دنیا کے بہت سے سیاسی حلقوں نے فلسطین کے نام کی بقا اور اس سرزمین میں مغربی منصوبوں کی ناکامی کے پیچھے عوامل کا بغور مطالعہ کیا ہے۔
عرب ممالک نے 1948 سے 1982 کے درمیان اب تک اسرائیل کے ساتھ پانچ جنگیں لڑی ہیں لیکن انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
در حقیقت فلسطین کے نام کی بقا اور اس سرزمین میں مغربی منصوبوں کی ناکامی کے عوامل کیا ہیں؟فلسطینی تنظیموں کے لئے عرب ممالک کی لاکھوں ڈالر کی امداد ، جس کانتیجہ اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی ہم آہنگی اور سمجھوتہ کے سوا کچھ نہ نکلا۔
سعودی اقدام کہ جس کی شیرون نے تضحیک کی اور اعلان کیا کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ قلم اور کاغذ کو اس منصوبے کو لکھنے میں صرف کیا گیا!
غزہ کی پٹی پر ۱۳ سالہ محاصرے اورکرانہ باختری میں آباد کاریوں کے خلاف عرب ممالک کا موقف بھی ان کے شرم آور موقف کا ایک اور صفحہ ہے۔
اگر ہم فلسطین کے نام کی بقا اور اس سرزمین میں مغربی منصوبوں کی ناکامی کے پیچھے عوامل کا جائزہ لینا چاہیں تو ہمیں فلسطینی گروپوں کے لئے ایران کی حمایت پر نظر ڈالنی ہوگی۔
ایران کے رہبر آیت اللہ علی خامنہ ای نے باضابطہ طور پر اعلان کیا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی نے اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لئے فلسطینی مزاحمتی گروپوں کی ایسے وقت میں بھرپور حمایت کی جب ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔
اسرائیل صرف ۴۸ گھنٹوں کے بعد فلسطینی مزاحمتی گروہوں کے خلاف جنگ بندی کا مطالبہ کرتا ہے اس لئے نہیں کہ عرب ممالک کی طرف سے محمود عباس کی دسیوں لاکھ ڈالر یا سمجھوتے کے نام پرسعودی منصوبے کی حمایت نہیں بلکہ اس کی وجہ اسرائیل کے خلاف حماس اور جہاد اسلامی کا سخت رویہ ہے۔
اسرائیل صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے اور ایرانی سپاہ قدس نے جنرل سلیمانی کی سربراہی میں فلسطینیوں کو اس قدر طاقتور بنا دیا کہ وہ اسرائیل کے خلاف طاقت کی زبان استعمال کرنے پر قادر ہوگئے۔
مغرب، فلسطین کا نام اقوام عالم کے ذہنوں سے نہیں مٹا سکا اس کی وجہ عرب لیگ کے تکراری اور خستہ کنندہ بیانات یا اس کے شرمناک اراکین کا موقف نہیں ہے کہ جنہوں نے باضابطہ طور پر یہ بیان دیا کہ ہم اسرائیل کے ساتھ جنگ سے تنگ آ چکے ہیں اور ہمیں اس کے ساتھ صلح کرنا چاہئے۔
اس کی وجہ صرف ایک چیز ہے” طاقت کی زبان” جو فلسطینیوں نے اسرائیل کے ظالمانہ رویہ کے خلاف استعمال کر رکھی ہے۔
عرب ممالک نے 1948 سے 1982 کے درمیان اب تک اسرائیل کے ساتھ پانچ جنگیں لڑی ہیں لیکن انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
در حقیقت فلسطین کے نام کی بقا اور اس سرزمین میں مغربی منصوبوں کی ناکامی کے عوامل کیا ہیں؟فلسطینی تنظیموں کے لئے عرب ممالک کی لاکھوں ڈالر کی امداد ، جس کانتیجہ اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی ہم آہنگی اور سمجھوتہ کے سوا کچھ نہ نکلا۔
سعودی اقدام کہ جس کی شیرون نے تضحیک کی اور اعلان کیا کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ قلم اور کاغذ کو اس منصوبے کو لکھنے میں صرف کیا گیا!
غزہ کی پٹی پر ۱۳ سالہ محاصرے اورکرانہ باختری میں آباد کاریوں کے خلاف عرب ممالک کا موقف بھی ان کے شرم آور موقف کا ایک اور صفحہ ہے۔
اگر ہم فلسطین کے نام کی بقا اور اس سرزمین میں مغربی منصوبوں کی ناکامی کے پیچھے عوامل کا جائزہ لینا چاہیں تو ہمیں فلسطینی گروپوں کے لئے ایران کی حمایت پر نظر ڈالنی ہوگی۔
ایران کے رہبر آیت اللہ علی خامنہ ای نے باضابطہ طور پر اعلان کیا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی نے اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لئے فلسطینی مزاحمتی گروپوں کی ایسے وقت میں بھرپور حمایت کی جب ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔
اسرائیل صرف ۴۸ گھنٹوں کے بعد فلسطینی مزاحمتی گروہوں کے خلاف جنگ بندی کا مطالبہ کرتا ہے اس لئے نہیں کہ عرب ممالک کی طرف سے محمود عباس کی دسیوں لاکھ ڈالر یا سمجھوتے کے نام پرسعودی منصوبے کی حمایت نہیں بلکہ اس کی وجہ اسرائیل کے خلاف حماس اور جہاد اسلامی کا سخت رویہ ہے۔
اسرائیل صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے اور ایرانی سپاہ قدس نے جنرل سلیمانی کی سربراہی میں فلسطینیوں کو اس قدر طاقتور بنا دیا کہ وہ اسرائیل کے خلاف طاقت کی زبان استعمال کرنے پر قادر ہوگئے۔
مغرب، فلسطین کا نام اقوام عالم کے ذہنوں سے نہیں مٹا سکا اس کی وجہ عرب لیگ کے تکراری اور خستہ کنندہ بیانات یا اس کے شرمناک اراکین کا موقف نہیں ہے کہ جنہوں نے باضابطہ طور پر یہ بیان دیا کہ ہم اسرائیل کے ساتھ جنگ سے تنگ آ چکے ہیں اور ہمیں اس کے ساتھ صلح کرنا چاہئے۔
اس کی وجہ صرف ایک چیز ہے” طاقت کی زبان” جو فلسطینیوں نے اسرائیل کے ظالمانہ رویہ کے خلاف استعمال کر رکھی ہے۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب