مواد

ایرانیوں کا سخت انتقام یا اندھا انتقام


Jan 18 2021
ایرانیوں کا سخت انتقام یا اندھا انتقام
گذشتہ سے پیوستہ ہماری خوشی اور غم دونوں بے انتہا ہوتے ہیں، شادی کیلئے لڑکے اور لڑکی والوں  یعنی دونوں کو کئی کئی سال تک جتن کرنے پڑتے ہیں اور موت کا منظر تو ہے ہی ناقابل بیان، جنازے پر سینہ کوبی اور چیخ و پکار سے لے کر کئی مہینوں بلکہ کئی سالوں تک ماتم اور آہ و بکا کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ انتقام تو اس سے بھی زیادہ خوفناک ہوتا ہے، جو ایک گالی دے، اسے بدلے میں کم از کم دو گالیاں دینا یا اس سے بڑی اور غلیظ گالی دینے کو ہی بہادری سمجھا جاتا ہے۔ اگر کسی سے مقابلے کی ٹھن جائے، خواہ مذہبی میدان میں ہی آمنا سامنا ہو جائے تو مدمقابل کو کافر قرار دینا، مشرک کہنا، بدعتی کے لقب سے نوازنا، مخالف فرقے کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈہ کرنا اور دن رات لگا کر جھوٹی پوسٹیں گھڑنا، یہ ہمارے ہاں کے دینی ٹھیکیداروں کا معمول ہے۔ ہماری معاشرتی نفسیات میں انتقام بالکل عدل و انصاف اور بصیرت سے جدا ہوتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ہی سدھائے ہوئے مجاہدین جب ہماری پاک آرمی کے خلاف میدان میں اترے تو انہوں نے اپنے انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کیلئے نہ صرف یہ کہ عوامی مراکز اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا بلکہ پاکستان آرمی اور پولیس کے جوانوں کو جانوروں کی طرح ذبح کرکے ان کے سروں سے فٹبال بھی کھیلا اور آرمی پبلک سکول پشاور کے ننھے منھے بچوں پر بھی کسی قسم کا رحم نہیں کیا۔
 
ہم جس نفسیات کے خود حامل ہیں، دوسروں کو بھی نفساتی طور پر اسی طرح دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہماری نفسیات کے مطابق ایران کو سخت انتقام کی خاطر امریکی اڈوں پر بارش کی طرح اندھا دھند میزائل برسانے چاہیے تھے اور امریکیوں کو خاک و خون میں غلطاں کر دینا چاہیئے تھا جبکہ ایرانیوں نے ہماری طرح نہیں سوچا، انہوں نے پہلے حملے کیلئے باقاعدہ طور پر امریکی اڈوں میں سے ایک اہم ترین اڈے کا انتخاب کیا، اس اڈے کی اہمیت ہم گذشتہ کالم میں بیان کرچکے ہیں، چنانچہ اس اتنے اہم اڈے میں سے بھی صرف جنگی اسلحے اور سازوسامان کے 15 مقامات کو منتخب کیا  گیا اور صرف پندرہ میزائل ہی داغے گئے۔ پہلے حملے میں انہوں نے اپنے منصوبے اور  نقشے کے مطابق کسی بھی انسانی ٹھکانے پر حملہ نہیں کیا۔ دراصل انسانی مراکز کو نشانہ بنانے کا آپشن امریکہ کی طرف سے جواب آنے کی صورت میں دوسرا آپشن تھا۔
 
ایرانیوں نے اپنے پہلے آپشن کے مطابق ٹھیک 15 مقامات پر حملہ کرتے ہوئے کم سے کم انسانی ہلاکتوں پر اکتفا کیا، لیکن جب امریکی اڈوں کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا تو دنیا کسی بڑے انسانی المیے اور مزید انسانی ہلاکتوں سے بچ گئی۔اگلے روز ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای اور امریکہ کے صدر ٹرمپ نے بھی جو تقریریں کیں، وہ دونوں تقریریں بھی ہماری نفسیات کے مطابق نہیں تھیں، یعنی ہمیں انتظار یہ تھا کہ یہ تقریریں دھمکی آمیز اور دھواں دار ہونگی، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ بہرحال عین الاسد پر ایرانی حملوں کے بعد چند سوال ضرور ابھرتے ہیں:۔
1۔ کیا امریکی اڈے پہلے سے الرٹ نہیں تھے؟
2۔ کیا امریکہ کے پاس جدید ترین ڈیفنس سسٹم نہیں؟
3۔ کیا ایران نے حملے سے پہلے سائبر اٹیک کے ذریعے امریکی ڈیفنس سسٹم کو جام کر دیا تھا؟
اگر امریکی پہلے سے الرٹ بھی تھے اور ان کے پاس جدید ترین ڈیفنس سسٹم بھی ہے اور ایرانیوں نے امریکیوں کے سسٹم کو جام بھی نہیں کیا تھا تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیوں امریکہ اس حملے کو روکنے میں ناکام رہا؟ حتی کہ ایک میزائل کو بھی ہدف تک پہنچنے سے نہیں روک سکا؟
 
یہ سوالات زبان زدعام تھے ہی کہ اسی دوران ایک اور بڑا حادثہ ہوگیا، ایران نے تہران سے پرواز بھرنے والے ایک مسافر طیارے کو خود ہی میزائل مار کر تباہ کر دیا۔ ایرانی حکام نے اس حوالے سے جو کچھ کہا، وہ سب اپنی جگہ درست ہے، لیکن یہی تین سوال ایک مرتبہ پھر ایران کے بارے میں بھی ابھر کر سامنے آتے ہیں:۔
1۔ کیا تہران ائیرپورٹ پہلے سے ہائی الرٹ نہیں تھا؟
2۔ کیا ایران کے پاس جدید ترین ڈیفنس سسٹم نہیں ہے؟
3۔ کیا امریکہ نے ایران کے ڈیفنس سسٹم پر سائبر اٹیک کرکے اسے مفلوج کر دیا تھا؟
تیسرا احتمال قطعاً قابلِ قبول نہیں، چونکہ ایران اور امریکہ میں سے کسی نے بھی دوسرے کے ڈیفنس سسٹم کو سائبر اٹیک سے جام نہیں کیا اور سرکاری طور پر دونوں طرف سے اس طرح کا کوئی دعویٰ بھی نہیں کیا گیا اور نہ ہی ایک دوسرے پر  ایسا کوئی الزام لگایا گیا ہے۔ باقی جہاں تک پہلے دو سوال ہیں، ان کا مختصر جواب یہی ہے کہ دونوں ممالک ہائی الرٹ تھے اور دونوں کے پاس اپنی اپنی بساط کے مطابق جدید ترین دفاعی نظام بھی موجود ہے۔
 
اگر دونوں کے پاس جدید ترین دفاعی نظام موجود ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ نے ایران کے حملے کو روکا کیوں نہیں؟ اور ایران نے اتنی بڑی غلطی کیسے کر دی کہ ایک مسافر طیارے کو مار گرایا!؟ اس کا فی الحال مختصر جواب یہی ہے کہ ٹیکنالوجی کی دنیا میں دو احتمال ہمیشہ رہتے ہیں، ایک یہ کہ عین موقع پر امریکہ کی طرح ٹیکنالوجی آپ کا ساتھ نہ دے اور دوسرے یہ کہ ایران کی طرح آپ کو پتہ بھی نہ چلے اور کوئی بے گناہ آپ کی  ٹیکنالوجی کی زد میں آجائے۔ ان دونوں واقعات سے اقوام عالم کو ایک درس یہ بھی ملتا ہے کہ اس کائنات میں ایک ذات اور ایک طاقت ایسی بھی ہے، جو ہر ٹیکنالوجی سے برتر ہے اور اس کے سامنے سب بے بس ہیں۔
اگلی قسط میں ہم اس پر بات کریں گے کہ ایران نے اس حملے سے کیا فوائد اور اہداف حاصل کئے نیز ایران اور امریکہ کے مابین تناو اور کشیدگی میں کمی کیوں نہیں آ رہی!؟


نظری برای این مطلب ثبت نشده است.

رائے

ارسال نظر برای این مطلب