۔شہید قاسم سلیمانی ایران کے جنوب مشرق میں واقع کرمان سے 180 کلومیٹر دورایک گاؤں میں 1957ء میں پیدا ہوئے۔میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنے مزدور والد کا ہاتھ بٹانے کے لیے انہوں نے بھی مزدوری شروع کردی۔پھر وہ واٹر بورڈ میں معمولی ملازمت ملنے کی وجہ سے کرمان شہر منتقل ہوگئے۔1980ء میں جب عراقی صدر صدام حسین نے امریکہ کے ایما پر ایران کے خلاف جنگ شروع کی تو چھ ہفتے کی فوجی ٹریننگ کے بعد تین سو جوانوں کے کمانڈر کی حیثیت سے وہ ایران کی جنوبی سرحد پر تعینات ہوگئے۔اس دوران قاسم سلیمانی زخمی بھی ہوئے۔ بعد ازاں آپ کو ایران کی مشرقی سرحدوں کے دفاع کی ذمہ داری سونپی گئی۔1998ء میں سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے 41سالہ قاسم سلیمانی کو سپاہ قدس کا سربراہ بناکر جنوبی لبنان میں غاصب صہیونی فوج کے خلاف مزاحمت قدس فورس کی ذمہ داری سونپی۔حزب اللہ مجاہدین سے مل کر اسرائیلی فوج کے خلاف حملوں کا سلسلہ ایسا شروع کیا جو صہیونی فوج کے انخلا پر ختم ہوا۔پھر عراق پر امریکی حملو ں کے بعد مقامی مزاحمتی تنظیوں کے ساتھ مل کر امریکی فوجیوں کے خلاف پے درپے کاروائیاں شروع کیں۔2006ء میں اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین 33 روزہ جنگ کے دوران قاسم سلیمانی ایک بار پھر صہیونی افواج سے نبرد آزما ہوئے۔حسن نصر اللہ کے ساتھ راتوں کو جاگ جاگ کر اسرائیل کے خلاف جنگ کی کامیاب حکمت عملی تیا ر کی۔اس طرح اسرائیلی فوج کی ہزیمت میں جنرل سلیمانی کا کردار اسرائیل میں زبان زد عام تھا۔پھر آپ نے عراق میں موجود امریکی فوجیوں کے خلاف کئی کامیاب کاروائیاں کیں۔
2011ء میں قاسم سلیمانی کو میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔دوسری جانب شامی صدر بشارالاسد کی حکومت کے خلاف شورش کے بعد 2013ء میں دہشت گرد تنظیم نے شام اور عراق میں سر اٹھانا شروع کردیا۔جنرل سلیمانی دہشت گردی اور تکفیری طاقتوں کے خلاف جنگ میں کود پڑے۔دونوں ملکوں میں اگلے محاذ پر پہنچ کر باقاعدہ جنگ میں حصہ لیا۔ایک مرتبہ راستہ بھٹکنے کی وجہ سے آپ داعش کے نرغے میں آگئے لیکن وہاں سے بھی آپ بچ نکلے۔2017ء میں عراقی سرحد کے نزدیک واقع شام کے شہر البوکمال میں دہشت گردوں کے خلاف آخری معرکہ سر کرنے کے بعدسپریم لیڈر کو ایک خط کے ذریعے آگاہ کیا کہ داعش کے ناپاک درختوں کی جڑیں کاٹ دی گئی ہیں۔چنانچہ دہشت گردوں کے خلاف اعلی خدمات پر 2019ء میں آیت اللہ خامنہ ای نے آپ کو زندہ شہید کا خطاب دے کر ملک کا سب سے بڑا فوجی اعزاز" تمغہ ذوالفقار"عطا کیا۔اس کے ساتھ ہی ٹائم میگزین نے انہیں دنیا کے بااثر ترین افراد میں شامل کرلیا۔درحقیقت امریکی قاسم سلیمانی سے بہت تنگ تھے،انہوں نے اس ایرانی جنرل کو شہید کرنے کی جتنی بھی کوشش کی،وہ ناکام رہیں۔پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے سربراہ کی حیثیت سے آپ اکثر ایران کے آس پاس ملکوں میں سفرکیا کرتے تھے۔جنرل قاسم سلیمانی قدامت پسند حلقوں میں بہت مقبول تھے،کچھ عرصہ وہ دوستوں سے یوں مخاطب ہوئے کہ میں بھی فرزندکربلا ہوں، شہادت میری آرزو ہے۔ شہادت کی آرزو کرنے والے جنرل قاسم سلیمانی کو بروز جمعہ تین جنوری 2020ء کی صبح شہادت کا عظیم مرتبہ حاصل ہوگیا۔ وہ بیروت میں حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ سے ملاقات کرکے سڑک کے ذریعے دمشق پہنچے تھے،دمشق سے عام پرواز پر سفر کرکے بغداد پہنچے۔پھر بغداد شہر ہی ان کے لیے مقتل گاہ ثابت ہوا۔قطر کے العدید ایئربیس سے اڑایا گیا میزائل ڈرون کی صورت میں ان کی گاڑی کو اس وقت لگا جب وہ بغداد ایئر پورٹ سے اپنی گاڑی پر سوار ہو کر عراقی وزیراعظم سے ملاقات کے لیے جارہے تھے۔اس منصوبے کی نگرانی امریکی ریاست نیواڈاکے ایئربیس سے کی گئی۔امریکیوں اور اسرائیلیوں کی کافی عرصے سے یہ خواہش تھی کہ وہ جنرل سلیمانی کو راستے سے ہٹا دیں کیونکہ جنرل قاسم سلیمانی گریٹر اسرائیل کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔طلسماتی شخصیت نے شیعہ سنی کے جھگڑے میں پڑے بغیر عراق،شام اور فلسطین جیسی غیر شیعہ ریاستوں کا بھی دفاع کیا۔عراق،لبنان،شام،فلسطین اور یمن میں ملیشیاؤں کو طاقتور بنایا اور انہیں حکمت عملی سکھائیں۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب یہ بات عالمی سطح پر بہت شدت سے سنی گئی کہ اگر امریکہ،ایران پر حملہ کرتا ہے تو پاکستان غیر جانبدار رہے گا۔ اس پر جنرل قاسم سلیمانی نے کہا خدانخواستہ اگر پاکستان پر حملہ ہوتا ہے توہم پاکستان کے دفاع کے لیے اپنا خون دینگے۔پاکستان کے دفاع کے لیے شہید ہونا ہمارے لیے باعث افتخار ہوگا۔
اسلم لودهی
2011ء میں قاسم سلیمانی کو میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔دوسری جانب شامی صدر بشارالاسد کی حکومت کے خلاف شورش کے بعد 2013ء میں دہشت گرد تنظیم نے شام اور عراق میں سر اٹھانا شروع کردیا۔جنرل سلیمانی دہشت گردی اور تکفیری طاقتوں کے خلاف جنگ میں کود پڑے۔دونوں ملکوں میں اگلے محاذ پر پہنچ کر باقاعدہ جنگ میں حصہ لیا۔ایک مرتبہ راستہ بھٹکنے کی وجہ سے آپ داعش کے نرغے میں آگئے لیکن وہاں سے بھی آپ بچ نکلے۔2017ء میں عراقی سرحد کے نزدیک واقع شام کے شہر البوکمال میں دہشت گردوں کے خلاف آخری معرکہ سر کرنے کے بعدسپریم لیڈر کو ایک خط کے ذریعے آگاہ کیا کہ داعش کے ناپاک درختوں کی جڑیں کاٹ دی گئی ہیں۔چنانچہ دہشت گردوں کے خلاف اعلی خدمات پر 2019ء میں آیت اللہ خامنہ ای نے آپ کو زندہ شہید کا خطاب دے کر ملک کا سب سے بڑا فوجی اعزاز" تمغہ ذوالفقار"عطا کیا۔اس کے ساتھ ہی ٹائم میگزین نے انہیں دنیا کے بااثر ترین افراد میں شامل کرلیا۔درحقیقت امریکی قاسم سلیمانی سے بہت تنگ تھے،انہوں نے اس ایرانی جنرل کو شہید کرنے کی جتنی بھی کوشش کی،وہ ناکام رہیں۔پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے سربراہ کی حیثیت سے آپ اکثر ایران کے آس پاس ملکوں میں سفرکیا کرتے تھے۔جنرل قاسم سلیمانی قدامت پسند حلقوں میں بہت مقبول تھے،کچھ عرصہ وہ دوستوں سے یوں مخاطب ہوئے کہ میں بھی فرزندکربلا ہوں، شہادت میری آرزو ہے۔ شہادت کی آرزو کرنے والے جنرل قاسم سلیمانی کو بروز جمعہ تین جنوری 2020ء کی صبح شہادت کا عظیم مرتبہ حاصل ہوگیا۔ وہ بیروت میں حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ سے ملاقات کرکے سڑک کے ذریعے دمشق پہنچے تھے،دمشق سے عام پرواز پر سفر کرکے بغداد پہنچے۔پھر بغداد شہر ہی ان کے لیے مقتل گاہ ثابت ہوا۔قطر کے العدید ایئربیس سے اڑایا گیا میزائل ڈرون کی صورت میں ان کی گاڑی کو اس وقت لگا جب وہ بغداد ایئر پورٹ سے اپنی گاڑی پر سوار ہو کر عراقی وزیراعظم سے ملاقات کے لیے جارہے تھے۔اس منصوبے کی نگرانی امریکی ریاست نیواڈاکے ایئربیس سے کی گئی۔امریکیوں اور اسرائیلیوں کی کافی عرصے سے یہ خواہش تھی کہ وہ جنرل سلیمانی کو راستے سے ہٹا دیں کیونکہ جنرل قاسم سلیمانی گریٹر اسرائیل کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔طلسماتی شخصیت نے شیعہ سنی کے جھگڑے میں پڑے بغیر عراق،شام اور فلسطین جیسی غیر شیعہ ریاستوں کا بھی دفاع کیا۔عراق،لبنان،شام،فلسطین اور یمن میں ملیشیاؤں کو طاقتور بنایا اور انہیں حکمت عملی سکھائیں۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب یہ بات عالمی سطح پر بہت شدت سے سنی گئی کہ اگر امریکہ،ایران پر حملہ کرتا ہے تو پاکستان غیر جانبدار رہے گا۔ اس پر جنرل قاسم سلیمانی نے کہا خدانخواستہ اگر پاکستان پر حملہ ہوتا ہے توہم پاکستان کے دفاع کے لیے اپنا خون دینگے۔پاکستان کے دفاع کے لیے شہید ہونا ہمارے لیے باعث افتخار ہوگا۔
اسلم لودهی
رائے
ارسال نظر برای این مطلب