امریکا نے قاسم سلیمانی کو شہید کیوں کیا؟
جنرل سلیمانی کی شہادت سے جو سبق سیکھنے چاہیں؟
امریکا سے سخت انتقام کے منتظر ہیں
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ڈپٹی کمانڈر سردار علی فداوی نے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد امریکی پیغامات کے بارے میں کہا کہ امریکیوں نے جمعہ کی صبح سے ہی مختلف طریقوں کا سہارا لیا ہے سیاسی سفارتکاری اور غیر سیاسی دونوں طریقوں سے اپنا پیغام پہنچایا کہ اگر آپ بدلہ لینا چاہتے ہیں تو بھی ہم نے جو کیا اس کے مطابق بدلہ لیکن یہ وہ نہیں ہیں جو تعین کریں گے جیسا امام خامنہ ای نے کہا کہ کسی بھی صورت میں کسی بھی مسئلے کو ختم نہیں کریں گے۔
امریکیوں نے گذشتہ روز بزدلانہ کاروائی کرتے ہوئے سپاہ پاسداران کی قدس فورس کے کمانڈر اور ان کے 4 ساتھی اور اسی طرح حشدالشعبی کے کمانڈر ابو مھدی المھندس اور ان کے ساتھیوں کے خلاف ایک دہشتگردانی کاروائی کی اس کے بعد انہوں نے مکر و فریب سے یہ بات بتانے کی کوشش کی ہم بات چیت کے حامی ہیں لیکن امریکہ کی اصلی حقیقت جنگ طلبی اور دوسروں افراد کے خلاف دہشتگردانہ کاروائی کرنا ہے جو کہ کبھی بدل نہیں سکتی۔
بہت سارے ماہرین اور تجزیہ کاروں نے سینئر امریکی عہدے داروں کے برعکس کہا کہ ہم جنگ نہیں چاہتے ہیں انہوں نے جمعہ کی صبح ایرانی اور عراقی کمانڈروں کے قتل کو ایک انتہائی خطرناک اور اشتعال انگیز کارروائی قرار دیا گیا جسے امریکیوں کی طرف سے یکطرفہ جنگ کے اعلان کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔اسی لئے اسلامی جمہوریہ ایران جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی اور ایران کے اعلی سیاسی اور فوجی عہدہ داروں نے کہا کہ ایران اس معاملے میں امریکیوں اور ان کے اتحادیوں سے سخت انتقام لے گا۔
سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل نے گذشتہ روز قائد انقلاب اسلامی کی موجودگی میں منعقدہ اجلاس میں اس امریکی دہشت گردانہ کارروائی کے خلاف ایران کے اقدامات سے متعلق ضروری فیصلے کیے آخر میں انہوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ جنرل حاج قاسم سلیمانی اور مزاحمتی شہدا جگہ پر قاتلانہ حملے کے بارے میں مناسب وقت پر سنجیدگی اور مضبوطی کے ساتھ ردعمل ظاہر کرے گا انہوں نے اس اجلاس میں امریکہ کو مجرمانہ کاروائی کے نتائج کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا۔
بین الاقوامی قانون کے مطابق حالیہ امریکی کارروائی میں اسلامی جمہوریہ ایران انتقامی کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتھونی گٹیرس کو لکھے گئے خط میں اقوام متحدہ میں ایران کے نمائندے نے امریکیوں کے مجرمانہ فعل پر سخت احتجاج کرنے کے علاوہ یہ بھی ظاہر کیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ان کی جنگ کھوکھلی ہے اور وہ ان لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جو دہشت گردوں کے خلاف کھڑے ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا اسلامی جمہوریہ ایران بین الاقوامی قانون کے تحت اپنے تمام حقوق محفوظ رکھتا ہے تاکہ وہ اپنے دفاعی حق کو استعمال کرنے کے لئے ضروری اقدامات کرے۔
اس امریکی کارروائی میں تین اہم امور شامل ہیں۔ پہلے امریکہ کے ساتھ بات چیت بنیادی طور پر ایک اسٹراجیک غلطی ہے جو ہمیں کہیں بھی نہیں ملتی قائد انقلاب نے بار بار کہا ہے کہ امریکی جھوٹے ہیں اور کبھی بھی جھوٹے اور بد قول ملک کے وعدوں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا اور ایٹمی معاہدے میں اس کا بہترین نمونہ عمل دیکھا گیا وہ کسی بھی وعدہ کو پورا نہیں کرتے یہاں تک کہ سات بڑی عالمی طاقتوں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ذریعہ منظور شدہ بین الاقوامی معاہدے کو بھی نہیں مانا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے آئی اے ای اے کے تحت تمام وعدوں کو پورا کرنے اور اعلی سطح پر وزرائے خارجہ کے مابین مواصلت قائم کرنے اور دونوں ممالک کے صدور کے مابین ٹیلی فون پر گفتگو کے باوجود بھی امریکیوں نے باراک اوباما کے زمانے میں کئے ہوئے وعدوں پرعمل نہیں کیا اور بار بار مختلف بہانے بنا کر اپنے وعدوں سے مکرتے رہے یہاں تک کے امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کی حکومت ختم ہوگی۔
ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرامپ کی سربراہی میں بھی صورتحال بہتر نہیں نہیں ہوئی بلکہ بد تر ہو گئی یہاں تک کہ امریکہ نے ایٹمی معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی اور انہوں نے ایک مرتبہ پھر ایران پر سب سے زیادہ معاشی اور اقتصادی پابندیاں عائد کردیں جنھیں اسلامی جمہوریہ کے خلاف ایران کے خلاف ایک قسم کی معاشی جنگ سمجھا جاسکتا ہے انہوں نے اس دوران دنیا اور خطے میں اسلامی جمہوریہ ایران کو کمزور کرنے کے لئے بہت سے اقدامات کیئے ہیں لیکن ان اقدامات کےبا وجود بھی ایران کو دوبارہ مذاکرات کرنے کے لئے مجبور نہیں کرسکے حالانکہ ملک میں کچھ خوش فہم افراد مذاکرے ہی کو امریکی دباو سے نکلنے کا واحد راستہ سمجھتے تھے۔
ابھی کچھ دن پہلے تک ملک کے اندر کچھ افراد امریکا کے ساتھ مذاکرے کو ملکی معاشی مسائل کا حل بتا رہے تھے حالانکہ کہ امریکی کبھی بھی جمہوریہ اسلامی ایران کو مستحکم صورتحال تک نہیں پہنچنے دیں گے یقینا جنرل قاسم سلیمانی کو شہید کرنے میں امریکیوں کے حالیہ اقدام نے بھی اس گروہ کے لئے واضح کیا ہے کہ امریکی ایرانیوں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ ان کے پاس دھمکیوں اور طاقت کی زبان کے سوا کچھ نہیں ہے اور یقینی طور پر اس طرح کے نظریہ کا مقابلہ کرنے کے لئے مذاکرات کی ضرورت نہیں ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ امریکی مشرق وسطی میں امن اور استحکام نہیں لانا چاہتے ہیں اور کسی بھی طرح سے کشیدگی، جنگ اور تباہی میں دنیا کی توانائی کو قائم رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اس طرح خطے میں امن اور صلح بر قرار کرنے بہانے سے موجود رہیں اور خطے کے ممالک کے وسائل کو لوٹ کر اپنے مفادات حاصل کر سکیں لہذا امریکہ کو ایک ملک کا دوست اوردوسرے کا دشمن نہیں سمجھنا چاہیے۔
اس وقت امریکہ خطے کے ممالک سے فائدہ حاصل کر رہا ہے ٹرمپ کے بقول وہ ایک ملک کودودھ دینے والی گائے سمجھتا ہے وہ ممالک کو ڈرا دھمکا کر صلح کے نام پر امریکی کارخانوں میں تیار ہونے والے ہتھیاروں کو بیچنے اور محض صارف پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو بھی ملک اس راستے میں ان کا ساتھ دے گا اسے ان کا دوست سمجھا جائے اور جو بھی ملک ان کے اس نظرئے کے خلاف کھڑا اور اپنی ملکی توانائی پر اعتماد کرے گا وہ امریکا کا دشمن ہوگا۔
کچھ افراد ابھی امریکہ ہر فدا ہیں انہوں نے انقلاب سے پہلے ہمارے ملک میں ایک خاص اثر و رسوخ بنایا ہوا تھا اور اچھے طریقے سے ہمارے ملک سے فائدہ اٹھا رہے تھے اور یہاں پر بھی اپنی حکمت عملی کے تحت ایک خاص نطریہ قایم کیا ہوا تھا لیکن اسلامی انقلاب نے ان کے اس نظریے کا مقابلہ کیا اورانہیں ملکی مفادات اور وسائل مہیا کرنے سے انکار کردیا لہذا انہوں نے اسلامی انقلاب کے مقابلہ کرنے کے لئے ہر طرح کے کام کیے۔
سچ ہے کہ اب بھی کچھ لوگ ملک میں موجود پریشانیوں ، بدعنوانیوں اور غبنوں کے خلاف اعترض کر رہے ہیں اور کچھ لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انقلاب سے پہلے امریکا نے خوب کھایا تھا اور اب بھی ایک خاص گروہ ملک کی دولت اور وسائل کو دوسروں سے کہیں زیادہ استعمال کر رہا ہے یہ کوئی انصاف نہیں ہے، یہ بات قابل قبول ہے البتہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم ایک بار پھر ماضی کی طرف چلیں جائیں بلکہ ہمیں اس نظریے اور بعض لوگوں کی لالچ کو صحیح کرنا ہوگا۔
تیسرا اور آخری سبق جو جنرل حاج قاسم سلیمانی کی شہادت سے سیکھا جائے وہ یہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ کھڑا ہونا اور ان کے اشرافیانہ مطالبات کو ماننا ممکن نہیں ہے قام سلیمانی امریکی سہولیات۔ہتھیاروں،ڈالر، اور ٹیکنالوجی کا مقابلہ کر رہے تھے جس کو خود امریکی بھی استعمال کر رہے تھے اور داعشی دہشتگردوں کو بھی دے رہے تھے جو خطے میں مزاحمت کو منظم کر رہے تھے۔
امریکیوں نے قاسم سلیمانی کو ہٹانے کے لئے بہت کوششیں کیں وہ شام میں بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے اور عراق کو دہشت گردوں کے حوالے کرنے کے ارادے سے 2012 سے خطے میں دہشت گرد گروہ بنا رہے ہیں شام میں اسد حکومت کے خاتمے اور دہشت گردوں کے ذریعہ عراق پر قبضہ کرنے کی حکمت عملی کے باوجود بھی اپنا مقصد حاصل کرنے اور اپنے مطالبات پورے کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
انہوں نے متعدد بار دہشت گردی کی مختلف کاروائیوں میں اپنے مطالبات کے حصول کے لئے قاسم سلیمانی کو اپنے راستے سے ہٹانے کی کوشش کی اب پاکستان میں زینب،افغانستان میں فاطمیہ ،عراق میں حشد الشعبی،لبنان میں حزب اللہ ،اور نیشنل ڈیفنس فورسز جسے شامی بسیج کے نام سے بھی جانا جاتا ہے یہ ساری طاقتیں مزاحمتی اسکول کا حصہ ہیں اور اسی میں سرگرم عمل ہیں امریکہ اس قسم کی مسلح افواج کے تشکیل کا اصل مخالف ہے جن کے لئے شہادت خاتمہ نہیں بلکہ ایک مضبوط راستے کا آغاز ہے۔
امریکہ طاقت کی زبان کے سوا کچھ نہیں سمجھتا ہےسردار انقلاب کی شہادت کے بعد اعلی سیاسی اور فوجی عہدیداروں اور سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل نے اعلان کیا کہ ہم امریکیوں سے سخت انتقام لیں گے تمام بین الاقوامی قوانین کے مطابق ایران کی طرف اس طرح کے رد عمل کو صحیح سمجھتے ہیں لوگوں میں ایک امید جاگی ہے کہ امریکہ سے اس کاروائی کا سخت،واضح اور وقت کے عین مطابق انتقام لینے کی ضرورت ہے۔
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے نائب کمانڈر سردار علی فدوی نے بھی جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد امریکی پیغامات کے بارے میں کہا امریکیوں نے جمعہ کی صبح سے ہی رسمی اور غیر رسمی دونوں طرح کے طریقوں کا سہارا لیا ہے اور ہمیں پیغام دیا ہے کہ ایسا انتقام لیں جو ہماری کاروائی کے مناسب ہو لیکن اب وہ اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ یہ طہ کریں جیسا کہ اسلامی انقلاب کے رہبر حضرت خامنہ ای نے فرمایا تھا کسی بھی صورت میں کسی بھی مسئلے کو وہ ختم نہیں کریں گے، انہوں نے بہت سارے موضوعات کو شروع کیا ہے لیکن ختم کرنے والے وہ نہیں ہوں گے بلکہ ختم کرنے والا ایران کا مزاحمتی گروہ ہے۔
جنرل سلیمانی کی شہادت سے جو سبق سیکھنے چاہیں؟
امریکا سے سخت انتقام کے منتظر ہیں
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ڈپٹی کمانڈر سردار علی فداوی نے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد امریکی پیغامات کے بارے میں کہا کہ امریکیوں نے جمعہ کی صبح سے ہی مختلف طریقوں کا سہارا لیا ہے سیاسی سفارتکاری اور غیر سیاسی دونوں طریقوں سے اپنا پیغام پہنچایا کہ اگر آپ بدلہ لینا چاہتے ہیں تو بھی ہم نے جو کیا اس کے مطابق بدلہ لیکن یہ وہ نہیں ہیں جو تعین کریں گے جیسا امام خامنہ ای نے کہا کہ کسی بھی صورت میں کسی بھی مسئلے کو ختم نہیں کریں گے۔
امریکیوں نے گذشتہ روز بزدلانہ کاروائی کرتے ہوئے سپاہ پاسداران کی قدس فورس کے کمانڈر اور ان کے 4 ساتھی اور اسی طرح حشدالشعبی کے کمانڈر ابو مھدی المھندس اور ان کے ساتھیوں کے خلاف ایک دہشتگردانی کاروائی کی اس کے بعد انہوں نے مکر و فریب سے یہ بات بتانے کی کوشش کی ہم بات چیت کے حامی ہیں لیکن امریکہ کی اصلی حقیقت جنگ طلبی اور دوسروں افراد کے خلاف دہشتگردانہ کاروائی کرنا ہے جو کہ کبھی بدل نہیں سکتی۔
بہت سارے ماہرین اور تجزیہ کاروں نے سینئر امریکی عہدے داروں کے برعکس کہا کہ ہم جنگ نہیں چاہتے ہیں انہوں نے جمعہ کی صبح ایرانی اور عراقی کمانڈروں کے قتل کو ایک انتہائی خطرناک اور اشتعال انگیز کارروائی قرار دیا گیا جسے امریکیوں کی طرف سے یکطرفہ جنگ کے اعلان کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔اسی لئے اسلامی جمہوریہ ایران جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی اور ایران کے اعلی سیاسی اور فوجی عہدہ داروں نے کہا کہ ایران اس معاملے میں امریکیوں اور ان کے اتحادیوں سے سخت انتقام لے گا۔
سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل نے گذشتہ روز قائد انقلاب اسلامی کی موجودگی میں منعقدہ اجلاس میں اس امریکی دہشت گردانہ کارروائی کے خلاف ایران کے اقدامات سے متعلق ضروری فیصلے کیے آخر میں انہوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ جنرل حاج قاسم سلیمانی اور مزاحمتی شہدا جگہ پر قاتلانہ حملے کے بارے میں مناسب وقت پر سنجیدگی اور مضبوطی کے ساتھ ردعمل ظاہر کرے گا انہوں نے اس اجلاس میں امریکہ کو مجرمانہ کاروائی کے نتائج کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا۔
بین الاقوامی قانون کے مطابق حالیہ امریکی کارروائی میں اسلامی جمہوریہ ایران انتقامی کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتھونی گٹیرس کو لکھے گئے خط میں اقوام متحدہ میں ایران کے نمائندے نے امریکیوں کے مجرمانہ فعل پر سخت احتجاج کرنے کے علاوہ یہ بھی ظاہر کیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ان کی جنگ کھوکھلی ہے اور وہ ان لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جو دہشت گردوں کے خلاف کھڑے ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا اسلامی جمہوریہ ایران بین الاقوامی قانون کے تحت اپنے تمام حقوق محفوظ رکھتا ہے تاکہ وہ اپنے دفاعی حق کو استعمال کرنے کے لئے ضروری اقدامات کرے۔
اس امریکی کارروائی میں تین اہم امور شامل ہیں۔ پہلے امریکہ کے ساتھ بات چیت بنیادی طور پر ایک اسٹراجیک غلطی ہے جو ہمیں کہیں بھی نہیں ملتی قائد انقلاب نے بار بار کہا ہے کہ امریکی جھوٹے ہیں اور کبھی بھی جھوٹے اور بد قول ملک کے وعدوں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا اور ایٹمی معاہدے میں اس کا بہترین نمونہ عمل دیکھا گیا وہ کسی بھی وعدہ کو پورا نہیں کرتے یہاں تک کہ سات بڑی عالمی طاقتوں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ذریعہ منظور شدہ بین الاقوامی معاہدے کو بھی نہیں مانا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے آئی اے ای اے کے تحت تمام وعدوں کو پورا کرنے اور اعلی سطح پر وزرائے خارجہ کے مابین مواصلت قائم کرنے اور دونوں ممالک کے صدور کے مابین ٹیلی فون پر گفتگو کے باوجود بھی امریکیوں نے باراک اوباما کے زمانے میں کئے ہوئے وعدوں پرعمل نہیں کیا اور بار بار مختلف بہانے بنا کر اپنے وعدوں سے مکرتے رہے یہاں تک کے امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کی حکومت ختم ہوگی۔
ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرامپ کی سربراہی میں بھی صورتحال بہتر نہیں نہیں ہوئی بلکہ بد تر ہو گئی یہاں تک کہ امریکہ نے ایٹمی معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی اور انہوں نے ایک مرتبہ پھر ایران پر سب سے زیادہ معاشی اور اقتصادی پابندیاں عائد کردیں جنھیں اسلامی جمہوریہ کے خلاف ایران کے خلاف ایک قسم کی معاشی جنگ سمجھا جاسکتا ہے انہوں نے اس دوران دنیا اور خطے میں اسلامی جمہوریہ ایران کو کمزور کرنے کے لئے بہت سے اقدامات کیئے ہیں لیکن ان اقدامات کےبا وجود بھی ایران کو دوبارہ مذاکرات کرنے کے لئے مجبور نہیں کرسکے حالانکہ ملک میں کچھ خوش فہم افراد مذاکرے ہی کو امریکی دباو سے نکلنے کا واحد راستہ سمجھتے تھے۔
ابھی کچھ دن پہلے تک ملک کے اندر کچھ افراد امریکا کے ساتھ مذاکرے کو ملکی معاشی مسائل کا حل بتا رہے تھے حالانکہ کہ امریکی کبھی بھی جمہوریہ اسلامی ایران کو مستحکم صورتحال تک نہیں پہنچنے دیں گے یقینا جنرل قاسم سلیمانی کو شہید کرنے میں امریکیوں کے حالیہ اقدام نے بھی اس گروہ کے لئے واضح کیا ہے کہ امریکی ایرانیوں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ ان کے پاس دھمکیوں اور طاقت کی زبان کے سوا کچھ نہیں ہے اور یقینی طور پر اس طرح کے نظریہ کا مقابلہ کرنے کے لئے مذاکرات کی ضرورت نہیں ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ امریکی مشرق وسطی میں امن اور استحکام نہیں لانا چاہتے ہیں اور کسی بھی طرح سے کشیدگی، جنگ اور تباہی میں دنیا کی توانائی کو قائم رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اس طرح خطے میں امن اور صلح بر قرار کرنے بہانے سے موجود رہیں اور خطے کے ممالک کے وسائل کو لوٹ کر اپنے مفادات حاصل کر سکیں لہذا امریکہ کو ایک ملک کا دوست اوردوسرے کا دشمن نہیں سمجھنا چاہیے۔
اس وقت امریکہ خطے کے ممالک سے فائدہ حاصل کر رہا ہے ٹرمپ کے بقول وہ ایک ملک کودودھ دینے والی گائے سمجھتا ہے وہ ممالک کو ڈرا دھمکا کر صلح کے نام پر امریکی کارخانوں میں تیار ہونے والے ہتھیاروں کو بیچنے اور محض صارف پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو بھی ملک اس راستے میں ان کا ساتھ دے گا اسے ان کا دوست سمجھا جائے اور جو بھی ملک ان کے اس نظرئے کے خلاف کھڑا اور اپنی ملکی توانائی پر اعتماد کرے گا وہ امریکا کا دشمن ہوگا۔
کچھ افراد ابھی امریکہ ہر فدا ہیں انہوں نے انقلاب سے پہلے ہمارے ملک میں ایک خاص اثر و رسوخ بنایا ہوا تھا اور اچھے طریقے سے ہمارے ملک سے فائدہ اٹھا رہے تھے اور یہاں پر بھی اپنی حکمت عملی کے تحت ایک خاص نطریہ قایم کیا ہوا تھا لیکن اسلامی انقلاب نے ان کے اس نظریے کا مقابلہ کیا اورانہیں ملکی مفادات اور وسائل مہیا کرنے سے انکار کردیا لہذا انہوں نے اسلامی انقلاب کے مقابلہ کرنے کے لئے ہر طرح کے کام کیے۔
سچ ہے کہ اب بھی کچھ لوگ ملک میں موجود پریشانیوں ، بدعنوانیوں اور غبنوں کے خلاف اعترض کر رہے ہیں اور کچھ لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انقلاب سے پہلے امریکا نے خوب کھایا تھا اور اب بھی ایک خاص گروہ ملک کی دولت اور وسائل کو دوسروں سے کہیں زیادہ استعمال کر رہا ہے یہ کوئی انصاف نہیں ہے، یہ بات قابل قبول ہے البتہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم ایک بار پھر ماضی کی طرف چلیں جائیں بلکہ ہمیں اس نظریے اور بعض لوگوں کی لالچ کو صحیح کرنا ہوگا۔
تیسرا اور آخری سبق جو جنرل حاج قاسم سلیمانی کی شہادت سے سیکھا جائے وہ یہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ کھڑا ہونا اور ان کے اشرافیانہ مطالبات کو ماننا ممکن نہیں ہے قام سلیمانی امریکی سہولیات۔ہتھیاروں،ڈالر، اور ٹیکنالوجی کا مقابلہ کر رہے تھے جس کو خود امریکی بھی استعمال کر رہے تھے اور داعشی دہشتگردوں کو بھی دے رہے تھے جو خطے میں مزاحمت کو منظم کر رہے تھے۔
امریکیوں نے قاسم سلیمانی کو ہٹانے کے لئے بہت کوششیں کیں وہ شام میں بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے اور عراق کو دہشت گردوں کے حوالے کرنے کے ارادے سے 2012 سے خطے میں دہشت گرد گروہ بنا رہے ہیں شام میں اسد حکومت کے خاتمے اور دہشت گردوں کے ذریعہ عراق پر قبضہ کرنے کی حکمت عملی کے باوجود بھی اپنا مقصد حاصل کرنے اور اپنے مطالبات پورے کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
انہوں نے متعدد بار دہشت گردی کی مختلف کاروائیوں میں اپنے مطالبات کے حصول کے لئے قاسم سلیمانی کو اپنے راستے سے ہٹانے کی کوشش کی اب پاکستان میں زینب،افغانستان میں فاطمیہ ،عراق میں حشد الشعبی،لبنان میں حزب اللہ ،اور نیشنل ڈیفنس فورسز جسے شامی بسیج کے نام سے بھی جانا جاتا ہے یہ ساری طاقتیں مزاحمتی اسکول کا حصہ ہیں اور اسی میں سرگرم عمل ہیں امریکہ اس قسم کی مسلح افواج کے تشکیل کا اصل مخالف ہے جن کے لئے شہادت خاتمہ نہیں بلکہ ایک مضبوط راستے کا آغاز ہے۔
امریکہ طاقت کی زبان کے سوا کچھ نہیں سمجھتا ہےسردار انقلاب کی شہادت کے بعد اعلی سیاسی اور فوجی عہدیداروں اور سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل نے اعلان کیا کہ ہم امریکیوں سے سخت انتقام لیں گے تمام بین الاقوامی قوانین کے مطابق ایران کی طرف اس طرح کے رد عمل کو صحیح سمجھتے ہیں لوگوں میں ایک امید جاگی ہے کہ امریکہ سے اس کاروائی کا سخت،واضح اور وقت کے عین مطابق انتقام لینے کی ضرورت ہے۔
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے نائب کمانڈر سردار علی فدوی نے بھی جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد امریکی پیغامات کے بارے میں کہا امریکیوں نے جمعہ کی صبح سے ہی رسمی اور غیر رسمی دونوں طرح کے طریقوں کا سہارا لیا ہے اور ہمیں پیغام دیا ہے کہ ایسا انتقام لیں جو ہماری کاروائی کے مناسب ہو لیکن اب وہ اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ یہ طہ کریں جیسا کہ اسلامی انقلاب کے رہبر حضرت خامنہ ای نے فرمایا تھا کسی بھی صورت میں کسی بھی مسئلے کو وہ ختم نہیں کریں گے، انہوں نے بہت سارے موضوعات کو شروع کیا ہے لیکن ختم کرنے والے وہ نہیں ہوں گے بلکہ ختم کرنے والا ایران کا مزاحمتی گروہ ہے۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب