مواد

جب ورق پلٹا


Jan 03 2021
جب ورق پلٹا
داعش اربیل کے دروازے تک داعش چکی تھی۔ شہر کسی بھی لمحے دہشت گردوں کے ہاتھوں سقوط ہونے کا خدشہ تھا۔ بارزانی کہتے ہیں: داعش کے حملے کے بعد میں نے امریکہ، برطانیہ، فرانس اور سعودی عرب سے رابطہ کیا۔ ان ممالک کے حکام نے اس لمحے ہر قسم کی مدد سے معذوری ظاہر کی۔ اس کے بعد فوری طور پر ایرانی حکام سے رابطہ کیا اور کہا کہ اربیل سقوط کرنے والا ہے۔ اگر آپ ہماری مدد نہ کریں تو ہم شہر کو خالی کردیں گے۔ ایرانی حکام نے قاسم سلیمانی کا نمبر مجھے دیا اور کہا کہ داعش سے مقابلے کے امور اور اختیارات حاج قاسم کے پاس ہیں۔
میں نے ابتدائی فرصت میں ہی جنرل سلیمانی کو فون کیا اور حالات کے بارے میں بریفنگ دی۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں کل صبح نماز کے بعد اربیل پہنچ جاوں گا۔ میں نے کہا کل تک دیر ہوجائے گی؛ ابھی ہی پہنچ جائیں۔ کہا: برادر مسعود! آج رات شہر کا دفاع کریں۔
اگلی صبح جنرل سلیمانی اربیل ائیرپورٹ پر اتر گئے۔ میں استقبال کے لئے گیا۔ حاج قاسم کے ساتھ ان کے خصوصی سپاہیوں کا 50 رکنی دستہ بھی تھا۔ وہ فوری طور پر کرد پیش مرگہ فورسز کے ہمراہ محاذوں پر گئے اور جنگ کی قیادت کی۔ چند گھنٹوں کے اندر حالات ہمارے حق میں بدلنے لگے۔ اس عرصے میں ایران نے اسلحے کی صورت میں بھی ہمیں امدادی سامان بھیجا۔ حاج قاسم نے اپنے دستے کے بعض افراد کو دفاعی ضرورت اور مشورے کے لئے اربیل میں باقی رکھا اور خود کربلا چلے گئے۔ اس کے بعد داعش کا ایک کمانڈر گرفتار ہوا۔ ہم نے پوچھا: آپ اربیل کو فتح کرنے والے تھے؛ اچانک عقب نشینی پر کیوں مجبور ہوئے؟
گرفتار داعشی کمانڈر نے جواب دیا: اربیل میں موجود ہمارے جاسوسوں نے جنرل سلیمانی کے پہنچنے کی خبر دی جس کے بعد ہمارے سپاہیوں کے حوصلے پست ہوگئے اور عقب نشینی پر مجبور ہوئے۔ مسعود بارزانی، صدر کردستان عراق
 


نظری برای این مطلب ثبت نشده است.

رائے

ارسال نظر برای این مطلب