مواد

جنرل قاسم سلیمانی کی بائیو گرافی


Jan 03 2021
جنرل قاسم سلیمانی کی بائیو گرافی
ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد قاسم سلیمانی، ۱۳۵۹ھ،شمسی  میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے رکن بن گئے۔ اور ایران ، عراق جنگ شروع ہوتے ہی انہوں نے کرمان میں متعدد بٹالینوں کی تربیت کی  اور انہیں محاذ جنگ پر بھیجا۔ شائد شام کے خاتمے کے لئے دشمنوں کا ایک اہم مقصد ایران اور حزب اللہ لبنان کےمابین تعلقات کو توڑنا تھا۔لیکن داعش کی شکست اور شام و عراق  میں قدس فورس کے اہم  کردار سے   مزاحمتی نامی ایک مضبوط حلقہ تشکیل پایا اور اس نے ایران، عراق، شام ، لبنان اور فلسطین کے مابین مزاحمتی زنجیر کو مزید استحکام بخشا۔۱۳۹۷ھ، شمسی میں ماہ اسفند کی ۱۹ ویں تاریخ کو اسلامی جمہوریہ ایران کے  رہنما حضرت آیت اللہ خامنہ ای  دام ظلّہ العالی  نے ذوالفقارنامی میڈل ( نشانِ ذولفقار)۔ ایران کے فوجی میڈلز میں سب سے اعلیٰ میڈل۔  جنرل قاسم سلیمانی کو پہنایا۔  خطے میں داعش کے خلاف جنگ میں حاج قاسم سلیمانی کی مؤثر موجودگی اور خطے میں  صہیونی سازش کی شکست  اس چیز کا سبب بنی   کہ ۱۳۹۷ھ، شمسی میں ماہ اسفند میں   ایرانی فوج کے سب سے اعلیٰ میڈل کے عنوان سے ذوالفقار نامی میڈل  ( نشانِ ذولفقار) مسلح افواج کے سپریم کمانڈر کے ہاتھوں جنرل قاسم سلیمانی کو پہنایا جائے۔
پیدائش سے تعلیم تک
کمانڈر شہید قاسم سلیمانی ولدِ حسن   ۱۳۳۵ھ، شمسی میں ماہ اسفند کی ۲۰ ویں تاریخ کو  ایران کے صوبہ کرمان کے ضلع رابر کے قبائلی انداز کے ایک پہاڑی گاؤں میں پیدا ہوئے۔انہوں نے ۱۲ سال کی عمر میں پرائمری اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے  آبائی گاؤں کو چھوڑ دیا  اور کرمان میں تعمیراتی شعبے میں کام میں مصروف ہو گئے۔وہ ۱۸  سال کی عمر میں  محکمہ ٔ آب رسانی میں ٹھیکدار کی حیثیت سے کام میں مصروف ہو گئے۔ اور انہوں نے انہی سالوں میں اپنی انقلابی سرگرمیوں کا آغاز بھی کیا،  انقلاب اسلامی ایران کے واقعات کے دوران وہ رضا کامیاب نامی مشہد کے ایک عالم دین  سے آشنا ہوئے  اور انہوں نے قاسم سلیمانی کو انقلابی تحریک  سے مزید متعارف کرایا، اور وہ انقلاب کے دوران کرمان کے  احتجاجات اور ہڑتالوں  کی ایک بنیادی بٹالین میں شامل تھے۔
سیاسی سرگرمی
ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد قاسم سلیمانی، ۱۳۵۹ھ،شمسی  میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے رکن بن گئے۔ اور ایران ، عراق جنگ شروع ہوتے ہی انہوں نے کرمان میں متعدد بٹالینوں کی تربیت کی  اور انہیں محاذ جنگ پر بھیجا۔ایک زمانے میں وہ  مغربی آذربائجان کی فوج کے کمانڈر بھی رہے۔
سپاہ کی رکنیت اور جنگ میں موجودگی
جنگ کے آغاز میں انہوں نے  صوبہ کرمان  کی افواج کی دو بٹالینوں کی کمانڈسنبھالی، یہاں تک کہ  کمانڈر شہید حسن باقری کے زبانی مشورہ پر انہوں نے کرمانی فوج کی ایک نئی بریگیڈ تشکیل دی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد انہیں  ۱۳۶۰ ھ،شمسی میں سپاہ پاسداران کے اس وقت کے کمانڈر محسن رضائی کے حکم سے  لشکر ۴۱ ثاراللہ کا کمانڈر مقرر کیا گیا۔شروع ہی سے انہوں نے مثالی قوت اور شجاعت کے ساتھ اس ڈویژن کی کمانڈ سنبھالی جس میں کرمان ، سیستان، بلوچستان اور ہرمزگان کی فوجیں شامل تھیں۔ ایران کے خلاف عراق کی جنگ میں وہ والفجر۸، کربلائے۴ اور کربلائے ۵ نامی کاروائیوں کے کمانڈروں میں شامل تھے۔کربلائے۵ نامی کاروائی  کو  جنگ کے دوران ایران کی ایک اہم ترین کاروائی میں سے سمجھا جاتا ہےجس کے نتیجے میں عراقی بعثی فوج کی سیاسی اور فوجی پوزیشن کمزور ہوگئی اور ایرانی فوجی دستوں کے حق میں صورتحال کو استحکام ملا۔ اور ان کا کردار مثالی کردار تھا۔
قدس فورس اور میجر جنرل کا عہدہ
جنرل قاسم سلیمانی  کے بہت سے جنگی ساتھیوں  کے لئے ۱۳۶۷ھ،شمسی  کا گرمیوں کا موسم جنگ کے ختم ہو جانے کا موسم تھا لیکن ان کے لئے جنگی میدانوں میں ایک نئے دور کا آغاز تھا۔۱۳۶۷ھ، شمسی میں  ایران ۔ عراق جنگ کے خاتمے کے بعد  وہ کرمان واپس آئے اور مشرقی سرحدوں پر جرائم پیشہ افراد اور منشیات فروشوں کے خلاف لڑے۔ ۱۳۷۹ھ،شمسی میں اسلامی جمہوریہ ایران کے رہنما حضرت آیت اللہ خامنہ ای دام ظلّہ کی جانب سے انہیں قدس فورس کا کمانڈر مقرر کیا گیا۔ قدس فورس پر  قاسم سلیمانی کی کمانڈ کی درخشاں اور نمایاں خوبیوں میں   لبنانی حزب اللہ اور فلسطینی عسکریت پسند  گروپوں کی مضبوطی بھی شامل ہے کہ جس کا مشاہدہ ،متعدد جنگوں  منجملہ  حزب اللہ اور اسرائیلی فوج کے مابین ۳۳ روزہ جنگ اور جدید ہتھیاروں سے لیس اسرائیلی فوج کے خلاف   غزہ کی ۲۲ روزہ جنگ میں فلسطینی جنگجوؤں کی کامیابی میں  ہم  نے  واضح طور پرکیا۔انہوں نے  مشرق وسطیٰ میں  ایران کے اثر و رسوخ  کو مستحکم کرنے خاص طور پر اسلامی بیداری کے نام سے مشہور علاقائی بدامنی میں، کلیدی کردار ادا کیا ہے۔  ان کی حکمت عملی سے اسلامی جمہوریہ ایران نے  عراق ،شام اور یمن میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا۔  ۱۳۸۹ھ، شمسی میں مسلح افواج کے سپریم کمانڈر حضرت آیت اللہ خامنہ ای دام ظلّہ  کے فرمان کے مطابق   انہیں ترقی دے کر میجر جنرل کے عہدے پر فائز کیا گیا، لیکن عوامی سطح پر انہیں اب بھی “حاج قاسم” کہا جاتا ہے۔
داعش کی نابودی تک کمانڈ
جنرل قاسم سلیمانی  عراق اور شام میں داعش کے خلاف  جنگ کے کمانڈروں میں سے ایک ہیں۔ داعش ایک سلفی گروپ تھا جو عراق میں صدام کے خاتمے اور خطے میں طاقت کی خلاء سے وجود میں آیا۔ ایران نے خطے میں سلامتی اور کنٹرول برقرار رکھنے کے لئے اس گروپ سے لڑنا شروع کیا۔ مغرب کی نئی سازش اور سعودی عرب جیسے ممالک کی مالی مدد سے کہ جس کی وجہ سے خطے میں داعش اور جبہۃ النصرۃ  سمیت  تکفیری دہشت گرد  گروہوں کا قیام  عمل میں آیا،  قاسم سلیمانی  کو  شامی اور عراقی دونوں  حکومتوں کی سرکاری درخواست پر    ایک نیا میدان(مشن، محاذ)   ملا  اور وہ عراق  اور شام دونوں ممالک میں ان خطرات کا مقابلہ تھا۔  عراق میں انہوں نے ” حشد الشعبی” اور شام میں” عوامی رضا کار فوج”  تشکیل دی، ان کی مدد اور قدس فورس  کی رہنمائی اور مشورت سے  چھ سالوں کے دوران ، ان دونوں ممالک  سے تقریباً  دہشت گرد گروہوں کے بستر گول ہو گئے۔انہوں نے ان دونوں ممالک میں جا کر  دمشق اور بغداد کے زوال کو روکا۔ اور  ماسکو کا سفر کر کے روس اور پوتن کو شام کے میدان جنگ میں لانے میں نمایاں کردار ادا  کرنے والے بھی وہی تھے۔ شائد شام کے خاتمے کے لئے دشمنوں کا ایک اہم مقصد ایران اور حزب اللہ لبنان کےمابین تعلقات کو توڑنا تھا۔لیکن داعش کی شکست اور شام و عراق  میں قدس فورس کے اہم  کردار سے   مزاحمتی نامی ایک مضبوط حلقہ تشکیل پایا اور اس نے ایران، عراق، شام ، لبنان اور فلسطین کے مابین مزاحمتی زنجیر کو مزید استحکام بخشا۔اس میں کوئی شک نہیں  ہے کہ  یہ مسئلہ  امریکا اور اسرائیل  کے مقصد  کے خلاف ہے لیکن  شام اور عراق میں میدان جنگ میں قاسم سلیمانی کے حکم سے  عوامی رضاکاروں  کی فوج کی تشکیل  سے یہ مسئلہ حقیقت میں تبدیل ہو گیا  اوراس مسئلہ نے  پاسداران، فاطمیون، زینبیون اور حیدریون  وغیرہ وغیرہ کے درمیان اتحاد پیدا کر دیا۔   خطے کو سنبھالنے اور دشمنوں سے مقابلہ کرنے میں جنرل قاسم سلیمانی کے ناقابل فراموش  کردار نے انہیں “گھوسٹ  کمانڈر”، ” مشرق وسطیٰ کا سب سے طاقتور شخص” اور ” اسرائیل کا ڈراؤنا خواب” جیسے القاب کے قابل بنایا  جو  امریکیوں  اور اسرائیلیوں کی طرف سے انہیں دئے گئے تھے۔
ذوالفقارمیڈل (نشانِ ذوالفقار) کا اعزاز حاصل کرنا
۱۳۹۷ھ،شمسی  میں ماہ اسفند کی ۱۹ ویں تاریخ کو اسلامی جمہوریہ ایران  کے اعلیٰ رہنما حضرت آیت اللہ خامنہ ای  دام ظلّہ نے قاسم سلیمانی کو ذوالفقار میڈل ۔  ایرانی فوج کا سب سے اعلیٰ میڈل۔ سے نوازا،  اسلامی جمہوریہ ایران  کے فوجی میڈلز کے ضوابط کے مطابق   یہ میڈل اعلیٰ افسروں، کمانڈروں اور مسلح افواج کے عملہ کے سربراہوں کو دیا جاتا ہے  کہ جن  کے جنگی منصوبے  اور جنگی کاروائیوں  کی رہنمائی  مطلوبہ نتائج کا سبب بنے ہیں۔  ۱۳۵۷ھ،شمسی میں  ایرانی انقلاب کے بعد  قاسم سلیمانی یہ اعزا حاصل کرنے والے پہلے شخص ہیں۔   خطے میں داعش کے خلاف جنگ میں حاج قاسم سلیمانی کی مؤثر موجودگی اور خطے میں  صہیونی سازش کی شکست  اس چیز کا سبب بنی  کہ ۱۳۹۷ھ، شمسی میں ماہ اسفند میں   ایرانی فوج کے سب سے اعلیٰ میڈل کے عنوان سے ذوالفقار نامی میڈل  ( نشانِ ذولفقار) مسلح افواج کے سپریم کمانڈر کے ہاتھوں جنرل قاسم سلیمانی کو پہنایا جائے۔
جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت
امریکی عہدیداروں  کی جانب سے قتل کی دھمکی  کے جواب میں جنرل قاسم سلیمانی  ہمیشہ  یہ کہا کرتے تھے:  یہ کوئی دھمکی نہیں ہے  بلکہ  ایک اشتیاق کی مدد کرنا ہے یعنی شوق شہادت میں میری مدد ہے۔ میں،  ان لوگوں  کے جواب میں جو یہ سوچتے ہیں کہ دھمکیوں  سے ہم پر رعب طاری ہو جائے گا ، یہ کہتا ہوں کہ  ” اے خدا  مجھے اپنے دین کے دشمنوں کے ہاتھوں اپنے راستہ میں شہادت نصیب  فرما” ۔ آخرکار  دیرینہ  دشمن  جنرل قاسم سلیمانی کی جرأت اور طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکے۔  باطل کے خلاف حق کے میدانوں میں اس  انتھک  کمانڈر نے  ۱۳۹۸ھ،شمسی میں  ماہ اسفند  کی ۱۳ ویں تاریخ کو  جمعہ کی صبح   بغداد ہوئی اڈے کے  قریب ،حشد الشعبی کے معاون  ابو مہدی المہندس  اور حشد الشعبی کے  کچھ دیگر اراکین    کو  لے جانے والی دو گاڑیوں  پر   امریکی ڈرون حملہ میں جام شہادت نوش کیا    اور وہ اپنے شہید ساتھیوں سے جا ملے۔


نظری برای این مطلب ثبت نشده است.

رائے

ارسال نظر برای این مطلب