2006 کے موسم گرما میں لبنان میں 33 روزہ جنگ کے آغاز کے بعد ، عرب اور مغربی رہنما مشرق وسطی کی تقدیر کا تعین کرنے کے لئے ایک اہم واقعہ کے منتظر تھے۔
کیونکہ اس خطے کے سیاسی محاذ پر حزب اللہ کو شکست دینا نیل سے فرات کی سلطنت کا خواب پورا ہونے کا بنیادی عنصر تھا، جس کے ذریعہ عربوں کا تخت و تاج محفوظ رہتا اوراسرائیل عرب اقوام کے سامنے یہ ثابت کرتا کہ اس کی فوج ایک ناقابلِ شکست فوج ہے۔ لیکن اس جنگ میں حزب اللہ کی فتح نے ثابت کر دیا کہ اس کی فوج بہت بزدل فوج ہے اوراسرائیلی حکام کے دعوے پروپیگنڈوں کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔
اس جنگ میں حزب اللہ نے اسرائیل کے خلاف عرب دنیا اور امت مسلمہ کو پہلی کامیابی دلائی اورچھ دن کی جنگ میں عرب فوجوں کی کمزوری کو ذہنوں میں زندہ کیا کیونکہ اسرائیل نے جس جنگ کا آغاز کیا تھا،اس نے اس سے ہاتھ کھینچ لیا اور اس نے جو شرطیں طے کی تھیں اس سے پیچھے ہٹ گیا اور مقبوضہ علاقوں میں جنگ جاری رکھنے کا ارادہ توڑ دیا اور حزب اللہ کے سامنے اس کے حکام کی تمام کاوشیں اور محنتیں مٹ میں مل گئیں۔
سید حسن نصراللہ نے سپوتیک نیوز کے ساتھ گفتگو میں اس جنگ کے بارے میں انکشاف کیا کہ اس جنگ کی بنیادی کمانڈ جنرل سلیمانی کے ہاتھ میں تھی اور ایرانی جنرل کی سربراہی میں ہم سب سے سامنے اسرائیل کے سیاسی اور فوجی حکام کی کمزوری اور سستی ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے۔[1]
پیشرفتہ فوجی تعلیم نامی امریکی یونیورسٹی کے جنرل بلنٹن کے مطابق، یہ جنگ اسرائیلی فوج کی شکست کے ساتھ ختم ہوئی۔ کیونکہ حزب اللہ نے اس جنگ میں اسرائیلی افواج کو شکست دینے کے لئے روایتی اور غیر روایتی جنگی صلاحیتوں کا استعمال کیا۔[2]
ماہ جولائی میں شروع ہونے والی جنگ میں جنرل سلیمانی کی کامیاب شرکت اور کمانڈ نے اسرائیلی فوج کے سینئر افسروں کو یہ اعتراف کرنے پر مجبور کر دیا کہ اس جنگ میں شکست کے بہت دور رس نتائج بر آمد ہوئے اور وہ اسرائیل کے فوجی اور سیاسی رہنماؤں میں خود اعتمادی کا فقدان تھا۔
[1] https://arabic.sputniknews.com/arab_world/202008141046275551-%D8%AD%D8%B3%D9%86-%D9%86%D8%B5%D8%B1%D8%A7%D9%84%D9%84%D9%87-%D9%85%D8%A7-%D8%AD%D8%B5%D9%84-%D9%81%D9%8A-%D8%AA%D9%85%D9%88%D8%B2-2006-%D9%83%D8%A7%D9%86-%D8%AD%D8%B1%D8%A8%D8%A7-%D8%AD%D9%82%D9%8A%D9%82%D9%8A%D8%A9/
[2] https://www.hsdl.org/?abstract&did=760489
کیونکہ اس خطے کے سیاسی محاذ پر حزب اللہ کو شکست دینا نیل سے فرات کی سلطنت کا خواب پورا ہونے کا بنیادی عنصر تھا، جس کے ذریعہ عربوں کا تخت و تاج محفوظ رہتا اوراسرائیل عرب اقوام کے سامنے یہ ثابت کرتا کہ اس کی فوج ایک ناقابلِ شکست فوج ہے۔ لیکن اس جنگ میں حزب اللہ کی فتح نے ثابت کر دیا کہ اس کی فوج بہت بزدل فوج ہے اوراسرائیلی حکام کے دعوے پروپیگنڈوں کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔
اس جنگ میں حزب اللہ نے اسرائیل کے خلاف عرب دنیا اور امت مسلمہ کو پہلی کامیابی دلائی اورچھ دن کی جنگ میں عرب فوجوں کی کمزوری کو ذہنوں میں زندہ کیا کیونکہ اسرائیل نے جس جنگ کا آغاز کیا تھا،اس نے اس سے ہاتھ کھینچ لیا اور اس نے جو شرطیں طے کی تھیں اس سے پیچھے ہٹ گیا اور مقبوضہ علاقوں میں جنگ جاری رکھنے کا ارادہ توڑ دیا اور حزب اللہ کے سامنے اس کے حکام کی تمام کاوشیں اور محنتیں مٹ میں مل گئیں۔
سید حسن نصراللہ نے سپوتیک نیوز کے ساتھ گفتگو میں اس جنگ کے بارے میں انکشاف کیا کہ اس جنگ کی بنیادی کمانڈ جنرل سلیمانی کے ہاتھ میں تھی اور ایرانی جنرل کی سربراہی میں ہم سب سے سامنے اسرائیل کے سیاسی اور فوجی حکام کی کمزوری اور سستی ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے۔[1]
پیشرفتہ فوجی تعلیم نامی امریکی یونیورسٹی کے جنرل بلنٹن کے مطابق، یہ جنگ اسرائیلی فوج کی شکست کے ساتھ ختم ہوئی۔ کیونکہ حزب اللہ نے اس جنگ میں اسرائیلی افواج کو شکست دینے کے لئے روایتی اور غیر روایتی جنگی صلاحیتوں کا استعمال کیا۔[2]
ماہ جولائی میں شروع ہونے والی جنگ میں جنرل سلیمانی کی کامیاب شرکت اور کمانڈ نے اسرائیلی فوج کے سینئر افسروں کو یہ اعتراف کرنے پر مجبور کر دیا کہ اس جنگ میں شکست کے بہت دور رس نتائج بر آمد ہوئے اور وہ اسرائیل کے فوجی اور سیاسی رہنماؤں میں خود اعتمادی کا فقدان تھا۔
[1] https://arabic.sputniknews.com/arab_world/202008141046275551-%D8%AD%D8%B3%D9%86-%D9%86%D8%B5%D8%B1%D8%A7%D9%84%D9%84%D9%87-%D9%85%D8%A7-%D8%AD%D8%B5%D9%84-%D9%81%D9%8A-%D8%AA%D9%85%D9%88%D8%B2-2006-%D9%83%D8%A7%D9%86-%D8%AD%D8%B1%D8%A8%D8%A7-%D8%AD%D9%82%D9%8A%D9%82%D9%8A%D8%A9/
[2] https://www.hsdl.org/?abstract&did=760489
رائے
ارسال نظر برای این مطلب