رہبر معظم حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اپنی تقریر کا موضوع ایام اللہ کو قرار دیا اور شہید قاسم سلیمانی کی تشییع جنازہ اور امریکی فوجی اڈے عین الاسد پر سپاہ پاسداران انقلاب کے میزائل حملوں کی طرف اشارہ کیا۔
اسلامی نقطہ نگاہ سے سال کے تمام ایام برابر ہیں جو ذاتی طور پر نہ بابرکت ہیں اور نہ نحس؛ بنابراین برکت اور نحوست ان ایام میں پیش آنے والے واقعات کی بدولت وجود میں آتی ہے۔ اگرچہ قرآن کریم میں سال کے دو دن نحس اور تین دن بابرکت ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لیکن حقیقت میں یہ نحوست اور برکت ان واقعات کی بدولت ہے جو ان ایام میں پیش آئے ہیں؛ مثلا شب قدر اس رات پیش آنے والے اہم واقعات کی وجہ سے بابرکت قرار پائی ہے۔ بعض ایام بابرکت ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی سے منسوب ہیں اور ایام اللہ سے تعبیر کیا گیا ہے اسی لئے سال کے بافضیلت ترین دنوں میں شمار ہوتے ہیں۔
ایام اللہ کے معنی اللہ کے دن ہیں۔ ایام کو اللہ کی اضافہ اور نسبت دینا اس کی عظمت بیان کرنے کی خاطر ہے۔ قرآن کریم کی دو آیتوں میں یہ تعبیر آئی ہے۔ سورہ ابراہیم کی آیت 5 میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: وَ لَقَدْ أَرْسَلْنا مُوسى بِآیاتِنا أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَک مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ وَ ذَکرْهُمْ بِأَیامِ اللَّهِ إِنَّ فی ذلِک لَآیاتٍ لِکلِّ صَبَّارٍ شَکورٍ» اور البتہ تحقیق ہم نے موسی کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا تھا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال اور انہیں اللہ کے دن یاد دلا، بے شک اس میں ہر ایک صبر شکر کرنے والے کے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔
اور سورہ جاثیہ کی آیت 14 میں ارشاد ہوتا ہے: «قُلْ لِلَّذینَ آمَنُوا یغْفِرُوا لِلَّذینَ لا یرْجُونَ أَیامَ اللَّهِ لِیجْزِی قَوْماً بِما کانُوا یکسِبُون» ان سے کہہ دو جو ایمان لائے کہ انہیں معاف کردیں جو ایام الہی کی امید نہیں رکھتے تاکہ وہ ایک قوم کو بدلہ دے اس کا جو وہ کرتے رہے۔
مفسرین کے اقوال
ایام اللہ کے معنی کے بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں؛ عمومی طور پر تین اقوال میں ان کو جمع کرسکتے ہیں؛
1۔ مومن معاشرے اور اس کے رہنماوں پر اللہ کی نعمتیں مثلا حضرت موسی کی قوم کو فرعون کے چنگل سے نجات دی، حضرت نوح کی قوم کو نجات دی اور آتش نمرود سے حضرت ابراہیم کو بچالیا۔
2۔ کافر معاشروں پر نازل ہونے والے آسمانی عذاب اور سختیاں مثلا قوم عاد، ثمود اور سبأ وغیرہ پر آنے والے عذاب۔
3۔ نعمت یا عذاب کی صورت میں اس کائنات میں رائج سنت الہی
حضرت آیت اللہ خامنہ ای ایام اللہ کو نعمت اور عذاب سے تعبیر و تفسیر کرنے کے بجائے معتقد ہیں کہ ایام اللہ کے معنی میں اصلی عنصر قدرت الہی کا موثر اور نشان گر ہونا ہے لہذا ایام اللہ ان دنوں کو کہتے ہیں جب انسان روزمرہ واقعات میں خدا کی قدرت کا مشاہدہ کرے اسی لئے ایام اللہ دیگر دنوں سے مختلف ہوتے ہیں کیونکہ ان دنوں میں تاریخ مرتب ہوتی ہے اور تاریخ میں اس دن کو یاد رکھا جاتا ہے۔ بعض مفسرین اس نظرئیے کے قائل ہیں یعنی ایام اللہ سے مراد وہ دن ہے جب قدرت الہی انسانوں کے سامنے ظاہر ہوجائے یا مستقبل قریب میں ظاہر ہونے کے آثار نظر آئیں۔ ان ایام میں ظاہری اسباب و عوامل سب ناکارہ ہوجاتے ہیں اور تمام امور کی باگ ڈور خدا کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ ان دنوں میں اللہ کی قدرت اور طاقت کھل کر خود کو انسانوں کے سامنے پیش کرتی ہے۔ اس تفسیر کے مطابق ایام اللہ میں نعمت یا عذاب دونوں ممکن ہیں بلکہ اس قول میں تینوں اقوال کا مشترکہ نکتہ پیش کیا گیا ہے۔ بعض علماء کے مطابق جس دن اللہ کی مخصوص قدرت ظاہر ہوجائے ایام اللہ کہا جائے گا۔ جب بھی کامیابی یا کفار کی شکست کی صورت میں فیض الہی مومنین کو اپنی لپیٹ میں لے لے یوم اللہ ہے۔ اس تفسیر میں روایات کو بھی جمع کیا جاسکتا ہے کیونکہ ایام اللہ کے بارے میں مختلف روایات منقول ہیں؛
1۔ بعض روایات میں ایام اللہ کو خدا کی نعمت یا عذاب سے تعبیر کیا گیا ہے : «أَیامُ اللَّهِ نَعْمَاؤُهُ وَ بَلَاؤُهُ یعنی ایام اللہ نعمت الہی یا عذاب الہی ہیں
2۔ بعض روایات میں ایام اللہ کو حضرت امام زمان عجل اللہ فرجہ کے قیام اور باقی ائمہ علیہم السلام کی رجعت اور روز قیامت سے تعبیر کیا گیا ہے: «یَوْمَ یَقُومُ الْقَائِمُ وَ یَوْمَ الْکرَّةِ وَ یَوْمَ الْقِیامَةِ»۱۴
3۔ بعض روایات میں مرنے اور قیامت کو ایام اللہ کہا گیا ہے: «یَوْمُ الْقائِمِ وَ یَوْمُ الْمَوْتِ وَ یَوْمُ الْقِیامَة»۱۵
قدرت الہی سے ایام اللہ کی تفسیر سے ان تمام روایات کو جمع کیا جاسکتا ہے کیونکہ حضرت امام زمان علیہ السلام کے قیام، ائمہ علیہم السلام کی رجعت، روز قیامت یہ سارے امور قدرت الہی کی طرف اشارہ ہیں بنابر این بعض مفسرین ان روایات کے درمیان تضاد و تنافی کے منکر ہیں۔
2۔ ایام اللہ کے معنی میں توسیع
اس مرحلے پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ روایات میں مذکور موارد کے علاوہ دیگر موارد کو بھی ایام اللہ کہا جاسکتا ہے یا نہیں ؟
قرآنی تفسیر میں رائج ایک قاعدے کی روشنی میں اس سوال کا جواب مل جاتا ہے کیونکہ کسی آیت کی شان نزول اس آیت کو مخصوص نہیں کرتی ہے پس ایام اللہ ان روایات میں مذکورہ موارد میں منحصر نہیں ہیں بلکہ روایات میں مذکور موارد ایام اللہ کے کامل مصادیق ہیں کیونکہ ان ایام میں انسان قدرت الہی کو اس کی کامل ترین اور بہترین شکل میں مشاہدہ کرتا ہے۔ علاوہ براین بعض روایات میں ایام اللہ کے لئے کسی مخصوص مصداق کو بیان نہیں کیا گیا ہے بلکہ عمومی معنی بیان کیا گیا ہے چنانچہ بعض روایات میں ان دنوں سے تعبیر کیا گیا ہے جب انسان اللہ کی نعمت یا عذاب کو مشاہدہ کرے۔
بہرحال ماضی اور حال میں پیش آنے والا ہر وہ واقعہ جب قدرت الہی واضح طور پر دکھائی دے تو اس دن کو ایام اللہ کہا جائے گا۔ حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے عین الاسد پر میزائل حملوں کے دن کو بھی ایام اللہ میں سے قرار دیا اور فرمایا کہ آج دنیا میں ایسی قوم اور ملت کا ہونا جو دنیا کے بڑے متکبر اور مغرور ملک کا سر نیچا کردے، اللہ کی قدرت کی نشانی ہے پس یہ دن بھی ایام اللہ میں سے ہے۔
3۔ ایام اللہ کے اراکین
قرآنی آیات اور روایات کی روشنی میں ایام اللہ کے وجود میں آنے کے لئے تین عوامل اور ارکان درکار ہوتے ہیں؛ الف ۔ قدرت الہی ب۔ حکیم و مدبر رہبر ج۔ عوام کا میدان میں ہونا۔ ان تین عوامل کا ہونا ضروری ہے اگر ان میں سے کوئی ایک بھی کم ہوجائے تو ایام اللہ وجود میں نہیں آئیں گے۔
الف۔ قدرت الہی، چنانچہ بیان کیا کہ قدرت الہی ایام اللہ کا سب سے بنیادی عنصر ہے۔
ب۔ حکیم اور مدبر رہبر
ایام اللہ وجود میں آنے کے لئے ایک الہی رہبر کا وجود لازمی ہے۔ قرآن کریم میں قیادت کو قدرت الہی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چنانچہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے خطاب ہوا کہ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْیعنی معاشرے کو آگے کی سمت لے جانے والا رہبر حقیقت میں قدرت الہی اور خدائی ہاتھ ہے۔ یہ وہی ہاتھ ہے جب دشمن کی طرف تیر چلاتا ہے تو خدا اپنی طرف نسبت دیتا ہے: وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللّهَ رَمَىیعنی دشمن پر ضربت لگانے والا طاقت ور ہاتھ حقیقت میں خدا کا ہاتھ ہے۔
ج۔ عوام کا خلوص کے ساتھ میدان میں رہنا
ایام اللہ کے ضروری عناصر میں سے ایک عوام ہے۔ قرآنی آیات اور روایات سے یہ بات بخوبی واضح ہوتی ہے کیونکہ ایام اللہ کے مصادیق میں عوام نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ حضرت آیت اللہ خامنہ ای معتقد ہیں کہ جس روز کسی ملک یا قوم میں عوام کی مدد سے کوئی الہی اور دینی واقعہ رونما ہوجائے وہ ایام اللہ ہے۔ ایام اللہ میں اللہ کا جلوہ نمایاں ہوتا ہے۔ کبھی عوام کی نیت اور ہمت سے ایسا دن وجود میں آتا ہے یہ اس وقت ہوتا ہے جب عوام خلوص کے ساتھ میدان میں حاضر ہوجائیں۔
4۔ ایام اللہ رونما ہونے کا زمانہ
ایام اللہ اس وقت وجود میں آتے ہیں جب اسلامی معاشرہ دشمنوں کے مقابلے میں پوری کوشش اور استقامت کے ساتھ کھڑا ہو اور مشکلات کا سامنا کرے ایسے لمحات میں اللہ اپنی قدرت دکھاتا ہے اور مسلمانوں کی مشکلات حل کرتا ہے۔ کبھی عوام کی استقامت کے بدلے اللہ کی طرف سے نعمت کے طور پر ایام اللہ نصیب ہوجاتے ہیں۔ اہم اور بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ایام اللہ آرام اور راحت کے لمحات میں نہیں بلکہ مقابلہ اور استقامت کے بعد نصیب ہوتے ہیں یعنی ایام اللہ کو وجود میں لانے کے لئے مبارزہ اور مقابلہ کرنا ضروری ہے۔ حضرت امام خمینی رہ اور رہبر معظم سمیت مفسرین کے بیان کردہ ایام اللہ کے مصادیق سے اس نکتے کی وضاحت ہوجاتی ہے۔ ایام اللہ در حقیقت آیہ وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ اور إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ کی ایک تفسیر ہے یعنی قدرت الہی کا تحقق اور وجود میں آنا۔ اسی وجہ سے بعض حساس مواقع پر جب مومنین کا دشمنوں سے مقابلہ سخت ہوجائے تو تواتر کے ساتھ کئی ایام اللہ وجود میں آتے ہیں اور اللہ اپنی قدرت کو مسلسل ظاہر کرتا ہے۔ حضرت امام خمینی نے 17 شہریور، 26 دی، 12بہمن اور 22بہمن کو ایام اللہ قرار دیا تھا۔ 1357 کےان 27 دنوں میں انقلاب اسلامی کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ رہبر معظم دفاع مقدس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ان آٹھ سالوں میں سے ہر روز ایام اللہ شمار ہوگا اسی طرح دہہ فجر مخصوصا 22 بہمن ایام اللہ ہے جس سے ایرانی قوم کی تاریخی یادیں وابستہ ہیں درحقیقت ان دس دنوں میں ایرانی قوم میں جان آگئی۔ جب بڑی اور آخری کامیابی قریب ہو تو اللہ تعالی پے درپے ایام اللہ کو ظاہر کرتا ہے اور اپنی قدرت کے جلوے دکھاتا ہے۔
دوسرا حصہ: ذَكِّرْهُمْ کے مفاہیم کی شناخت
1۔ ذَكِّرْهُمْکی تفسیر: تفسیر کی نگاہ سے وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللّهِ کے معنی میں دو احتمالات ہیں؛
الف۔ ایام اللہ کی یاددہانی کرادو
ب۔ ایام اللہ کے ذریعے خدا، دین اور قیامت یاد دلاو۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای دونوں تفاسیر بیان کرتے ہیں لیکن ان کا نظریہ یہ ہے کہ دونوں تفسیروں کی بنیاد پر آیت کا تربیتی اور اجتماعی پیغام برابر ہے اگرچہ بیان ہونے والے مصادیق کے اعتبار سے دیکھا جائے تو دوسری تفسیر زیادہ مناسب لگتی ہے۔ اصولی طور پر قرآن کریم دینی مسائل کی یاددہانی کو زیادہ اہمیت دیتا ہے لہذا متعدد مرتبہ گذشتہ انبیاء کے حالات زندگی اور واقعات بیان کرنے کا حکم دیا ہے چنانچہ ان آیات سے اس حقیقت کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔: وَاذْکرْ فِی الکتَابِ مَرْیمَ، وَاذْکرْ فِی الکتَابِ إِبْرَاهِیمَ، وَاذْکرْ فِی الکتَابِ مُوسَی، وَ اذْکرْ فِی الْکتابِ إِسْماعیل، وَ اذکُر فِی الکِتابِ اِدریس. سورہ مریم میں بیان ہونے والے دستورات سے اس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان بزرگوں کے حالات زندگی کو بیان کرنے کا مقصد فقط تاریخ کا مطالعہ نہیں بلکہ ان کی یاد کو زندہ رکھنا اور ان کے نظریات اور افکار کو باقی رکھنا ہے۔ رہبر معظم ایام اللہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ان ایام میں پیش آنے والے واقعات فقط شیرین یادوں کی حد تک منحصر نہیں ہوتے بلکہ ہر سال ان کی یاد منانے سے انقلاب اسلامی کے ذخائر میں اضافہ ہوجاتا ہے اور انقلاب مزید مستحکم ہوتا ہے کیونکہ ان ایام میں انسانیت کی عظمت اور فداکاری کا بہترین مظاہرہ دیکھنے میں آیاتھا۔
2۔ ایام اللہ کو زندہ رکھنا اجتماعی ذمہ داری
جب کوئی دن ایام اللہ میں شامل ہوجائے تو معاشرے کی ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ سب سے پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ اس دن کو زندہ رکھے اور ہمیشہ منانے کی کوشش کرے۔ اس بات پر توجہ دی جائے کہ منافقین اور مستکبرین کے ساتھ مقابلے کا ایک میدان ایام اللہ کا تحفظ اور ان کو منانا ہے۔ قرآن کے حکم کے مطابق اسلامی معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ ایام اللہ کو منائے۔ دشمن چونکہ ان ایام پر ایمان نہیں رکھتے لہذا ان کو فراموش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اسی لئے اللہ نے مومنین کو ایام اللہ منانے کا حکم دیا ہے۔ مومنین ایام اللہ سے امید رکھتے ہیں اور اسی کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ کافروں کو ایام اللہ کی کوئی امید نہیں ہوتی : لا یرْجُونَ أَیامَ اللَّهِ در حقیقت ایام اللہ ان کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتے۔
3۔ ایام اللہ کے اثرات
ایام اللہ کومنانے اور ان کے تحفظ کے دو بنیادی اثرات ہیں؛
الف۔ فیصلہ سازی میں اصلاح: جس معاشرے میں ایام اللہ کو زندہ رکھا جاتا ہے اس میں فیصلوں اور قانون سازی کا نظام اس بات کی بنیاد پر ہوتا ہے کہ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ کوئی برتر اور مافوق قدرت ہے جو ان کاموں کو انجام دیتی ہے، اللہ کا ارادہ تمام ارادوں پر غالب ہے۔ یہ نظام اور نظریہ دشمنوں اور منافقین کے سسٹم سے مکمل مختلف ہے کیونکہ منافقین اور دشمن قدرت الہی سے مکمل غافل ہیں بلکہ اس پر ایمان بھی نہیں رکھتے لہذا مادی وسائل کو بنیاد بناکر ان واقعات کا تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں جس کے نتیجے میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ دشمن مختلف سازشوں اور پروپیگنڈوں کے ذریعے ایام اللہ کو فراموش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہماری قوت فیصلہ سازی کو کمزور کیا جائے اور ہمارے ذمہ دار افراد کو اس نکتے سے غافل کیا جائے۔ قدرت الہی سے توجہ ہٹانے کی وجہ سے ہمارے مسئولین عملی میدان میں ناامیدی اور تزلزل کا شکار ہوجاتے ہیں جوکہ دشمن کا بھی مقصد ہے۔ بعض غافل لوگ مادی امور کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرتے ہیں؛ ان کی زندگی میں معنویت ، غیبی مدد، اللہ پر توکل اور اللہ کے وعدوں پر اعتبار جیسے امور موجود نہیں ہیں۔ مادیات کی بنیاد پر فیصلے کرنے اور قانون سازی میں مستکبرین آپ سے زیادہ ماہر ہیں لیکن اس کے باوجود وہ کیوں آئے روز عقب ماندگی کا شکار ہورہے ہیں؟
ب۔ بہتر مستقبل کی امید: ایام اللہ قدرت الہی کے ذریعے وجود میں آتے ہیں بنابراین ایام اللہ کا وجود اسلامی معاشرے کو مستقبل سے ناامید ہونے نہیں دیتا ہے جس کے نتیجے میں مومنین کو یقین ہوتا ہے کہ اللہ کے ارادے سے ہمیں کامیابی نصیب ہوگی۔ اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ ملت اپنے راستے میں قائم رہے اور آخر میں کامیابی سے ہمکنار ہوجائے۔ اللہ تعالی غیبی اور نامرئی امور پر انسان کے ایمان کو مستحکم کرنے کے لئے نشانیاں ظاہر کرتا ہے ۔ جس طرح اللہ تعالی اس کی ذات اور قیامت پر ایمان لانے کے لئے اپنے اردگرد موجود خدا کی نشانیوں کی طرف توجہ کا حکم دیتا ہے اسی طرح قدرت الہی اور اس کے وعدے پر اعتبار کرنے کے لئے ایام اللہ کی طرف متوجہ کراتا ہے۔ ایام اللہ خدا کی نشانی اور راہنما ہیں تاکہ ہم خدا پر ایمان لے آئیں۔ یہ ایمان انسان کو استقامت اور کامیابی کے لئے مزید کوشش پر ابھارتا ہے۔ ایسی کوشش جس کے نتیجے میں اسی دنیا میں ہی کامیابی اور ایام اللہ کو مشاہدہ کرنے کا موقع ملتا ہے ۔ وہ کامیابی جدید اسلامی تمدن کی ایجاد اور حضر ت امام زمان علیہ السلام کی حکومت کا قیام ہے چنانچہ بعض روایات میں ایام اللہ کو ان کے قیام اور ائمہ علیہم السلام کی رجعت سے بھی تعبیر کیا گیا ہے جب مستضعفین کو مستکبرین پر کامیابی اور باطل پر حق کو غلبہ ملے گا۔
صباراور شکور کی مفہوم شناسی
یہ دونوں الفاظ تمدن سازی کے بنیادی مفاہیم ہیں جس کے بارے میں وضاحت کریں گے
1۔ صبار کا مفہوم اور اس میں پوشیدہ تربیتی نکات
یہ لفظ مجموعی طور پر قرآن میں 4 دفعہ آیا ہے اور تمام موارد میں شکور کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ ان تمام آیات میں «إِنَّ فی ذلِک لَآیاتٍ لِکلِّ صَبَّارٍ شَکورٍ» کی عبارت آئی ہے۔ ان آیات میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مفہوم قدرت الہی کے بارے میں ہے۔ ذَکِّرْهُمْ بِأَیامِ اللَّهِ إنَّ فی ذلِک لَآیاتٍ لِکلِّ صَبَّارٍ شَکورٍاور آیہ مَزَّقْناهُمْ کلَّ مُمَزَّقٍ إِنَّ فی ذلِک لَآیاتٍ لِکلِّ صَبَّارٍ شَکورٍیہ دونوں آیات قدرت الہی کی نمائش اور دشمن کی نابودی کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ لِیرِیکمْ مِنْ آیاتِهِ إِنَّ فی ذلِک لَآیاتٍ لِکلِّ صَبَّارٍ شَکورٍ اور فَیظْلَلْنَ رَواکدَ عَلى ظَهْرِهِ إِنَّ فی ذلِک لَآیاتٍ لِکلِّ صَبَّارٍ شَکور ان دونوں آیات میں کائنات اور جہان ہستی میں خدا کی قدرت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ان چار آیات کا مفہوم بیان کیا جائے تو یوں کہا جائے گا کہ صبار اور شکور معاشرہ وہ ہے جو کائنات کے نظم و نسق میں قدرت الہی کی نشانیاں مشاہدہ کرے اور اسی قدرت الہی پر ایمان اور عقیدہ رکھے۔ یہ دونوں الفاظ مبالغہ کے صیغے ہیں لہذا اسی کے مطابق ترجمہ کیا جانا چاہئے۔ اکثر مترجمین نے اس کا ترجمہ کرتے ہوئے زیادہ صبر کرنے والا یا صبر اختیار کرنے والا لکھا ہے۔ اس طرح کے ترجمے میں دو اشکالات ہیں؛ الف۔ فقط صبر سے ترجمہ کرنا مبالغہ کا معنی نہیں پہنچاتا ہے۔ ب۔ صبر کا ترجمہ شکیبائی نہیں بلکہ اس کا دقیق اور صحیح ترجمہ استقامت، پائیداری، استحکام اور مقاومت ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس طرح ترجمہ کیا ہے کہ صبار یعنی مکمل استقامت اور صبر والا اس طرح کہ معمولی چیزیں دیکھ کر میدان سے بھاگنے کے بجائے استقامت دکھائے۔ اس بناپر اس آیت کا تربیتی پیغام یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کو بعض حادثات اور واقعات کے دوران استقامت دکھانا چاہئے۔ جب دشمنوں کے ساتھ مقابلہ عروج پر پہنچ جائے تو استقامت کافی نہیں بلکہ صبر اور مکمل پائیداری دکھانے کی بھی ضرورت ہے۔ فرعونیوں سے جنگ کے لئے صبار ہونا چاہئے صابر ہونا کافی نہیں۔ صابر مشکلات میں میدان چھوڑدیتا ہے۔
2۔ شکور کی مفہوم شناسی اور تربیتی نکات
شکور بعض آیات میں تنہا استعمال ہوا ہے۔ یہ مبالغہ کا صیغہ ہے جو انتہائی شکرگزاری کا معنی دیتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ یہ لفظ انسان کے بارے میں استعمال ہوا ہے چنانچہ گذشتہ آیات میں اس کی جانب اشارہ کیا گیا۔ اسلامی معاشرے کے قائدین کے بارے میں بھی شکور کا لفظ استعمال کیا گیا ہے چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے: ذُرِّیةَ مَنْ حَمَلْنا مَعَ نُوحٍ إِنَّهُ کانَ عَبْداً شَکورا اللہ تعالی نے اپنی ذات کے لئے بھی شکور استعمال کیا ہے لِیوَفِّیهُمْ أُجُورَهُمْ وَ یزیدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ إِنَّهُ غَفُورٌ شَکورٌ؛ إِنْ تُقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً یضاعِفْهُ لَکمْ وَ یغْفِرْ لَکمْ وَ اللَّهُ شَکورٌ حَلیمٌ اور وَ مَنْ یقْتَرِفْ حَسَنَةً نَزِدْ لَهُ فیها حُسْناً إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ شَکورٌ
شکور کا انسان، رہبر اور اللہ تینوں کے لئے استعمال ہونا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اسلامی معاشرہ اپنی حد تک شکور ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا رہبر اور قائد بھی شکور اور اللہ کے شکور ہونے پر ایمان رکھتا ہو؛ لوگوں کو یقین ہونا چاہئے کہ ان زحمتوں، کوششوں اور استقامت کا نتیجہ ضرور ملے گا۔ دوسری بات یہ کہ شکور ہونا ایسی بنیادی صفت ہے جو اللہ تعالی، اسلامی معاشرے کے قائدین اور مومنین میں پائی جاتی ہے اور اسلامی معاشرے اور نظام پر اس کا خصوصی اثر ہوتا ہے۔ ایسا معاشرہ جس میں رہنے والے اور ان کے قائدین کا ایمان اس آیت میں بیان کیا گیا ہے: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذی أَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ إِنَّ رَبَّنا لَغَفُورٌ شَکورٌ
اللہ تعالی کا شکور ہونا در حقیقت اس سوال کا جواب ہے کہ جب شکور کی صفت سے آراستہ لوگ اللہ کا شکر ادا کرنے کے لئے مختلف زحمتوں اور سختیوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور دشمن کے سامنے استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو اس کا نتیجہ اور ثواب کیا ملے گا؟ اللہ تعالی جواب دیتا ہے کہ اگر اللہ کی نعمتوں کی قدر کرتے ہوئے شکر گزار رہوگے تو یقین کرلو میں زیادہ نعمت دوں گا کیونکہ میں بھی شکور ہوں۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ شکور ہونا اسلامی معاشرے کی بنیادی ترین صفت ہے لہذا قرآن میں کہا گیا ہے کہ انسانوں میں سے محدود افراد ہی اس صفت کے مالک ہیں: وَ قَلیلٌ مِنْ عِبادِی الشَّکورُ
3۔ صبار شکور کے تربیتی نکات کا خلاصہ
اسلامی معاشرے اور اس کے قائدین صبار اور شکور ہونے کی وجہ سے اللہ تعالی بھی اپنی قدرت کا جلوہ دکھاتا ہے اور ایام اللہ وجود میں آتے ہیں بنابراین ایام اللہ اسلامی معاشرے کے لئے اللہ تعالی کی عطا کردہ سب سے بڑی نعمت ہیں۔ قرآن کریم کا پیغام یہی ہے کہ اللہ کے نزدیک چند ایام ہیں جو تم کو عطا کئے جائیں گے۔ اگر شکر کرتے ہوئے اس کا صحیح معنوں میں استعمال کروگے تو مزید کامیابیاں تمہیں نصیب ہوں گی۔
ایام اللہ کے مصادیق اور نمونے
ان ایام کو ایام اللہ کی خصوصیات کے ساتھ منطبق اور موازنہ کیا گیا ہے یعنی انسان ایام اللہ کو پہچان سکتا ہے اور ان کا شکر بھی ادا کرسکتا ہے اس طرح اللہ کی طرف سے مزید امداد ہوگی اور مزید ایام اللہ معرض وجود میں آئیں گے۔ حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ان واقعات کو جو انقلاب اسلامی پر منتج ہوئے، ایام اللہ میں سے قرار دیا؛ مثلا حضرت امام خمینی کی گرفتاری کے موقع پر 15 خرداد 1342 کو ہونے والے عوامی مظاہرے، امام خمینی کے خلاف چھپنے والے توہین آمیز مقالے کے خلاف 19 دی 1356 کو عوامی مظاہرے، شاہی حکومت کے ہاتھوں شہید ہونے والوں کے چہلم کے موقع 29 دی 1356 کو تبریز میں عوام کا قیام، 17 شہریور 1357 کو شاہی حکومت کے ہاتھوں نہتے عوام کا قتل عام، 19 بہمن 1357 کو فضائیہ کے اہلکاروں کی طرف امام خمینی کی بیعت اور اس کے بعد عشرہ فجر جس میں انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا ؛ یہ سارے دن ایام اللہ میں شامل ہیں۔
رہبر انقلاب نے انقلاب اسلامی کے بعد پیش آنے والے بعض واقعات کو بھی واضح الفاظ میں ایام اللہ قرار دیا۔ 12 فروردین 1358 کو جب عوام نے 99 فیصد کی بھاری اکثریت کے ساتھ ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنے کے حق میں رائ دے دی؛ دفاع مقدس کے آٹھ سال، 13 آبان 1358 کو جاسوسی کے مرکز امریکی سفارت خانے پر طلباء کا قبضہ، انتخابات میں لوگوں کی اکثریت کی شرکت، 9 دی 1388 کو عوام کا تاریخی اجتماع ، شہید قاسم سلیمانی کی تشییع جنازہ میں دسیوں لاکھ عوام کی شرکت اور عراق میں قائم امریکی فوجی اڈے عین الاسد پر سپاہ پاسداران انقلاب کے میزائل حملے بھی ایام اللہ کاحصہ ہیں۔
اسلامی نقطہ نگاہ سے سال کے تمام ایام برابر ہیں جو ذاتی طور پر نہ بابرکت ہیں اور نہ نحس؛ بنابراین برکت اور نحوست ان ایام میں پیش آنے والے واقعات کی بدولت وجود میں آتی ہے۔ اگرچہ قرآن کریم میں سال کے دو دن نحس اور تین دن بابرکت ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لیکن حقیقت میں یہ نحوست اور برکت ان واقعات کی بدولت ہے جو ان ایام میں پیش آئے ہیں؛ مثلا شب قدر اس رات پیش آنے والے اہم واقعات کی وجہ سے بابرکت قرار پائی ہے۔ بعض ایام بابرکت ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی سے منسوب ہیں اور ایام اللہ سے تعبیر کیا گیا ہے اسی لئے سال کے بافضیلت ترین دنوں میں شمار ہوتے ہیں۔
ایام اللہ کے معنی اللہ کے دن ہیں۔ ایام کو اللہ کی اضافہ اور نسبت دینا اس کی عظمت بیان کرنے کی خاطر ہے۔ قرآن کریم کی دو آیتوں میں یہ تعبیر آئی ہے۔ سورہ ابراہیم کی آیت 5 میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: وَ لَقَدْ أَرْسَلْنا مُوسى بِآیاتِنا أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَک مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ وَ ذَکرْهُمْ بِأَیامِ اللَّهِ إِنَّ فی ذلِک لَآیاتٍ لِکلِّ صَبَّارٍ شَکورٍ» اور البتہ تحقیق ہم نے موسی کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا تھا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال اور انہیں اللہ کے دن یاد دلا، بے شک اس میں ہر ایک صبر شکر کرنے والے کے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔
اور سورہ جاثیہ کی آیت 14 میں ارشاد ہوتا ہے: «قُلْ لِلَّذینَ آمَنُوا یغْفِرُوا لِلَّذینَ لا یرْجُونَ أَیامَ اللَّهِ لِیجْزِی قَوْماً بِما کانُوا یکسِبُون» ان سے کہہ دو جو ایمان لائے کہ انہیں معاف کردیں جو ایام الہی کی امید نہیں رکھتے تاکہ وہ ایک قوم کو بدلہ دے اس کا جو وہ کرتے رہے۔
مفسرین کے اقوال
ایام اللہ کے معنی کے بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں؛ عمومی طور پر تین اقوال میں ان کو جمع کرسکتے ہیں؛
1۔ مومن معاشرے اور اس کے رہنماوں پر اللہ کی نعمتیں مثلا حضرت موسی کی قوم کو فرعون کے چنگل سے نجات دی، حضرت نوح کی قوم کو نجات دی اور آتش نمرود سے حضرت ابراہیم کو بچالیا۔
2۔ کافر معاشروں پر نازل ہونے والے آسمانی عذاب اور سختیاں مثلا قوم عاد، ثمود اور سبأ وغیرہ پر آنے والے عذاب۔
3۔ نعمت یا عذاب کی صورت میں اس کائنات میں رائج سنت الہی
حضرت آیت اللہ خامنہ ای ایام اللہ کو نعمت اور عذاب سے تعبیر و تفسیر کرنے کے بجائے معتقد ہیں کہ ایام اللہ کے معنی میں اصلی عنصر قدرت الہی کا موثر اور نشان گر ہونا ہے لہذا ایام اللہ ان دنوں کو کہتے ہیں جب انسان روزمرہ واقعات میں خدا کی قدرت کا مشاہدہ کرے اسی لئے ایام اللہ دیگر دنوں سے مختلف ہوتے ہیں کیونکہ ان دنوں میں تاریخ مرتب ہوتی ہے اور تاریخ میں اس دن کو یاد رکھا جاتا ہے۔ بعض مفسرین اس نظرئیے کے قائل ہیں یعنی ایام اللہ سے مراد وہ دن ہے جب قدرت الہی انسانوں کے سامنے ظاہر ہوجائے یا مستقبل قریب میں ظاہر ہونے کے آثار نظر آئیں۔ ان ایام میں ظاہری اسباب و عوامل سب ناکارہ ہوجاتے ہیں اور تمام امور کی باگ ڈور خدا کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ ان دنوں میں اللہ کی قدرت اور طاقت کھل کر خود کو انسانوں کے سامنے پیش کرتی ہے۔ اس تفسیر کے مطابق ایام اللہ میں نعمت یا عذاب دونوں ممکن ہیں بلکہ اس قول میں تینوں اقوال کا مشترکہ نکتہ پیش کیا گیا ہے۔ بعض علماء کے مطابق جس دن اللہ کی مخصوص قدرت ظاہر ہوجائے ایام اللہ کہا جائے گا۔ جب بھی کامیابی یا کفار کی شکست کی صورت میں فیض الہی مومنین کو اپنی لپیٹ میں لے لے یوم اللہ ہے۔ اس تفسیر میں روایات کو بھی جمع کیا جاسکتا ہے کیونکہ ایام اللہ کے بارے میں مختلف روایات منقول ہیں؛
1۔ بعض روایات میں ایام اللہ کو خدا کی نعمت یا عذاب سے تعبیر کیا گیا ہے : «أَیامُ اللَّهِ نَعْمَاؤُهُ وَ بَلَاؤُهُ یعنی ایام اللہ نعمت الہی یا عذاب الہی ہیں
2۔ بعض روایات میں ایام اللہ کو حضرت امام زمان عجل اللہ فرجہ کے قیام اور باقی ائمہ علیہم السلام کی رجعت اور روز قیامت سے تعبیر کیا گیا ہے: «یَوْمَ یَقُومُ الْقَائِمُ وَ یَوْمَ الْکرَّةِ وَ یَوْمَ الْقِیامَةِ»۱۴
3۔ بعض روایات میں مرنے اور قیامت کو ایام اللہ کہا گیا ہے: «یَوْمُ الْقائِمِ وَ یَوْمُ الْمَوْتِ وَ یَوْمُ الْقِیامَة»۱۵
قدرت الہی سے ایام اللہ کی تفسیر سے ان تمام روایات کو جمع کیا جاسکتا ہے کیونکہ حضرت امام زمان علیہ السلام کے قیام، ائمہ علیہم السلام کی رجعت، روز قیامت یہ سارے امور قدرت الہی کی طرف اشارہ ہیں بنابر این بعض مفسرین ان روایات کے درمیان تضاد و تنافی کے منکر ہیں۔
2۔ ایام اللہ کے معنی میں توسیع
اس مرحلے پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ روایات میں مذکور موارد کے علاوہ دیگر موارد کو بھی ایام اللہ کہا جاسکتا ہے یا نہیں ؟
قرآنی تفسیر میں رائج ایک قاعدے کی روشنی میں اس سوال کا جواب مل جاتا ہے کیونکہ کسی آیت کی شان نزول اس آیت کو مخصوص نہیں کرتی ہے پس ایام اللہ ان روایات میں مذکورہ موارد میں منحصر نہیں ہیں بلکہ روایات میں مذکور موارد ایام اللہ کے کامل مصادیق ہیں کیونکہ ان ایام میں انسان قدرت الہی کو اس کی کامل ترین اور بہترین شکل میں مشاہدہ کرتا ہے۔ علاوہ براین بعض روایات میں ایام اللہ کے لئے کسی مخصوص مصداق کو بیان نہیں کیا گیا ہے بلکہ عمومی معنی بیان کیا گیا ہے چنانچہ بعض روایات میں ان دنوں سے تعبیر کیا گیا ہے جب انسان اللہ کی نعمت یا عذاب کو مشاہدہ کرے۔
بہرحال ماضی اور حال میں پیش آنے والا ہر وہ واقعہ جب قدرت الہی واضح طور پر دکھائی دے تو اس دن کو ایام اللہ کہا جائے گا۔ حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے عین الاسد پر میزائل حملوں کے دن کو بھی ایام اللہ میں سے قرار دیا اور فرمایا کہ آج دنیا میں ایسی قوم اور ملت کا ہونا جو دنیا کے بڑے متکبر اور مغرور ملک کا سر نیچا کردے، اللہ کی قدرت کی نشانی ہے پس یہ دن بھی ایام اللہ میں سے ہے۔
3۔ ایام اللہ کے اراکین
قرآنی آیات اور روایات کی روشنی میں ایام اللہ کے وجود میں آنے کے لئے تین عوامل اور ارکان درکار ہوتے ہیں؛ الف ۔ قدرت الہی ب۔ حکیم و مدبر رہبر ج۔ عوام کا میدان میں ہونا۔ ان تین عوامل کا ہونا ضروری ہے اگر ان میں سے کوئی ایک بھی کم ہوجائے تو ایام اللہ وجود میں نہیں آئیں گے۔
الف۔ قدرت الہی، چنانچہ بیان کیا کہ قدرت الہی ایام اللہ کا سب سے بنیادی عنصر ہے۔
ب۔ حکیم اور مدبر رہبر
ایام اللہ وجود میں آنے کے لئے ایک الہی رہبر کا وجود لازمی ہے۔ قرآن کریم میں قیادت کو قدرت الہی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چنانچہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے خطاب ہوا کہ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْیعنی معاشرے کو آگے کی سمت لے جانے والا رہبر حقیقت میں قدرت الہی اور خدائی ہاتھ ہے۔ یہ وہی ہاتھ ہے جب دشمن کی طرف تیر چلاتا ہے تو خدا اپنی طرف نسبت دیتا ہے: وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللّهَ رَمَىیعنی دشمن پر ضربت لگانے والا طاقت ور ہاتھ حقیقت میں خدا کا ہاتھ ہے۔
ج۔ عوام کا خلوص کے ساتھ میدان میں رہنا
ایام اللہ کے ضروری عناصر میں سے ایک عوام ہے۔ قرآنی آیات اور روایات سے یہ بات بخوبی واضح ہوتی ہے کیونکہ ایام اللہ کے مصادیق میں عوام نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ حضرت آیت اللہ خامنہ ای معتقد ہیں کہ جس روز کسی ملک یا قوم میں عوام کی مدد سے کوئی الہی اور دینی واقعہ رونما ہوجائے وہ ایام اللہ ہے۔ ایام اللہ میں اللہ کا جلوہ نمایاں ہوتا ہے۔ کبھی عوام کی نیت اور ہمت سے ایسا دن وجود میں آتا ہے یہ اس وقت ہوتا ہے جب عوام خلوص کے ساتھ میدان میں حاضر ہوجائیں۔
4۔ ایام اللہ رونما ہونے کا زمانہ
ایام اللہ اس وقت وجود میں آتے ہیں جب اسلامی معاشرہ دشمنوں کے مقابلے میں پوری کوشش اور استقامت کے ساتھ کھڑا ہو اور مشکلات کا سامنا کرے ایسے لمحات میں اللہ اپنی قدرت دکھاتا ہے اور مسلمانوں کی مشکلات حل کرتا ہے۔ کبھی عوام کی استقامت کے بدلے اللہ کی طرف سے نعمت کے طور پر ایام اللہ نصیب ہوجاتے ہیں۔ اہم اور بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ایام اللہ آرام اور راحت کے لمحات میں نہیں بلکہ مقابلہ اور استقامت کے بعد نصیب ہوتے ہیں یعنی ایام اللہ کو وجود میں لانے کے لئے مبارزہ اور مقابلہ کرنا ضروری ہے۔ حضرت امام خمینی رہ اور رہبر معظم سمیت مفسرین کے بیان کردہ ایام اللہ کے مصادیق سے اس نکتے کی وضاحت ہوجاتی ہے۔ ایام اللہ در حقیقت آیہ وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ اور إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ کی ایک تفسیر ہے یعنی قدرت الہی کا تحقق اور وجود میں آنا۔ اسی وجہ سے بعض حساس مواقع پر جب مومنین کا دشمنوں سے مقابلہ سخت ہوجائے تو تواتر کے ساتھ کئی ایام اللہ وجود میں آتے ہیں اور اللہ اپنی قدرت کو مسلسل ظاہر کرتا ہے۔ حضرت امام خمینی نے 17 شہریور، 26 دی، 12بہمن اور 22بہمن کو ایام اللہ قرار دیا تھا۔ 1357 کےان 27 دنوں میں انقلاب اسلامی کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ رہبر معظم دفاع مقدس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ان آٹھ سالوں میں سے ہر روز ایام اللہ شمار ہوگا اسی طرح دہہ فجر مخصوصا 22 بہمن ایام اللہ ہے جس سے ایرانی قوم کی تاریخی یادیں وابستہ ہیں درحقیقت ان دس دنوں میں ایرانی قوم میں جان آگئی۔ جب بڑی اور آخری کامیابی قریب ہو تو اللہ تعالی پے درپے ایام اللہ کو ظاہر کرتا ہے اور اپنی قدرت کے جلوے دکھاتا ہے۔
دوسرا حصہ: ذَكِّرْهُمْ کے مفاہیم کی شناخت
1۔ ذَكِّرْهُمْکی تفسیر: تفسیر کی نگاہ سے وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللّهِ کے معنی میں دو احتمالات ہیں؛
الف۔ ایام اللہ کی یاددہانی کرادو
ب۔ ایام اللہ کے ذریعے خدا، دین اور قیامت یاد دلاو۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای دونوں تفاسیر بیان کرتے ہیں لیکن ان کا نظریہ یہ ہے کہ دونوں تفسیروں کی بنیاد پر آیت کا تربیتی اور اجتماعی پیغام برابر ہے اگرچہ بیان ہونے والے مصادیق کے اعتبار سے دیکھا جائے تو دوسری تفسیر زیادہ مناسب لگتی ہے۔ اصولی طور پر قرآن کریم دینی مسائل کی یاددہانی کو زیادہ اہمیت دیتا ہے لہذا متعدد مرتبہ گذشتہ انبیاء کے حالات زندگی اور واقعات بیان کرنے کا حکم دیا ہے چنانچہ ان آیات سے اس حقیقت کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔: وَاذْکرْ فِی الکتَابِ مَرْیمَ، وَاذْکرْ فِی الکتَابِ إِبْرَاهِیمَ، وَاذْکرْ فِی الکتَابِ مُوسَی، وَ اذْکرْ فِی الْکتابِ إِسْماعیل، وَ اذکُر فِی الکِتابِ اِدریس. سورہ مریم میں بیان ہونے والے دستورات سے اس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان بزرگوں کے حالات زندگی کو بیان کرنے کا مقصد فقط تاریخ کا مطالعہ نہیں بلکہ ان کی یاد کو زندہ رکھنا اور ان کے نظریات اور افکار کو باقی رکھنا ہے۔ رہبر معظم ایام اللہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ان ایام میں پیش آنے والے واقعات فقط شیرین یادوں کی حد تک منحصر نہیں ہوتے بلکہ ہر سال ان کی یاد منانے سے انقلاب اسلامی کے ذخائر میں اضافہ ہوجاتا ہے اور انقلاب مزید مستحکم ہوتا ہے کیونکہ ان ایام میں انسانیت کی عظمت اور فداکاری کا بہترین مظاہرہ دیکھنے میں آیاتھا۔
2۔ ایام اللہ کو زندہ رکھنا اجتماعی ذمہ داری
جب کوئی دن ایام اللہ میں شامل ہوجائے تو معاشرے کی ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ سب سے پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ اس دن کو زندہ رکھے اور ہمیشہ منانے کی کوشش کرے۔ اس بات پر توجہ دی جائے کہ منافقین اور مستکبرین کے ساتھ مقابلے کا ایک میدان ایام اللہ کا تحفظ اور ان کو منانا ہے۔ قرآن کے حکم کے مطابق اسلامی معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ ایام اللہ کو منائے۔ دشمن چونکہ ان ایام پر ایمان نہیں رکھتے لہذا ان کو فراموش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اسی لئے اللہ نے مومنین کو ایام اللہ منانے کا حکم دیا ہے۔ مومنین ایام اللہ سے امید رکھتے ہیں اور اسی کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ کافروں کو ایام اللہ کی کوئی امید نہیں ہوتی : لا یرْجُونَ أَیامَ اللَّهِ در حقیقت ایام اللہ ان کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتے۔
3۔ ایام اللہ کے اثرات
ایام اللہ کومنانے اور ان کے تحفظ کے دو بنیادی اثرات ہیں؛
الف۔ فیصلہ سازی میں اصلاح: جس معاشرے میں ایام اللہ کو زندہ رکھا جاتا ہے اس میں فیصلوں اور قانون سازی کا نظام اس بات کی بنیاد پر ہوتا ہے کہ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ کوئی برتر اور مافوق قدرت ہے جو ان کاموں کو انجام دیتی ہے، اللہ کا ارادہ تمام ارادوں پر غالب ہے۔ یہ نظام اور نظریہ دشمنوں اور منافقین کے سسٹم سے مکمل مختلف ہے کیونکہ منافقین اور دشمن قدرت الہی سے مکمل غافل ہیں بلکہ اس پر ایمان بھی نہیں رکھتے لہذا مادی وسائل کو بنیاد بناکر ان واقعات کا تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں جس کے نتیجے میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ دشمن مختلف سازشوں اور پروپیگنڈوں کے ذریعے ایام اللہ کو فراموش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہماری قوت فیصلہ سازی کو کمزور کیا جائے اور ہمارے ذمہ دار افراد کو اس نکتے سے غافل کیا جائے۔ قدرت الہی سے توجہ ہٹانے کی وجہ سے ہمارے مسئولین عملی میدان میں ناامیدی اور تزلزل کا شکار ہوجاتے ہیں جوکہ دشمن کا بھی مقصد ہے۔ بعض غافل لوگ مادی امور کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرتے ہیں؛ ان کی زندگی میں معنویت ، غیبی مدد، اللہ پر توکل اور اللہ کے وعدوں پر اعتبار جیسے امور موجود نہیں ہیں۔ مادیات کی بنیاد پر فیصلے کرنے اور قانون سازی میں مستکبرین آپ سے زیادہ ماہر ہیں لیکن اس کے باوجود وہ کیوں آئے روز عقب ماندگی کا شکار ہورہے ہیں؟
ب۔ بہتر مستقبل کی امید: ایام اللہ قدرت الہی کے ذریعے وجود میں آتے ہیں بنابراین ایام اللہ کا وجود اسلامی معاشرے کو مستقبل سے ناامید ہونے نہیں دیتا ہے جس کے نتیجے میں مومنین کو یقین ہوتا ہے کہ اللہ کے ارادے سے ہمیں کامیابی نصیب ہوگی۔ اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ ملت اپنے راستے میں قائم رہے اور آخر میں کامیابی سے ہمکنار ہوجائے۔ اللہ تعالی غیبی اور نامرئی امور پر انسان کے ایمان کو مستحکم کرنے کے لئے نشانیاں ظاہر کرتا ہے ۔ جس طرح اللہ تعالی اس کی ذات اور قیامت پر ایمان لانے کے لئے اپنے اردگرد موجود خدا کی نشانیوں کی طرف توجہ کا حکم دیتا ہے اسی طرح قدرت الہی اور اس کے وعدے پر اعتبار کرنے کے لئے ایام اللہ کی طرف متوجہ کراتا ہے۔ ایام اللہ خدا کی نشانی اور راہنما ہیں تاکہ ہم خدا پر ایمان لے آئیں۔ یہ ایمان انسان کو استقامت اور کامیابی کے لئے مزید کوشش پر ابھارتا ہے۔ ایسی کوشش جس کے نتیجے میں اسی دنیا میں ہی کامیابی اور ایام اللہ کو مشاہدہ کرنے کا موقع ملتا ہے ۔ وہ کامیابی جدید اسلامی تمدن کی ایجاد اور حضر ت امام زمان علیہ السلام کی حکومت کا قیام ہے چنانچہ بعض روایات میں ایام اللہ کو ان کے قیام اور ائمہ علیہم السلام کی رجعت سے بھی تعبیر کیا گیا ہے جب مستضعفین کو مستکبرین پر کامیابی اور باطل پر حق کو غلبہ ملے گا۔
صباراور شکور کی مفہوم شناسی
یہ دونوں الفاظ تمدن سازی کے بنیادی مفاہیم ہیں جس کے بارے میں وضاحت کریں گے
1۔ صبار کا مفہوم اور اس میں پوشیدہ تربیتی نکات
یہ لفظ مجموعی طور پر قرآن میں 4 دفعہ آیا ہے اور تمام موارد میں شکور کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ ان تمام آیات میں «إِنَّ فی ذلِک لَآیاتٍ لِکلِّ صَبَّارٍ شَکورٍ» کی عبارت آئی ہے۔ ان آیات میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مفہوم قدرت الہی کے بارے میں ہے۔ ذَکِّرْهُمْ بِأَیامِ اللَّهِ إنَّ فی ذلِک لَآیاتٍ لِکلِّ صَبَّارٍ شَکورٍاور آیہ مَزَّقْناهُمْ کلَّ مُمَزَّقٍ إِنَّ فی ذلِک لَآیاتٍ لِکلِّ صَبَّارٍ شَکورٍیہ دونوں آیات قدرت الہی کی نمائش اور دشمن کی نابودی کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ لِیرِیکمْ مِنْ آیاتِهِ إِنَّ فی ذلِک لَآیاتٍ لِکلِّ صَبَّارٍ شَکورٍ اور فَیظْلَلْنَ رَواکدَ عَلى ظَهْرِهِ إِنَّ فی ذلِک لَآیاتٍ لِکلِّ صَبَّارٍ شَکور ان دونوں آیات میں کائنات اور جہان ہستی میں خدا کی قدرت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ان چار آیات کا مفہوم بیان کیا جائے تو یوں کہا جائے گا کہ صبار اور شکور معاشرہ وہ ہے جو کائنات کے نظم و نسق میں قدرت الہی کی نشانیاں مشاہدہ کرے اور اسی قدرت الہی پر ایمان اور عقیدہ رکھے۔ یہ دونوں الفاظ مبالغہ کے صیغے ہیں لہذا اسی کے مطابق ترجمہ کیا جانا چاہئے۔ اکثر مترجمین نے اس کا ترجمہ کرتے ہوئے زیادہ صبر کرنے والا یا صبر اختیار کرنے والا لکھا ہے۔ اس طرح کے ترجمے میں دو اشکالات ہیں؛ الف۔ فقط صبر سے ترجمہ کرنا مبالغہ کا معنی نہیں پہنچاتا ہے۔ ب۔ صبر کا ترجمہ شکیبائی نہیں بلکہ اس کا دقیق اور صحیح ترجمہ استقامت، پائیداری، استحکام اور مقاومت ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس طرح ترجمہ کیا ہے کہ صبار یعنی مکمل استقامت اور صبر والا اس طرح کہ معمولی چیزیں دیکھ کر میدان سے بھاگنے کے بجائے استقامت دکھائے۔ اس بناپر اس آیت کا تربیتی پیغام یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کو بعض حادثات اور واقعات کے دوران استقامت دکھانا چاہئے۔ جب دشمنوں کے ساتھ مقابلہ عروج پر پہنچ جائے تو استقامت کافی نہیں بلکہ صبر اور مکمل پائیداری دکھانے کی بھی ضرورت ہے۔ فرعونیوں سے جنگ کے لئے صبار ہونا چاہئے صابر ہونا کافی نہیں۔ صابر مشکلات میں میدان چھوڑدیتا ہے۔
2۔ شکور کی مفہوم شناسی اور تربیتی نکات
شکور بعض آیات میں تنہا استعمال ہوا ہے۔ یہ مبالغہ کا صیغہ ہے جو انتہائی شکرگزاری کا معنی دیتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ یہ لفظ انسان کے بارے میں استعمال ہوا ہے چنانچہ گذشتہ آیات میں اس کی جانب اشارہ کیا گیا۔ اسلامی معاشرے کے قائدین کے بارے میں بھی شکور کا لفظ استعمال کیا گیا ہے چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے: ذُرِّیةَ مَنْ حَمَلْنا مَعَ نُوحٍ إِنَّهُ کانَ عَبْداً شَکورا اللہ تعالی نے اپنی ذات کے لئے بھی شکور استعمال کیا ہے لِیوَفِّیهُمْ أُجُورَهُمْ وَ یزیدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ إِنَّهُ غَفُورٌ شَکورٌ؛ إِنْ تُقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً یضاعِفْهُ لَکمْ وَ یغْفِرْ لَکمْ وَ اللَّهُ شَکورٌ حَلیمٌ اور وَ مَنْ یقْتَرِفْ حَسَنَةً نَزِدْ لَهُ فیها حُسْناً إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ شَکورٌ
شکور کا انسان، رہبر اور اللہ تینوں کے لئے استعمال ہونا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اسلامی معاشرہ اپنی حد تک شکور ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا رہبر اور قائد بھی شکور اور اللہ کے شکور ہونے پر ایمان رکھتا ہو؛ لوگوں کو یقین ہونا چاہئے کہ ان زحمتوں، کوششوں اور استقامت کا نتیجہ ضرور ملے گا۔ دوسری بات یہ کہ شکور ہونا ایسی بنیادی صفت ہے جو اللہ تعالی، اسلامی معاشرے کے قائدین اور مومنین میں پائی جاتی ہے اور اسلامی معاشرے اور نظام پر اس کا خصوصی اثر ہوتا ہے۔ ایسا معاشرہ جس میں رہنے والے اور ان کے قائدین کا ایمان اس آیت میں بیان کیا گیا ہے: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذی أَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ إِنَّ رَبَّنا لَغَفُورٌ شَکورٌ
اللہ تعالی کا شکور ہونا در حقیقت اس سوال کا جواب ہے کہ جب شکور کی صفت سے آراستہ لوگ اللہ کا شکر ادا کرنے کے لئے مختلف زحمتوں اور سختیوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور دشمن کے سامنے استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو اس کا نتیجہ اور ثواب کیا ملے گا؟ اللہ تعالی جواب دیتا ہے کہ اگر اللہ کی نعمتوں کی قدر کرتے ہوئے شکر گزار رہوگے تو یقین کرلو میں زیادہ نعمت دوں گا کیونکہ میں بھی شکور ہوں۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ شکور ہونا اسلامی معاشرے کی بنیادی ترین صفت ہے لہذا قرآن میں کہا گیا ہے کہ انسانوں میں سے محدود افراد ہی اس صفت کے مالک ہیں: وَ قَلیلٌ مِنْ عِبادِی الشَّکورُ
3۔ صبار شکور کے تربیتی نکات کا خلاصہ
اسلامی معاشرے اور اس کے قائدین صبار اور شکور ہونے کی وجہ سے اللہ تعالی بھی اپنی قدرت کا جلوہ دکھاتا ہے اور ایام اللہ وجود میں آتے ہیں بنابراین ایام اللہ اسلامی معاشرے کے لئے اللہ تعالی کی عطا کردہ سب سے بڑی نعمت ہیں۔ قرآن کریم کا پیغام یہی ہے کہ اللہ کے نزدیک چند ایام ہیں جو تم کو عطا کئے جائیں گے۔ اگر شکر کرتے ہوئے اس کا صحیح معنوں میں استعمال کروگے تو مزید کامیابیاں تمہیں نصیب ہوں گی۔
ایام اللہ کے مصادیق اور نمونے
ان ایام کو ایام اللہ کی خصوصیات کے ساتھ منطبق اور موازنہ کیا گیا ہے یعنی انسان ایام اللہ کو پہچان سکتا ہے اور ان کا شکر بھی ادا کرسکتا ہے اس طرح اللہ کی طرف سے مزید امداد ہوگی اور مزید ایام اللہ معرض وجود میں آئیں گے۔ حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ان واقعات کو جو انقلاب اسلامی پر منتج ہوئے، ایام اللہ میں سے قرار دیا؛ مثلا حضرت امام خمینی کی گرفتاری کے موقع پر 15 خرداد 1342 کو ہونے والے عوامی مظاہرے، امام خمینی کے خلاف چھپنے والے توہین آمیز مقالے کے خلاف 19 دی 1356 کو عوامی مظاہرے، شاہی حکومت کے ہاتھوں شہید ہونے والوں کے چہلم کے موقع 29 دی 1356 کو تبریز میں عوام کا قیام، 17 شہریور 1357 کو شاہی حکومت کے ہاتھوں نہتے عوام کا قتل عام، 19 بہمن 1357 کو فضائیہ کے اہلکاروں کی طرف امام خمینی کی بیعت اور اس کے بعد عشرہ فجر جس میں انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا ؛ یہ سارے دن ایام اللہ میں شامل ہیں۔
رہبر انقلاب نے انقلاب اسلامی کے بعد پیش آنے والے بعض واقعات کو بھی واضح الفاظ میں ایام اللہ قرار دیا۔ 12 فروردین 1358 کو جب عوام نے 99 فیصد کی بھاری اکثریت کے ساتھ ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنے کے حق میں رائ دے دی؛ دفاع مقدس کے آٹھ سال، 13 آبان 1358 کو جاسوسی کے مرکز امریکی سفارت خانے پر طلباء کا قبضہ، انتخابات میں لوگوں کی اکثریت کی شرکت، 9 دی 1388 کو عوام کا تاریخی اجتماع ، شہید قاسم سلیمانی کی تشییع جنازہ میں دسیوں لاکھ عوام کی شرکت اور عراق میں قائم امریکی فوجی اڈے عین الاسد پر سپاہ پاسداران انقلاب کے میزائل حملے بھی ایام اللہ کاحصہ ہیں۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب