ہم شلمچہ میں تھے اور وہاں کاروائی انجام دینا چاہتے تھے۔ تا کہ دشمن ہماری طرف متوجہ نہ ہو لہذا ہم نے اپنی کاروائی کی انٹیلیجنس فوسر تعینات کیں۔ہمارے سامنے پانی تھا۔ اس دن ہمارے دوستوں میں سے حسین صادقی اور اکبر موسائی پور نامی دو دوست علاقے کی شناخت کرنے گئے لیکن وہ واپس نہیں آئے۔ہمارے ایک اور ساتھی تھے جو نہایت عارف تھے ۔
وہ نوجوان تھے ، وہ طالبعلم تھے لیکن وہ بہت بڑے عارف تھے، شائد عملی عرفان میں وہ اپنی مثال آپ تھے۔ وہ اس مقام پر پہنچے ہوئے تھے کہ عرفان کے بعض اولیاء اور بزرگ ایک طویل عرصے کے بعد مثلاً ستر، اسّی سال کے بعد اس مقام پر پہنچتے ہیں۔ میں اہواز میں تھا تو ہمارے اس دوست نے وائرلیس کے ذریعہ مجھے فون کیااور کہا: یہاں آ جاؤ ۔ میں وہاں گیا۔انہوں نے کہا: “اکبر موسائی پور اور صادقی واپس نہیں آئے۔ میں بہت پریشان ہو گیا اورمیں نے کہا: ” ہم نے ابھی شروعات نہیں کی ، دشمن نے ہمارے اسیربھی بنا لئے اور یہ کاروائی لیک ہو گئی”!۔ میں نے غصہ کی حالت یہ بات کہی، میں ایک دن وہاں رکا اور پھر واپس آ گیا کیونکہ بہت سے محاذ کھلے ہوئے تھے۔ دو دن بعد پھر اسی دوست نے مجھے فون کیا اور کہا: یہاں آؤ۔ میں بھی چلا گیا۔
ہمارے اس دوست کا نام حسین تھا انہوں نے مجھ سے کہا: کل اکبر موسائی پور واپس آ جائیں گے۔ میں نے کہا:حسین! کیا کہہ رہے ہو؟ انہوں نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا: غلام حسین کا بیٹا حسین یہ کہتا ہے۔ ان کے والد کا نام غلام حسین تھا۔ وہ بھی بہت قیمتی منتظم تھے۔ ان کی والدہ بھی بہت اچھی تھیں۔ حسین کو والدین نے ایک استاد کے طور پر پیدا کیا تھا۔وہ حقیقی طور پر نواجوانی میں استاد تھے۔ جب ہم جناب حسین کا نام لیتے تھے تو ہمارے پاس صرف ایک جناب حسین تھے۔
شائد وہاں سیکڑوں حسین تھے لیکن جناب حسین صرف ایک ہی تھے۔میں نے کہا: حسین!کیا ہوا ہے؟ انہوں نے کہا: کل اکبر موسائی پور واپس آ جائیں گے اور اس کے بعد صادقی بھی واپس آ جائیں گے۔میں نے کہا: آپ کو کیسے معلوم؟ انہوں نے کہا: آپ صرف یہاں رک جائیں۔میں رک گیا۔ہمارے پاس ایک فوجی کیمرہ تھا جس کے چاروں طرف بوری لپیٹی ہوئی تھی اور ایک قلعہ بنایا ہوا تھا۔ انٹیلیجنس دوست کیمرہ میں دیکھ رہے تھے۔تقریباً دن کے ایک بجے کا وقت تھا جب انہوں نے کہا: پانی کے اوپر کالے رنگ کی کوئی چیز ہے۔ میں اوپر گیا تو دیکھا کہ صحیح ہے۔ پانی پر کالے رنگ کی کوئی چیز تیر رہی ہے۔ دوستوں نے پانی کے اندر جا کر دیکھا کہ اکبر موسائی پور ہیں۔دوسرے دن حسین صادقی بھی آ گئے۔تعجب کی بات یہ تھی کہ پانی اپنی تمام امواج کے ساتھ انہیں اسی مقام پر واپس لے آیا جہاں سے ان کی روانگی ہوئی تھی۔ دونوں پانی میں شہید ہو چکے تھے ، بہت ہی تعجب انگیز بات تھی۔
میں نے حسین سے کہا: آپ کیسے سمجھ گئے؟ انہوں نے کہا: کل میں نے اکبرموسائی پور کو خواب میں دیکھا کہ انہوں نے مجھ سے کہا : حسین! ہم اسیر نہیں ہوئے بلکہ شہید ہوگئے۔میں کل فلاں ٹائم واپس آؤں گا اور صادقی اگلے دن آئیں گے۔اس کے بعد حسین نے مجھ سے ایک ایسا جملہ کہا جو نہایت اہم ہے۔
انہوں نے کہا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ اکبر موسائی پورنے مجھ سے کیوں بات کی؟ میں نے کہا نہیں: انہوں نے کہا: اکبر موسائی پور کے اندر دو فضیلتیں موجود تھیں: ایک یہ کہ وہ شادی شدہ تھے اور دوسرے یہ کہ پانی میں بھی ان کی نماز شب ترک نہیں کی۔اسی فضیلت کی بناء پر انہوں نے مجھے مطلع کیا ۔ بعد میں حسین کو بھی شہید کر دیا گیا۔
شہید جنرل سلیمانی
وہ نوجوان تھے ، وہ طالبعلم تھے لیکن وہ بہت بڑے عارف تھے، شائد عملی عرفان میں وہ اپنی مثال آپ تھے۔ وہ اس مقام پر پہنچے ہوئے تھے کہ عرفان کے بعض اولیاء اور بزرگ ایک طویل عرصے کے بعد مثلاً ستر، اسّی سال کے بعد اس مقام پر پہنچتے ہیں۔ میں اہواز میں تھا تو ہمارے اس دوست نے وائرلیس کے ذریعہ مجھے فون کیااور کہا: یہاں آ جاؤ ۔ میں وہاں گیا۔انہوں نے کہا: “اکبر موسائی پور اور صادقی واپس نہیں آئے۔ میں بہت پریشان ہو گیا اورمیں نے کہا: ” ہم نے ابھی شروعات نہیں کی ، دشمن نے ہمارے اسیربھی بنا لئے اور یہ کاروائی لیک ہو گئی”!۔ میں نے غصہ کی حالت یہ بات کہی، میں ایک دن وہاں رکا اور پھر واپس آ گیا کیونکہ بہت سے محاذ کھلے ہوئے تھے۔ دو دن بعد پھر اسی دوست نے مجھے فون کیا اور کہا: یہاں آؤ۔ میں بھی چلا گیا۔
ہمارے اس دوست کا نام حسین تھا انہوں نے مجھ سے کہا: کل اکبر موسائی پور واپس آ جائیں گے۔ میں نے کہا:حسین! کیا کہہ رہے ہو؟ انہوں نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا: غلام حسین کا بیٹا حسین یہ کہتا ہے۔ ان کے والد کا نام غلام حسین تھا۔ وہ بھی بہت قیمتی منتظم تھے۔ ان کی والدہ بھی بہت اچھی تھیں۔ حسین کو والدین نے ایک استاد کے طور پر پیدا کیا تھا۔وہ حقیقی طور پر نواجوانی میں استاد تھے۔ جب ہم جناب حسین کا نام لیتے تھے تو ہمارے پاس صرف ایک جناب حسین تھے۔
شائد وہاں سیکڑوں حسین تھے لیکن جناب حسین صرف ایک ہی تھے۔میں نے کہا: حسین!کیا ہوا ہے؟ انہوں نے کہا: کل اکبر موسائی پور واپس آ جائیں گے اور اس کے بعد صادقی بھی واپس آ جائیں گے۔میں نے کہا: آپ کو کیسے معلوم؟ انہوں نے کہا: آپ صرف یہاں رک جائیں۔میں رک گیا۔ہمارے پاس ایک فوجی کیمرہ تھا جس کے چاروں طرف بوری لپیٹی ہوئی تھی اور ایک قلعہ بنایا ہوا تھا۔ انٹیلیجنس دوست کیمرہ میں دیکھ رہے تھے۔تقریباً دن کے ایک بجے کا وقت تھا جب انہوں نے کہا: پانی کے اوپر کالے رنگ کی کوئی چیز ہے۔ میں اوپر گیا تو دیکھا کہ صحیح ہے۔ پانی پر کالے رنگ کی کوئی چیز تیر رہی ہے۔ دوستوں نے پانی کے اندر جا کر دیکھا کہ اکبر موسائی پور ہیں۔دوسرے دن حسین صادقی بھی آ گئے۔تعجب کی بات یہ تھی کہ پانی اپنی تمام امواج کے ساتھ انہیں اسی مقام پر واپس لے آیا جہاں سے ان کی روانگی ہوئی تھی۔ دونوں پانی میں شہید ہو چکے تھے ، بہت ہی تعجب انگیز بات تھی۔
میں نے حسین سے کہا: آپ کیسے سمجھ گئے؟ انہوں نے کہا: کل میں نے اکبرموسائی پور کو خواب میں دیکھا کہ انہوں نے مجھ سے کہا : حسین! ہم اسیر نہیں ہوئے بلکہ شہید ہوگئے۔میں کل فلاں ٹائم واپس آؤں گا اور صادقی اگلے دن آئیں گے۔اس کے بعد حسین نے مجھ سے ایک ایسا جملہ کہا جو نہایت اہم ہے۔
انہوں نے کہا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ اکبر موسائی پورنے مجھ سے کیوں بات کی؟ میں نے کہا نہیں: انہوں نے کہا: اکبر موسائی پور کے اندر دو فضیلتیں موجود تھیں: ایک یہ کہ وہ شادی شدہ تھے اور دوسرے یہ کہ پانی میں بھی ان کی نماز شب ترک نہیں کی۔اسی فضیلت کی بناء پر انہوں نے مجھے مطلع کیا ۔ بعد میں حسین کو بھی شہید کر دیا گیا۔
شہید جنرل سلیمانی
رائے
ارسال نظر برای این مطلب