مواد

جنرل سلیمانی فلسطین کے مسئلے کو عالم اسلام کا بنیادی مسئلہ سمجھتے تھے


Jan 05 2021
جنرل سلیمانی فلسطین کے مسئلے کو عالم اسلام کا بنیادی مسئلہ سمجھتے تھے
ابوشریف: جنرل سلیمانی فلسطین کے مسئلے کو عالم اسلام کا بنیادی مسئلہ سمجھتے تھے
۷ بہمن ۱۳۹۸ھ،ش۔۲۰:۴۲
“غزہ مقاومت کی علامت ” نامی  دسویں کانفرنس میں جہاد اسلامی کے نمائندے نے فلسطینی اسلامی مزاحمت کے محور کو مضبوط بنانے میں شہید جنرل حاج قاسم سلیمانی کے کردار کا تجزیہ بیان کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ یہ عظیم شہید فلسطین کے مسئلے کو عالم اسلام کا ایک بینادی مسئلہ سمجھتے تھے۔
تسنیم نیوز ایجنسی کے بین الاقوامی گروپ کے مطابق، “غزّہ مقاومت کی علامت”نامی دسویں کانفرنس ، فلسطینی اسلامی مزاحمت کے محور کو مضبوط بنانے میں جنرل شہید حاج قاسم سلیمانی کے کردارکے تجزئے کے عنوان سے اندیشہ نامی کلچرل سنٹر میں منعقد ہوئی۔
اس کانفرنس میں تحریک جہاد اسلامی کے نمائندے ناصر ابو شریف نے  فلسطینی اسلامی مزاحمت کے محور کو مضبوط بنانے میں شہید حاج قاسم سلیمانی کے کردار کا جائزہ لیتے ہوئے کہا:غزّہ حقیقی ایثار اور مزاحمت کی ایک مثال ہے۔ غزّہ پوری امت مسلمہ کے لئے ایک دلیل ہےاور اب کوئی بھی یہ عذرپیش نہیں  کر سکتاکہ میں مغرب، اسرائیل ، امریکہ اور کلی طور پراستکباری دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکا۔
انہوں نے مزید کہا: ہمیں استکباری دنیا کا مقابلہ کرنا چاہئے اور غزّہ ایک ایسی علامت ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مزاحمتی محور کامیاب ہے۔جنرل سلیمانی فلسطین کے مسئلے کو عالم اسلام کا بنیادی  مسئلہ سمجھتے تھے۔ حاج قاسم خطے اور فلسطینی مزاحمت کے سب سے بڑے حامی تھے۔
فلسطینی اسلامی جہاد کے نمائندے نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ فلسطین چھ طرفوں سے محاصرہ میں تھااور حاج قاسم نے غزّہ میں مزاحمتی محور ایجاد کیا، مزید بیان کیا کہ غزّہ میں مزاحمت ایجاد کرناایک بڑی چٹان میں سوراخ پیدا کرنے کے مترادف ہے لیکن حاج قاسم نے اس کام کو انجام دیا۔
ابوشریف نے اسی طرح صدی کے معاہدہ  کے بارے میں کہا: صدی کے معاہدے کے ذریعے دشمن اپنی آخری کوشش کے ذریعہ  فلسطین کے مسئلے کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔لیکن میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ایسا ہرگز نہیں ہو گا۔پچھلے سو سالوں میں  دشمنوں نے صیہونی حکومت کو مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے  لیکن خطے میں اس حکومت کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا:قرآن کریم کے مطابق مجھے یہ کہنا چاہئے کہ وہ جس طرح آئے ہیں اسی طرح ذلیل و خوار ہو کر چلے جائیں گےلہذا صدی کا سودا و معاہدہ ناکام ہو جائے گااور اسلام اور مسلمانوں کی عزت کی صدی قائم ہوگی۔
محمد حسن رحیمیان ،مسجد مقدس جمکران کے متولی اور فلسطینی قوم کے دفاع کے لئے ٹرسٹ بورڈ  کے ممبر نے بھی یہ بیان کیا کہ اسلامی انقلاب کے آغاز سے ہی امام خمینیؒ فلسطین کے دفاع اور  اسرائیل کے خلاف جدوجہد کے موضوع کو انقلاب کے اہم مقاصد میں سے سمجھتے تھے اور یہ حمایت اس زمانے سے شروع ہوئی ہے۔انہوں نے مزید کہا: اسرائیل کی عربوں کے  ساتھ ۶ دن کی جنگ کے دوران کوئی بھی اسلامی ملک اسرائیل کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تھااور جنگ کے پہلے دو گھنٹوں میں ہی اسرائیل بڑی پیش قدمی میں کامیاب ہو گیا لیکن اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ مزاحمتی محاذاس کے سامنے بڑی رکاوٹ بننے میں کامیاب ہو گیاہے۔اور عصر حاضر میں ناقابل شکست اسرائیلی فوج غزّہ کا مقابلہ کرنے میں بری طرح ناکام ہو گئی جس میں آبادی  اورسہولیات بہت کم ہیں   اور یہ راستہ اب اپنے عروج کی جانب گامزن ہے۔انہوں نے مزید کہا: آج اسرائیل اور صیہونی حکومت بدترین صورتحال میں ہے اور فلسطینی عوام مزاحمت کے عروج پر ہیں۔جیسا کہ رہبر معظم انقلاب نے باضابطہ طور پر بیان کیا ہے کہ جو بھی اس حکومت کے خلاف قیام کرے گا ہم اس کی حمایت کریں گے۔آپ نے دیکھا کہ سرزمین غزّہ سے تعلق رکھنے والے اسماعیل ہنیہ نے شہید سلیمانی کی تشییع جنازہ کی تقریب میں کہا کہ غزّہ کے عوام اور فلسطینی قوم کی حمایت واضح ہے اوریہ راستہ اب بھی جاری ہے۔
تہران میونسپلٹی کے ثقافتی اور ہنری تنظیم کے سربراہ حجت الاسلام امرودی  نے اس تقریب کے دوران ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا :اگر مزاحمتی محاذ اچھی طرح سے اپنا راستہ جاری رکھے تو اسرائیل کی تباہی کا مقدمہ فراہم ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا: اسرائیل نابود ہو جائے گا جس طرح شاہ کا طاغوتی نظام نابود ہوگیا تھا۔مزاحمتی محور میں الہی ارادہ پایا جاتا ہے اور آخرکار یہ خدا کے فضل سے اسرائیل کی تباہی کا سبب بنے گا۔
 
 
انہوں نے مزاحمتی محاذ کے مقاصد کو آگے بڑھانے میں شہید سلیمانی کے کردار کا بھی تذکرہ کیا اور کہا:حاج قاسم نے اسلامی مزاحمت کے راستے میں بہت ساری کاروائیاں انجام دیں اور اپنی شہادت کے ذریعہ امت مسلمہ کو متحد کر دیا۔اسلام کے اس عظیم کمانڈر کی سب سے بڑی کاروائی ان کی شہادت تھی۔حاج قاسم ہمیشہ شہادت کی تمنا رکھتے تھے اوروہ اپنے خلوص کے ذریعہ مزاحمتی محاذ پر مجاہدوں کے لئے ایک بہترین نمونہ ٔ عمل تھے۔امرودی نے مزید بیان کیا: مزاحمتی محاذ کے تین اہم عناصرہیں،خدائی جذبہ، اتحاد اوررہبر معظم انقلاب کا وجود۔ اور حاج قاسم ایسے شخص تھے جنہوں نے اپنی شہادت کے ذریعہ  یہ تینوں نکات ہمارے لئے یادگار کے طور پر چھوڑ دئے۔
فلسطینی قوم کے دفاع کے عنوان سے قدس نیوز ایجنسی اور تہران میونسپلٹی کی ثقافتی اور ہنری تنظیم کے تعاون سے  منعقد کی گئی اس کانفرنس کے ایک حصہ میں  اسلامی بیداری کی عالمی اسمبلی کے مطالعاتی سینٹر کے سربراہ حسین اکبری نے کہا: غزّہ مقاومت کی علامت ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ سپاہ کا نام سپاہ قدس کیوں رکھا گیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ قدس عالم اسلام کے لئے حقارت کا مقام بن چکا تھا۔اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعدایسی صورتحال میں جب فلسطین پر قبضہ ہو چکا تھا اور صیہونیوں نے عالم اسلام پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کی تو تب امام خمینیؒ اور رہبر معظم انقلاب اورجنرل سلیمانی اس فکر سے میدان میں داخل ہوئے کہ وہ فلسطین اور غزّہ کو مقاومت کی علامت میں تبدیل کریں گے۔ آج دنیا میں آزادی پسندوں نے یہ دکھا دیا کہ وہ قابض  نظام اور صہیونیزم کے مخالف ہیں ۔آج پوری دنیا میں مزاحمتی محاذ پہچانا جا چکا ہے۔
انہوں نے بیان جاری رکھتے ہوئے کہا:آج صیہونی حکومت عاجز و کمزور ہو چکی ہے۔شہید سلیمانی مسلمانوں کی عزت و وقار کے لئے کوشاں تھے۔آج ٹرمپ عراق میں مشکل میں ہے۔ٹرمپ نے مواخذے سے بچنے کے لئے جنرل سلیمانی کا قتل کیا۔فلسطین کی نجات کا مطلب صیہونی حکومت اور قابض نظام کا خاتمہ ہے۔کانفرنس کے اختتام پرالمصطفیٰ یونیورسٹی کی طالبات نے ترانہ پڑھا اورمزاحمت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے قصیدہ خواں محسن توسلی نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔
 


نظری برای این مطلب ثبت نشده است.

رائے

ارسال نظر برای این مطلب