حاج قاسم کے مکتب کے بارے میں گفتگو کرنے کا مطلب خطرے سے نبردآزما ہونا ہے۔ ہمیشہ لب مرگ تک جاتے تھے۔ 2006 میں لبنان کی 33 روزہ جنگ کے دوران تہران سے دمشق آئے۔
مجھ سے رابطہ کیا اور کہا: ضاحیہ کے جنوب میں آپ کے پاس آنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا: کیا مطلب؟ ایسا ممکن نہیں ہے؛ سارے پل اڑا دئے گئے ہیں؛ راستے بند ہیں؛ اسرائیلی طیارے ہر مشکوک چیز کو تباہ کررہے ہیں؛ مکمل جنگ کا سماں ہے؛ بیروت اور ضاحیہ میں داخل ہونا کسی بھی صورت ممکن نہیں ہے۔
حاج قاسم اصرار کرنے لگے اور کہا : اگر گاڑی نہیں بھیجوگے تو خود چل کر آوں گا۔ اپنی بات پر مصر رہے اور ہم تک پہنچ گئے ؛ جنگ کے اختتام تک ہمارے ساتھ رہے۔
سید حسن نصراللہ
مجھ سے رابطہ کیا اور کہا: ضاحیہ کے جنوب میں آپ کے پاس آنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا: کیا مطلب؟ ایسا ممکن نہیں ہے؛ سارے پل اڑا دئے گئے ہیں؛ راستے بند ہیں؛ اسرائیلی طیارے ہر مشکوک چیز کو تباہ کررہے ہیں؛ مکمل جنگ کا سماں ہے؛ بیروت اور ضاحیہ میں داخل ہونا کسی بھی صورت ممکن نہیں ہے۔
حاج قاسم اصرار کرنے لگے اور کہا : اگر گاڑی نہیں بھیجوگے تو خود چل کر آوں گا۔ اپنی بات پر مصر رہے اور ہم تک پہنچ گئے ؛ جنگ کے اختتام تک ہمارے ساتھ رہے۔
سید حسن نصراللہ
رائے
ارسال نظر برای این مطلب