قرآنی سرگرمیوں کا گروپ۔ ملک کے قرآنی ماہر نے “افق ریڈیو قرآن” نامی پروگرام میں سپاہ پاسدارانِ انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر شہید جنرل قاسم سلیمانی کی شخصیت کی قرآنی خصوصیات کی وضاحت کی۔
“ایکنا” رپورٹ کے مطابق، آج ماہ دی کی ۲۱ویں تاریخ کو افق پروگرام ملک کے قرآنی ماہر، خادم قرٓآن عباس سلیمی کی موجودگی میں جنرل شہید قاسم سلیمانی کی شخصیت اور قرآنی خصوصیات کے عنوا ن سے قرآن ریڈیو پر نشر ہوا۔ اس پروگرام میں ملک کے قرآنی ماہر، خادم قرآن عباس سلیمی نے حضرت صدیقہ کبریٰ، فاطمہ زہرا (س) کی شہادت کے موقع پر تسلیت عرض کرتے ہوئےاس ملک کے علمبردارجنرل شہید قاسم سلیمانی اور اس گرانقدر بہادر کے جانثار ساتھیوں کی یادوں کو تازہ کرنے کے موقع ، نیز حالیہ واقعات خاص طور پر ہوائی حادثہ میں کچھ ہم وطنوں کی حادثاتی موت کے موقع پر اظہار تعزیت کرتے ہوئے بیان کیا کہ ممکن ہے کچھ لوگ یہ تصور کریں کہ صرف قرآن کا قاری، حافظ اور استاد ہونا اور اس میدان میں دوسرے شعبوں میں کام کرنا، انسان کے قرآنی ہونے کی علامت ہے جبکہ کریم اہل بیتؑ حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی نگاہ میں ہرگز ایسا نہیں ہے۔
انہوں نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہا: امام حسن علیہ السلام نے اپنے ایک نورانی بیان میں قرآنی ہونے کا معیار معین فرمایا ہے کہ ” قرآن کا سب سے زیادہ مستحق وہ ہے جو قرآن پر عمل کرتا ہے حتی اگر حافظ قرآن نہ بھی ہو” اس کے بعد امام علیہ السلام فرماتے ہیں: قرآن سے سب سے زیادہ دور وہ لوگ ہیں جو قرآن پر عمل پیرا نہیں ہوتے اگرچہ وہ اس کی تلاوت کرتے ہوں” اس معیار کے مطابق، معلوم ہو جاتا ہے کہ صرف قرآن پڑھنے اور اس کا حافظ بننے کا مطلب قرآنی ہونا یعنی قرآن پر عمل پیرا ہونا نہیں ہے۔
جناب سلیمی نے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے اس بیان کا حوالہ دیا جس میں آپؑ نے فرمایا: اگر کوئی قرآن کی تلاوت کرتا ہے اور اس پر عمل نہیں کرتا تو خداوندمتعال میدان محشر میں اسے اندھا محشور کرے گا” سلیمی نے کہا: قرآنی ہونے کا معیار ، قرآنی یقین ، قرآنی عقیدہ اور قرٓان کریم کی آیتوں پر عمل پیرا ہونا ہے، ملک کے قرآنی ماہر نے بیان کیا: ہمارے پیارے اور خدائی کمانڈر ، حاج قاسم سلیمانی کے قیمتی وجود میں قرآنی خصوصیات کی بہت سی خصوصیات واضح تھیں۔ کیونکہ وہ مکتب قرآن اور ولایت کے شاگرد تھے اور ہم اور ہماری افواج، سلیمانی، باقری، ہمت، کاظمی وغیرہ وغیرہ جیسے نامور کمانڈروں کو غیر تنظیمی کمانڈروں کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ یعنی ان عزیزوں کی کمانڈ کا میدان متعلقہ تنظیم سے مربوط نہیں ہےلہذا فوج، بسیج، وزارت دفاع وغیرہ سبھی انہیں ایک رول ماڈل اور نمونہ عمل اور کمانڈرز سمجھتے ہیں۔
جناب سلیمی نے کہا کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ جنرل قاسم سلیمانی قرآنی اوامر و نواہی پر عمل پیرا تھے۔ حاج قاسم کی ایک سب سے نمایاں خصوصیت جہاد کا جذبہ تھا، یعنی حقیقت میں قرآنی آیات ان کی روح اورقلب پر اتری ہوئی تھیں ” جَاھدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ” وہ چالیس سال اس جذبہ سے سرشار رہے اور ان کی شہادت بھی ایسے موقع پر واقع ہوئی جب لوگ فطری طور پر سو رہے تھے لیکن وہ جہاد کر رہے تھے۔
انہوں نے بیان کیا: جنرل قاسم سلیمانی کی ایک اور خصوصیت ان کی شجاعت تھی کہ ان کے دل میں دشمنوں کا خوف بالکل نہیں تھا۔ حاج قاسم کا وجودبالکل اس آیۂ شریفہ” وَيَخْشَوْنَهُ وَلَا يَخْشَوْنَ أحَدًا إِلَّا اللَّهَ” کا مصداق تھا۔ وہ لوگوں کے ساتھ نہایت تواضع و انکساری کے ساتھ پیش آتے تھے لیکن استکبار کے سامنے انہیں کوئی خوف نہیں تھا۔
ملک کے قرآنی ماہر نے مزید بیان کیا: دشمن شناسی اور دشمن کے خلاف جنگ، جنرل شہید سلیمانی کی ایک اور خصوصیت تھی۔ کچھ لوگ دشمن کو پہچاننے میں کامیاب نہیں ہوتے ہیں اور بعض اوقات جب وہ دشمن کو پہچان لیتے ہیں تو بھی اس کا مقابلہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔ہمارے عظیم حاج قاسم میں یہ دونوں خصوصیات پائی جاتی تھیں۔ کیونکہ قرآن سے محبت ان کے وجود کی گہرائیوں میں اتری ہوئی تھی اور دشمنوں کے ساتھ رابطہ کے بارے میں ان کا عقیدہ یہ تھا کہ ان کے خلاف مضبوطی سے ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے۔
انہوں نے قرآن کریم کی آیات سے ماخوذ،حاج قاسم سلیمانی کے تواضع اور انکساری کی خصوصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا کہ اس عظیم شہید کی خصوصیات میں سے ایک اور خصوصیت دینی دشمنوں کے ساتھ کسی طرح کی سازش کو قبول نہ کرنے اور ان سے خوفز دہ نہ ہونے میں پوشیدہ ہے۔جنرل قاسم سلیمانی ہمیشہ خدا کی خوشنودی کی تلاش میں رہتے تھے اور دشمنوں کی طرف سے دھمکیوں پر بالکل توجہ نہیں دیتے تھے۔ یہ خصوصیت بھی کلام اللہ یعنی قرآن مجید سے لی گئی تھی۔
جناب سلیمی نے بیان کیا: حاج قاسم کی چھٹی خصوصیت خدا پر بھروسہ تھی، انہوں نے خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے دشمنوں کو نظر انداز کرکے اپنے مشن کو بخوبی انجام دیا۔ جنرل شہید قاسم سلیمانی کی یہ خصوصیت اس آیۂ کریمہ” وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ” سے لی گئی تھی۔وہ خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے تمام میدانوں میں فاتح اور سرافراز تھے۔
انہوں نے شہید سلیمانی کی ساتویں خصوصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا: یہ ساری کامیابیاں جو حاج قاسم سلیمانی کو ملیں وہ ان کے خلوص کی وجہ سے تھیں۔وہ ایک موحّد ، مخلص اور ایسے مؤمن تھے جنہیں کسی سے کوئی توقع نہیں تھی۔قرآن کریم کا یہ جملہ جس میں ارشاد ہوتا ہے” وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ” منجملہ ایسے جملوں میں سے ہے کہ جسے حاج قاسم بیان کرنے کی جرأت کیا کرتے تھے کیونکہ وہ صرف خدا کے لئے کام کرتے تھے۔
ملک کے قرآنی ماہر نے بیان کیا کہ امریکیوں نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ شہید قاسم سلیمانی، جنرل قاسم سلیمانی سے زیادہ خطرناک ہیں یعنی وہ شہید ہونے کے بعد زیادہ خطرناک ثابت ہوئے ہیں۔امریکی ہرگز یہ نہیں سمجھ پائیں گے کہ انہوں نے ایسے وقت میں ان کے قتل کا حکم دیا کہ اس عظیم شہید کا چالیسواں ٹھیک ۲۲ بہمن کو آ رہا ہے۔ اس عظیم شہید کے خون کے اثرات کی وجہ یہ ہے کہ شہید کا خون جاری و ساری ہے۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ خود خداوندمتعال شہیدوں کی قیمت اور ان کے خون کا انتقام لینے والا ہے ، اس عظیم شہید کے خون کی بعض برکتوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا: امریکی حکومت کے چہرہ کی بے نقابی، پوری قوم کے درمیان اتحاد و ہم آ ہنگی، عراق میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سازشوں کو ناکارہ بنانا، خطے میں مزاحمت کے پودے کی آبیاری اور خطے کے لوگوں کے ارادوں کو مضبوط کرنا، پورے خطے سے امریکی کرایہ داروں کو نکالنے کے لئے شرائط فراہم کرنا، استکبار کے چہرہ پرانتقامی تھپڑ جو سخت انتقام کے عنوان سے پہلا قدم ہے جس نے امریکی غرور کو توڑ دیا وغیرہ وغیرہ یہ سب عزیز حاج قاسم سلیمانی کے خون کی برکتیں ہیں جو جاری رہے گا اور ہم امید کرتے ہیں کہ ایک دن ہم اس کے خون کی بدولت دنیا میں امریکی تسلط کے خاتمے کا جشن منائیں گے۔
انہوں نے مختلف ملکی اور غیر ملکی گروہوں اور افرادکو حاج قاسم کے خون کے پیغام کے بارے میں حقیقی اور قانونی دونوں طرح سے واضح کیا : حاج قاسم کے خون کا سب سے اہم پیغام اس ملک کی مسلح افواج کے نام یہ قرآنی پیغام ” وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ “ہے یعنی جنگی قابلیت ، ہتھیاروں اور جنگی تیاری کا ارتقاء تاکہ دشمن کا مقابلہ کریں اور دفاعی صلاحیت کو مضبوط کریں۔ حکومت کے نام بھی حاج قاسم کے خون کا پیغام یہ ہے کہ اس بزرگ اور عظیم قوم کی ایماندارانہ خدمت کی جائے اور خائن اور اقتصادی مفاسد وں کو کو کوئی عہدہ نہ دیا جائے کہ اگر ہماری حکومت امیر المومنین علیہ السلام کے تاریخ حکم کو منتظمین کے سامنے بیان کرے تو ایسی صورت میں تلخ واقعات رونما نہیں ہوں گے۔
ملک کے قرآنی ماہر نے بیان کہا: اسلامی پارلیمنٹ کا فریضہ ہے کہ عوام کے لئے تمام پہلوؤں میں راحت اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے مؤثر اور عملی قوانین کا قیام عمل میں لایا جائے۔ عدلیہ کو حاج قاسم کا پیغام یہ ہے کہ وہ تمام بدعنوانوں اورمسلمانوں کے بیت المال پر تسلط جمانے اور عظیم قوم کو حقوق سے محروم رکھنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹے۔
آخر میں جناب سلیمی نے بیان کیا: خطے کے حکمرانوں کو حاج قاسم سلیمانی کا پیغام یہ ہے کہ آپ سپر پاور سے خوفزدہ نہ ہوں اور اپنی قوم کے بارے میں سوچیں، غیر ملکیوں کو اپنی سرزمین سے نکال دو اور مسلم قوموں کی خدمت کرو۔جس طرح مدافعین حرم ( ائمہ اطہارؑ کے روضوں کا دفاع کرنے والے)نے حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے روضے کا دفاع کرتے ہوئے یہ نعرہ لگایا تھا کہ ” کلّنا عباس” ہم بھی انقلاب کے عظیم الشان رہبر کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ یہ سچ ہے کہ حاج قاسم کا مقام بہت اونچا تھا لیکن ہم آپ سے عرض کرتے ہیں کہ ” کلّنا قاسم”۔ تمام دشمنوں و کینہ پروروں کو یہ جان لینا چاہئے کہ حاج قاسم ایک فرد نہیں تھے بلکہ ایک ثقافت، علامت اور نظریہ ہیں اور انہیں لوگوں سے چھیننا ناممکن ہے۔
“ایکنا” رپورٹ کے مطابق، آج ماہ دی کی ۲۱ویں تاریخ کو افق پروگرام ملک کے قرآنی ماہر، خادم قرٓآن عباس سلیمی کی موجودگی میں جنرل شہید قاسم سلیمانی کی شخصیت اور قرآنی خصوصیات کے عنوا ن سے قرآن ریڈیو پر نشر ہوا۔ اس پروگرام میں ملک کے قرآنی ماہر، خادم قرآن عباس سلیمی نے حضرت صدیقہ کبریٰ، فاطمہ زہرا (س) کی شہادت کے موقع پر تسلیت عرض کرتے ہوئےاس ملک کے علمبردارجنرل شہید قاسم سلیمانی اور اس گرانقدر بہادر کے جانثار ساتھیوں کی یادوں کو تازہ کرنے کے موقع ، نیز حالیہ واقعات خاص طور پر ہوائی حادثہ میں کچھ ہم وطنوں کی حادثاتی موت کے موقع پر اظہار تعزیت کرتے ہوئے بیان کیا کہ ممکن ہے کچھ لوگ یہ تصور کریں کہ صرف قرآن کا قاری، حافظ اور استاد ہونا اور اس میدان میں دوسرے شعبوں میں کام کرنا، انسان کے قرآنی ہونے کی علامت ہے جبکہ کریم اہل بیتؑ حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی نگاہ میں ہرگز ایسا نہیں ہے۔
انہوں نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہا: امام حسن علیہ السلام نے اپنے ایک نورانی بیان میں قرآنی ہونے کا معیار معین فرمایا ہے کہ ” قرآن کا سب سے زیادہ مستحق وہ ہے جو قرآن پر عمل کرتا ہے حتی اگر حافظ قرآن نہ بھی ہو” اس کے بعد امام علیہ السلام فرماتے ہیں: قرآن سے سب سے زیادہ دور وہ لوگ ہیں جو قرآن پر عمل پیرا نہیں ہوتے اگرچہ وہ اس کی تلاوت کرتے ہوں” اس معیار کے مطابق، معلوم ہو جاتا ہے کہ صرف قرآن پڑھنے اور اس کا حافظ بننے کا مطلب قرآنی ہونا یعنی قرآن پر عمل پیرا ہونا نہیں ہے۔
جناب سلیمی نے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے اس بیان کا حوالہ دیا جس میں آپؑ نے فرمایا: اگر کوئی قرآن کی تلاوت کرتا ہے اور اس پر عمل نہیں کرتا تو خداوندمتعال میدان محشر میں اسے اندھا محشور کرے گا” سلیمی نے کہا: قرآنی ہونے کا معیار ، قرآنی یقین ، قرآنی عقیدہ اور قرٓان کریم کی آیتوں پر عمل پیرا ہونا ہے، ملک کے قرآنی ماہر نے بیان کیا: ہمارے پیارے اور خدائی کمانڈر ، حاج قاسم سلیمانی کے قیمتی وجود میں قرآنی خصوصیات کی بہت سی خصوصیات واضح تھیں۔ کیونکہ وہ مکتب قرآن اور ولایت کے شاگرد تھے اور ہم اور ہماری افواج، سلیمانی، باقری، ہمت، کاظمی وغیرہ وغیرہ جیسے نامور کمانڈروں کو غیر تنظیمی کمانڈروں کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ یعنی ان عزیزوں کی کمانڈ کا میدان متعلقہ تنظیم سے مربوط نہیں ہےلہذا فوج، بسیج، وزارت دفاع وغیرہ سبھی انہیں ایک رول ماڈل اور نمونہ عمل اور کمانڈرز سمجھتے ہیں۔
جناب سلیمی نے کہا کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ جنرل قاسم سلیمانی قرآنی اوامر و نواہی پر عمل پیرا تھے۔ حاج قاسم کی ایک سب سے نمایاں خصوصیت جہاد کا جذبہ تھا، یعنی حقیقت میں قرآنی آیات ان کی روح اورقلب پر اتری ہوئی تھیں ” جَاھدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ” وہ چالیس سال اس جذبہ سے سرشار رہے اور ان کی شہادت بھی ایسے موقع پر واقع ہوئی جب لوگ فطری طور پر سو رہے تھے لیکن وہ جہاد کر رہے تھے۔
انہوں نے بیان کیا: جنرل قاسم سلیمانی کی ایک اور خصوصیت ان کی شجاعت تھی کہ ان کے دل میں دشمنوں کا خوف بالکل نہیں تھا۔ حاج قاسم کا وجودبالکل اس آیۂ شریفہ” وَيَخْشَوْنَهُ وَلَا يَخْشَوْنَ أحَدًا إِلَّا اللَّهَ” کا مصداق تھا۔ وہ لوگوں کے ساتھ نہایت تواضع و انکساری کے ساتھ پیش آتے تھے لیکن استکبار کے سامنے انہیں کوئی خوف نہیں تھا۔
ملک کے قرآنی ماہر نے مزید بیان کیا: دشمن شناسی اور دشمن کے خلاف جنگ، جنرل شہید سلیمانی کی ایک اور خصوصیت تھی۔ کچھ لوگ دشمن کو پہچاننے میں کامیاب نہیں ہوتے ہیں اور بعض اوقات جب وہ دشمن کو پہچان لیتے ہیں تو بھی اس کا مقابلہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔ہمارے عظیم حاج قاسم میں یہ دونوں خصوصیات پائی جاتی تھیں۔ کیونکہ قرآن سے محبت ان کے وجود کی گہرائیوں میں اتری ہوئی تھی اور دشمنوں کے ساتھ رابطہ کے بارے میں ان کا عقیدہ یہ تھا کہ ان کے خلاف مضبوطی سے ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے۔
انہوں نے قرآن کریم کی آیات سے ماخوذ،حاج قاسم سلیمانی کے تواضع اور انکساری کی خصوصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا کہ اس عظیم شہید کی خصوصیات میں سے ایک اور خصوصیت دینی دشمنوں کے ساتھ کسی طرح کی سازش کو قبول نہ کرنے اور ان سے خوفز دہ نہ ہونے میں پوشیدہ ہے۔جنرل قاسم سلیمانی ہمیشہ خدا کی خوشنودی کی تلاش میں رہتے تھے اور دشمنوں کی طرف سے دھمکیوں پر بالکل توجہ نہیں دیتے تھے۔ یہ خصوصیت بھی کلام اللہ یعنی قرآن مجید سے لی گئی تھی۔
جناب سلیمی نے بیان کیا: حاج قاسم کی چھٹی خصوصیت خدا پر بھروسہ تھی، انہوں نے خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے دشمنوں کو نظر انداز کرکے اپنے مشن کو بخوبی انجام دیا۔ جنرل شہید قاسم سلیمانی کی یہ خصوصیت اس آیۂ کریمہ” وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ” سے لی گئی تھی۔وہ خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے تمام میدانوں میں فاتح اور سرافراز تھے۔
انہوں نے شہید سلیمانی کی ساتویں خصوصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا: یہ ساری کامیابیاں جو حاج قاسم سلیمانی کو ملیں وہ ان کے خلوص کی وجہ سے تھیں۔وہ ایک موحّد ، مخلص اور ایسے مؤمن تھے جنہیں کسی سے کوئی توقع نہیں تھی۔قرآن کریم کا یہ جملہ جس میں ارشاد ہوتا ہے” وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ” منجملہ ایسے جملوں میں سے ہے کہ جسے حاج قاسم بیان کرنے کی جرأت کیا کرتے تھے کیونکہ وہ صرف خدا کے لئے کام کرتے تھے۔
ملک کے قرآنی ماہر نے بیان کیا کہ امریکیوں نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ شہید قاسم سلیمانی، جنرل قاسم سلیمانی سے زیادہ خطرناک ہیں یعنی وہ شہید ہونے کے بعد زیادہ خطرناک ثابت ہوئے ہیں۔امریکی ہرگز یہ نہیں سمجھ پائیں گے کہ انہوں نے ایسے وقت میں ان کے قتل کا حکم دیا کہ اس عظیم شہید کا چالیسواں ٹھیک ۲۲ بہمن کو آ رہا ہے۔ اس عظیم شہید کے خون کے اثرات کی وجہ یہ ہے کہ شہید کا خون جاری و ساری ہے۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ خود خداوندمتعال شہیدوں کی قیمت اور ان کے خون کا انتقام لینے والا ہے ، اس عظیم شہید کے خون کی بعض برکتوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا: امریکی حکومت کے چہرہ کی بے نقابی، پوری قوم کے درمیان اتحاد و ہم آ ہنگی، عراق میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سازشوں کو ناکارہ بنانا، خطے میں مزاحمت کے پودے کی آبیاری اور خطے کے لوگوں کے ارادوں کو مضبوط کرنا، پورے خطے سے امریکی کرایہ داروں کو نکالنے کے لئے شرائط فراہم کرنا، استکبار کے چہرہ پرانتقامی تھپڑ جو سخت انتقام کے عنوان سے پہلا قدم ہے جس نے امریکی غرور کو توڑ دیا وغیرہ وغیرہ یہ سب عزیز حاج قاسم سلیمانی کے خون کی برکتیں ہیں جو جاری رہے گا اور ہم امید کرتے ہیں کہ ایک دن ہم اس کے خون کی بدولت دنیا میں امریکی تسلط کے خاتمے کا جشن منائیں گے۔
انہوں نے مختلف ملکی اور غیر ملکی گروہوں اور افرادکو حاج قاسم کے خون کے پیغام کے بارے میں حقیقی اور قانونی دونوں طرح سے واضح کیا : حاج قاسم کے خون کا سب سے اہم پیغام اس ملک کی مسلح افواج کے نام یہ قرآنی پیغام ” وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ “ہے یعنی جنگی قابلیت ، ہتھیاروں اور جنگی تیاری کا ارتقاء تاکہ دشمن کا مقابلہ کریں اور دفاعی صلاحیت کو مضبوط کریں۔ حکومت کے نام بھی حاج قاسم کے خون کا پیغام یہ ہے کہ اس بزرگ اور عظیم قوم کی ایماندارانہ خدمت کی جائے اور خائن اور اقتصادی مفاسد وں کو کو کوئی عہدہ نہ دیا جائے کہ اگر ہماری حکومت امیر المومنین علیہ السلام کے تاریخ حکم کو منتظمین کے سامنے بیان کرے تو ایسی صورت میں تلخ واقعات رونما نہیں ہوں گے۔
ملک کے قرآنی ماہر نے بیان کہا: اسلامی پارلیمنٹ کا فریضہ ہے کہ عوام کے لئے تمام پہلوؤں میں راحت اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے مؤثر اور عملی قوانین کا قیام عمل میں لایا جائے۔ عدلیہ کو حاج قاسم کا پیغام یہ ہے کہ وہ تمام بدعنوانوں اورمسلمانوں کے بیت المال پر تسلط جمانے اور عظیم قوم کو حقوق سے محروم رکھنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹے۔
آخر میں جناب سلیمی نے بیان کیا: خطے کے حکمرانوں کو حاج قاسم سلیمانی کا پیغام یہ ہے کہ آپ سپر پاور سے خوفزدہ نہ ہوں اور اپنی قوم کے بارے میں سوچیں، غیر ملکیوں کو اپنی سرزمین سے نکال دو اور مسلم قوموں کی خدمت کرو۔جس طرح مدافعین حرم ( ائمہ اطہارؑ کے روضوں کا دفاع کرنے والے)نے حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے روضے کا دفاع کرتے ہوئے یہ نعرہ لگایا تھا کہ ” کلّنا عباس” ہم بھی انقلاب کے عظیم الشان رہبر کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ یہ سچ ہے کہ حاج قاسم کا مقام بہت اونچا تھا لیکن ہم آپ سے عرض کرتے ہیں کہ ” کلّنا قاسم”۔ تمام دشمنوں و کینہ پروروں کو یہ جان لینا چاہئے کہ حاج قاسم ایک فرد نہیں تھے بلکہ ایک ثقافت، علامت اور نظریہ ہیں اور انہیں لوگوں سے چھیننا ناممکن ہے۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب