور رہبانیت کا ایک اصول تھا (جس رہبانیت کی پیغمبر اکرم ﷺ نے تاکید کی ہے)، دنیا کے بارے میں اور اس کے فانی ہونے کے بارے میں ان کی نگاہ نے ان کے طرز عمل کو یوں شکل دی تھی جیسے وہ دنیا سے ہیں ہی نہیں، انھیں مسلسل محسوس ہوتا تھا کہ وہ اس دنیا میں ایک مسافر ہیں جسے جلد یا دیرسے آخرت کی طرف جانا پڑے گا، وہ دنیا کو ایک غیر مستحکم مجاز اور آخرت کو ایک دائمی حقیقت کے طور پر دیکھتے تھے،انھیں اس آیۂ مبارکہ پر دل کی گہرائیوں سے یقین تھاکہ’’ وللآخره خیرلک من الدنیا ‘‘،ان کا رجحان آخرت کی طرف تھا اسی لیے عبد صالح خدا اور اس کا بابرکت بندہ بن گئے،’’آخرت کو نظر میں رکھنے والا اس کا مبارک بندہ ہوتا ہے‘‘،وہ کائنات کے انتہائی خوبصورت رنگ میں رنگ گئے تھے جو الہی رنگ ہے’’ صِبْغَةَ اللَّهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً ‘‘اور یہ ان کے فلسفۂ تخلیق ، خالق کی عظمت ، دنیا سے دوری اور آخرت کی طرف توجہ دینے کے درست علم کا نتیجہ تھا، انھوں نے اپنی خواہشات کو خدا کی مرضی کی سمت موڑدیا تھا ۔
۲۵۔ کمال پسندی کے اصول پر توجہ، انھوں نے ہمیشہ اپنے الہی عقائد کو گہرا کرنے اور تعمیری طرز عمل کو بلند کرنے کی راہ پر گامزن رہنے کی کوشش کی۔
مستحکم اور بڑھتا ہوا ایمان اور نیک اعمال انجام دینے کی کوشش جس میں دن بہ دن گہرائی اور وسعت ہوتی جارہی ہو ،انسانی شخصیت کو تقویت بخشتا ہے اور اسے کمال کے قریب اور قریب تر لاتا ہے،وہ اس راستے میں نہ ڈگمگائے اور نہ ہی پیچھے ہٹے،وہ وہ سیدھے راستے پر کھڑے رہے اور آہستہ آہستہ کمال کی سیڑھیاں چڑھتےرہے وہ ایک راہی تھے جو ایک کوہ پیما کی طرح چوٹی پر پہنچنے کے لئے اپنے مستحکم قدموں کو گن گن کر رکھ رہے تھے۔
یہ اور بہت سی دوسری خصوصیات اس عظیم شخصیت کے اجزاء کو ظاہر کرتی ہیں،وہ اجزاء جو جب مل جاتے ہیں تو کسی کردار کی جامعیت کو پیش کرتے ہیں اور اسےایک مکتب ، ایک چراغ اور ایک تھاٹ کے طور پر متعارف کرواتے ہیں، ایک ایسا نظام جس میں اس کے سارے اجزاء ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہوں ، ہمیں اس شخصیت کے اس ڈھانچے میں تضاد ، شبہ یا شک وتردید نظر نہیں آتاہے۔
وہ ایک افسانہ ہے لیکن قدیم زمانے کا افسانہ نہیں ، بلکہ ہماری نظروں کے سامنے کا افسانہ ہے جوٹھوس اور ہمارے موجودہ معاشرے سے متعلق ہے ، جو بھی کمال کی راہ پر گامزن ہو چاہتا ہے اس کے لیے نمونہ ٔ عمل ہے۔
ہمارا یہاں مبالغہ آرائی کرنے کا ارادہ نہیں ہے، ہم نے ان کی جوبھی تصویر کشی سبھی چیزیں سچ ہیں۔
اس نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو نکھارنے اور موجودہ دور میں ہمارے معاشرے اور دنیا کو ایک جہت نہیں بلکہ کئی ایک جہت کے حامل انسانی چہرے کی تصویر دکھانے کی کوشش کی ہے، ، انھوں نے ایک بار پھر اپنے آپ کو ان لوگوں کی صف میں شامل کیا ہےجن میں سے ہر ایک نے ایک چراغ جلایا اور انفرادیت کے حصار سے نکل کر معاشرے کی خدمت کی تھی، ایک روشن چراغ جلایا ، اس نے ایک بار پھر عملی طور پر ہمیں دکھایا کہ انسان کے اندر بہت سی صلاحیتیں ہیں جو اگر وہ کوشش کرے توانھیں اچھی طرح سے نکھارسکتا ہے، ان کی شخصیت کے طول و عرض ایسے ہیں کہ وہ کسی بھی حیثیت ،کسی بھی صورتحال میں کسی بھی انسان کے لئے نمونۂ عمل ثابت ہوسکتے ہیں۔
ایک نکتہ جو یہاں ذکر کرنا ضروری ہے کہ در حقیقت اس سردار سرفراز کی شہادت کا اثر ہے، دشمن کا خیال تھا کہ وہ سردار سلیمانی کو شہید کر کے اور اپنے مقاصد کو حاصل کرے گا جبکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ شہید سلیمانی سردار سلیمانی سے زیادہ مؤثر ہیں۔
ان کی بے مثال تشییع جنازہ نے دنیا میں حیرت انگیز لہر پیدا کردی، دشمن شہادت کے راز سے بے خبر ہے، اس کے اجداد نے 51 ھ میں سید الشہداءامام حسین علیہ السلام کو سرزمین کربلا میں شہید کیا،ان کا خیال تھا کہ انہوں نے حسین ؑ کا کام تمام کردیا ہےلیکن انھیں یہ نہیں معلوم تھا کہ خدا کے نور کو بجھایا نہیں جا سکتا، آج اس تاریخ کے قریب 1400 سال بعد بھی کائنات کے گنبد سے حسینؑ کا نام گونجتا ہے اور اربعین مارچ ان کا ایک معجزہ بنا ہوا ہے ، سید الشہداءامام حسینؑ کے پیروکار بھی ایسے ہی ہیں، سردار سلیمانی کی شہادت کے بعد عالمی سطح پر مزاحمت کی لہر اٹھی ہے جو دن بدن بڑھتی جارہی ہے،یہ خدا کا قانون ہے،ارشاد ہوتا ہے:’’ یرِیدُونَ لِیطْفِؤُا نُورَ الله بِأَفْواهِهِمْ وَاللهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ کرِهَ الْکافِرُونَ ‘‘
آخر میں اس نکتہ کی طرف اشارہ کرتے چلیں کہ شہید سلیمانی محض فوجی اور جنگ کے میدان میں ایک نمونۂ عمل نہیں تھےبلکہ وہ ملک کے مختلف حصوں کی انتظامیہ کے تمام کارکنوں اور اہل وطن خصوصا اس سرزمین کے نوجوانوں کے لئے اخلاقی ، فکری ، معرفتی ، روحانی میدان میں جہادی انتظامیہ کا ایک نمایاں نمونہ ٔ عمل ہیں۔
یہاں ہمیں گذشتہ سال عظیم اسلامی انقلاب کی فتح کی 40 ویں سالگرہ کے موقع پررہبر معظم کی جانب سے انقلاب کے دوسرے مرحلے کے اسٹریٹجک بیان کی طرف اشارہ کرناچاہئے اور یہ کہ اس بیان کے اہداف اور نقطہ نظر کو حاصل کرنے کے لیےہمیں شہید سردار سلیمانی کےمکتب کے اجزاء پر توجہ دینا چاہئے اور عملی طور پر ان کی پیروی کرنا چاہئے۔
اس جذبے اور ایسی خصوصیات کے ساتھ اگر ایک روشن اور پرامید مستقبل کی طرف بڑھیں گے توراہ یقینا زیادہ درست اور تیز تر ہوگی۔
ہم جتنا جتنا ان کے قریب اور ان کی روحانی اور فکری زندگی اور اخلاقی خوبیوں جو انقلاب کی روش کے ساتھ ایک جہادی انتظامیہ کی حیثیت سے سے تھیں ان کے قریب تر ہوجاتے ہیں اتنا اتنا انقلاب کے دوسرے مرحلے کے بیانات کے مقاصد کے حصول کے نزدیک ہوتے چلے جائیں گے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی پبلک کلچر کونسل کی سیکرٹریٹ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے 40 ویں کے موقع پر ایک بار پھر اس عظیم شہید کی عظیم روح کو مبارک باد پیش کرتی ہے اورحضرت بقیہ اللہ اروحنا لہ الفداء رہبر معظم مد ظلہ العالی،شہید کے معزز اہلخانہ،شہید کے مجاہد ساتھیوں اور اسلامی ایران کی بہادر قوم کی خدمت میں تعزیت پیش کرتی ہے۔
انشاء اللہ ، اس شہید سرفراز کی شہادت کے 40 ویں روز ، 22 بہمن مارچ میں اپنی پُرجوش اور وسیع تر موجودگی کے ساتھ ہم ایک بار پھر عظیم الشأن امامؒ ،رہبر معظم اور پھولوں کے کفن میں سجے ہوئے شہدا کی بیعت کریں گے نیزایک بار پھر اپنے قومی اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی سرزمین کے قسم کھائے ہوئے دشمن کو شکست دیں گے۔
سَیعلَمُ الّذینَ ظَلَموا أَی مَنقَلَبٍ ینقَلِبونَ
رائے
ارسال نظر برای این مطلب