جنرل قاسم سلیمانی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم کے مطابق 3 جنوری 2020 کی صبح بغداد ایئر پورٹ کے قریب ڈرون حملے میں شہید کر دئے گئے۔ اس امریکی اقدام کے بعد سیاسی مبصرین اور امریکی ممتاز شخصیات نے اس کے منفی نتائج کے بارے میں واشنگٹن کو متنبہ کیا ہے۔
سی ان ان کے مطابق، امریکی ایوان نمائندگان کی انٹلیجنس کمیٹی کے چیئرمین ایڈم شیف نے قاسم سلیمانی کے قتل کے نتائج کے بارے میں کہا ہے کہ “میں اس ایرانی جنرل کے قتل سے پریشان ہوں اور اس کارروائی سے امریکی اور ایرانی افواج کے مابین کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔ شیف نے اس سے قبل امریکہ کے ذریعہ سردار سلیمانی کی شہادت کے ردعمل پرکہا تھا: امریکی عوام ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے۔ انہوں نے یہ بھی ٹویٹ کیا: “کانگریس جنگ کی اجازت نہیں دیتی ہے اور امریکی عوام ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے ہیں۔” ہماری افواج کو کشیدگی اور بڑھتے ہوئے خطرات سے بچانے کے لئے اب تمام اقدامات اٹھانا ضروری ہیں۔[1]
نیو یارک ٹائمز کے مطابق جو بائیڈن نے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد کہا: “امریکہ کو سلیمانی کے قتل کی وجہ سے ایرانی فوج کی کارروائی کے نتائج کا انتظار کرنا چاہئے ، اگرچہ حکومت کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس کارروائی کا مقصد ایران کی جانب سے مزید اقدامات کو روکنا تھا۔ لیکن اس عمل کا نتیجہ یقیناً برعکس ہوگا۔۔۔ ٹرمپ کو سفارت خانے کے فوجیوں اور عملے، اپنے عوام اور اندرون و بیروبن ملک اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے حکمت عملی اور منصوبے کے سلسلہ میں جواب دہ ہونا پڑے گا۔
اس سلسلہ میں نیویارک یونیورسٹی میں صحافت کے پروفیسر پیٹر بنارٹ نے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے نتائج کا ذکرکرتے ہوئے لکھا ہے: ٹرمپ نے جنرل سلیمانی کا قتل کر کے ایران کے ساتھ جنگ کا آغاز کیا ہے اب جسے وہ نہ ہی ختم کر پائے گا اور نہ ہی اس میں کامیاب ہو پائے گا۔
سی ان ان کے مطابق، امریکی ایوان نمائندگان کی انٹلیجنس کمیٹی کے چیئرمین ایڈم شیف نے قاسم سلیمانی کے قتل کے نتائج کے بارے میں کہا ہے کہ “میں اس ایرانی جنرل کے قتل سے پریشان ہوں اور اس کارروائی سے امریکی اور ایرانی افواج کے مابین کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔ شیف نے اس سے قبل امریکہ کے ذریعہ سردار سلیمانی کی شہادت کے ردعمل پرکہا تھا: امریکی عوام ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے۔ انہوں نے یہ بھی ٹویٹ کیا: “کانگریس جنگ کی اجازت نہیں دیتی ہے اور امریکی عوام ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے ہیں۔” ہماری افواج کو کشیدگی اور بڑھتے ہوئے خطرات سے بچانے کے لئے اب تمام اقدامات اٹھانا ضروری ہیں۔[1]
نیو یارک ٹائمز کے مطابق جو بائیڈن نے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد کہا: “امریکہ کو سلیمانی کے قتل کی وجہ سے ایرانی فوج کی کارروائی کے نتائج کا انتظار کرنا چاہئے ، اگرچہ حکومت کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس کارروائی کا مقصد ایران کی جانب سے مزید اقدامات کو روکنا تھا۔ لیکن اس عمل کا نتیجہ یقیناً برعکس ہوگا۔۔۔ ٹرمپ کو سفارت خانے کے فوجیوں اور عملے، اپنے عوام اور اندرون و بیروبن ملک اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے حکمت عملی اور منصوبے کے سلسلہ میں جواب دہ ہونا پڑے گا۔
اس سلسلہ میں نیویارک یونیورسٹی میں صحافت کے پروفیسر پیٹر بنارٹ نے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے نتائج کا ذکرکرتے ہوئے لکھا ہے: ٹرمپ نے جنرل سلیمانی کا قتل کر کے ایران کے ساتھ جنگ کا آغاز کیا ہے اب جسے وہ نہ ہی ختم کر پائے گا اور نہ ہی اس میں کامیاب ہو پائے گا۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب