حاج قاسم سلیمانی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کبھی بھی فوجی وردی کیوں نہیں پہنی؟
امریکہ کا دہشت گردانہ قدم اور جنرل سلیمانی کی شہادت ، تاریخ کا ایک اہم موڑ شمار ہوتا ہے۔
“باشگاہ خبر نگاران جوان “کے سیاسی گروپ کے سیکورٹی ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق، اس سال ماہ دی کی ۱۳ویں تاریخ بروز جمعہ کا واقعہ ہے کہ لفٹیننٹ جنرل شہید قاسم سلیمانی، حشد الشعبی کے نائب سربراہ شہید ابو مہدی المہندس ، شہید سلیمانی کے دفتر کے سربراہ کمانڈرپورجعفری، شہید وحید زمانی نیا ، شہید ہادی طارمی اور حشد الشعبی کی تقریبات کے سربراہ شہید رضا الجابری ، بغداد ایئرپورٹ کے قریب امریکی فوجیوں کے ڈرون حملہ کے نتیجہ میں، اپنے ساتھیوں سمیت شہید ہو گئے۔
بے شک، شہید قاسم سلیمانی مشرق وسطیٰ کے سب سے طاقتور شخص تھے، پوری دنیا کو ان کے تاثرات کے بارے میں یقیناً قدم اٹھانا چاہئے( یعنی ان کے کارناموں کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے)۔ امریکہ کا دہشت گردانہ قدم اور جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت مشرق وسطیٰ کی تاریخ کا ایک اہم موڑ شمار ہوتا ہے۔حاج قاسم ہمارے لئے ایک قومی ہیرو اور عالم اسلام کے لئے ایک افسانے کا کردار انجام دے رہے ہیں، کوئی معاملہ بھی اتنے جذبے کے ساتھ مختلف رجحانات رکھنے والی ایرانی قوم کے درمیان اتحاد پیدا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ سب کے لئے یہ بات واضح ہے کہ یہ دہشت گردانہ قدم اور حاج قاسم کی شہادت، نہ صرف ایرانی حکومت کے جواز پر منفی اثرڈال رہی ہے بلکہ ملکی سطح پر اسلامی جمہوریہ کی بنیادوں کو تقویت بخشتی ہے اورعالمی سطح پر بھی اس نظام کو مزید استحکام مل رہا ہے۔
جنرل قاسم سلیمانی کے قتل میں سرکاری طور پربین الاقوامی قانون کی خلاف کرتے ہوئے ایران اور اس کے پڑوسی ممالک کے حقوق کی پامالی ہوئی ہے۔ اس حرکت سے دنیا ماضی کی نسبت تیزی سے یہ مان رہی ہے کہ امریکہ اس خطے میں رہنے کا اہل نہیں ہے۔ہمارے وزیرخارجہ محمد جواد ظریف کے مطابق، ایک ایسا ملک جو ” بےلگام غنڈہ گردی”کا شکار ہے۔
امریکی طرز کی غنڈہ گردی نے جمعہ کی صبح کو اپنے آپ کو پہلے سے کہیں زیادہ ظاہر کیا ، اور وہی لوگ جو انسداد دہشت گردی کے دعوے کر رہے تھے، انہوں نے تحفظات اور ہمیشگی دکھاوے کو بھی نظر انداز کر کے اپنی اصلیت کو ظاہر کر دیا، انہوں نے حکومتی قتل کیا۔ اب واشنگٹن یہ کہنے سے دریغ نہیں کر سکتا کہ ایران کے بہادر جنرل حاج قاسم سلیمانی پر حملہ کا حکم خود امریکی جواباز صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جاری کیا تھا، وہ جوا باز صدر جو بظاہر سیاست کی طرح جوابازی کو بھی اچی طرح نہیں جانتا ہے کہ اگر وہ جانتا ہوتا تو ایسے جوئے میں شرط نہ باندھتا ، جس کے انجام کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ نابودی اورہارکے سوا کچھ نہیں ہے۔
وہ مزاحمتی محاذ کی ایک بہت ہی ممتاز شخصیت اور دفاع مقدس کی یادگاروں میں ایک یادگارتھے۔ جب میڈیا پر ان کی شہادت کی خبرکا اعلان کیا گیا تو شائد بہت سے لوگوں کو اس وقت یقین نہیں ہورہا تھا کہ ایسا واقعہ رونما ہوا ہے۔وہ مزاحمت کے علمبردار اور خاص طور پر شجرۂ خبیثہ ملعونہ داعش کے خلاف جنگ میں مزاحمتی محاذ کی نمایاں شخصیت تھے۔ یہ عظیم شہید پوری دنیا میں مزاحمتی محاذ تشکیل دینے میں کامیاب رہا اور اسی وجہ سے امریکہ ، صیہونی حکومت اور تمام کفّار جنرل سلیمانی کے مخالف ہیں۔
دفاع مقدس میں لشکرِ۴۱ثاراللہ (بریگیڈ) کے کمانڈر، لبنان کی ۳۳ روزہ جنگ میں تنظیم ِ حزب اللہ کے منتظم اور سپاہ پاسداران کی قدس فورس کے کمانڈر، داعش اور جبہۃ النصرۃ اور ان کے آلہ کاروں کے ڈراؤنے خواب کو آج امریکی حکومت کی دہشت گردی کا نشانہ بنایاگیا ہے۔لفٹیننٹ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت پر ردّعمل کہ جو بہت سے لوگوں کے لئے جنگ کے سالوں کے دوران کے “حاج قاسم” تھے، چار دہائیوں کی مسلسل جدوجہد کے بعد ۶۳ سال کی عمر میں، ایک فوجی شخصیت کی غیر معمولی مقبولیت کی علامت ہے۔
ہمارے ملک کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے بھی ان کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ جنرل سلیمانی ایک انتہائی مضبوط فوجی شخصیت ہونے کے علاوہ ایک سیاسی شخصیت اور سفارت کار بھی تھے۔ اس طرح سے کہ ہمار ے ملک کے وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ جنرل شہید سلیمانی کی روس کے ساتھ ایک بہت ہی کامیاب سفارت کاری تھی اور اس شعبے میں ہمارا قریبی تعاون تھا، اور ایسا کوئی سفر نہیں ہوتا تھا کہ میں ماسکو جاؤں اور اس سے پہلے جنرل سلیمانی سے ہم آہنگی نہ کروں۔حتی شام کے حامی گروہوں کے مذاکرات میں بھی جب میں جنیوا ، برسلز یا آستانہ جاتا تھا تو میں ہمیشہ جنرل کے ساتھ قریبی مشورہ کرتا تھا اور بین الاقوامی اسباب سے استفادہ کی کیفیت پر تبادلۂ خیال ہوتا تھا۔
دشمنوں کو جنرل سلیمانی کی شخصیت سے بہت رنجش تھی اور اس چیز پر توجہ لازمی ہے کہ شہید سلیمانی اور شہید ابو مہدی المہندس کی کاروں پر حملہ ایک بزدلانہ قدم تھا جو امریکی صدر ٹرمپ جیسے بزدلانہ اور ڈرپوک شخص نے ہی کیا تھا۔ اگرچہ وہ سرکاری طور پر شام اور عراقی حکومتوں کی طرف سے داعش سے لڑنے کے لئے ان ممالک میں جایا کرتے تھے ، لیکن وہ ان علاقوں میں کبھی بھی فوجی وردی میں نظر نہیں آتے تھے، جس کا دونقطہ ٔ نظر سے جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ پہلا نقطہ نظر یہ ہے کہ مزاحمتی محاذ پر جنرل سلیمانی کی مسلسل رفت و آمد اورشام، لبنان اور عراق جیسے ممالک کے ساتھ ہمارے ملک کے وسیع تعلقات کی وجہ سے وہ فوجی وردی نہیں پہنتے تھے لہذا عیش و آرام و دکھاوے جیسی چیزیں نہیں تھیں۔
دوسری طرف سے حکومتی سطح پرہمارے گہرے تعلقات ہیں اور مزاحمتی علاقے سے وابستہ ممالک ہم سے مشاورتی مدد کی درخواست کرتے تھے اوراس میدان میں جنرل قاسم سلیمانی سے زیادہ اہم اور بااثر شخصیت نہیں پائی جاتی تھی۔ وہ ایک بہت ہی مشہور شخصیت کے حامل تھے لہذا انہیں فوجی وردی پہننے کی ضرورت نہیں تھی اور سب انہیں پہچانتے تھے۔
جنرل سلیمانی نے اپنی پوری زندگی، خاص طورپر آخری چند سالوں میں جن میں تکفیری اور انتہاپسند گروہ وجود میں آئے، ان گروہوں کے ساتھ میدان جنگ میں خاکی کپڑے پہننا، ان کی اپنی شخصیت اور خلوصِ نیت اور اسی طرح ان کے خدائی ارادوں کی علامت ہونے کے علاوہ اس چیز کی علامت ہے کہ جنرل سلیمانی بین الاقوامی تعلقات کے بارے میں اچھی سوچ کے حامل تھے اور وہ سفارت کاری سے بھی آشنا تھے۔
اسی وجہ سے وہ ان ممالک میں اپنی موجودگی سے اپنے مشن کو دو طریقوں یعنی سرکاری دعوت ناموں اور ان کو تفویض کردہ کاموں کی بنیاد پر انجام دیتے تھے۔اس کے علاوہ جنرل سلیمانی کی طرف سے فوجی وردی نہ پہننا یعنی داعش اور خطے میں اس طرح کے دوسرے نیابتی دہشت گرد گروہ ایک دشمن کی حد تک نہیں تھے کہ جن کے لئے حاج قاسم فوجی وردی پہنتے۔
ہمارے ملک کے عوام اور مزاحمتی محاذ بھی ان کے بارے میں یہی رائے رکھتے تھےاور وہ خطرے کو دور کرنے اور داعش اور دیگر تکفیری گروہوں کے فتنے کو مٹانے پر ان کا شکریہ ادا کرتے تھے اور جب بھی وہ ان کے درمیان جاتے تو وہ ان کے اردگرد حلقہ بنا لیتے اور وہ بھی پورے جذبے و محبت سے ان کے ساتھ باتیں کیا کرتے تھے۔
جنرل سلیمانی متعدد پہلوؤں کی شخصیت کے حامل تھےاس کے علاوہ وہ بہت مخلص تھے یہاں تک مدافع حرم کے شہیدوں کے اہل خانہ اپنے پیاروں کی شہادت کے بعد جنرل سلیمانی کو اپنے باپ کی حیثیت سے مانتے تھے اور گویا وہ ان کے داغ فرقت یعنی دنیا کو الوداع کہنے سے اپنے باپ کو دوبارہ کھو بیٹھے ہیں۔ مدافع حرم کے شہیدوں کی اولادیں کہ جن کے دلوں میں ایران کے دیگر بچوں سے زیادہ شہید قاسم سلیمانی کی یادیں ہیں اور جنہوں نے ان کا بہت محبت و پیار محسوس کیا ہے، وہ آنکھوں میں آنسو ں اور دلوں پر داغ لئے ہوئے اس فراق کو برداشت کر رہے ہیں۔
جب ہم ان ملاقاتوں کی ویڈیوز اور تصویریں دیکھتے ہیں تو باپ جیسے اس رابطہ کی گہرائی محسوس ہوتی ہے۔ مندرجہ ذیل ویڈیو ان ملاقاتوں میں سے ایک کی وضاحت کر رہی ہے۔
میڈیا کے مالکوں سے بھی ان کا اچھا رویہ اور باپ جیسا سلوک تھا اور وہ ہمیشہ انہیں اپنے بچوں کی طرح چاہتے تھے ۔ماہ آبان ۱۳۹۶ھ، شمسی میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر لفٹیننٹ جنرل قاسم سلیمانی کے والد کی تقریبِ ختم قرآن میں حاضر ہونے والے فوٹوگرافروں میں ایک علی غفاری بھی تھے ، اور اس تقریب میں شہید سلیمانی نے ان سے کہا تھا کہ فوٹوگرافروں سے کہو کہ حاج قاسم کہہ رہے ہیں کہ اس تقریب میں آپ کی شرکت پر شکر گزار ہوں۔ مہربانی کرو اپنے ساتھیوں سے کہوکہ میں ایران کے باقی لوگوں کی طرح ایک شخص ہوں ، بہت سارے فوٹو گرافر یہاں آئے ہیں اور زحمتیں اٹھا رہے ہیں جس سے مجھے شرمندگی محسوس ہو رہی ہے۔
یہ ان کے اخلاق اوران کی مہربان شخصیت کا ایک پہلو تھا لیکن ایک اور پہلو جسے تمام ماہرین تسلیم کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ ایک باصلاحیت و ذہین فوجی تھے جیسا کہ امریکی سی بی ایس چینل کے ماہر ان کی شخصیت کے تجزئے میں لکھتے ہیں کہ جنرل سلیمانی کے بہت سے دشمنوں نے اعتراف کیا ہے کہ وہ ایک ذہین فوجی تھے۔
حاج قاسم کی موجودگی اور بوکمال جیسے علاقوں میں آزادی کی کاروائیوں کے منصوبوں کے لئے ان کا وجود بہت اہم تھا اور ان کی موجودگی کے بغیر ایسا کرنا ناممکن اور غیرممکن تھا اور بہت سے ماہرین کا عقیدہ ہے کہ ان کی موجودگی کے بغیر یہ کام بالکل ہی ناممکن تھا۔
جنرل حاج قاسم سلیمانی رہبرانقلاب کی پیروی کرنے میں بھی منتخب افراد میں شامل تھے اس طرح کہ انہوں نے کئی بار کہا تھا کہ مجھے مختلف فوجی القاب سے نہ پکاریں بلکہ یہ کہیں کہ حاج قاسم ولایت کا سپاہی تھا اور اس پر وہ فخر کرتے تھے، رہبر انقلاب ان سے بہت خوش تھے اور آخری مرتبہ انہوں نے انہیں نشانِ ذوالفقار نامی فوجی میڈل سے نوازا جو ملک کا سب سے سے بڑا فوجی نشان ہے۔
مسلح افواج کے سپریم کمانڈرنے انقلاب کے آغاز سے ہی مختلف شخصیات کی نماز جنازہ پڑھائی، لیکن ہمیں شائد ہی کوئی ایسی نماز یاد آئے کہ وہ اس شخص کے غم میں نماز میں روئے ہوں جیسا کہ تہران میں حاج قاسم کی تشییع جناز کے دن ان کی نماز جنازہ کی ادئگی کے دوران ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور یہ جملہ کہتے ہوئے ” اللھمّ انّا لا نعلم منھم الّا خیراً”( اے خدا ہم نے اچھائی کے سوا ان سے کچھ نہیں دیکھا) بہت روئے۔ ان کا صبر ٹوٹنے سے لوگوں کا صبر بھی ٹوٹ گیا اور وہ بھی رونے لگ گئے۔
بے شک جنرل حاج قاسم سلیمانی ایران کی تاریخ کی ایک مشہور اور معزز شخصیت رہیں گے اور اس سرزمین کی تاریخ میں ہمیشہ باقی رہیں گے، وہ ہمیشہ ہمارے لئے حاج قاسم رہیں گے۔
اعتماد نامی اخبار نے موقع کو غنیمت شمار کرتے ہوئے لکھا کہ مغربی ،ایران کو امریکہ مخالف کہتے ہیں لیکن اگر آپ دنیا کی حقیقت پر نگاہ ڈالیں تو آپ مشاہدہ کریں گے کہ یہ امریکہ ہی ہے جو ایران کے خلاف لڑتا ہے، متعلقہ اور غیرمتعلقہ طورپر ایران اور ایرانیوں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے ، بعض اوقات غیر معمولی اخراجات کا سبب بنتا ہے۔کہتے ہیں کہ ماضی کی یاد بھلا دینی چاہئے اور مسلسل ایک دکھ بھری تاریخ کے بارے میں بات نہیں کرنی چاہئے،ان کا کہنا ہے کہ ۲۶مرداد کو جو کچھ بھی ہوا اسے بھول جانا چاہئے ہمیں مسلسل گزرے ہوئے وقت کو یاد نہیں کرنا چاہئے ، مصدق اوران کی حکومت کو یاد کر کے مقدمہ دائر نہیں کرنا چاہئے جو امریکی منصوبوں اور پیسوں سے گرا دی گئی تھی۔کہتے ہیں کہ ماضی میں جو کچھ بھی ہوا اسے یاد میں نہ لائیں اور دشمنی چھوڑ دیں ۔ امریکہ کے حامی ذرائع ابلاغ کے ذرائع اتنے وسیع ہیں کہ امریکہ کے خلاف ایران کے مقدمہ کو امریکہ کے خلاف لڑائی تصور کرتے ہیں جس نے مسافربھرے طیارے کو مار گرایا اور بے گناہ افراد کو ہلاک کر دیا۔کہتے ہیں کہ ایک چیز تھی جو ماضی میں گزر گئی اور ہرسال اس زخم کو کھولنے اور لوگوں کے دلوں کے داغ تازہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، امریکہ نے عراق اور افغانستان پر حملہ کیا اور دونوں ممالک کو سرکاری طور پر بلیک میل کر دیا تشدد، جنگ اور قتل و غارت میں ایران نے بھی بہت سی مشکلات برداشت کی ہیں۔
امریکہ کا دہشت گردانہ قدم اور جنرل سلیمانی کی شہادت ، تاریخ کا ایک اہم موڑ شمار ہوتا ہے۔
“باشگاہ خبر نگاران جوان “کے سیاسی گروپ کے سیکورٹی ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق، اس سال ماہ دی کی ۱۳ویں تاریخ بروز جمعہ کا واقعہ ہے کہ لفٹیننٹ جنرل شہید قاسم سلیمانی، حشد الشعبی کے نائب سربراہ شہید ابو مہدی المہندس ، شہید سلیمانی کے دفتر کے سربراہ کمانڈرپورجعفری، شہید وحید زمانی نیا ، شہید ہادی طارمی اور حشد الشعبی کی تقریبات کے سربراہ شہید رضا الجابری ، بغداد ایئرپورٹ کے قریب امریکی فوجیوں کے ڈرون حملہ کے نتیجہ میں، اپنے ساتھیوں سمیت شہید ہو گئے۔
بے شک، شہید قاسم سلیمانی مشرق وسطیٰ کے سب سے طاقتور شخص تھے، پوری دنیا کو ان کے تاثرات کے بارے میں یقیناً قدم اٹھانا چاہئے( یعنی ان کے کارناموں کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے)۔ امریکہ کا دہشت گردانہ قدم اور جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت مشرق وسطیٰ کی تاریخ کا ایک اہم موڑ شمار ہوتا ہے۔حاج قاسم ہمارے لئے ایک قومی ہیرو اور عالم اسلام کے لئے ایک افسانے کا کردار انجام دے رہے ہیں، کوئی معاملہ بھی اتنے جذبے کے ساتھ مختلف رجحانات رکھنے والی ایرانی قوم کے درمیان اتحاد پیدا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ سب کے لئے یہ بات واضح ہے کہ یہ دہشت گردانہ قدم اور حاج قاسم کی شہادت، نہ صرف ایرانی حکومت کے جواز پر منفی اثرڈال رہی ہے بلکہ ملکی سطح پر اسلامی جمہوریہ کی بنیادوں کو تقویت بخشتی ہے اورعالمی سطح پر بھی اس نظام کو مزید استحکام مل رہا ہے۔
جنرل قاسم سلیمانی کے قتل میں سرکاری طور پربین الاقوامی قانون کی خلاف کرتے ہوئے ایران اور اس کے پڑوسی ممالک کے حقوق کی پامالی ہوئی ہے۔ اس حرکت سے دنیا ماضی کی نسبت تیزی سے یہ مان رہی ہے کہ امریکہ اس خطے میں رہنے کا اہل نہیں ہے۔ہمارے وزیرخارجہ محمد جواد ظریف کے مطابق، ایک ایسا ملک جو ” بےلگام غنڈہ گردی”کا شکار ہے۔
امریکی طرز کی غنڈہ گردی نے جمعہ کی صبح کو اپنے آپ کو پہلے سے کہیں زیادہ ظاہر کیا ، اور وہی لوگ جو انسداد دہشت گردی کے دعوے کر رہے تھے، انہوں نے تحفظات اور ہمیشگی دکھاوے کو بھی نظر انداز کر کے اپنی اصلیت کو ظاہر کر دیا، انہوں نے حکومتی قتل کیا۔ اب واشنگٹن یہ کہنے سے دریغ نہیں کر سکتا کہ ایران کے بہادر جنرل حاج قاسم سلیمانی پر حملہ کا حکم خود امریکی جواباز صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جاری کیا تھا، وہ جوا باز صدر جو بظاہر سیاست کی طرح جوابازی کو بھی اچی طرح نہیں جانتا ہے کہ اگر وہ جانتا ہوتا تو ایسے جوئے میں شرط نہ باندھتا ، جس کے انجام کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ نابودی اورہارکے سوا کچھ نہیں ہے۔
وہ مزاحمتی محاذ کی ایک بہت ہی ممتاز شخصیت اور دفاع مقدس کی یادگاروں میں ایک یادگارتھے۔ جب میڈیا پر ان کی شہادت کی خبرکا اعلان کیا گیا تو شائد بہت سے لوگوں کو اس وقت یقین نہیں ہورہا تھا کہ ایسا واقعہ رونما ہوا ہے۔وہ مزاحمت کے علمبردار اور خاص طور پر شجرۂ خبیثہ ملعونہ داعش کے خلاف جنگ میں مزاحمتی محاذ کی نمایاں شخصیت تھے۔ یہ عظیم شہید پوری دنیا میں مزاحمتی محاذ تشکیل دینے میں کامیاب رہا اور اسی وجہ سے امریکہ ، صیہونی حکومت اور تمام کفّار جنرل سلیمانی کے مخالف ہیں۔
دفاع مقدس میں لشکرِ۴۱ثاراللہ (بریگیڈ) کے کمانڈر، لبنان کی ۳۳ روزہ جنگ میں تنظیم ِ حزب اللہ کے منتظم اور سپاہ پاسداران کی قدس فورس کے کمانڈر، داعش اور جبہۃ النصرۃ اور ان کے آلہ کاروں کے ڈراؤنے خواب کو آج امریکی حکومت کی دہشت گردی کا نشانہ بنایاگیا ہے۔لفٹیننٹ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت پر ردّعمل کہ جو بہت سے لوگوں کے لئے جنگ کے سالوں کے دوران کے “حاج قاسم” تھے، چار دہائیوں کی مسلسل جدوجہد کے بعد ۶۳ سال کی عمر میں، ایک فوجی شخصیت کی غیر معمولی مقبولیت کی علامت ہے۔
ہمارے ملک کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے بھی ان کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ جنرل سلیمانی ایک انتہائی مضبوط فوجی شخصیت ہونے کے علاوہ ایک سیاسی شخصیت اور سفارت کار بھی تھے۔ اس طرح سے کہ ہمار ے ملک کے وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ جنرل شہید سلیمانی کی روس کے ساتھ ایک بہت ہی کامیاب سفارت کاری تھی اور اس شعبے میں ہمارا قریبی تعاون تھا، اور ایسا کوئی سفر نہیں ہوتا تھا کہ میں ماسکو جاؤں اور اس سے پہلے جنرل سلیمانی سے ہم آہنگی نہ کروں۔حتی شام کے حامی گروہوں کے مذاکرات میں بھی جب میں جنیوا ، برسلز یا آستانہ جاتا تھا تو میں ہمیشہ جنرل کے ساتھ قریبی مشورہ کرتا تھا اور بین الاقوامی اسباب سے استفادہ کی کیفیت پر تبادلۂ خیال ہوتا تھا۔
دشمنوں کو جنرل سلیمانی کی شخصیت سے بہت رنجش تھی اور اس چیز پر توجہ لازمی ہے کہ شہید سلیمانی اور شہید ابو مہدی المہندس کی کاروں پر حملہ ایک بزدلانہ قدم تھا جو امریکی صدر ٹرمپ جیسے بزدلانہ اور ڈرپوک شخص نے ہی کیا تھا۔ اگرچہ وہ سرکاری طور پر شام اور عراقی حکومتوں کی طرف سے داعش سے لڑنے کے لئے ان ممالک میں جایا کرتے تھے ، لیکن وہ ان علاقوں میں کبھی بھی فوجی وردی میں نظر نہیں آتے تھے، جس کا دونقطہ ٔ نظر سے جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ پہلا نقطہ نظر یہ ہے کہ مزاحمتی محاذ پر جنرل سلیمانی کی مسلسل رفت و آمد اورشام، لبنان اور عراق جیسے ممالک کے ساتھ ہمارے ملک کے وسیع تعلقات کی وجہ سے وہ فوجی وردی نہیں پہنتے تھے لہذا عیش و آرام و دکھاوے جیسی چیزیں نہیں تھیں۔
دوسری طرف سے حکومتی سطح پرہمارے گہرے تعلقات ہیں اور مزاحمتی علاقے سے وابستہ ممالک ہم سے مشاورتی مدد کی درخواست کرتے تھے اوراس میدان میں جنرل قاسم سلیمانی سے زیادہ اہم اور بااثر شخصیت نہیں پائی جاتی تھی۔ وہ ایک بہت ہی مشہور شخصیت کے حامل تھے لہذا انہیں فوجی وردی پہننے کی ضرورت نہیں تھی اور سب انہیں پہچانتے تھے۔
جنرل سلیمانی نے اپنی پوری زندگی، خاص طورپر آخری چند سالوں میں جن میں تکفیری اور انتہاپسند گروہ وجود میں آئے، ان گروہوں کے ساتھ میدان جنگ میں خاکی کپڑے پہننا، ان کی اپنی شخصیت اور خلوصِ نیت اور اسی طرح ان کے خدائی ارادوں کی علامت ہونے کے علاوہ اس چیز کی علامت ہے کہ جنرل سلیمانی بین الاقوامی تعلقات کے بارے میں اچھی سوچ کے حامل تھے اور وہ سفارت کاری سے بھی آشنا تھے۔
اسی وجہ سے وہ ان ممالک میں اپنی موجودگی سے اپنے مشن کو دو طریقوں یعنی سرکاری دعوت ناموں اور ان کو تفویض کردہ کاموں کی بنیاد پر انجام دیتے تھے۔اس کے علاوہ جنرل سلیمانی کی طرف سے فوجی وردی نہ پہننا یعنی داعش اور خطے میں اس طرح کے دوسرے نیابتی دہشت گرد گروہ ایک دشمن کی حد تک نہیں تھے کہ جن کے لئے حاج قاسم فوجی وردی پہنتے۔
ہمارے ملک کے عوام اور مزاحمتی محاذ بھی ان کے بارے میں یہی رائے رکھتے تھےاور وہ خطرے کو دور کرنے اور داعش اور دیگر تکفیری گروہوں کے فتنے کو مٹانے پر ان کا شکریہ ادا کرتے تھے اور جب بھی وہ ان کے درمیان جاتے تو وہ ان کے اردگرد حلقہ بنا لیتے اور وہ بھی پورے جذبے و محبت سے ان کے ساتھ باتیں کیا کرتے تھے۔
جنرل سلیمانی متعدد پہلوؤں کی شخصیت کے حامل تھےاس کے علاوہ وہ بہت مخلص تھے یہاں تک مدافع حرم کے شہیدوں کے اہل خانہ اپنے پیاروں کی شہادت کے بعد جنرل سلیمانی کو اپنے باپ کی حیثیت سے مانتے تھے اور گویا وہ ان کے داغ فرقت یعنی دنیا کو الوداع کہنے سے اپنے باپ کو دوبارہ کھو بیٹھے ہیں۔ مدافع حرم کے شہیدوں کی اولادیں کہ جن کے دلوں میں ایران کے دیگر بچوں سے زیادہ شہید قاسم سلیمانی کی یادیں ہیں اور جنہوں نے ان کا بہت محبت و پیار محسوس کیا ہے، وہ آنکھوں میں آنسو ں اور دلوں پر داغ لئے ہوئے اس فراق کو برداشت کر رہے ہیں۔
جب ہم ان ملاقاتوں کی ویڈیوز اور تصویریں دیکھتے ہیں تو باپ جیسے اس رابطہ کی گہرائی محسوس ہوتی ہے۔ مندرجہ ذیل ویڈیو ان ملاقاتوں میں سے ایک کی وضاحت کر رہی ہے۔
میڈیا کے مالکوں سے بھی ان کا اچھا رویہ اور باپ جیسا سلوک تھا اور وہ ہمیشہ انہیں اپنے بچوں کی طرح چاہتے تھے ۔ماہ آبان ۱۳۹۶ھ، شمسی میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر لفٹیننٹ جنرل قاسم سلیمانی کے والد کی تقریبِ ختم قرآن میں حاضر ہونے والے فوٹوگرافروں میں ایک علی غفاری بھی تھے ، اور اس تقریب میں شہید سلیمانی نے ان سے کہا تھا کہ فوٹوگرافروں سے کہو کہ حاج قاسم کہہ رہے ہیں کہ اس تقریب میں آپ کی شرکت پر شکر گزار ہوں۔ مہربانی کرو اپنے ساتھیوں سے کہوکہ میں ایران کے باقی لوگوں کی طرح ایک شخص ہوں ، بہت سارے فوٹو گرافر یہاں آئے ہیں اور زحمتیں اٹھا رہے ہیں جس سے مجھے شرمندگی محسوس ہو رہی ہے۔
یہ ان کے اخلاق اوران کی مہربان شخصیت کا ایک پہلو تھا لیکن ایک اور پہلو جسے تمام ماہرین تسلیم کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ ایک باصلاحیت و ذہین فوجی تھے جیسا کہ امریکی سی بی ایس چینل کے ماہر ان کی شخصیت کے تجزئے میں لکھتے ہیں کہ جنرل سلیمانی کے بہت سے دشمنوں نے اعتراف کیا ہے کہ وہ ایک ذہین فوجی تھے۔
حاج قاسم کی موجودگی اور بوکمال جیسے علاقوں میں آزادی کی کاروائیوں کے منصوبوں کے لئے ان کا وجود بہت اہم تھا اور ان کی موجودگی کے بغیر ایسا کرنا ناممکن اور غیرممکن تھا اور بہت سے ماہرین کا عقیدہ ہے کہ ان کی موجودگی کے بغیر یہ کام بالکل ہی ناممکن تھا۔
جنرل حاج قاسم سلیمانی رہبرانقلاب کی پیروی کرنے میں بھی منتخب افراد میں شامل تھے اس طرح کہ انہوں نے کئی بار کہا تھا کہ مجھے مختلف فوجی القاب سے نہ پکاریں بلکہ یہ کہیں کہ حاج قاسم ولایت کا سپاہی تھا اور اس پر وہ فخر کرتے تھے، رہبر انقلاب ان سے بہت خوش تھے اور آخری مرتبہ انہوں نے انہیں نشانِ ذوالفقار نامی فوجی میڈل سے نوازا جو ملک کا سب سے سے بڑا فوجی نشان ہے۔
مسلح افواج کے سپریم کمانڈرنے انقلاب کے آغاز سے ہی مختلف شخصیات کی نماز جنازہ پڑھائی، لیکن ہمیں شائد ہی کوئی ایسی نماز یاد آئے کہ وہ اس شخص کے غم میں نماز میں روئے ہوں جیسا کہ تہران میں حاج قاسم کی تشییع جناز کے دن ان کی نماز جنازہ کی ادئگی کے دوران ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور یہ جملہ کہتے ہوئے ” اللھمّ انّا لا نعلم منھم الّا خیراً”( اے خدا ہم نے اچھائی کے سوا ان سے کچھ نہیں دیکھا) بہت روئے۔ ان کا صبر ٹوٹنے سے لوگوں کا صبر بھی ٹوٹ گیا اور وہ بھی رونے لگ گئے۔
بے شک جنرل حاج قاسم سلیمانی ایران کی تاریخ کی ایک مشہور اور معزز شخصیت رہیں گے اور اس سرزمین کی تاریخ میں ہمیشہ باقی رہیں گے، وہ ہمیشہ ہمارے لئے حاج قاسم رہیں گے۔
اعتماد نامی اخبار نے موقع کو غنیمت شمار کرتے ہوئے لکھا کہ مغربی ،ایران کو امریکہ مخالف کہتے ہیں لیکن اگر آپ دنیا کی حقیقت پر نگاہ ڈالیں تو آپ مشاہدہ کریں گے کہ یہ امریکہ ہی ہے جو ایران کے خلاف لڑتا ہے، متعلقہ اور غیرمتعلقہ طورپر ایران اور ایرانیوں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے ، بعض اوقات غیر معمولی اخراجات کا سبب بنتا ہے۔کہتے ہیں کہ ماضی کی یاد بھلا دینی چاہئے اور مسلسل ایک دکھ بھری تاریخ کے بارے میں بات نہیں کرنی چاہئے،ان کا کہنا ہے کہ ۲۶مرداد کو جو کچھ بھی ہوا اسے بھول جانا چاہئے ہمیں مسلسل گزرے ہوئے وقت کو یاد نہیں کرنا چاہئے ، مصدق اوران کی حکومت کو یاد کر کے مقدمہ دائر نہیں کرنا چاہئے جو امریکی منصوبوں اور پیسوں سے گرا دی گئی تھی۔کہتے ہیں کہ ماضی میں جو کچھ بھی ہوا اسے یاد میں نہ لائیں اور دشمنی چھوڑ دیں ۔ امریکہ کے حامی ذرائع ابلاغ کے ذرائع اتنے وسیع ہیں کہ امریکہ کے خلاف ایران کے مقدمہ کو امریکہ کے خلاف لڑائی تصور کرتے ہیں جس نے مسافربھرے طیارے کو مار گرایا اور بے گناہ افراد کو ہلاک کر دیا۔کہتے ہیں کہ ایک چیز تھی جو ماضی میں گزر گئی اور ہرسال اس زخم کو کھولنے اور لوگوں کے دلوں کے داغ تازہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، امریکہ نے عراق اور افغانستان پر حملہ کیا اور دونوں ممالک کو سرکاری طور پر بلیک میل کر دیا تشدد، جنگ اور قتل و غارت میں ایران نے بھی بہت سی مشکلات برداشت کی ہیں۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب