وہ خدا کی راہ میں مرنے کیلئے کتنا بیتاب تھا، اس کا اندازہ لگانا ہر بندے کے بس کی بات نہیں، جن لوگوں کو شہید سردار سلیمانی کی زندگی کے چند گوشوں کا علم ہے اور اس کے اندر غیرت مند خون دوڑتا ہے، اسے ضرور احساس ہوسکتا ہے۔ ہاں اس کیلئے کربلا سے رشتہ ہونا بھی بے حد ضروری اور لازم ہے، اس لئے کہ کربلا کے تپتے صحرا میں نواسہء رسول حضرت امام حسین کے اصحاب باوفا کے بارے یہ کہا جاتا ہے کہ ان کو خدا سے ملاقات کیلئے اس قدر بے چینی تھی کہ ہر ایک دوسرے سے پہلے نواسہ رسولۖ کی معیت میں ان کی اطاعت میں اپنا خون بہانا چاہتا تھا۔ شب عاشور ان کی حالت کیا تھی؟ جب امام حسین نے اپنے خیمے میں اہم اجلاس طلب کیا، چراغ بجھا دیا اور بیعت کا بوجھ اتار دیا، اجازت عام دی کہ جو جانا چاہتا ہے چلا جائے، مگر تاریخ گواہ کہ ان اصحاب باوفا میں سے ایک بھی ادھر سے ادھر نہ ہوا، بلکہ سب نے کھڑے ہو کر باری باری اپنی کیفیت اور جذبات و احساسات کا اظہار کیا۔
سب یہی کہتے تھے کہ اگر ہم ہزار بار قتل کئے جائیں اور پھر زندہ کئے جائیں تو ہر بار آپ کی معیت میں اپنی جانوں کو فدا کریں گے۔ یہ تھے وہ لوگ جو اپنے مقام و منزل کو دیکھ چکے تھے، حق کی معرفت رکھتے تھے، اپنی قیادت و رہبری کی شناخت رکھتے تھے، کسی کنفیوژن کا شکار نہیں تھے۔ ان کی بے قراری اور بے چینی نیز ان کا تقویٰ اور شجاعت و ایثار گری ان کی معرفت کی نشاندہی کر رہے تھے۔ میرا ذاتی خیال بس یہی ہے کہ شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی مہندس اور ان کے رفقاء ایسے ہی تھے، بالخصوص سردار قاسم سلیمانی کا کردار اور تاریخی جدوجہد جو کئی ممالک اور کئی برسوں پر محیط ہے، جس کی کہانیاں اور واقعات کی گواہی کئی ممالک کی مٹی اور اس کے باسی دیتے رہینگے۔
شائد ان کی جدوجہد کی کہانیاں اور طلسماتی شخصیت، ہوش اڑا دینے والے واقعات، ششدر و حیران کر دینے والے قصے ہماری اگلی نسلوں تک منتقل ہوسکیں، مگر مجھے تو بس یہ لگتا ہے کہ شہید بے قرار تھے، جیسے کربلا والے اپنے امام کے ساتھ شہادت کیلئے بے چین تھے، ایسے ہی سردار قاسم سلیمانی جس کے تمام ساتھی ما سوائے چند ایک کے شہادت سے سرفراز ہوچکے تھے، جس نے نا جانے کتنوں کا صدمہ سہا، نا جانے کیسے کیسے جگری یار اور ہمراز رفیق اسلام حقیقی کے تحفظ و تبلیغ اور اطاعت رہبری کیلئے کھو دیئے، ان کی روح اس قدر بے چین تھی کہ وہ ہر محاذ پر پلک جھپکتے ہی پہنچ جاتے تھے، وہ ایک عرصہ سے جس کے متلاشی تھے، وہ مقام و منزلت پانے کیلئے جس قدر بے قرار اور مخلص تھے، اتنے ہی تند اور تیز بھاگ رہے تھے۔
دیکھیں کن حالات میں انہیں فزت و رب الکعبہ کا مقام ملا، کن حالات میں، کس سفر پہ، جب وہ اسی نئے سال میں بقول سید مقاومت نئے سال پہ وہ ان کے پاس تھے اور اب بھی جب عراق آرہے تھے تو شام سے آئے تھے، ان کی شہادت سے چند دن قبل ان کی تصاویر حرم معصومہ قم کی سامنے آئی تھیں، ایسا لگتا تھا کہ ان کے پاس اب وقت کم تھا اور کام زیادہ تھے۔ دشمن ہمیشہ ان کا متلاشی تھا، وہ کئی برسوں سے دشمن کی آنکھ کا کانٹا تھے، ہم تو صرف خبروں کی حد تک سنتے تھے کہ حاج قاسم سلیمانی عراق کے فلاں شہر میں فلاں محاذ پہ موجود ہیں، پھر پتہ چلتا تھا کہ ہاں وہ شام کے فلاں ایریا میں دیکھے گئے ہیں، کبھی ان کی اطلاع ملتی کہ وہ لبنان میں حزب اللہ کے پاس ہیں۔
ان کے بارے بہت سی افواہیں بھی پھیلائی جاتی تھیں اور پروپیگنڈا بھی کیا جاتا تھا، اسی پراپیگنڈا کا نتیجہ ہے کہ بہت سے بدبخت انہیں اینٹی پاکستان کے طور پہ دیکھ اور لکھ رہے ہیں، حالانکہ وہ پاکستان کا سب سے اہم مسئلہ دہشت گردی ختم کرنے کیلئے بھی بے چین اور فکر مند تھے، جس بندے نے نوے ممالک کے دہشت گردوں کو تین ممالک میں لگام دی ہو، اس کے سامنے واقعی چار پانچ ہزار دہشت گرد کیا حیثیت رکھتے ہونگے، یہی بات انہوں نے پاکستانی افواج اور عوام کو مخاطب کرتے ہوئے ایک تقریر میں کہی تھی کہ اگر ایک ملک کی فوج چاہے تو یہ کوئی بڑی تعداد نہیں کہ ان پر قابو نہیں پایا جا سکتا اور آئے روز ان مٹھی بھر دہشت گردوں کے ہاتھوں اپنے لوگوں کا بے گناہ خون بہتا ہے، اسے رکنا چاہیئے۔ ہم اس حوالے سے مل کر کام کرسکتے ہیں۔
شہید کی شہادت سے لیکر دفن کرنے تک، ان کی جاری ہونے والی ویڈیوز، خطابات اور محدودے چند واقعات جو نقل ہوئے ہیں، ان ہی کو دیکھ لیں اور ان پر ہی لکھیں تو کئی دفتر بنتے ہیں ہیں، بلکہ فقط ان کی شہادت اور دفن ہونے تک کے واقعات اور دنیا بھر میں ہونے والی تبدیلیوں نیز اس کے اثرات کو زیر بحث لایا جائے تو کتاب کا مواد بن جائے، آپ اور کچھ نا سوچیں فقط ان کا ایک کام ہی زیر بحث لے آئیں کہ جس عراق کے ساتھ انہوں نے آٹھ سال عملی جنگ لڑی، اسی مملکت کیلئے انہوں نے کتنی خدمات سرانجام دیں اور کس قدر اخلاص کیساتھ ان کے ساتھ کندھا ملایا بلکہ ان کو ہر خطرے میں پیچھے رکھا اور خود فرنٹ سنبھالا۔ کیا ان کو اپنے وہ قیمتی ترین باوفا ساتھی اور مخلصین خدا شہدائے مسلط کردہ جنگ بھول گئے تھے، ہرگز نہیں، وہ تو انہیں یاد کرکے ان ہی سے ملاقات کیلئے اپنی بے چینی اور بے قراری کے عالم میں کبھی عراق اور کبھی شام کے محاذوں پر پہنچتے تھے۔
میں اس دن بہت ہی خوش ہوا تھا، جب ان کی شہادت سے ایک دن قبل ہی بغداد میں قائم امریکی سفارت خانے پر عراقی مجاہدین نے یلغار کی تھی اور سفارت امریکہ کی دیواروں پر؛ قائدنا سلیمانی؛ کی چاکنگ کی تھی اور امام خمینی کا نعرہ امریکہ شیطان اکبر کی صدائیں بلند کی تھیں، کیا جوش تھا ہمارے اندر اور خوشی کا ایک سماں تھا، مگر کیا پتہ تھا کہ یہ عارضی خوشی ہے، ہم تو یہی سمجھے تھے کہ عراقی عوام نے اپنا حق ادا کر دیا، جن مزدوروں نے ایرانی قونصلیٹ کو کربلا اور نجف میں جلایا اور ایران کے خلاف نعرے بازی کی تھی، ان کو جواب مل گیا اور عراق کے کے حالات اب اس کے حقیقی وارثین کے ہاتھ میں آگئے ہیں، دشمن یعنی امریکہ اور سعودیہ ناکام ہوئے اور مزاحمت و مقاومت ایک بار پھر کامیاب ہوگئی۔ مگر اگلے ہی روز اس دل دہلا دینے والی خبر نے سکتہ طاری کر دیا۔
ہماری آنکھیں پھٹی رہ گئیں اور ہمیں سوچ و وہم میں بھی نا آنے والے تصور نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا، بس یہی دل سے دعا نکلتی رہی کہ اے کاش سردار محفوظ ہوں، مگر کہاں اس بار سردار کی سنی گئی تھی، وہ جو ہر ایک شہید کے گھر جا کر ان کے بچوں کو دلاسے دتے ہوئے اپنے لئے شہادت کی دعا کرواتا تھا، اس کی سنی گئی تھی، اب اسے سکون اور چین سے سونا تھا، اب اس کا انتظار کسی اور منزل پر ہو رہا تھا، وہ منزل جس کی تلاش میں انہیں برس ہا برس لگے تھے۔ سردار اپنے اصل مقام اور مکان کی طرف پرواز کر گئے اور ہم ہاتھ ملتے رہ گئے، مگر مجھے اس بات پہ فخر ہے کہ ہم نے دور خمینی دیکھا ہے، ہم نے دور خامنہ ای دیکھا ہے، ہم نے دور حسینی دیکھا ہے، ہم نے دور شہید ڈاکٹر نقوی دیکھا ہے اور سب سے بڑھ کے ہم نے دور سلیمانی دیکھا ہے۔
گویا ہم نے فاطمیون کو دیکھا ہے، ہم نے زینبیون کو دیکھا ہے، ہم نے خمینیون کو دیکھا ہے، ہم نے حیدریون کو دیکھا ہے، ہم نے چھ دن مسلسل سلیمانیون کو دیکھا ہے، ہم وہ خوش قسمت لوگ ہیں جنہوں نے ایک ایسا جنازہ دیکھا ہے، جسے شہادت سے لے کر دفن ہونے تک عوام کے سمندر نے مسلسل چھ دن تک خراج عقیدت پیش کیا ہے اور دنیا کے ہر فرد تک یہ پیغام دیا ہے کہ ایسے ہوتے ہیں کربلا والے، کربلا والوں کا یہ مقام ہوتا ہے، کربلا کے درس حریت و شہادت کو عملی جامہ پہنانے والے ایسے ہوتے ہیں اور عزت دینے والا اللہ ہے، جو چاہے تو ایک ذرے کو روشن اور چمکتا سورج بنا دے اور لوگوں کے دلوں میں کسی کی محبت اس قدر ڈال دے کہ دنیا حیران و ششدر رہ جائے۔
اس کی مثال اس سے قبل نہ ملتی ہو اور نہ ہی پھر دی جا سکے، کیا ایسا نہیں ہوا، ہماری آنکھوں نے دیکھا نہیں کہ انسانوں کا سمندر ان کے جنازے کے دیدار کیلئے مارا مارا پھر رہا تھا، دو ممالک اور ان میں موجود معصومین کے مزارات مقدس کا طواف اور سفر، اللہ اکبر۔ دنیا میں ایسا کوئی جنازہ نہیں ہوا۔ بقول شاعر
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا بخشید خدائے بخشیندہ
اور شہید محسن نقوی نے بھی کیا خوب کہا تھا، جیسے سردار شہید سلیمانی کیلئے ہی کہا گیا ہو
اک جنازہ اٹھا مقتل سے عجب شان کیساتھ
جیسے سج کر کسی فاتح کی سواری نکلے
سب یہی کہتے تھے کہ اگر ہم ہزار بار قتل کئے جائیں اور پھر زندہ کئے جائیں تو ہر بار آپ کی معیت میں اپنی جانوں کو فدا کریں گے۔ یہ تھے وہ لوگ جو اپنے مقام و منزل کو دیکھ چکے تھے، حق کی معرفت رکھتے تھے، اپنی قیادت و رہبری کی شناخت رکھتے تھے، کسی کنفیوژن کا شکار نہیں تھے۔ ان کی بے قراری اور بے چینی نیز ان کا تقویٰ اور شجاعت و ایثار گری ان کی معرفت کی نشاندہی کر رہے تھے۔ میرا ذاتی خیال بس یہی ہے کہ شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی مہندس اور ان کے رفقاء ایسے ہی تھے، بالخصوص سردار قاسم سلیمانی کا کردار اور تاریخی جدوجہد جو کئی ممالک اور کئی برسوں پر محیط ہے، جس کی کہانیاں اور واقعات کی گواہی کئی ممالک کی مٹی اور اس کے باسی دیتے رہینگے۔
شائد ان کی جدوجہد کی کہانیاں اور طلسماتی شخصیت، ہوش اڑا دینے والے واقعات، ششدر و حیران کر دینے والے قصے ہماری اگلی نسلوں تک منتقل ہوسکیں، مگر مجھے تو بس یہ لگتا ہے کہ شہید بے قرار تھے، جیسے کربلا والے اپنے امام کے ساتھ شہادت کیلئے بے چین تھے، ایسے ہی سردار قاسم سلیمانی جس کے تمام ساتھی ما سوائے چند ایک کے شہادت سے سرفراز ہوچکے تھے، جس نے نا جانے کتنوں کا صدمہ سہا، نا جانے کیسے کیسے جگری یار اور ہمراز رفیق اسلام حقیقی کے تحفظ و تبلیغ اور اطاعت رہبری کیلئے کھو دیئے، ان کی روح اس قدر بے چین تھی کہ وہ ہر محاذ پر پلک جھپکتے ہی پہنچ جاتے تھے، وہ ایک عرصہ سے جس کے متلاشی تھے، وہ مقام و منزلت پانے کیلئے جس قدر بے قرار اور مخلص تھے، اتنے ہی تند اور تیز بھاگ رہے تھے۔
دیکھیں کن حالات میں انہیں فزت و رب الکعبہ کا مقام ملا، کن حالات میں، کس سفر پہ، جب وہ اسی نئے سال میں بقول سید مقاومت نئے سال پہ وہ ان کے پاس تھے اور اب بھی جب عراق آرہے تھے تو شام سے آئے تھے، ان کی شہادت سے چند دن قبل ان کی تصاویر حرم معصومہ قم کی سامنے آئی تھیں، ایسا لگتا تھا کہ ان کے پاس اب وقت کم تھا اور کام زیادہ تھے۔ دشمن ہمیشہ ان کا متلاشی تھا، وہ کئی برسوں سے دشمن کی آنکھ کا کانٹا تھے، ہم تو صرف خبروں کی حد تک سنتے تھے کہ حاج قاسم سلیمانی عراق کے فلاں شہر میں فلاں محاذ پہ موجود ہیں، پھر پتہ چلتا تھا کہ ہاں وہ شام کے فلاں ایریا میں دیکھے گئے ہیں، کبھی ان کی اطلاع ملتی کہ وہ لبنان میں حزب اللہ کے پاس ہیں۔
ان کے بارے بہت سی افواہیں بھی پھیلائی جاتی تھیں اور پروپیگنڈا بھی کیا جاتا تھا، اسی پراپیگنڈا کا نتیجہ ہے کہ بہت سے بدبخت انہیں اینٹی پاکستان کے طور پہ دیکھ اور لکھ رہے ہیں، حالانکہ وہ پاکستان کا سب سے اہم مسئلہ دہشت گردی ختم کرنے کیلئے بھی بے چین اور فکر مند تھے، جس بندے نے نوے ممالک کے دہشت گردوں کو تین ممالک میں لگام دی ہو، اس کے سامنے واقعی چار پانچ ہزار دہشت گرد کیا حیثیت رکھتے ہونگے، یہی بات انہوں نے پاکستانی افواج اور عوام کو مخاطب کرتے ہوئے ایک تقریر میں کہی تھی کہ اگر ایک ملک کی فوج چاہے تو یہ کوئی بڑی تعداد نہیں کہ ان پر قابو نہیں پایا جا سکتا اور آئے روز ان مٹھی بھر دہشت گردوں کے ہاتھوں اپنے لوگوں کا بے گناہ خون بہتا ہے، اسے رکنا چاہیئے۔ ہم اس حوالے سے مل کر کام کرسکتے ہیں۔
شہید کی شہادت سے لیکر دفن کرنے تک، ان کی جاری ہونے والی ویڈیوز، خطابات اور محدودے چند واقعات جو نقل ہوئے ہیں، ان ہی کو دیکھ لیں اور ان پر ہی لکھیں تو کئی دفتر بنتے ہیں ہیں، بلکہ فقط ان کی شہادت اور دفن ہونے تک کے واقعات اور دنیا بھر میں ہونے والی تبدیلیوں نیز اس کے اثرات کو زیر بحث لایا جائے تو کتاب کا مواد بن جائے، آپ اور کچھ نا سوچیں فقط ان کا ایک کام ہی زیر بحث لے آئیں کہ جس عراق کے ساتھ انہوں نے آٹھ سال عملی جنگ لڑی، اسی مملکت کیلئے انہوں نے کتنی خدمات سرانجام دیں اور کس قدر اخلاص کیساتھ ان کے ساتھ کندھا ملایا بلکہ ان کو ہر خطرے میں پیچھے رکھا اور خود فرنٹ سنبھالا۔ کیا ان کو اپنے وہ قیمتی ترین باوفا ساتھی اور مخلصین خدا شہدائے مسلط کردہ جنگ بھول گئے تھے، ہرگز نہیں، وہ تو انہیں یاد کرکے ان ہی سے ملاقات کیلئے اپنی بے چینی اور بے قراری کے عالم میں کبھی عراق اور کبھی شام کے محاذوں پر پہنچتے تھے۔
میں اس دن بہت ہی خوش ہوا تھا، جب ان کی شہادت سے ایک دن قبل ہی بغداد میں قائم امریکی سفارت خانے پر عراقی مجاہدین نے یلغار کی تھی اور سفارت امریکہ کی دیواروں پر؛ قائدنا سلیمانی؛ کی چاکنگ کی تھی اور امام خمینی کا نعرہ امریکہ شیطان اکبر کی صدائیں بلند کی تھیں، کیا جوش تھا ہمارے اندر اور خوشی کا ایک سماں تھا، مگر کیا پتہ تھا کہ یہ عارضی خوشی ہے، ہم تو یہی سمجھے تھے کہ عراقی عوام نے اپنا حق ادا کر دیا، جن مزدوروں نے ایرانی قونصلیٹ کو کربلا اور نجف میں جلایا اور ایران کے خلاف نعرے بازی کی تھی، ان کو جواب مل گیا اور عراق کے کے حالات اب اس کے حقیقی وارثین کے ہاتھ میں آگئے ہیں، دشمن یعنی امریکہ اور سعودیہ ناکام ہوئے اور مزاحمت و مقاومت ایک بار پھر کامیاب ہوگئی۔ مگر اگلے ہی روز اس دل دہلا دینے والی خبر نے سکتہ طاری کر دیا۔
ہماری آنکھیں پھٹی رہ گئیں اور ہمیں سوچ و وہم میں بھی نا آنے والے تصور نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا، بس یہی دل سے دعا نکلتی رہی کہ اے کاش سردار محفوظ ہوں، مگر کہاں اس بار سردار کی سنی گئی تھی، وہ جو ہر ایک شہید کے گھر جا کر ان کے بچوں کو دلاسے دتے ہوئے اپنے لئے شہادت کی دعا کرواتا تھا، اس کی سنی گئی تھی، اب اسے سکون اور چین سے سونا تھا، اب اس کا انتظار کسی اور منزل پر ہو رہا تھا، وہ منزل جس کی تلاش میں انہیں برس ہا برس لگے تھے۔ سردار اپنے اصل مقام اور مکان کی طرف پرواز کر گئے اور ہم ہاتھ ملتے رہ گئے، مگر مجھے اس بات پہ فخر ہے کہ ہم نے دور خمینی دیکھا ہے، ہم نے دور خامنہ ای دیکھا ہے، ہم نے دور حسینی دیکھا ہے، ہم نے دور شہید ڈاکٹر نقوی دیکھا ہے اور سب سے بڑھ کے ہم نے دور سلیمانی دیکھا ہے۔
گویا ہم نے فاطمیون کو دیکھا ہے، ہم نے زینبیون کو دیکھا ہے، ہم نے خمینیون کو دیکھا ہے، ہم نے حیدریون کو دیکھا ہے، ہم نے چھ دن مسلسل سلیمانیون کو دیکھا ہے، ہم وہ خوش قسمت لوگ ہیں جنہوں نے ایک ایسا جنازہ دیکھا ہے، جسے شہادت سے لے کر دفن ہونے تک عوام کے سمندر نے مسلسل چھ دن تک خراج عقیدت پیش کیا ہے اور دنیا کے ہر فرد تک یہ پیغام دیا ہے کہ ایسے ہوتے ہیں کربلا والے، کربلا والوں کا یہ مقام ہوتا ہے، کربلا کے درس حریت و شہادت کو عملی جامہ پہنانے والے ایسے ہوتے ہیں اور عزت دینے والا اللہ ہے، جو چاہے تو ایک ذرے کو روشن اور چمکتا سورج بنا دے اور لوگوں کے دلوں میں کسی کی محبت اس قدر ڈال دے کہ دنیا حیران و ششدر رہ جائے۔
اس کی مثال اس سے قبل نہ ملتی ہو اور نہ ہی پھر دی جا سکے، کیا ایسا نہیں ہوا، ہماری آنکھوں نے دیکھا نہیں کہ انسانوں کا سمندر ان کے جنازے کے دیدار کیلئے مارا مارا پھر رہا تھا، دو ممالک اور ان میں موجود معصومین کے مزارات مقدس کا طواف اور سفر، اللہ اکبر۔ دنیا میں ایسا کوئی جنازہ نہیں ہوا۔ بقول شاعر
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا بخشید خدائے بخشیندہ
اور شہید محسن نقوی نے بھی کیا خوب کہا تھا، جیسے سردار شہید سلیمانی کیلئے ہی کہا گیا ہو
اک جنازہ اٹھا مقتل سے عجب شان کیساتھ
جیسے سج کر کسی فاتح کی سواری نکلے
رائے
ارسال نظر برای این مطلب