”انتقامِ سخت“
شبِ سیاہ کی ظلمت گری مٹانے کو
چلے تھے ایک ہی منزل کے جو مسافر دو
مدارِ شمسِ ولایت کے وہ ستارے تھے
وہ اپنی اپنی جگہ روشنی کے دھارے تھے
سب اپنے اور پرائے تھے ان کے دیوانے
زبانِ غیر تک آتے تھے ان کے افسانے
ستیزہ گاہِ جہاں میں وہ نام رکھتے تھے
سپہ گری میں اچھوتا مقام رکھتے تھے
جو بزم میں تھے وہ عکاسِ لہجہء بوذر
تو رزم میں تھے وہ پھر عکس مالکِ اشتر
وہ راستے جو انہیں موت سے ڈراتے تھے
انہیں وہ پاٶں سے پامال کرکے جاتے تھے
انہوں نے فتنہ گروں کے قدم اکھاڑ دیے
فساد کے جو مراکز تھے، سب اجاڑ دیے
جہانِ لعل و گہر میں بس ایک ہی ان کا
کوٸی جو گوہرِ مقصود تھا، شہادت تھا
وہ اپنا گوہرِ مقصود پا گئے آخر
چراغ جو تھا جلانا جلا گئے آخر
جہاں جہاں بھی کہیں رات ہے اندھیرا ہے
جہاں جہاں بھی کہیں ظلمتوں کا ڈیرا ہے
لہو سے ان کے اجالے کا کام لینا ہے
شبِ سیاہ سے یوں انتقام لینا ہے
سید تنویر حیدر
شبِ سیاہ کی ظلمت گری مٹانے کو
چلے تھے ایک ہی منزل کے جو مسافر دو
مدارِ شمسِ ولایت کے وہ ستارے تھے
وہ اپنی اپنی جگہ روشنی کے دھارے تھے
سب اپنے اور پرائے تھے ان کے دیوانے
زبانِ غیر تک آتے تھے ان کے افسانے
ستیزہ گاہِ جہاں میں وہ نام رکھتے تھے
سپہ گری میں اچھوتا مقام رکھتے تھے
جو بزم میں تھے وہ عکاسِ لہجہء بوذر
تو رزم میں تھے وہ پھر عکس مالکِ اشتر
وہ راستے جو انہیں موت سے ڈراتے تھے
انہیں وہ پاٶں سے پامال کرکے جاتے تھے
انہوں نے فتنہ گروں کے قدم اکھاڑ دیے
فساد کے جو مراکز تھے، سب اجاڑ دیے
جہانِ لعل و گہر میں بس ایک ہی ان کا
کوٸی جو گوہرِ مقصود تھا، شہادت تھا
وہ اپنا گوہرِ مقصود پا گئے آخر
چراغ جو تھا جلانا جلا گئے آخر
جہاں جہاں بھی کہیں رات ہے اندھیرا ہے
جہاں جہاں بھی کہیں ظلمتوں کا ڈیرا ہے
لہو سے ان کے اجالے کا کام لینا ہے
شبِ سیاہ سے یوں انتقام لینا ہے
سید تنویر حیدر
رائے
ارسال نظر برای این مطلب