حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابومہدی المہندس کی یاد میں منعقد ہونے والی نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آج قدس فورس کے سابق سربراہ جنرل شہید قاسم سلیمانی، عراقی عوامی رضاکار فورس کے معاون شہید الحاج ابومہدی المہندس اور ایران و عراق سے تعلق رکھنے والے ان کے ساتھی شہداء کی یاد منارہے ہیں۔ دو جنوری 2020 خطے کے دو مرحلوں کے درمیان اہم دن ہے۔
اس دن ایران اور عراق بلکہ پورے خطے میں جدید اور تاریخی مرحلے کا آغاز ہوا۔ پہلے دہشت گردی کے اس واقعے کے بارے میں گفتگو کرتا ہوں۔ جمعرات دو جنوری 2020 کی رات کو شہید قاسم سلیمانی اپنی مراد پاگئے۔ شہادت ان کی دلی اور ذاتی تمنا تھی چنانچہ شہداء کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ شہادت ان کی ذاتی تمنا ہے۔ شہداء اپنی قوم کے لئے خیر، سکون، عزت، قدرت اور دنیا و آخرت میں سعادت کے خواہاں ہوتے ہیں۔ شہادت ان کی ذاتی خواہش اور تمنا ہوتی ہے۔ شہید سلیمانی ایران پر مسلط کردہ جنگ کے دوران ہی جوانی کے ایام میں شہادت کی آرزو رکھتے تھے۔ ہمیشہ شہادت کی موت چاہتے تھے۔ اس راہ پر چلنے والے بعض افراد راستے میں ہی ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ شہادت کا شوق ٹھنڈا پڑجاتا ہے۔ اس کے برعکس بعض خوش نصیبوں کا شوق ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا ہے۔ شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابومہدی المہندس کا تعلق اسی طبقے سے تھا۔ عمر ڈھلنے کے ساتھ انسان طبیعی موت مرنے کاخطرہ محسوس کرتا ہے، ان دونوں شہیدوں نے بڑھاپے میں قدم رکھنے کے باوجود ہمیشہ میدان جنگ میں گولیوں اور گرینیڈ کے درمیان زیادہ وقت گزارا۔
زندگی کے آخری ایام میں شہید سلیمانی شام آتے تھے اور میرے جوان ان کا استقبال کرنے جاتے تھے۔ یہ جوان شہید سلیمانی کی واپسی تک ان کے اردگرد ہوتے تھے۔ ان کی راتیں گریہ و زاری میں گزرتی تھیں۔ شہداء کا ذکر ہونے پر ان کے آنسو جاری ہوتے تھے۔ کئی دفعہ مجھ سے کہا کہ شہداء کی یاد میں میرا سینہ تنگ ہورہا ہے۔ جن دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ زندگی گزاری، خوشی اور غم کے ایام میں ساتھ رہے، ان میں بیشتر دنیا سے چلے گئے ہیں، ان سے ملاقات کی آرزو ہے۔ شہید سلیمانی کی آرزو پوری ہوگئی۔ یہ ہمارے لئے ایک سبق ہے۔
میں آج بیروت کے علاقے ضاحیہ سے شہید سلیمانی کے خاندان اور دوستوں مخصوصا ان کی شریک حیات، بیٹے اور بیٹی سے کہتا ہوں کہ شہید سلیمانی کا اپنے ہدف تک پہنچنا آپ کے لئے سب سے زیادہ اطمینان کا باعث ہے۔ میں جانتا ہوں اور آپ بھی مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ شہید سلیمانی کو شہادت سے عشق تھا۔ شہید ابومہدی المہندس کے بارے میں بھی یہی کہتا ہوں۔ شہادت سے دو یا تین مہینے پہلے بیروت میں مجھے ان سے ملاقات کا موقع ملا جس پر مجھے فخر ہے، ہم نے کئی گھنٹے گفتگو کی اور آخر میں مجھ سے کہا کہ سید! ظاہرا داعش کے خلاف جنگ اپنے منطقی انجام کو پہنچنے والی ہے۔ شہید ہونے والے شہید ہوگئے، میں ابھی تک زندہ ہوں، میری عمر بڑھ رہی ہے، داڑھی کے بال سفید ہورہے ہیں، میرے لئے شہادت کی دعا کریں۔ شہید ابومہدی المہندس کی شریک حیات اور بیٹی سے کہتا ہوں کہ شہادت ہمارے لئے تسلی کا باعث ہونا چاہئے۔ اسی طرح ان دونوں کمانڈروں کے شہید ساتھیوں کے بارے میں بھی یہی عرض کرتا ہوں۔
اس بحث کو یہیں ختم کرکے دوسرے موضوع پر بات کرتا ہوں۔ ہماری ایمانی ثقافت میں شہادت کامیابی اور خوبی کے دو پہلووں میں سے ایک ہے یعنی شہادت یا فتح۔ ہمارے اس ایمانی عقیدے نے کامیابی کا معیار ہی بدل دیا ہے۔ ہمارا دشمن آخری وار کے طور پر ہمیں قتل کرتا ہے۔ ہم بھی آخری مرحلے پر خدا کی راہ میں جان دیتے ہوئے شہادت پالیتے ہیں۔ دشمن کی طاقت کا آخری نقطہ ہماری قدرت اور کامیابی کا بھی آخری مرحلہ ہے۔ اسی لئے ہمیں میدان جنگ میں شکست نہیں ہوتی ہے۔ دشمن پر فتح ملنے پر بھی ہم کامیاب ہوتے ہیں اور شہادت نصیب ہونا بھی ہمارے لئے کامیابی ہے۔ جمعرات دو جنوری کو مقاومتی بلاک اور اس کے سپاہی کامیاب ہوگئے، یہ واقعہ ان شاء اللہ تلوار پر خون کی فتح کا ایک اور نمونہ ثابت ہوگا۔ شہید سلیمانی، شہید ابومہدی المہندس اور ان کے ساتھیوں کو یہ شہادت مبارک ہو۔ حضرت امام حسین علیہ السلام اور جناب زینب علیہا السلام کے مکتب میں شہادت سے عشق کیا جاتا ہے اور اچھائی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔
اصلی موضوع کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اس حادثے کے بارے میں کچھ بیان کرتا ہوں؛ اس دن کیا ہوا؟ یہ واقعہ کیوں پیش آیا؟ شہید سلیمانی اور شہید ابومہدی کو کیوں ٹارگٹ کیا گیا؟ اس واقعے کے محرکات کیا ہیں؟ خطے پر اس واقعے کے اثرات کیا ہوں گے؟ ان حالات میں ہماری کیا ذمہ داری ہے؟
چنانچہ میں نے کہا کہ خطے میں نیا اور جدید مرحلہ شروع ہوا ہے۔ اس مرحلے پر اگر شہید سلیمانی اور شہید ابومہدی کی ذاتی خصوصیات، ان کی جانثاری، قربانی اور خوبیوں کے بارے میں گفتگو کی جائے تو کئی ہفتے گزر جائیں گے۔ آئندہ ان شاء اللہ ان نکات پر گفتگو کریں گے۔ اس موقع پر سب سے پہلے اس سوال پر بحث کریں گے کہ اس دن کیا واقعہ پیش آیا؟
جمعرات دو جنوری کی رات شہید سلیمانی اور ان کے ساتھیوں نے اعلانیہ طور پر دمشق سے بغداد کی طرف سے فضائی سفر کیا۔ بغداد ائیرپورٹ پر شہید ابومہدی المہندس اور عوامی رضاکار فورس کے جوانوں نے ان کا استقبال کیا۔ ہوائی اڈے سے باہر نکلنے کے بعد گاڑیوں میں سوار ہوئے تھے کہ امریکہ فضائیہ کے جہازوں نے جدید میزائلوں سے وحشیانہ انداز میں قافلے کو ٹارگٹ کیا۔ حملے کے نتیجے میں گاڑیاں تباہ ہوگئیں اور ان میں سوار تمام افراد موقع پر شہید ہوگئے۔ ان کے بدن ٹکڑوں میں بٹ چکے تھے اور قابل شناخت نہیں تھے۔ اس موقع پر بتادوں کہ شہید سلیمانی اور ان کے ساتھی شہادت کے مشتاق تھے۔ بدترین طریقے سے ان کو قتل کیا گیا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی طرح ان کے سر بدن سے جدا ہوگئے۔ حضرت عباس علیہ السلام کی طرح بازو کٹ گئے۔ حضرت علی اکبر علیہ السلام کی طرح بدن کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ مجھے نہیں پتہ کہ شہید سلیمانی اور شہید ابومہدی کو ایسی شہادت کی توقع تھی یا نہیں؟ واقعے کے چند لمحوں بعد امریکی وزارت دفاع نے بیان جاری کرتے ہوئے واقعے کی ذمہ داری قبول کرلی اور کہا گیا کہ صدر ٹرمپ کے براہ راست حکم پر یہ حملہ کیا گیا۔ اس کے بعد چند اور بیانات بھی جاری کئے گئے اور ذمہ داری قبول کی گئی۔ پریس کانفرس کی گئی۔ صدر ٹرمپ سمیت امریکی وزیر خارجہ، وزیر دفاع، قومی سلامتی کے امور کے مشیر نے ٹوئیٹر پر اپنے بیانات میں اس واقعے پر فخر کیا اور جھوٹ پر مبنی دلائل پیش کئے۔
ہم ایک کھلی اور علی الاعلان جنایت کا سامنا کررہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اس جنایت کا ارتکاب کرنے کے بعد کھلم کھلا ذمہ داری قبول کرلی۔ امریکی وزارت دفاع، فوج اور خطے میں تعیینات امریکی فوج کے اہلکاروں نے اس واقعے میں کردار ادا کیا۔ ان باتوں کو مدنظر رکھ کر واضح ہوتا ہے کہ بغداد کا واقعہ مشکوک اور مبہم نہیں تھا جس کے لئے تحقیقاتی کمیٹی یا کمیشن بنانے کی ضرورت پڑے۔ یہ دہشت گردی کا واضح نمونہ تھا جو صدر ٹرمپ کے حکم پر امریکی فوج نے انجام دیا۔
دوسرا نکتہ: یہ واقعہ علی الاعلان انجام دینے کی کیوں ضرورت ہوئی؟
اس سوال کا جواب دینے کے لئے دو نکتوں کی طرف توجہ ضروری ہے؛ پہلا یہ کہ ماضی میں شہید سلیمانی کو ٹارگٹ کرنے کے لئے کافی کوشش کی گئی تھی۔ بعض مواقع پر سازشیں بے نقاب ہوگئیں اور بعض اب تک فاش نہیں ہوئی ہیں۔ شہید سلیمانی کو قتل کرنے کی آخری ناکام کوشش اس وقت کی گئی جب وہ اپنے آبائی شہر کرمان میں تھے۔ مطلوبہ دھماکہ خیز مواد تیار کئے گئے تھے لیکن آخری مرحلے پر تخریب کاروں کو گرفتار کیا گیا۔ دہشت گردوں نے حسینیہ کے نزدیک کسی گھر کو کرایے پر حاصل کرلیا اور زیرزمین سرنگ کھود کر حسینیہ کے نیچے تک رسائی حاصل کرلی۔ حسینیہ کے نیچے بڑی مقدار میں دہماکہ خیز مواد جمع کیا گیا۔ شہید سلیمانی مختلف مواقع پر اس حسینیہ میں آتے تھے جہاں چار سے پانچ ہزار لوگوں کا اجتماع ہوتا تھا۔ دہشت گردوں نے شہید سلیمانی کی جان لینے کے لئے پانچ ہزار بے گناہ انسانوں کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن خدا نے شہید سلیمانی کو بچا لیا اور دوسرے طریقے سے شہادت عطا کی چنانچہ رہبر معظم نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ شہید سلیمانی ایسی شہادت کے لائق تھے۔ قتل کرنے کی تمام سازشیں ناکام ہونے کے بعد ان کو علی الاعلان ٹارگٹ کرنا پڑا۔
دوسرا نکتہ یہ کہ خطے میں پیش آنے والی تبدیلیاں، مقاومتی بلاک کی کامیابیاں، استکباری طاقتوں کی پے در پے شکست اور امریکی انتخابات کا نزدیک ہونا ان عوامل میں شامل ہیں۔ ان باتوں کی طرف توجہ دینے سے موجودہ حالات میں ہماری ذمہ داریاں بھی واضح ہوجاتی ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارت کے تین سالوں کے دوران عالمی امور اور مشرق وسطی کے بارے میں اپنی پالیسی بیان کردی ہے۔ صدر ٹرمپ کے بیانات اور موجودہ حالات اور نتائج کے بارے میں غور کریں تو آپ کو کیا نظر آتا ہے؟ پے درپے شکست، کمزوری اور تردد ہی دکھائی دیتا ہے۔ خارجہ پالیسی خصوصا مشرق وسطی کے بارے میں کامیابی کے طور پر عوام کے سامنے پیش کرنے کے لئے ٹرمپ کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ ان حالات میں انتخابات ہورہے ہیں۔
ان موضوعات کو چند عناوین کے ضمن میں بیان کروں گا۔ ایران ان میں سب سے اہم اور بڑا عنوان ہے۔ صدر ٹرمپ نے پہلے دن سے ہی ایران میں حکومت کی تبدیلی کو اپنا سب سے بڑا ایجنڈا قرار دیا تھا جس کی طرف جان بولٹن نے بھی اشارہ کرتے ہوئے فرانس میں منعقد ہونے والے انجمن منافقین کے اجلاس کے دوران ایک سال کی مہلت طلب کی تھی۔ انہوں نے شرکاء سے کہا تھا کہ اگلے سال نوروز تہران میں منائیں گے۔ بولٹن چلا گیا لیکن ایران کی حکومت باقی ہے۔ ایرانی حکومت کا سقوط بولٹن کا ذاتی ایجنڈا نہیں تھا بلکہ ٹرمپ حکومت کی پالیسی تھی جس کو قومی سلامتی کے امور کے مشیر کی حیثیت سے انہوں نے بیان کیا تھا۔
اس کوشش میں ناکامی کے بعد صدر ٹرمپ نے پالیسی بدلتے ہوئے ایران کی سیاست کو امریکی تسلط میں لانے کے لئے نئے ایٹمی معاہدے کی پیشکش کی اور بلیسٹک میزائل نظام اور خطے میں ایران کی پالیسیوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی جس کو ایران نے سختی سے رد کردیا۔ صدر ٹرمپ نے جوابی اقدام کرتے ہوئے ایٹمی معاہدے سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور ایسی پابندیاں عائد کردیں جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ ایران سے تجارتی روابط رکھنے والے ممالک پر بھی پابندی لگائی گئی تاکہ ایران کو مکمل طور پر دیوار سے لگایا جاسکے۔ اقتصادی پابندیوں کے نتیجے میں ایجاد ہونے والی مشکلات سے عوامی احتجاج کا خواب دیکھنے لگا۔ اپنے اہداف حاصل کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔ ہر طرف سے ناکامی کے بعد صدارتی انتخابات میں امریکی عوام کو بتانے کے لئے صدر ٹرمپ کے پاس کچھ نہیں رہا۔ ماضی کے وعدوں کے برعکس ایران میں حکومت کی تبدیلی، ایران کو سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کرنا اور جدید ایٹمی معاہدے پر آمادہ کرنا ایسے مسائل ہیں جن میں صدر ٹرمپ کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ سب سے بدتر یہ کہ اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران بعض یورپی سربراہان مملکت کی سفارش سے صدر روحانی سے ملاقات کی کوشش کی گئی لیکن ایران کی طرف سے انکار کیا گیا۔ صدر ٹرمپ ایران کو مذاکرات کی میز پر لانے کی پالیسی پر عمل پیرا تھے۔ انہوں نے تسلسل کے ساتھ کہا تھا اور اب بھی کہتے ہیں کہ ایران بالاخر مجبور ہوکر مذاکرات کے لئے آمادہ ہوجائےگا۔ انہوں نے اس سلسلے میں رابطے کے لئے فون نمبر بھی دیا تھا لیکن ابھی تک ایران نے مذاکرات کے لئے آمادگی کا اظہار کیا اور نہ ٹرمپ کو فون کیا۔ ان حالات میں ٹرمپ کے پاس امریکی عوام کو کہنے کے لئے کچھ نہیں کیونکہ ٹرمپ کی تمام کوششیں رائیگاں گئی ہیں اور ایران کی جرائت کے سامنے ان کی عاجزی کھل کر سامنے آگئی ہے۔
دوسرا نکتہ:
شام میں امریکہ کی شکست اور پریشانی واضح ہوگئی ہے۔ امریکی ایجنڈا ناکامی سے دوچار ہوا۔ امریکہ نے حالیہ دنوں میں اپنے کرد اتحادیوں سے بھی خیانت کی۔ شرق فرات میں فوج برقرار رکھنے یا انخلاء کے بارے میں امریکہ تردد کا شکار رہا اور آخرمیں کرد اتحادیوں کی حفاظت کے بجائے تیل کی چوری کے لئے فوج کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کردیا۔ اس سے امریکی پریشانی کا آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اعتراف کیا کہ اسرائیل کی درخواست پر التنف میں فوج کو تعیینات کردیا گیا ہے کیونکہ دوسری صورت میں پورا علاقہ شامی فوج کے قبضے میں آجاتا اور عراق اور شام کی سرحد مکمل طور پر کھل جاتی۔
تیسرا نکتہ:
لبنان پر پابندیاں عائد کی گئیں؛ دباو ڈالا گیا اور بھاری رقم خرچ کرکے مقاومت کا چہرہ مسخ کرنے کی کوشش کی گئی۔ لبنان کے عوام کو مزاحمتی تحریک کے خلاف ابھارنے کی سازش کی گئی لیکن ان کے تمام منصوبے ناکام ہوگئے۔ مائیک پومپئیو کے جنگی بیانات اور اقدامات سب کو یاد ہیں۔ ساٹر فیلڈ کے مختلف دورے جو میڈیا میں منظر عام پر نہیں لائے گئے میں آج ان کو منظر عام پر لانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے لبنانی حکام کو الٹی میٹم دیا تھا کہ 15 دنوں کے اندر حزب اللہ اور مزاحمتی بلاک کو ختم نہ کیا گیا تو اسرائیل ان تنصیبات پر حملے کرکے تباہ کردے گا اور لبنان پابندیوں کے نرغے میں گر جائے گا۔ ان دہمکیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اسرائیل بھی حملے کی جرائت نہ کرسکا۔ مزاحمتی بلاک کی تنصیبات پر حملے نہ ہوسکے کیونکہ ہم نے فوری اور بروقت جوابی کاروائی کی دہمکی دی تھی۔ چنانچہ میں نے یوم القدس کو اشارہ کیا تھا کہ لبنان پر قبضہ کرنے اور اپنی مرضی تھوپنے کی ساری کوششیں ناکام ہوگئیں۔
چوتھا نکتہ:
یمن میں ان کا منصوبہ ناکامی سے دوچار ہوا۔ یمن کی جنگ ابتدائی اور بنیادی طور پر امریکہ کی جنگ ہے جس کی منصوبہ بندی اور سناریو کی تیاری امریکہ میں ہوئی ہے۔
پانچواں نکتہ:
امریکہ افغانستان سے آبرومندانہ طریقے سے نکلنے کا راستہ تلاش کررہا ہے البتہ اس حوالے سے امریکہ پریشان اور سراسیمہ نظر آتا ہے۔ زلمے خلیل زاد کو بھیج کر قطر میں طالبان سے ملاقات اور وائٹ ہاوس میں صدر ٹرمپ کے ساتھ نشست کی نوید سناتا ہے اگلے دن صدر ٹرمپ طالبان اور ان سے مذاکرات کو اپنی زندگی سے خارج قرار دیتے ہوئے معاہدے اور ملاقات کو منسوخ کردیتے ہیں۔ افغانستان کی دلدل سے نکلنے کے لئے امریکہ بدحواس ہوگیا ہے۔ افغانستان کی جنگ سے امریکہ کو اب تک کچھ بھی حاصل نہ ہوسکا ہے۔
چھٹا نکتہ:
عرب عوام اور حکومتوں پر مسلط کرنے کے لئے صدی ڈیل کے نام سے امریکہ نے ایک منصوبہ پیش کیا۔ فلسطینی عوام کو پہلے مرحلے پر نشانہ بنانا پہلا ہدف تھا۔ اس وقت وہ منصوبہ کہاں ہے؟ اقتصادی مشکلات، محاصرہ، دہمکیوں اور گرفتاریوں کے باوجود فلسطینی عوام اور رہنماوں کی مزاحمت کے نتیجے میں صدی ڈیل ناکام ہوگئی ہے۔
ساتواں نکتہ:
عراق کے بارے میں صدر ٹرمپ کے پاس کوئی ایجنڈا نہیں تھا۔ ہمارے لئے سی آئی اے یا پینٹاگون سے کسی کے ذریعے اطلاعات لینے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ صدر ٹرمپ اپنے تکبر اور اناپرستی کی وجہ سے ہر بات واضح اور شفاف انداز میں کہہ دیتے ہیں۔ دوسروں کو کمتر سمجھنے کی وجہ سے بین الاقوامی حقوق، غیر ممالک اور اداروں کو اہمیت نہیں دیتے ہیں۔ انتخاباتی دوروں میں واضح بیان میں کہا کہ عراق کا تیل ہمارا ہے۔ شرق فرات میں واقع شام کے تیل پر امریکہ کا حق جائز سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے انٹرویوز اور انتخاباتی جلسوں میں متعدد مرتبہ عراق کے تیل پر قبضہ کرکے جنگی اخراجات پورا کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ جب عراق کی خودمختاری اور حکومتی امور میں مداخلت کے بارے میں سوال کیا جائے تو کہتے ہیں کہ عراق میں کوئی حکومت موجود ہی نہیں۔ عراقی دوستوں کو ان باتوں پر دھیان دینا چاہئے۔ صدر ٹرمپ کے انٹرویوز سنیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تیل کے کنووں پر قبضہ کرکے حفاظتی حصار کھینچین گے۔ کنووں سے نکالا گیا تیل پوری دنیا کو فروخت کریں گے۔ ان باتوں سے ٹرمپ کے تین سالہ ایجنڈے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
عراق کے قدرتی منابع اور تیل پر قبضے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ عراق میں مضبوط حکومت کا قیام امریکی پالیسی میں شامل نہیں وہ ایسی حکومت چاہتے ہیں جو سیاسی، دفاعی اور دیگر معاملات میں امریکہ کی فرمانبردار ہو۔ داعش کو امریکی سابق صدر اوبامہ اور ہیلری کلنٹن نے وجود میں لایا۔ امریکہ چاہتا ہے کہ داعش عراق میں باقی رہے اور کئی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر عراق میں فوجی اڈے قائم رہے چنانچہ امریکی حکام نے کہا ہے کہ داعش کے خلاف جنگ تیس سال تک چل سکتی ہے۔ داعش کے خلاف جنگ کے بہانے تیل کے کنووں پر قبضہ امریکی اصل ہدف ہے۔ عراق میں بدامنی پھیلا کر اسلحہ بیچنا اور حکومت کو کمزور کرکے ملکی امور میں مداخلت کرنا امریکی پالیسی ہے۔ شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابومہدی المہندس جیسے لوگ امریکی عزائم کی راہ میں رکاوٹ تھے جن کی وجہ سے امریکہ کو عراق میں منہ کی کھانی پڑی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ شکست کیسے ہوئی؟
پہلی بات یہ ہے کہ عراق میں مذہبی قیادت، عوام اور حکومتی اعلی حکام کے مضبوط ارادے کی وجہ سے پہلی فرصت میں داعش کا خاتمہ ممکن ہوا۔ اس مرحلے پر شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابومہدی المہندس نے مرکزی کردار ادا کیا۔ عوامی رضاکار اور مزاحمتی گروہوں نے مذہبی قیادت اور عوام کی حمایت سے عراقی فوج کے شانہ بشانہ لڑتے ہوئے مختصر مدت میں جنگ کو اپنے منطقی انجام تک پہنچایا۔ امریکہ کے پاس داعش سے لڑنے کا بہانہ نہیں رہا اسی لئے عراق کے اندر سے ہی امریکی فوجی انخلاء کا مطالبہ ہونے لگا۔ عراقی عوام کو اندازہ ہوا کہ امریکہ واپسی کی نیت سے نہیں بلکہ داعش کے بہانے اپنے اہداف حاصل کرنے آیا ہے۔
حزب اللہ کے سربراہ نے مزید کہا کہ داعش کے خاتمے کے بعد عراق میں انتخابات کا مرحلہ پیش آیا۔ ان اتنخابات میں کون کامیاب ہوا؟ میں کسی مخصوص سیاسی جماعت یا گروہ کی طرف اشارہ نہیں کررہا ہوں بلکہ میرا مقصد کامیابی حاصل کرنے والی جماعت کی پالیسی کو واضح کرنا ہے۔ انتخابات میں اسی جماعت کو کامیابی ملی جس نے امریکہ کے سامنے سر جھکانے کے بجائے قومی اور ملکی مفاد میں سیاست کا نعرہ لگایا۔ امریکی حکام نے بخوبی ادراک کیا کہ عراق میں وہی طبقہ انتخابات جیت گیا جو ایران کا ہم خیال ہے۔ اس سے بہتر الفاظ میں اس کی تعبیر یوں پیش کی جاسکتی ہے کہ عراقی پارلیمنٹ میں منتخب ہونے والے نمائندوں کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہے جو امریکہ کے سامنے جھکنا گوارا نہیں کرتے ہیں۔ اسی پارلیمنٹ کی زیرنگرانی حکومت قائم ہوئی۔ نومنتخب حکومت نے امریکہ کو مایوس کردیا۔ بعض اہم امور کی طرف اشارہ کرتا ہوں جن کی وجہ سے امریکہ کو عراق میں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ عادل عبدالمہدی کی قیادت میں تشکیل پانے والی حکومت نے ایران کے خلاف جنگ اور پابندیوں کی حمایت کے بجائے امریکہ کے سامنے ڈٹ جانے کا فیصلہ کردیا۔
دوسری بات یہ کہ عراقی حکومت نے صدی ڈیل کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے فلسطین کے مسئلےپر امریکہ کا ساتھ دینے سے انکار کیا۔ تیسری بات یہ کہ وزیر اعظم نے چین کا تاریخی دورہ کرکے دونوں ملکوں کے درمیان کئی سو ارب ڈالر کا معاہدہ کیا جس کی ادائیگی نقد کے بجائے تیل کی خرید و فروخت کے ذریعے کی جانی تھی۔ امریکیہ عراقی دولت پر قبضہ کرنے کے لئے اپنی کمپنیوں سے معاہدے کا خواہاں تھا۔ شام کے ساتھ ملحقہ سرحد کو بند رکھنے کے بجائے عادل عبدالمہدی نے البوکمال کی سرحد کھولنے کا عزم ظاہر کیا۔ ان اقدامات کی وجہ سے امریکہ ناراض ہوا۔ عراقی پارلیمنٹ میں امریکی افواج کے انخلاء کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ ان واقعات کی وجہ سے امریکہ کو عراق کے اندر اپنی ناکامی کا بخوبی احساس ہوگیا۔ عراق پر امریکی قبضے کا مقصد اس ملک میں جمہوریت کا قیام نہیں تھا۔ صدام کی حکومت ختم کرکے عراقی وسائل پر قبضہ کرنا ان کا ہدف تھا۔ جب عوام نے آزادی اور خودمختاری کا نعرہ لگایا تو افغانستان، پاکستان، سعودی عرب، یمن اور دنیا کے مختلف ممالک سے دہشت گرد گروہوں کو لاکر عراق میں بسایا گیا جس کے نتیجے میں 2003 سے لے کر 2011 تک عراق میں خودکش حملوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا۔ مسجدوں، گرجاکروں، اسکولوں اور بازاروں میں بم دہماکے ہوئے۔ فوج کے اعلی اہلکاروں اور قومی شخصیات کو امریکی حمایت کے تحت دہشت گردوں نے قتل کیا۔
حالیہ مہینوں میں امریکہ نے عراقی عوام کو دوبارہ دھوکہ دے کر ملک میں خانہ جنگی کا منصوبہ بنایا لیکن مذہبی قیادت اور اعلی حکام کی ہوشیاری کی وجہ سے یہ سازش ناکام ہوگئی۔ مقاومتی گروہوں اور قبائل نے مضبوط موقف اختیار کرکے ہوشیاری کا ثبوت پیش کیا۔ سائیبری وسائل استعمال کرکے ایران اور عراق کے درمیان اختلافات ایجاد کرنے کی کوشش کی گئی کیونکہ ایران عراق کا سب بڑا اور طاقتور حامی ہے۔ امریکہ کو عراق کے ہاتھ سے نکل جانے کا خوف تھا۔ انتخابات کے قریب ان واقعات کا ہونا ٹرمپ کے لئے شکست کا سامان تھا۔ یہ سارے واقعات شہید قاسم سلیمانی پر حملے سے پہلے رونما ہوئے تھے۔ اس موقع پر ٹرمپ انتظامیہ پریشان تھی کہ کیا کیا جائے؟ البتہ کچھ معاملات میں انہیں جزوی کامیابی بھی ملی ہے۔
میں خود صدر ٹرمپ کی تقریروں کا تجزیہ کرتا ہوں۔ خارجہ پالیسی میں ٹرمپ کو کیا کامیابی ملی؟ امریکی صدارتی انتخابات میں ٹرمپ انتظامیہ کی جن کامیابیوں کو عوام کے سامنے بیان کرنا چاہئے، وہ کیا ہیں؟ وینزویلا میں حکومت کے خلاف بغاوت کی سازش کی گئی لیکن شکست سے دوچار ہوگئی۔ کیوبا میں کوئی کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ شمالی کوریا کو جنگ کے دہانے تک پہنچایا گیا لیکن آخر میں مذاکرات کی پیشکش کی گئی۔ امریکی عوام کو دہوکہ دیا گیا۔ عوام چاہتے تھے شمالی کوریا ایٹمی اسلحوں سے دست بردار ہوجائے لیکن ایسا نہیں ہوا۔
چین اور روس سمیت اپنے اتحادیوں کے ساتھ کیسا رویہ اپنایا گیا؟ ان کے ساتھ ہمیشہ حقارت آمیز اور توہین آمیز رویہ سلوک کیا گیا۔ امریکی خارجہ پالیسی کے بارے میں ٹرمپ کی سیاست کو تین جملوں میں خلاصہ کیا جاسکتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ تینوں باتیں مشرق وسطی سے تعلق رکھتی ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ چار سو ارب ڈالر کا دفاعی معاہدہ کیا گیا۔ اس کے بدلے سعودی عرب کے ساتھ اہانت آمیز رویہ رکھا گیا اور موقع پر حاضر لوگوں نے بھی تالی بجاکر صدر ٹرمپ کی تایید کی۔ عرب ممالک کے ساتھ اربوں ڈالر کے دفاعی معاہدوں کو ٹرمپ کی کامیابی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ امریکی عوام کے سامنے ان معاہدوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کا ذکر کیا جاتا ہے اور اس سے ملازمت کے مواقع پیدا ہونے کی امید کی جاتی ہے۔
تیسرا کارنامہ امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنا ہے۔ اس طرح تینوں کارنامے عرب ممالک اور مسلمانوں کی دولت اور زمین پر قبضے اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے مذہبی مقدس مقامات پر تجاوز سے تعلق رکھتے ہیں۔ امریکی انتخابات میں صدر ٹرمپ کے ایجنڈے کا محور عراق ہے۔ ان حالات میں نیا اور تازہ مرحلہ شروع کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ بغداد ائیرپورٹ پر دہشت گردی کا واقعہ امریکی پالیسی سے جدا نہیں ہے بلکہ نیا آغاز ہے جس کا مقصد جدید طریقے سے خطے میں نئی جنگ شروع کرنا ہے۔
حالات کا رخ موڑنے اور مقاومت کی کمر توڑنے کے لئے سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ کیا جائے؟ انتخابات میں کامیابی کے لئے ایران کو دہمکانے اور اتحادیوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے بارے میں غور کیا گیا۔ ایسے حالات پید اکرنے کی کوشش کی گئی جس میں خطے پر اپنی مرضی کے مطابق حکومت کی جائے۔ تحقیق اور غور و فکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ جنگ بڑی تباہی کا سبب بن سکتی ہے لہذا کوئی اور حل نکالا جائے۔ اسرائیل اس معاملے میں کوئی کام کرنے کا قابل نہیں رہا کیونکہ فلسطین کے ساتھ مسئلہ حل کرنے میں ابھی تک ناکام رہا ہے۔ اسرائیل اور لبنان کے درمیان جنگ بھی کوئی آسان راہ حل نہیں بلکہ بہت ہی پیچیدہ موضوع ہے چنانچہ اسرائیل فوج کے مشترکہ کمیشن کے سربراہ نے چند روز پہلے اس کی طرف اشارہ کیا تھا۔ ایران کے ساتھ جنگ کی تباہ کاریوں سے بھی صدر ٹرمپ بخوبی واقف ہیں بنابراین جنگ سے کمتر کوئی راہ حل ڈھونڈنے لگے جس کا نتیجہ جنگ کی صورت میں نہ نکلے۔ اس مرحلے پر شہید قاسم سلیمانی کو ٹارگٹ کرنا مناسب ترین حل سمجھا گیا۔ مقاومت کے مرکزی کردار کو نشانہ بنانے کا سوچا گیا
چند روز پہلے شہید سلیمانی میرے مہمان تھے۔ میں نے کہا کہ سال کا آغاز آپ کی دیدار اور ملاقات سے کرنا چاہتا ہوں۔ ملاقات کے دوران میں نے کہا کہ امریکی آپ کی طرف زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ میگزین کے صفحہ اول پر تصویر لگاکر لکھا گیا ہے کہ “وہ جنرل جس کا کوئی متبادل نہیں” یہ آپ کے قتل کا مقدمہ ہے جس کی میڈیا کے ذریعے تشہیر کی جارہی ہے۔ شہید سلیمانی حسب معمول ہنسنے لگے اور کہا کہ میں قتل کرنا چاہتے ہیں؟ کرمان میں ہونے والے ناکام حملے کا ذکر کرتے ہوئے میں نے کہا کہ اللہ کا شکر کہ آپ بچ گئے۔ جواب میں انہوں نے کہا کہ زندہ تو ہوں لیکن موقع ہاتھ سے نکل گیا۔ شہید سلیمانی کی سوچ ایسی تھی۔ ان کو قتل کرنے کے لئے پوری طرح منصوبہ بندی کی گئی۔ جب دشمن نے دیکھا کہ مقاومتی بلاک میں ہر جگہ قاسم سلیمانی کا نام سنائی دیتا ہے۔ فلسطینی مزاحمتی گروہوں کی ٹریننگ اور تربیت سمیت دیگر معاملات میں شہید سلیمانی پیش پیش ہیں۔ میڈیا اور دیگر محاذوں پر فلسطین کا دفاع کرنے میں شہید سلیمانی اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
لبنان میں ان کا کردار دشمن نے دیکھا کہ سنہ 2000 اور 2006 میں لبنان کی مزاحمت بڑھ گئی۔ شہید سلیمانی نے اس سلسلے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ شام میں تکفیری دہشت گردوں پر اعتماد کرتے ہوئے امریکہ اور اسرائیل مطمئن تھے لیکن وہاں بھی شامی حکومت، عوام اور فوج سے مل کر شہید سلیمانی نے ان کے خواب چکناچور کردئے۔ داعش کے ذریعے عراق پر دسیوں سال قبضے کی خواہش کی لیکن شہید سلیمانی نے اس کوبھی پورا ہونے نہیں دیا۔عراق میں اختلافات کو ہوا دی گئی لیکن شہید قاسم سلیمانی نے عراقی عوام کو دوبارہ یکجا اور متحد کردیا۔ یمن اور افغانستان میں قاسم سلیمانی کا وجود محسوس کیا گیا۔ ایران میں شہید قاسم سلیمانی کا وجود کسی بیان کا محتاج نہیں۔
اسرائیل شہید سلیمانی کو اپنے لئے اب تک کا سب سے خطرناک دشمن سمجھتا تھا جس نے پورے خطے میں میزائلوں کی جال بچھا کر اسرائیل کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا ہے۔ اپنے لئے بڑا خطرہ محسوس کرنے کے باوجود اسرائیل ابھی تک شہید سلیمانی کو قتل کرنے کی جرائت نہیں کرسکا تھا۔ علی الاعلان سفر کرنے کی وجہ سے شام میں اسرائیل کے لئے شہید سلیمانی پر حملہ کرنا ممکن تھا لیکن جرائت نہیں تھی اسی لئے امریکہ سے درخواست کی گئی۔ خطے کے مختلف ممالک اور اقوام کے درمیان وحدت اور ہمدلی ایجاد کرنے میں مرکزی کردار ادا کرنے کی وجہ سے دشمن نے ان کو ٹارگٹ بنانے کا علی الاعلان فیصلہ کردیا۔ اصلی ہدف شہید سلیمانی تھے اس کے علاوہ سیاسی، دفاعی، نفسیاتی اور معنوی اہداف بھی تھے جن کی وجہ سے کھلم کھلا اس کا اظہار بھی کیا گیا۔ ان کو قتل کرکے عراق اور مقاومتی بلاک کو کمزور کرنا چاہتے تھے۔ ایران اور مقاومتی بلاک کے درمیان تعلقات میں دڑاڑ ایجاد کرنا چاہتے تھے؛ ایران کو خوف میں مبتلا کرکے خود کریڈٹ لینا چاہتے تھے۔
شہید سلیمانی کو قتل کرنے کے اہداف کو ناکام بنانا ہماری اولین ذمہ داری ہے کیونکہ ہم منصفانہ انتقام چاہتے ہیں۔ یہ دو قبائل کا مسئلہ نہیں ہے جس میں ایک قبیلے کے کچھ افراد کو قتل کرنے کے بعد دوسرے سے انتقام لیا جائے بلکہ یہ دو محور و طرز فکر کی جنگ ہے۔ ای ک کا ایجنڈا پورے خطے پر امریکہ اور اسرائیل کی اجارہ داری قائم کرنا ہے۔
ہمارے مقدس مقامات اور تیل و گیس سمیت دیگر قدرتی وسائل پر قبضہ ان کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ دوسری طرف مقاومت اور خودمختاری کا طرز فکر اور محور موجود ہے جو ہر قوم کے وسائل پر اسی کا حق تسلیم کرتا ہے۔ بعض محور مقاومت کے حامی ہیں تو بعض محور استکبار کے، بعض دونوں کیمپوں میں شامل نہیں ہیں۔ بعض موقع کی تلاش میں ہیں جس محور کو فاتح سمجھیں اسی میں شامل ہونے کے انتظار میں ہیں۔
اس مرحلے پر دشمن کے اہداف کو ناکام بنانے کے لئے ہماری کیا ذمہ داری ہے؟
دشمن کی اس جنایت سے مقابلہ اسی رات کو ہی شروع ہوچکا ہے۔ ایران سے اس موضوع کو شروع کرتا ہوں۔ صدر ٹرمپ ایران کے جواب کا انتظار کررہے تھے۔ میں نے تمہارے فوجی کمانڈر کو قتل کیا۔ تمہارے اور خطے کے مختلف گروہوں کے درمیان رابطہ کار کی ذمہ داری انجام دینے والے کو علی الاعلان ٹارگٹ بنایا۔ ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا اس حملے کا ایک ہدف تھا۔ صدر ٹرمپ چاہتے تھے کہ ایران کسی ردعمل کا اظہار کئے بغیر مذاکرات کے لئے آمادہ ہوجائے لیکن ایران نے پہلے مرحلے پر سخت ردعمل ظاہر کیا۔ رہبر معظم اور صدر مملکت سمیت دیگر اعلی حکام اور مراجع تقلید کے بیانات واضح تھے۔ تمام شہروں میں عوام نے بڑے پیمانے پر مظاہرے کئے۔ آج اہواز میں لوگوں نے بڑی تعداد میں جمع ہوکر تشییع میں شرکت کی۔ کل تہران اور کرمان میں مزید بڑا اجتماع ہوگا۔ مائیک پومپئیو نے لکھا ہے کہ شہید سلیمانی کی موت پر ایرانی عوام کے شدید ردعمل کی توقع تھی۔
میں پومپئیو سے کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے مشیروں کے بجائے ٹی وی پر نظر آنے والے مناظر دیکھیں۔ تہران اور کرمان کی تشییع میں ایرانی عوام کی جانب سے ملنے والے پیغام کو سنیں۔ ایران کے سارے پارلیمانی نمائندے اور اعلی حکام ایک ہی آواز میں کہہ رہے ہیں کہ امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے بجائے خطے میں اپنی پالیسی جاری رکھیں گے اور شہید سلیمانی کا بدلہ لیا جائے گا بنابراین حملے کے چھے گھنٹے بعد ہی امریکہ کو پہلے ہدف میں شکست ہوئی۔
ہم اس کے فرزند ہیں جس نے فرمایا تھا کہ اے ناجائز باپ کے ناجائز بیٹے! مجھے قتل سے ڈراتے ہو۔ ہم موت سے مانوس ہیں اور شہادت ہمارے لئے باعث افتخار ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ امریکہ عراق میں عوامی رضاکار فورسز اور دوسرے مزاحمتی گروہوں کو مرعوب کرنا چاہتا تھا۔ اس سے پہلے بھی میڈیا کے ذریعے مختلف شخصیات کے قتل کی افواہ پھیلائی گئی تاکہ عوام اور اعلی حکام کو دہمکایا جائے لیکن عراقی عوام نے بڑی تعداد میں تشییع کرکے دندان شکن جواب دیا۔ امریکہ کئی سالوں سے ایران اور عراق کے درمیان اختلافات ایجاد کرکے دونوں ملکوں کے عوام کو لڑانے کی سازش کررہا تھا۔ ایرانی قونصل خانے اور پرچم کو نذر کیا گیا لیکن اس واقعے کے بعد ایرانی اور عراقی شہداء کو تشییع کے دوران ایک ہی صف میں رکھا گیا اور عالی شان طریقے سے تشییع کی گئی۔ بغداد، کاظمین، نجف اور کربلا میں شہداء کی تشییع کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت ہے کیونکہ سب نے مشاہدہ کیا کہ عراقی عوام نے اتحاد اور یگانگت کا اعلی مظاہرہ کیا۔ مذہبی قیادت، سیاسی جماعتوں، مقاومتی گروہوں اور علاقائی جماعتوں نے اپنے بیانات میں اس واقعے کی شدید مذمت کی اور فوری طور پر امریکی افواج کے انخلاء کا مطالبہ کیا۔ عوام اور مختلف تنظیموں اور شخصیات کا شدید ردعمل بخوبی اشارہ کرتا ہے کہ عراق میں امریکی پالیسی ناکامی سے دوچار ہوگئی ہے۔
میں عراقی پارلیمنٹ کے نمائندوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ آج پوری دنیا کی نظریں آپ پر مرکوز ہوگئی ہیں۔ وزیراعظم امریکی فوجی انخلاء کے بارے میں بل پیش کریں گے، اس مرحلے پر پارلیمانی نمائندوں کی حمایت ضروری ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں نے بل کی حمایت میں ووٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔ امریکہ نے گذشتہ چند دنوں کے اندر عراق اور دنیا کے مختلف حصوں میں اپنے شیاطین کو تعیینات کردیا ہے تاکہ عراقی عوام پر دباو میں اضافہ کیا جائے اور پارلیمنٹ کو بل پاس کرنے سے روکا جائے۔ امریکی اپنے ہدف کو حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن امید ہے کہ عراقی پارلیمنٹ کے نمائندے امریکی افواج کو ملک سے نکال کر ہی دم لیں گے اس سلسلے میں غیرملکی افواج کے انخلاء کے عنوان سے قانون پاس کی ضرورت ہے۔ بہرحال امریکی اہداف حاصل نہیں ہونا چاہئے۔ اگر پارلیمنٹ میں امریکی فوجی انخلاء کی بل منظور نہ ہوجائے تو عراقی عوام اور مزاحمتی تنظیمیں دونوں مل کر غیرملکی قابض افواج کو باہر نکال دیں گے۔
عراق کے شریف لوگو! شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابومہدی المہندس اور ان کے ساتھیوں کی شہادت سے ہمارا ایمان مزید مضبوط ہوا ہے۔ اس جنایت کا مناسب جواب عراق کی غیرملکی قابض طاقتوں سے رہائی اور امریکی فوج کا انخلاء ہے۔ اس کام سے امریکیوں کو اندازہ ہوجائے گا کہ شہید سلیمانی اور شہید ابومہدی المہندس کو قتل کرکے عراق میں شکست سے بچنا چاہتے تھے لیکن ساری تدبیریں الٹی ہوگئیں اور شکست سے دوچار ہوگئے۔
جمعہ کے دن امریکہ سے تعلق رکھنے والے نامور مبصرین نے کہا تھا کہ آج ہم عراق سے شکست کا سامنا کررہے ہیں جو مزاحمتی بلاک اور عراقی عوام کی مزاحمت سے ہی ممکن ہوئی ہے۔ شہید سلیمانی اسی مزاحمت کی پشت پر تھے جس نے کئی سال تک عراق پر قابض رہنے والی قوتوں سے عراق کو آزاد کیا تھا۔ شہید سلیمانی اور شہید ابومہدی اور ان کے ساتھی عراق کو دہشت گردوں کے چنگل سے آزاد کرنے کا اصلی عامل تھے اسی لئے ان شہداء کا خون عراقی عوام کے عزم و ارادے کو مزید مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ ایمان کو مزید قوی کردے گا۔ شہید سلیمانی کی شہادت سے شام کو حوصلہ ہارنے کے بجائے کامیابی کے راستے پر اپنا سفر جاری رکھنا چاہئے۔ شہادت کا یہ واقعہ فطری ہے کیونکہ ہر جنگ میں لوگوں نے قتل ہونا ہے زندہ بچنے والے مرنے والوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔ یمنی عوام کو بھی اپنا سفر جاری رکھنا ہوگا۔ مزاحمتی تنظیموں میں دو اقدامات کی ضرورت ہے؛ پہلا یہ کہ صدر ٹرمپ ہمیں ڈرانے کے درپے ہیں اور کہتے ہیں یہ ہمارے منصوبے کا فقط ایک حصہ تھا باقی کام ابھی رہتے ہیں۔ بنابراین مقاومت اور اس کے سربراہان کو خوف زدہ کرنا دشمن کا ایک ہدف ہے تاکہ عقب نشینی پر مجبور کیا جاسکے۔ اس کے مقابلے میں پہلا جواب اور اقدام یہ ہونا چاہئے کہ اپنے اہداف پر مزید قوت ارادی کے ساتھ پابند ہوجائیں۔ مقاومت کے جوان ان واقعات سے نہ ڈرتے ہیں اور نہ کمزوری دکھاتے ہیں بلکہ اپنی ذمہ داری نبھانے کے لئے نئے عزم و حوصلے کے ساتھ تیار ہوجاتے ہیں۔
اس واقعے کے بعد ہمیں محسوس ہورہا ہے کہ ہم تاریخی کامیابی کے نزدیک پہنچ گئے ہیں اور ہمیں معنوی اور نفسیاتی طور پر حوصلہ ملا ہے۔ یہ واقعہ امریکی شکست اور حواس باختگی کی علامت ہے اسی لئے اس احمقانہ عمل کا ارتکاب کیا۔ ہمیں اس مرحلے پر شکست اور بددلی کا احساس کئے بغیر خدا کی رضایت کے لئے شہید سلیمانی کی طرح شہادت کے لئے قدم بڑھانا چاہئے۔جو لوگ ہمیں ایسے واقعات کے ذریعے مرعوب کرنا چاہتے ہیں، میں ان سے کہتا ہوں کہ ہم اس کے فرزند ہیں جس نے کہا تھا اے ناجائز باپ کے ناجائز بیٹے! مجھے قتل کی دہمکی دے کر مت ڈراو کیونکہ ہم موت کے عادی ہیں اور شہادت ہمارے لئے باعث افتخار ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ مزاحمتی بلاک کو آپس میں اتحاد اور یکجہتی کو برقرار رکھتے ہوئے مزید طاقتور ہونا چاہئے کیونکہ خطے میں بڑی تبدیلیاں آنے والی ہیں۔ حاج قاسم کی شہادت سے ہمارا حوصلہ ختم نہیں ہونا چاہئے۔ علاوہ ازین ابومہدی المہندس کی شہادت سے عراق کے اندر دہشت گردوں اور قابض قوتوں کے خلاف مزاحمت میں کمزوری نہیں آنی چاہئے۔
اس واقعے کا منصفانہ قصاص اور بدلہ کیا ہے؟
اس موضوع پر ہمیں صاف اور شفاف بات کرنی چاہئے۔ اس سلسلے میں کسی توضیح اور تفصیل کی ضرورت نہیں۔ میڈیا اور رسائل و جرائد میں اس حوالے سے مختلف تعبیریں سامنے آرہی ہیں۔ بعض کے مطابق شہید سلیمانی کے ہم پلہ کسی شخصیت کو جواب میں قتل کیا جائے۔ مثلا امریکی جوائنٹ چیف آف سٹاف کے سرابرہ، وزیردفاع، سینٹرل کمانڈ کے سربراہ وغیرہ۔ ان میں سے کوئی بھی شہید سلیمانی اور شہید ابومہدی کے ہم پلہ نہیں ہے۔ شہید سلیمانی کی جوتی امریکی صدر ٹرمپ اور دیگر حکام کے سر کے برابر ہے۔دشمن کے پاس شہید سلیمانی اور شہید ابومہدی کا ہم پلہ شخص موجود نہیں جس کو بدلے میں قتل کیا جائے۔ منصفانہ بدلے کا مطلب خطے سے امریکی فوج کا انخلاء، امریکی بحری بیڑوں کی روانگی اور خطے سے امریکی فوجی افسران کو بے دخل کرنا ہے۔ امریکی فوج نے شہید سلیمانی کو قتل کیا ہے لہذا وہی اس کی قیمت ادا کرے یہی عدالت ہے۔ ہمارا مقصد امریکی عوام نہیں بلکہ امریکی نظام ہے۔ خطے میں امریکہ سے تعلق رکھنے والے تاجر، انجینئر، ڈاکٹر اور عوام ہمارا ہدف نہیں ہیں۔ ان کو کسی بھی طور پر کوئی گزند نہیں پہنچنا چاہئے۔ غیر مسلح امریکی عوام کو ہدف بنانے کا نیتجہ ٹرمپ کے حق میں جائے گا کیونکہ وہ اس حملے کو اپنی کامیابی اور خطے میں باقی رہنے کے لئے بہانہ قرار دے گا۔ ہم ان لوگوں سے بدلہ لیں گے جنہوں نے اس واقعے میں کردار ادا کیا ہے۔ امریکی فوج اس واقعے کی ذمہ دار ہے۔ یہی ادارہ ہمارے ٹارگٹ پر رہے گا جوکہ قانونی اور فطری عمل ہے۔ جو کچھ میں نے کہا میرا عقیدہ بھی اور میں ہی ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔ میں نے موضوع کو بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیاہے۔
اگر اس واقعے کو نظرانداز کرکے خاموشی اختیار کی جائے تو انجام ٹھیک نہیں ہوگا کیونکہ مستقبل میں دوسری شخصیات کے ساتھ بھی اس طرح کے واقعات پیش آئیں گے۔ ہر کسی کو اپنی مرضی کے مطابق اقدام کرنے کی اجازت دینا صحیح نہیں ہے اس کے نیتجے میں ہماری جان، مال اور عزت و آبرو جنایت کاروں کے لئے مباح ہوجائیں گی؛ ہم اپنے مقدسات کو صہیونیوں کے حوالے کربیٹھیں گے جو ہمیں کسی بھی صورت قبول نہیں ہے۔اس موضوع پر اختلاف ہوسکتا ہے چنانچہ 1988 سے اب تک ہمارے درمیان اختلافی موضوعات رہے ہیں لیکن اگر مزاحمتی تنظیمیں ان اہداف کو حاصل کریں تو خطے سے امریکہ کو ذلت اور ناکامی کے ساتھ نکلنا پڑے گا چنانچہ ماضی میں بھی اس طرح کے واقعات پیش آئے ہیں۔ امریکہ کو ذلیل اور رسوا کرنے والے شہادت کے طلبگار جوانوں کی تعداد میں کوئی کمی نہیں آئی ہے بلکہ ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ماضی میں جوانوں کی قلیل تعداد نے امریکہ کو خطے سے بھگادیا ہے۔ آج ان گروہوں اور ان کے پاس موجود وسائل میں بھی بہت اضافہ ہوا ہے۔
اگر خطے کی اقوام مزاحمت کے راستے پر چلیں تو کیا نتیجہ ہوگا؟
اگر شفافیت اور دقت کے ساتھ کام کیا جائے تو امریکی فوج کے افسران اور جوانوں کی لاشیں روانہ ہوجائیں گی یعنی عمودی حالت میں آجائیں اور افقی صورت میں واپس جائیں تو ٹرمپ اور اس کی انتظامیہ کو اپنی شکست کا احساس ہوجائے گا اور انتخابات میں ناکامی کا سامنا ہوگا۔ شہید سلیمانی اور شہید ابومہدی کے خون کا بدلہ خطے سے امریکی فوجی انخلاء کی شکل میں لینا ہوگا۔ یہ ہدف آج سے پہلے حاصل ہوا ہے اور ان شاء اللہ آئندہ بھی حاصل ہوگا۔ اگر ایسا ہوا تو فلسطین اور قدس کی آزادی اور امت مسلمہ کی امریکی غلامی سے نجات بھی ممکن ہوجائے گی۔ جب امریکہ چلا جائے تو اسرائیل سے بھی مقابلے کی نوبت نہیں آئے گی کیونکہ صہیونی عناصر بھی اپنا بوریا بسترہ گول کرکے رخت سفر باندھ لیں گے۔
اپنی تقریر کو اس بات کے ساتھ ختم کرنا چاہتا ہوں کہ ٹرمپ اور اس کے نادان ساتھیوں کو اندازہ نہیں کہ انہوں کیا کیا ہے؟ وقت گزرنے کے ساتھ انہیں اندازہ ہوگا کہ کتنا احمقانہ کام انجام دیا ہے۔ میرا خطاب حضرت زینب علیہا السلام کے دربار یزید میں خطاب سے استعارہ ہے کہ اے ٹرمپ اور امریکی حکام! کیسا خون تم نے بہایا ہے؟ یہ خون معمولی خون نہیں ہے۔ یہ مصیبت دوسری مصیبتوں سے مختلف ہے۔ شہید سلیمانی کے خون کا بدلہ دیگر شہدائے مقاومت کے خون کا بدلہ لینے کے مترادف ہے۔ جب بدلے کے لئے اس آپشن کو انتخاب کیا تو ہمارے کردار اور رفتار میں تبدیلی نہیں آنی چاہئے۔ شہید سلیمانی پر مجھے رشک آتا ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں سختیاں برداشت کیں اور آخر میں سکون نصیب ہوا۔ اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ شہید سلیمانی کو شہادت کی موت عطا کی۔ ان کے پاک خون سے امت مسلمہ کو نیا اور تازہ موقع نصیب ہوا ہے تاکہ استکبار کے تسلط اور قبضے سے خود کو نجات دے اگرچہ وقتی طور پر مشکلات پیش آسکتی ہیں لیکن آخر میں کامیابی ہمارے ہی قدم چومے گی۔
اے مقاومت کے حامیو! صبر کرنے والو! پاک اور شریف لوگو! شہید سلیمانی اور دوسرے شہداء کے پاک خون کی خاطر ہم اپنا سفر جاری رکھیں گے۔ ان شہداء کا خون رائیگان نہیں جائے گا اور آخری کامیابی ہمیں ہی نصیب ہوگی۔
اس دن ایران اور عراق بلکہ پورے خطے میں جدید اور تاریخی مرحلے کا آغاز ہوا۔ پہلے دہشت گردی کے اس واقعے کے بارے میں گفتگو کرتا ہوں۔ جمعرات دو جنوری 2020 کی رات کو شہید قاسم سلیمانی اپنی مراد پاگئے۔ شہادت ان کی دلی اور ذاتی تمنا تھی چنانچہ شہداء کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ شہادت ان کی ذاتی تمنا ہے۔ شہداء اپنی قوم کے لئے خیر، سکون، عزت، قدرت اور دنیا و آخرت میں سعادت کے خواہاں ہوتے ہیں۔ شہادت ان کی ذاتی خواہش اور تمنا ہوتی ہے۔ شہید سلیمانی ایران پر مسلط کردہ جنگ کے دوران ہی جوانی کے ایام میں شہادت کی آرزو رکھتے تھے۔ ہمیشہ شہادت کی موت چاہتے تھے۔ اس راہ پر چلنے والے بعض افراد راستے میں ہی ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ شہادت کا شوق ٹھنڈا پڑجاتا ہے۔ اس کے برعکس بعض خوش نصیبوں کا شوق ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا ہے۔ شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابومہدی المہندس کا تعلق اسی طبقے سے تھا۔ عمر ڈھلنے کے ساتھ انسان طبیعی موت مرنے کاخطرہ محسوس کرتا ہے، ان دونوں شہیدوں نے بڑھاپے میں قدم رکھنے کے باوجود ہمیشہ میدان جنگ میں گولیوں اور گرینیڈ کے درمیان زیادہ وقت گزارا۔
زندگی کے آخری ایام میں شہید سلیمانی شام آتے تھے اور میرے جوان ان کا استقبال کرنے جاتے تھے۔ یہ جوان شہید سلیمانی کی واپسی تک ان کے اردگرد ہوتے تھے۔ ان کی راتیں گریہ و زاری میں گزرتی تھیں۔ شہداء کا ذکر ہونے پر ان کے آنسو جاری ہوتے تھے۔ کئی دفعہ مجھ سے کہا کہ شہداء کی یاد میں میرا سینہ تنگ ہورہا ہے۔ جن دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ زندگی گزاری، خوشی اور غم کے ایام میں ساتھ رہے، ان میں بیشتر دنیا سے چلے گئے ہیں، ان سے ملاقات کی آرزو ہے۔ شہید سلیمانی کی آرزو پوری ہوگئی۔ یہ ہمارے لئے ایک سبق ہے۔
میں آج بیروت کے علاقے ضاحیہ سے شہید سلیمانی کے خاندان اور دوستوں مخصوصا ان کی شریک حیات، بیٹے اور بیٹی سے کہتا ہوں کہ شہید سلیمانی کا اپنے ہدف تک پہنچنا آپ کے لئے سب سے زیادہ اطمینان کا باعث ہے۔ میں جانتا ہوں اور آپ بھی مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ شہید سلیمانی کو شہادت سے عشق تھا۔ شہید ابومہدی المہندس کے بارے میں بھی یہی کہتا ہوں۔ شہادت سے دو یا تین مہینے پہلے بیروت میں مجھے ان سے ملاقات کا موقع ملا جس پر مجھے فخر ہے، ہم نے کئی گھنٹے گفتگو کی اور آخر میں مجھ سے کہا کہ سید! ظاہرا داعش کے خلاف جنگ اپنے منطقی انجام کو پہنچنے والی ہے۔ شہید ہونے والے شہید ہوگئے، میں ابھی تک زندہ ہوں، میری عمر بڑھ رہی ہے، داڑھی کے بال سفید ہورہے ہیں، میرے لئے شہادت کی دعا کریں۔ شہید ابومہدی المہندس کی شریک حیات اور بیٹی سے کہتا ہوں کہ شہادت ہمارے لئے تسلی کا باعث ہونا چاہئے۔ اسی طرح ان دونوں کمانڈروں کے شہید ساتھیوں کے بارے میں بھی یہی عرض کرتا ہوں۔
اس بحث کو یہیں ختم کرکے دوسرے موضوع پر بات کرتا ہوں۔ ہماری ایمانی ثقافت میں شہادت کامیابی اور خوبی کے دو پہلووں میں سے ایک ہے یعنی شہادت یا فتح۔ ہمارے اس ایمانی عقیدے نے کامیابی کا معیار ہی بدل دیا ہے۔ ہمارا دشمن آخری وار کے طور پر ہمیں قتل کرتا ہے۔ ہم بھی آخری مرحلے پر خدا کی راہ میں جان دیتے ہوئے شہادت پالیتے ہیں۔ دشمن کی طاقت کا آخری نقطہ ہماری قدرت اور کامیابی کا بھی آخری مرحلہ ہے۔ اسی لئے ہمیں میدان جنگ میں شکست نہیں ہوتی ہے۔ دشمن پر فتح ملنے پر بھی ہم کامیاب ہوتے ہیں اور شہادت نصیب ہونا بھی ہمارے لئے کامیابی ہے۔ جمعرات دو جنوری کو مقاومتی بلاک اور اس کے سپاہی کامیاب ہوگئے، یہ واقعہ ان شاء اللہ تلوار پر خون کی فتح کا ایک اور نمونہ ثابت ہوگا۔ شہید سلیمانی، شہید ابومہدی المہندس اور ان کے ساتھیوں کو یہ شہادت مبارک ہو۔ حضرت امام حسین علیہ السلام اور جناب زینب علیہا السلام کے مکتب میں شہادت سے عشق کیا جاتا ہے اور اچھائی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔
اصلی موضوع کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اس حادثے کے بارے میں کچھ بیان کرتا ہوں؛ اس دن کیا ہوا؟ یہ واقعہ کیوں پیش آیا؟ شہید سلیمانی اور شہید ابومہدی کو کیوں ٹارگٹ کیا گیا؟ اس واقعے کے محرکات کیا ہیں؟ خطے پر اس واقعے کے اثرات کیا ہوں گے؟ ان حالات میں ہماری کیا ذمہ داری ہے؟
چنانچہ میں نے کہا کہ خطے میں نیا اور جدید مرحلہ شروع ہوا ہے۔ اس مرحلے پر اگر شہید سلیمانی اور شہید ابومہدی کی ذاتی خصوصیات، ان کی جانثاری، قربانی اور خوبیوں کے بارے میں گفتگو کی جائے تو کئی ہفتے گزر جائیں گے۔ آئندہ ان شاء اللہ ان نکات پر گفتگو کریں گے۔ اس موقع پر سب سے پہلے اس سوال پر بحث کریں گے کہ اس دن کیا واقعہ پیش آیا؟
جمعرات دو جنوری کی رات شہید سلیمانی اور ان کے ساتھیوں نے اعلانیہ طور پر دمشق سے بغداد کی طرف سے فضائی سفر کیا۔ بغداد ائیرپورٹ پر شہید ابومہدی المہندس اور عوامی رضاکار فورس کے جوانوں نے ان کا استقبال کیا۔ ہوائی اڈے سے باہر نکلنے کے بعد گاڑیوں میں سوار ہوئے تھے کہ امریکہ فضائیہ کے جہازوں نے جدید میزائلوں سے وحشیانہ انداز میں قافلے کو ٹارگٹ کیا۔ حملے کے نتیجے میں گاڑیاں تباہ ہوگئیں اور ان میں سوار تمام افراد موقع پر شہید ہوگئے۔ ان کے بدن ٹکڑوں میں بٹ چکے تھے اور قابل شناخت نہیں تھے۔ اس موقع پر بتادوں کہ شہید سلیمانی اور ان کے ساتھی شہادت کے مشتاق تھے۔ بدترین طریقے سے ان کو قتل کیا گیا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی طرح ان کے سر بدن سے جدا ہوگئے۔ حضرت عباس علیہ السلام کی طرح بازو کٹ گئے۔ حضرت علی اکبر علیہ السلام کی طرح بدن کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ مجھے نہیں پتہ کہ شہید سلیمانی اور شہید ابومہدی کو ایسی شہادت کی توقع تھی یا نہیں؟ واقعے کے چند لمحوں بعد امریکی وزارت دفاع نے بیان جاری کرتے ہوئے واقعے کی ذمہ داری قبول کرلی اور کہا گیا کہ صدر ٹرمپ کے براہ راست حکم پر یہ حملہ کیا گیا۔ اس کے بعد چند اور بیانات بھی جاری کئے گئے اور ذمہ داری قبول کی گئی۔ پریس کانفرس کی گئی۔ صدر ٹرمپ سمیت امریکی وزیر خارجہ، وزیر دفاع، قومی سلامتی کے امور کے مشیر نے ٹوئیٹر پر اپنے بیانات میں اس واقعے پر فخر کیا اور جھوٹ پر مبنی دلائل پیش کئے۔
ہم ایک کھلی اور علی الاعلان جنایت کا سامنا کررہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اس جنایت کا ارتکاب کرنے کے بعد کھلم کھلا ذمہ داری قبول کرلی۔ امریکی وزارت دفاع، فوج اور خطے میں تعیینات امریکی فوج کے اہلکاروں نے اس واقعے میں کردار ادا کیا۔ ان باتوں کو مدنظر رکھ کر واضح ہوتا ہے کہ بغداد کا واقعہ مشکوک اور مبہم نہیں تھا جس کے لئے تحقیقاتی کمیٹی یا کمیشن بنانے کی ضرورت پڑے۔ یہ دہشت گردی کا واضح نمونہ تھا جو صدر ٹرمپ کے حکم پر امریکی فوج نے انجام دیا۔
دوسرا نکتہ: یہ واقعہ علی الاعلان انجام دینے کی کیوں ضرورت ہوئی؟
اس سوال کا جواب دینے کے لئے دو نکتوں کی طرف توجہ ضروری ہے؛ پہلا یہ کہ ماضی میں شہید سلیمانی کو ٹارگٹ کرنے کے لئے کافی کوشش کی گئی تھی۔ بعض مواقع پر سازشیں بے نقاب ہوگئیں اور بعض اب تک فاش نہیں ہوئی ہیں۔ شہید سلیمانی کو قتل کرنے کی آخری ناکام کوشش اس وقت کی گئی جب وہ اپنے آبائی شہر کرمان میں تھے۔ مطلوبہ دھماکہ خیز مواد تیار کئے گئے تھے لیکن آخری مرحلے پر تخریب کاروں کو گرفتار کیا گیا۔ دہشت گردوں نے حسینیہ کے نزدیک کسی گھر کو کرایے پر حاصل کرلیا اور زیرزمین سرنگ کھود کر حسینیہ کے نیچے تک رسائی حاصل کرلی۔ حسینیہ کے نیچے بڑی مقدار میں دہماکہ خیز مواد جمع کیا گیا۔ شہید سلیمانی مختلف مواقع پر اس حسینیہ میں آتے تھے جہاں چار سے پانچ ہزار لوگوں کا اجتماع ہوتا تھا۔ دہشت گردوں نے شہید سلیمانی کی جان لینے کے لئے پانچ ہزار بے گناہ انسانوں کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن خدا نے شہید سلیمانی کو بچا لیا اور دوسرے طریقے سے شہادت عطا کی چنانچہ رہبر معظم نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ شہید سلیمانی ایسی شہادت کے لائق تھے۔ قتل کرنے کی تمام سازشیں ناکام ہونے کے بعد ان کو علی الاعلان ٹارگٹ کرنا پڑا۔
دوسرا نکتہ یہ کہ خطے میں پیش آنے والی تبدیلیاں، مقاومتی بلاک کی کامیابیاں، استکباری طاقتوں کی پے در پے شکست اور امریکی انتخابات کا نزدیک ہونا ان عوامل میں شامل ہیں۔ ان باتوں کی طرف توجہ دینے سے موجودہ حالات میں ہماری ذمہ داریاں بھی واضح ہوجاتی ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارت کے تین سالوں کے دوران عالمی امور اور مشرق وسطی کے بارے میں اپنی پالیسی بیان کردی ہے۔ صدر ٹرمپ کے بیانات اور موجودہ حالات اور نتائج کے بارے میں غور کریں تو آپ کو کیا نظر آتا ہے؟ پے درپے شکست، کمزوری اور تردد ہی دکھائی دیتا ہے۔ خارجہ پالیسی خصوصا مشرق وسطی کے بارے میں کامیابی کے طور پر عوام کے سامنے پیش کرنے کے لئے ٹرمپ کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ ان حالات میں انتخابات ہورہے ہیں۔
ان موضوعات کو چند عناوین کے ضمن میں بیان کروں گا۔ ایران ان میں سب سے اہم اور بڑا عنوان ہے۔ صدر ٹرمپ نے پہلے دن سے ہی ایران میں حکومت کی تبدیلی کو اپنا سب سے بڑا ایجنڈا قرار دیا تھا جس کی طرف جان بولٹن نے بھی اشارہ کرتے ہوئے فرانس میں منعقد ہونے والے انجمن منافقین کے اجلاس کے دوران ایک سال کی مہلت طلب کی تھی۔ انہوں نے شرکاء سے کہا تھا کہ اگلے سال نوروز تہران میں منائیں گے۔ بولٹن چلا گیا لیکن ایران کی حکومت باقی ہے۔ ایرانی حکومت کا سقوط بولٹن کا ذاتی ایجنڈا نہیں تھا بلکہ ٹرمپ حکومت کی پالیسی تھی جس کو قومی سلامتی کے امور کے مشیر کی حیثیت سے انہوں نے بیان کیا تھا۔
اس کوشش میں ناکامی کے بعد صدر ٹرمپ نے پالیسی بدلتے ہوئے ایران کی سیاست کو امریکی تسلط میں لانے کے لئے نئے ایٹمی معاہدے کی پیشکش کی اور بلیسٹک میزائل نظام اور خطے میں ایران کی پالیسیوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی جس کو ایران نے سختی سے رد کردیا۔ صدر ٹرمپ نے جوابی اقدام کرتے ہوئے ایٹمی معاہدے سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور ایسی پابندیاں عائد کردیں جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ ایران سے تجارتی روابط رکھنے والے ممالک پر بھی پابندی لگائی گئی تاکہ ایران کو مکمل طور پر دیوار سے لگایا جاسکے۔ اقتصادی پابندیوں کے نتیجے میں ایجاد ہونے والی مشکلات سے عوامی احتجاج کا خواب دیکھنے لگا۔ اپنے اہداف حاصل کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔ ہر طرف سے ناکامی کے بعد صدارتی انتخابات میں امریکی عوام کو بتانے کے لئے صدر ٹرمپ کے پاس کچھ نہیں رہا۔ ماضی کے وعدوں کے برعکس ایران میں حکومت کی تبدیلی، ایران کو سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کرنا اور جدید ایٹمی معاہدے پر آمادہ کرنا ایسے مسائل ہیں جن میں صدر ٹرمپ کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ سب سے بدتر یہ کہ اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران بعض یورپی سربراہان مملکت کی سفارش سے صدر روحانی سے ملاقات کی کوشش کی گئی لیکن ایران کی طرف سے انکار کیا گیا۔ صدر ٹرمپ ایران کو مذاکرات کی میز پر لانے کی پالیسی پر عمل پیرا تھے۔ انہوں نے تسلسل کے ساتھ کہا تھا اور اب بھی کہتے ہیں کہ ایران بالاخر مجبور ہوکر مذاکرات کے لئے آمادہ ہوجائےگا۔ انہوں نے اس سلسلے میں رابطے کے لئے فون نمبر بھی دیا تھا لیکن ابھی تک ایران نے مذاکرات کے لئے آمادگی کا اظہار کیا اور نہ ٹرمپ کو فون کیا۔ ان حالات میں ٹرمپ کے پاس امریکی عوام کو کہنے کے لئے کچھ نہیں کیونکہ ٹرمپ کی تمام کوششیں رائیگاں گئی ہیں اور ایران کی جرائت کے سامنے ان کی عاجزی کھل کر سامنے آگئی ہے۔
دوسرا نکتہ:
شام میں امریکہ کی شکست اور پریشانی واضح ہوگئی ہے۔ امریکی ایجنڈا ناکامی سے دوچار ہوا۔ امریکہ نے حالیہ دنوں میں اپنے کرد اتحادیوں سے بھی خیانت کی۔ شرق فرات میں فوج برقرار رکھنے یا انخلاء کے بارے میں امریکہ تردد کا شکار رہا اور آخرمیں کرد اتحادیوں کی حفاظت کے بجائے تیل کی چوری کے لئے فوج کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کردیا۔ اس سے امریکی پریشانی کا آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اعتراف کیا کہ اسرائیل کی درخواست پر التنف میں فوج کو تعیینات کردیا گیا ہے کیونکہ دوسری صورت میں پورا علاقہ شامی فوج کے قبضے میں آجاتا اور عراق اور شام کی سرحد مکمل طور پر کھل جاتی۔
تیسرا نکتہ:
لبنان پر پابندیاں عائد کی گئیں؛ دباو ڈالا گیا اور بھاری رقم خرچ کرکے مقاومت کا چہرہ مسخ کرنے کی کوشش کی گئی۔ لبنان کے عوام کو مزاحمتی تحریک کے خلاف ابھارنے کی سازش کی گئی لیکن ان کے تمام منصوبے ناکام ہوگئے۔ مائیک پومپئیو کے جنگی بیانات اور اقدامات سب کو یاد ہیں۔ ساٹر فیلڈ کے مختلف دورے جو میڈیا میں منظر عام پر نہیں لائے گئے میں آج ان کو منظر عام پر لانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے لبنانی حکام کو الٹی میٹم دیا تھا کہ 15 دنوں کے اندر حزب اللہ اور مزاحمتی بلاک کو ختم نہ کیا گیا تو اسرائیل ان تنصیبات پر حملے کرکے تباہ کردے گا اور لبنان پابندیوں کے نرغے میں گر جائے گا۔ ان دہمکیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اسرائیل بھی حملے کی جرائت نہ کرسکا۔ مزاحمتی بلاک کی تنصیبات پر حملے نہ ہوسکے کیونکہ ہم نے فوری اور بروقت جوابی کاروائی کی دہمکی دی تھی۔ چنانچہ میں نے یوم القدس کو اشارہ کیا تھا کہ لبنان پر قبضہ کرنے اور اپنی مرضی تھوپنے کی ساری کوششیں ناکام ہوگئیں۔
چوتھا نکتہ:
یمن میں ان کا منصوبہ ناکامی سے دوچار ہوا۔ یمن کی جنگ ابتدائی اور بنیادی طور پر امریکہ کی جنگ ہے جس کی منصوبہ بندی اور سناریو کی تیاری امریکہ میں ہوئی ہے۔
پانچواں نکتہ:
امریکہ افغانستان سے آبرومندانہ طریقے سے نکلنے کا راستہ تلاش کررہا ہے البتہ اس حوالے سے امریکہ پریشان اور سراسیمہ نظر آتا ہے۔ زلمے خلیل زاد کو بھیج کر قطر میں طالبان سے ملاقات اور وائٹ ہاوس میں صدر ٹرمپ کے ساتھ نشست کی نوید سناتا ہے اگلے دن صدر ٹرمپ طالبان اور ان سے مذاکرات کو اپنی زندگی سے خارج قرار دیتے ہوئے معاہدے اور ملاقات کو منسوخ کردیتے ہیں۔ افغانستان کی دلدل سے نکلنے کے لئے امریکہ بدحواس ہوگیا ہے۔ افغانستان کی جنگ سے امریکہ کو اب تک کچھ بھی حاصل نہ ہوسکا ہے۔
چھٹا نکتہ:
عرب عوام اور حکومتوں پر مسلط کرنے کے لئے صدی ڈیل کے نام سے امریکہ نے ایک منصوبہ پیش کیا۔ فلسطینی عوام کو پہلے مرحلے پر نشانہ بنانا پہلا ہدف تھا۔ اس وقت وہ منصوبہ کہاں ہے؟ اقتصادی مشکلات، محاصرہ، دہمکیوں اور گرفتاریوں کے باوجود فلسطینی عوام اور رہنماوں کی مزاحمت کے نتیجے میں صدی ڈیل ناکام ہوگئی ہے۔
ساتواں نکتہ:
عراق کے بارے میں صدر ٹرمپ کے پاس کوئی ایجنڈا نہیں تھا۔ ہمارے لئے سی آئی اے یا پینٹاگون سے کسی کے ذریعے اطلاعات لینے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ صدر ٹرمپ اپنے تکبر اور اناپرستی کی وجہ سے ہر بات واضح اور شفاف انداز میں کہہ دیتے ہیں۔ دوسروں کو کمتر سمجھنے کی وجہ سے بین الاقوامی حقوق، غیر ممالک اور اداروں کو اہمیت نہیں دیتے ہیں۔ انتخاباتی دوروں میں واضح بیان میں کہا کہ عراق کا تیل ہمارا ہے۔ شرق فرات میں واقع شام کے تیل پر امریکہ کا حق جائز سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے انٹرویوز اور انتخاباتی جلسوں میں متعدد مرتبہ عراق کے تیل پر قبضہ کرکے جنگی اخراجات پورا کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ جب عراق کی خودمختاری اور حکومتی امور میں مداخلت کے بارے میں سوال کیا جائے تو کہتے ہیں کہ عراق میں کوئی حکومت موجود ہی نہیں۔ عراقی دوستوں کو ان باتوں پر دھیان دینا چاہئے۔ صدر ٹرمپ کے انٹرویوز سنیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تیل کے کنووں پر قبضہ کرکے حفاظتی حصار کھینچین گے۔ کنووں سے نکالا گیا تیل پوری دنیا کو فروخت کریں گے۔ ان باتوں سے ٹرمپ کے تین سالہ ایجنڈے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
عراق کے قدرتی منابع اور تیل پر قبضے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ عراق میں مضبوط حکومت کا قیام امریکی پالیسی میں شامل نہیں وہ ایسی حکومت چاہتے ہیں جو سیاسی، دفاعی اور دیگر معاملات میں امریکہ کی فرمانبردار ہو۔ داعش کو امریکی سابق صدر اوبامہ اور ہیلری کلنٹن نے وجود میں لایا۔ امریکہ چاہتا ہے کہ داعش عراق میں باقی رہے اور کئی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر عراق میں فوجی اڈے قائم رہے چنانچہ امریکی حکام نے کہا ہے کہ داعش کے خلاف جنگ تیس سال تک چل سکتی ہے۔ داعش کے خلاف جنگ کے بہانے تیل کے کنووں پر قبضہ امریکی اصل ہدف ہے۔ عراق میں بدامنی پھیلا کر اسلحہ بیچنا اور حکومت کو کمزور کرکے ملکی امور میں مداخلت کرنا امریکی پالیسی ہے۔ شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابومہدی المہندس جیسے لوگ امریکی عزائم کی راہ میں رکاوٹ تھے جن کی وجہ سے امریکہ کو عراق میں منہ کی کھانی پڑی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ شکست کیسے ہوئی؟
پہلی بات یہ ہے کہ عراق میں مذہبی قیادت، عوام اور حکومتی اعلی حکام کے مضبوط ارادے کی وجہ سے پہلی فرصت میں داعش کا خاتمہ ممکن ہوا۔ اس مرحلے پر شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابومہدی المہندس نے مرکزی کردار ادا کیا۔ عوامی رضاکار اور مزاحمتی گروہوں نے مذہبی قیادت اور عوام کی حمایت سے عراقی فوج کے شانہ بشانہ لڑتے ہوئے مختصر مدت میں جنگ کو اپنے منطقی انجام تک پہنچایا۔ امریکہ کے پاس داعش سے لڑنے کا بہانہ نہیں رہا اسی لئے عراق کے اندر سے ہی امریکی فوجی انخلاء کا مطالبہ ہونے لگا۔ عراقی عوام کو اندازہ ہوا کہ امریکہ واپسی کی نیت سے نہیں بلکہ داعش کے بہانے اپنے اہداف حاصل کرنے آیا ہے۔
حزب اللہ کے سربراہ نے مزید کہا کہ داعش کے خاتمے کے بعد عراق میں انتخابات کا مرحلہ پیش آیا۔ ان اتنخابات میں کون کامیاب ہوا؟ میں کسی مخصوص سیاسی جماعت یا گروہ کی طرف اشارہ نہیں کررہا ہوں بلکہ میرا مقصد کامیابی حاصل کرنے والی جماعت کی پالیسی کو واضح کرنا ہے۔ انتخابات میں اسی جماعت کو کامیابی ملی جس نے امریکہ کے سامنے سر جھکانے کے بجائے قومی اور ملکی مفاد میں سیاست کا نعرہ لگایا۔ امریکی حکام نے بخوبی ادراک کیا کہ عراق میں وہی طبقہ انتخابات جیت گیا جو ایران کا ہم خیال ہے۔ اس سے بہتر الفاظ میں اس کی تعبیر یوں پیش کی جاسکتی ہے کہ عراقی پارلیمنٹ میں منتخب ہونے والے نمائندوں کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہے جو امریکہ کے سامنے جھکنا گوارا نہیں کرتے ہیں۔ اسی پارلیمنٹ کی زیرنگرانی حکومت قائم ہوئی۔ نومنتخب حکومت نے امریکہ کو مایوس کردیا۔ بعض اہم امور کی طرف اشارہ کرتا ہوں جن کی وجہ سے امریکہ کو عراق میں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ عادل عبدالمہدی کی قیادت میں تشکیل پانے والی حکومت نے ایران کے خلاف جنگ اور پابندیوں کی حمایت کے بجائے امریکہ کے سامنے ڈٹ جانے کا فیصلہ کردیا۔
دوسری بات یہ کہ عراقی حکومت نے صدی ڈیل کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے فلسطین کے مسئلےپر امریکہ کا ساتھ دینے سے انکار کیا۔ تیسری بات یہ کہ وزیر اعظم نے چین کا تاریخی دورہ کرکے دونوں ملکوں کے درمیان کئی سو ارب ڈالر کا معاہدہ کیا جس کی ادائیگی نقد کے بجائے تیل کی خرید و فروخت کے ذریعے کی جانی تھی۔ امریکیہ عراقی دولت پر قبضہ کرنے کے لئے اپنی کمپنیوں سے معاہدے کا خواہاں تھا۔ شام کے ساتھ ملحقہ سرحد کو بند رکھنے کے بجائے عادل عبدالمہدی نے البوکمال کی سرحد کھولنے کا عزم ظاہر کیا۔ ان اقدامات کی وجہ سے امریکہ ناراض ہوا۔ عراقی پارلیمنٹ میں امریکی افواج کے انخلاء کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ ان واقعات کی وجہ سے امریکہ کو عراق کے اندر اپنی ناکامی کا بخوبی احساس ہوگیا۔ عراق پر امریکی قبضے کا مقصد اس ملک میں جمہوریت کا قیام نہیں تھا۔ صدام کی حکومت ختم کرکے عراقی وسائل پر قبضہ کرنا ان کا ہدف تھا۔ جب عوام نے آزادی اور خودمختاری کا نعرہ لگایا تو افغانستان، پاکستان، سعودی عرب، یمن اور دنیا کے مختلف ممالک سے دہشت گرد گروہوں کو لاکر عراق میں بسایا گیا جس کے نتیجے میں 2003 سے لے کر 2011 تک عراق میں خودکش حملوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا۔ مسجدوں، گرجاکروں، اسکولوں اور بازاروں میں بم دہماکے ہوئے۔ فوج کے اعلی اہلکاروں اور قومی شخصیات کو امریکی حمایت کے تحت دہشت گردوں نے قتل کیا۔
حالیہ مہینوں میں امریکہ نے عراقی عوام کو دوبارہ دھوکہ دے کر ملک میں خانہ جنگی کا منصوبہ بنایا لیکن مذہبی قیادت اور اعلی حکام کی ہوشیاری کی وجہ سے یہ سازش ناکام ہوگئی۔ مقاومتی گروہوں اور قبائل نے مضبوط موقف اختیار کرکے ہوشیاری کا ثبوت پیش کیا۔ سائیبری وسائل استعمال کرکے ایران اور عراق کے درمیان اختلافات ایجاد کرنے کی کوشش کی گئی کیونکہ ایران عراق کا سب بڑا اور طاقتور حامی ہے۔ امریکہ کو عراق کے ہاتھ سے نکل جانے کا خوف تھا۔ انتخابات کے قریب ان واقعات کا ہونا ٹرمپ کے لئے شکست کا سامان تھا۔ یہ سارے واقعات شہید قاسم سلیمانی پر حملے سے پہلے رونما ہوئے تھے۔ اس موقع پر ٹرمپ انتظامیہ پریشان تھی کہ کیا کیا جائے؟ البتہ کچھ معاملات میں انہیں جزوی کامیابی بھی ملی ہے۔
میں خود صدر ٹرمپ کی تقریروں کا تجزیہ کرتا ہوں۔ خارجہ پالیسی میں ٹرمپ کو کیا کامیابی ملی؟ امریکی صدارتی انتخابات میں ٹرمپ انتظامیہ کی جن کامیابیوں کو عوام کے سامنے بیان کرنا چاہئے، وہ کیا ہیں؟ وینزویلا میں حکومت کے خلاف بغاوت کی سازش کی گئی لیکن شکست سے دوچار ہوگئی۔ کیوبا میں کوئی کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ شمالی کوریا کو جنگ کے دہانے تک پہنچایا گیا لیکن آخر میں مذاکرات کی پیشکش کی گئی۔ امریکی عوام کو دہوکہ دیا گیا۔ عوام چاہتے تھے شمالی کوریا ایٹمی اسلحوں سے دست بردار ہوجائے لیکن ایسا نہیں ہوا۔
چین اور روس سمیت اپنے اتحادیوں کے ساتھ کیسا رویہ اپنایا گیا؟ ان کے ساتھ ہمیشہ حقارت آمیز اور توہین آمیز رویہ سلوک کیا گیا۔ امریکی خارجہ پالیسی کے بارے میں ٹرمپ کی سیاست کو تین جملوں میں خلاصہ کیا جاسکتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ تینوں باتیں مشرق وسطی سے تعلق رکھتی ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ چار سو ارب ڈالر کا دفاعی معاہدہ کیا گیا۔ اس کے بدلے سعودی عرب کے ساتھ اہانت آمیز رویہ رکھا گیا اور موقع پر حاضر لوگوں نے بھی تالی بجاکر صدر ٹرمپ کی تایید کی۔ عرب ممالک کے ساتھ اربوں ڈالر کے دفاعی معاہدوں کو ٹرمپ کی کامیابی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ امریکی عوام کے سامنے ان معاہدوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کا ذکر کیا جاتا ہے اور اس سے ملازمت کے مواقع پیدا ہونے کی امید کی جاتی ہے۔
تیسرا کارنامہ امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنا ہے۔ اس طرح تینوں کارنامے عرب ممالک اور مسلمانوں کی دولت اور زمین پر قبضے اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے مذہبی مقدس مقامات پر تجاوز سے تعلق رکھتے ہیں۔ امریکی انتخابات میں صدر ٹرمپ کے ایجنڈے کا محور عراق ہے۔ ان حالات میں نیا اور تازہ مرحلہ شروع کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ بغداد ائیرپورٹ پر دہشت گردی کا واقعہ امریکی پالیسی سے جدا نہیں ہے بلکہ نیا آغاز ہے جس کا مقصد جدید طریقے سے خطے میں نئی جنگ شروع کرنا ہے۔
حالات کا رخ موڑنے اور مقاومت کی کمر توڑنے کے لئے سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ کیا جائے؟ انتخابات میں کامیابی کے لئے ایران کو دہمکانے اور اتحادیوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے بارے میں غور کیا گیا۔ ایسے حالات پید اکرنے کی کوشش کی گئی جس میں خطے پر اپنی مرضی کے مطابق حکومت کی جائے۔ تحقیق اور غور و فکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ جنگ بڑی تباہی کا سبب بن سکتی ہے لہذا کوئی اور حل نکالا جائے۔ اسرائیل اس معاملے میں کوئی کام کرنے کا قابل نہیں رہا کیونکہ فلسطین کے ساتھ مسئلہ حل کرنے میں ابھی تک ناکام رہا ہے۔ اسرائیل اور لبنان کے درمیان جنگ بھی کوئی آسان راہ حل نہیں بلکہ بہت ہی پیچیدہ موضوع ہے چنانچہ اسرائیل فوج کے مشترکہ کمیشن کے سربراہ نے چند روز پہلے اس کی طرف اشارہ کیا تھا۔ ایران کے ساتھ جنگ کی تباہ کاریوں سے بھی صدر ٹرمپ بخوبی واقف ہیں بنابراین جنگ سے کمتر کوئی راہ حل ڈھونڈنے لگے جس کا نتیجہ جنگ کی صورت میں نہ نکلے۔ اس مرحلے پر شہید قاسم سلیمانی کو ٹارگٹ کرنا مناسب ترین حل سمجھا گیا۔ مقاومت کے مرکزی کردار کو نشانہ بنانے کا سوچا گیا
چند روز پہلے شہید سلیمانی میرے مہمان تھے۔ میں نے کہا کہ سال کا آغاز آپ کی دیدار اور ملاقات سے کرنا چاہتا ہوں۔ ملاقات کے دوران میں نے کہا کہ امریکی آپ کی طرف زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ میگزین کے صفحہ اول پر تصویر لگاکر لکھا گیا ہے کہ “وہ جنرل جس کا کوئی متبادل نہیں” یہ آپ کے قتل کا مقدمہ ہے جس کی میڈیا کے ذریعے تشہیر کی جارہی ہے۔ شہید سلیمانی حسب معمول ہنسنے لگے اور کہا کہ میں قتل کرنا چاہتے ہیں؟ کرمان میں ہونے والے ناکام حملے کا ذکر کرتے ہوئے میں نے کہا کہ اللہ کا شکر کہ آپ بچ گئے۔ جواب میں انہوں نے کہا کہ زندہ تو ہوں لیکن موقع ہاتھ سے نکل گیا۔ شہید سلیمانی کی سوچ ایسی تھی۔ ان کو قتل کرنے کے لئے پوری طرح منصوبہ بندی کی گئی۔ جب دشمن نے دیکھا کہ مقاومتی بلاک میں ہر جگہ قاسم سلیمانی کا نام سنائی دیتا ہے۔ فلسطینی مزاحمتی گروہوں کی ٹریننگ اور تربیت سمیت دیگر معاملات میں شہید سلیمانی پیش پیش ہیں۔ میڈیا اور دیگر محاذوں پر فلسطین کا دفاع کرنے میں شہید سلیمانی اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
لبنان میں ان کا کردار دشمن نے دیکھا کہ سنہ 2000 اور 2006 میں لبنان کی مزاحمت بڑھ گئی۔ شہید سلیمانی نے اس سلسلے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ شام میں تکفیری دہشت گردوں پر اعتماد کرتے ہوئے امریکہ اور اسرائیل مطمئن تھے لیکن وہاں بھی شامی حکومت، عوام اور فوج سے مل کر شہید سلیمانی نے ان کے خواب چکناچور کردئے۔ داعش کے ذریعے عراق پر دسیوں سال قبضے کی خواہش کی لیکن شہید سلیمانی نے اس کوبھی پورا ہونے نہیں دیا۔عراق میں اختلافات کو ہوا دی گئی لیکن شہید قاسم سلیمانی نے عراقی عوام کو دوبارہ یکجا اور متحد کردیا۔ یمن اور افغانستان میں قاسم سلیمانی کا وجود محسوس کیا گیا۔ ایران میں شہید قاسم سلیمانی کا وجود کسی بیان کا محتاج نہیں۔
اسرائیل شہید سلیمانی کو اپنے لئے اب تک کا سب سے خطرناک دشمن سمجھتا تھا جس نے پورے خطے میں میزائلوں کی جال بچھا کر اسرائیل کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا ہے۔ اپنے لئے بڑا خطرہ محسوس کرنے کے باوجود اسرائیل ابھی تک شہید سلیمانی کو قتل کرنے کی جرائت نہیں کرسکا تھا۔ علی الاعلان سفر کرنے کی وجہ سے شام میں اسرائیل کے لئے شہید سلیمانی پر حملہ کرنا ممکن تھا لیکن جرائت نہیں تھی اسی لئے امریکہ سے درخواست کی گئی۔ خطے کے مختلف ممالک اور اقوام کے درمیان وحدت اور ہمدلی ایجاد کرنے میں مرکزی کردار ادا کرنے کی وجہ سے دشمن نے ان کو ٹارگٹ بنانے کا علی الاعلان فیصلہ کردیا۔ اصلی ہدف شہید سلیمانی تھے اس کے علاوہ سیاسی، دفاعی، نفسیاتی اور معنوی اہداف بھی تھے جن کی وجہ سے کھلم کھلا اس کا اظہار بھی کیا گیا۔ ان کو قتل کرکے عراق اور مقاومتی بلاک کو کمزور کرنا چاہتے تھے۔ ایران اور مقاومتی بلاک کے درمیان تعلقات میں دڑاڑ ایجاد کرنا چاہتے تھے؛ ایران کو خوف میں مبتلا کرکے خود کریڈٹ لینا چاہتے تھے۔
شہید سلیمانی کو قتل کرنے کے اہداف کو ناکام بنانا ہماری اولین ذمہ داری ہے کیونکہ ہم منصفانہ انتقام چاہتے ہیں۔ یہ دو قبائل کا مسئلہ نہیں ہے جس میں ایک قبیلے کے کچھ افراد کو قتل کرنے کے بعد دوسرے سے انتقام لیا جائے بلکہ یہ دو محور و طرز فکر کی جنگ ہے۔ ای ک کا ایجنڈا پورے خطے پر امریکہ اور اسرائیل کی اجارہ داری قائم کرنا ہے۔
ہمارے مقدس مقامات اور تیل و گیس سمیت دیگر قدرتی وسائل پر قبضہ ان کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ دوسری طرف مقاومت اور خودمختاری کا طرز فکر اور محور موجود ہے جو ہر قوم کے وسائل پر اسی کا حق تسلیم کرتا ہے۔ بعض محور مقاومت کے حامی ہیں تو بعض محور استکبار کے، بعض دونوں کیمپوں میں شامل نہیں ہیں۔ بعض موقع کی تلاش میں ہیں جس محور کو فاتح سمجھیں اسی میں شامل ہونے کے انتظار میں ہیں۔
اس مرحلے پر دشمن کے اہداف کو ناکام بنانے کے لئے ہماری کیا ذمہ داری ہے؟
دشمن کی اس جنایت سے مقابلہ اسی رات کو ہی شروع ہوچکا ہے۔ ایران سے اس موضوع کو شروع کرتا ہوں۔ صدر ٹرمپ ایران کے جواب کا انتظار کررہے تھے۔ میں نے تمہارے فوجی کمانڈر کو قتل کیا۔ تمہارے اور خطے کے مختلف گروہوں کے درمیان رابطہ کار کی ذمہ داری انجام دینے والے کو علی الاعلان ٹارگٹ بنایا۔ ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا اس حملے کا ایک ہدف تھا۔ صدر ٹرمپ چاہتے تھے کہ ایران کسی ردعمل کا اظہار کئے بغیر مذاکرات کے لئے آمادہ ہوجائے لیکن ایران نے پہلے مرحلے پر سخت ردعمل ظاہر کیا۔ رہبر معظم اور صدر مملکت سمیت دیگر اعلی حکام اور مراجع تقلید کے بیانات واضح تھے۔ تمام شہروں میں عوام نے بڑے پیمانے پر مظاہرے کئے۔ آج اہواز میں لوگوں نے بڑی تعداد میں جمع ہوکر تشییع میں شرکت کی۔ کل تہران اور کرمان میں مزید بڑا اجتماع ہوگا۔ مائیک پومپئیو نے لکھا ہے کہ شہید سلیمانی کی موت پر ایرانی عوام کے شدید ردعمل کی توقع تھی۔
میں پومپئیو سے کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے مشیروں کے بجائے ٹی وی پر نظر آنے والے مناظر دیکھیں۔ تہران اور کرمان کی تشییع میں ایرانی عوام کی جانب سے ملنے والے پیغام کو سنیں۔ ایران کے سارے پارلیمانی نمائندے اور اعلی حکام ایک ہی آواز میں کہہ رہے ہیں کہ امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے بجائے خطے میں اپنی پالیسی جاری رکھیں گے اور شہید سلیمانی کا بدلہ لیا جائے گا بنابراین حملے کے چھے گھنٹے بعد ہی امریکہ کو پہلے ہدف میں شکست ہوئی۔
ہم اس کے فرزند ہیں جس نے فرمایا تھا کہ اے ناجائز باپ کے ناجائز بیٹے! مجھے قتل سے ڈراتے ہو۔ ہم موت سے مانوس ہیں اور شہادت ہمارے لئے باعث افتخار ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ امریکہ عراق میں عوامی رضاکار فورسز اور دوسرے مزاحمتی گروہوں کو مرعوب کرنا چاہتا تھا۔ اس سے پہلے بھی میڈیا کے ذریعے مختلف شخصیات کے قتل کی افواہ پھیلائی گئی تاکہ عوام اور اعلی حکام کو دہمکایا جائے لیکن عراقی عوام نے بڑی تعداد میں تشییع کرکے دندان شکن جواب دیا۔ امریکہ کئی سالوں سے ایران اور عراق کے درمیان اختلافات ایجاد کرکے دونوں ملکوں کے عوام کو لڑانے کی سازش کررہا تھا۔ ایرانی قونصل خانے اور پرچم کو نذر کیا گیا لیکن اس واقعے کے بعد ایرانی اور عراقی شہداء کو تشییع کے دوران ایک ہی صف میں رکھا گیا اور عالی شان طریقے سے تشییع کی گئی۔ بغداد، کاظمین، نجف اور کربلا میں شہداء کی تشییع کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت ہے کیونکہ سب نے مشاہدہ کیا کہ عراقی عوام نے اتحاد اور یگانگت کا اعلی مظاہرہ کیا۔ مذہبی قیادت، سیاسی جماعتوں، مقاومتی گروہوں اور علاقائی جماعتوں نے اپنے بیانات میں اس واقعے کی شدید مذمت کی اور فوری طور پر امریکی افواج کے انخلاء کا مطالبہ کیا۔ عوام اور مختلف تنظیموں اور شخصیات کا شدید ردعمل بخوبی اشارہ کرتا ہے کہ عراق میں امریکی پالیسی ناکامی سے دوچار ہوگئی ہے۔
میں عراقی پارلیمنٹ کے نمائندوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ آج پوری دنیا کی نظریں آپ پر مرکوز ہوگئی ہیں۔ وزیراعظم امریکی فوجی انخلاء کے بارے میں بل پیش کریں گے، اس مرحلے پر پارلیمانی نمائندوں کی حمایت ضروری ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں نے بل کی حمایت میں ووٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔ امریکہ نے گذشتہ چند دنوں کے اندر عراق اور دنیا کے مختلف حصوں میں اپنے شیاطین کو تعیینات کردیا ہے تاکہ عراقی عوام پر دباو میں اضافہ کیا جائے اور پارلیمنٹ کو بل پاس کرنے سے روکا جائے۔ امریکی اپنے ہدف کو حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن امید ہے کہ عراقی پارلیمنٹ کے نمائندے امریکی افواج کو ملک سے نکال کر ہی دم لیں گے اس سلسلے میں غیرملکی افواج کے انخلاء کے عنوان سے قانون پاس کی ضرورت ہے۔ بہرحال امریکی اہداف حاصل نہیں ہونا چاہئے۔ اگر پارلیمنٹ میں امریکی فوجی انخلاء کی بل منظور نہ ہوجائے تو عراقی عوام اور مزاحمتی تنظیمیں دونوں مل کر غیرملکی قابض افواج کو باہر نکال دیں گے۔
عراق کے شریف لوگو! شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابومہدی المہندس اور ان کے ساتھیوں کی شہادت سے ہمارا ایمان مزید مضبوط ہوا ہے۔ اس جنایت کا مناسب جواب عراق کی غیرملکی قابض طاقتوں سے رہائی اور امریکی فوج کا انخلاء ہے۔ اس کام سے امریکیوں کو اندازہ ہوجائے گا کہ شہید سلیمانی اور شہید ابومہدی المہندس کو قتل کرکے عراق میں شکست سے بچنا چاہتے تھے لیکن ساری تدبیریں الٹی ہوگئیں اور شکست سے دوچار ہوگئے۔
جمعہ کے دن امریکہ سے تعلق رکھنے والے نامور مبصرین نے کہا تھا کہ آج ہم عراق سے شکست کا سامنا کررہے ہیں جو مزاحمتی بلاک اور عراقی عوام کی مزاحمت سے ہی ممکن ہوئی ہے۔ شہید سلیمانی اسی مزاحمت کی پشت پر تھے جس نے کئی سال تک عراق پر قابض رہنے والی قوتوں سے عراق کو آزاد کیا تھا۔ شہید سلیمانی اور شہید ابومہدی اور ان کے ساتھی عراق کو دہشت گردوں کے چنگل سے آزاد کرنے کا اصلی عامل تھے اسی لئے ان شہداء کا خون عراقی عوام کے عزم و ارادے کو مزید مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ ایمان کو مزید قوی کردے گا۔ شہید سلیمانی کی شہادت سے شام کو حوصلہ ہارنے کے بجائے کامیابی کے راستے پر اپنا سفر جاری رکھنا چاہئے۔ شہادت کا یہ واقعہ فطری ہے کیونکہ ہر جنگ میں لوگوں نے قتل ہونا ہے زندہ بچنے والے مرنے والوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔ یمنی عوام کو بھی اپنا سفر جاری رکھنا ہوگا۔ مزاحمتی تنظیموں میں دو اقدامات کی ضرورت ہے؛ پہلا یہ کہ صدر ٹرمپ ہمیں ڈرانے کے درپے ہیں اور کہتے ہیں یہ ہمارے منصوبے کا فقط ایک حصہ تھا باقی کام ابھی رہتے ہیں۔ بنابراین مقاومت اور اس کے سربراہان کو خوف زدہ کرنا دشمن کا ایک ہدف ہے تاکہ عقب نشینی پر مجبور کیا جاسکے۔ اس کے مقابلے میں پہلا جواب اور اقدام یہ ہونا چاہئے کہ اپنے اہداف پر مزید قوت ارادی کے ساتھ پابند ہوجائیں۔ مقاومت کے جوان ان واقعات سے نہ ڈرتے ہیں اور نہ کمزوری دکھاتے ہیں بلکہ اپنی ذمہ داری نبھانے کے لئے نئے عزم و حوصلے کے ساتھ تیار ہوجاتے ہیں۔
اس واقعے کے بعد ہمیں محسوس ہورہا ہے کہ ہم تاریخی کامیابی کے نزدیک پہنچ گئے ہیں اور ہمیں معنوی اور نفسیاتی طور پر حوصلہ ملا ہے۔ یہ واقعہ امریکی شکست اور حواس باختگی کی علامت ہے اسی لئے اس احمقانہ عمل کا ارتکاب کیا۔ ہمیں اس مرحلے پر شکست اور بددلی کا احساس کئے بغیر خدا کی رضایت کے لئے شہید سلیمانی کی طرح شہادت کے لئے قدم بڑھانا چاہئے۔جو لوگ ہمیں ایسے واقعات کے ذریعے مرعوب کرنا چاہتے ہیں، میں ان سے کہتا ہوں کہ ہم اس کے فرزند ہیں جس نے کہا تھا اے ناجائز باپ کے ناجائز بیٹے! مجھے قتل کی دہمکی دے کر مت ڈراو کیونکہ ہم موت کے عادی ہیں اور شہادت ہمارے لئے باعث افتخار ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ مزاحمتی بلاک کو آپس میں اتحاد اور یکجہتی کو برقرار رکھتے ہوئے مزید طاقتور ہونا چاہئے کیونکہ خطے میں بڑی تبدیلیاں آنے والی ہیں۔ حاج قاسم کی شہادت سے ہمارا حوصلہ ختم نہیں ہونا چاہئے۔ علاوہ ازین ابومہدی المہندس کی شہادت سے عراق کے اندر دہشت گردوں اور قابض قوتوں کے خلاف مزاحمت میں کمزوری نہیں آنی چاہئے۔
اس واقعے کا منصفانہ قصاص اور بدلہ کیا ہے؟
اس موضوع پر ہمیں صاف اور شفاف بات کرنی چاہئے۔ اس سلسلے میں کسی توضیح اور تفصیل کی ضرورت نہیں۔ میڈیا اور رسائل و جرائد میں اس حوالے سے مختلف تعبیریں سامنے آرہی ہیں۔ بعض کے مطابق شہید سلیمانی کے ہم پلہ کسی شخصیت کو جواب میں قتل کیا جائے۔ مثلا امریکی جوائنٹ چیف آف سٹاف کے سرابرہ، وزیردفاع، سینٹرل کمانڈ کے سربراہ وغیرہ۔ ان میں سے کوئی بھی شہید سلیمانی اور شہید ابومہدی کے ہم پلہ نہیں ہے۔ شہید سلیمانی کی جوتی امریکی صدر ٹرمپ اور دیگر حکام کے سر کے برابر ہے۔دشمن کے پاس شہید سلیمانی اور شہید ابومہدی کا ہم پلہ شخص موجود نہیں جس کو بدلے میں قتل کیا جائے۔ منصفانہ بدلے کا مطلب خطے سے امریکی فوج کا انخلاء، امریکی بحری بیڑوں کی روانگی اور خطے سے امریکی فوجی افسران کو بے دخل کرنا ہے۔ امریکی فوج نے شہید سلیمانی کو قتل کیا ہے لہذا وہی اس کی قیمت ادا کرے یہی عدالت ہے۔ ہمارا مقصد امریکی عوام نہیں بلکہ امریکی نظام ہے۔ خطے میں امریکہ سے تعلق رکھنے والے تاجر، انجینئر، ڈاکٹر اور عوام ہمارا ہدف نہیں ہیں۔ ان کو کسی بھی طور پر کوئی گزند نہیں پہنچنا چاہئے۔ غیر مسلح امریکی عوام کو ہدف بنانے کا نیتجہ ٹرمپ کے حق میں جائے گا کیونکہ وہ اس حملے کو اپنی کامیابی اور خطے میں باقی رہنے کے لئے بہانہ قرار دے گا۔ ہم ان لوگوں سے بدلہ لیں گے جنہوں نے اس واقعے میں کردار ادا کیا ہے۔ امریکی فوج اس واقعے کی ذمہ دار ہے۔ یہی ادارہ ہمارے ٹارگٹ پر رہے گا جوکہ قانونی اور فطری عمل ہے۔ جو کچھ میں نے کہا میرا عقیدہ بھی اور میں ہی ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔ میں نے موضوع کو بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیاہے۔
اگر اس واقعے کو نظرانداز کرکے خاموشی اختیار کی جائے تو انجام ٹھیک نہیں ہوگا کیونکہ مستقبل میں دوسری شخصیات کے ساتھ بھی اس طرح کے واقعات پیش آئیں گے۔ ہر کسی کو اپنی مرضی کے مطابق اقدام کرنے کی اجازت دینا صحیح نہیں ہے اس کے نیتجے میں ہماری جان، مال اور عزت و آبرو جنایت کاروں کے لئے مباح ہوجائیں گی؛ ہم اپنے مقدسات کو صہیونیوں کے حوالے کربیٹھیں گے جو ہمیں کسی بھی صورت قبول نہیں ہے۔اس موضوع پر اختلاف ہوسکتا ہے چنانچہ 1988 سے اب تک ہمارے درمیان اختلافی موضوعات رہے ہیں لیکن اگر مزاحمتی تنظیمیں ان اہداف کو حاصل کریں تو خطے سے امریکہ کو ذلت اور ناکامی کے ساتھ نکلنا پڑے گا چنانچہ ماضی میں بھی اس طرح کے واقعات پیش آئے ہیں۔ امریکہ کو ذلیل اور رسوا کرنے والے شہادت کے طلبگار جوانوں کی تعداد میں کوئی کمی نہیں آئی ہے بلکہ ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ماضی میں جوانوں کی قلیل تعداد نے امریکہ کو خطے سے بھگادیا ہے۔ آج ان گروہوں اور ان کے پاس موجود وسائل میں بھی بہت اضافہ ہوا ہے۔
اگر خطے کی اقوام مزاحمت کے راستے پر چلیں تو کیا نتیجہ ہوگا؟
اگر شفافیت اور دقت کے ساتھ کام کیا جائے تو امریکی فوج کے افسران اور جوانوں کی لاشیں روانہ ہوجائیں گی یعنی عمودی حالت میں آجائیں اور افقی صورت میں واپس جائیں تو ٹرمپ اور اس کی انتظامیہ کو اپنی شکست کا احساس ہوجائے گا اور انتخابات میں ناکامی کا سامنا ہوگا۔ شہید سلیمانی اور شہید ابومہدی کے خون کا بدلہ خطے سے امریکی فوجی انخلاء کی شکل میں لینا ہوگا۔ یہ ہدف آج سے پہلے حاصل ہوا ہے اور ان شاء اللہ آئندہ بھی حاصل ہوگا۔ اگر ایسا ہوا تو فلسطین اور قدس کی آزادی اور امت مسلمہ کی امریکی غلامی سے نجات بھی ممکن ہوجائے گی۔ جب امریکہ چلا جائے تو اسرائیل سے بھی مقابلے کی نوبت نہیں آئے گی کیونکہ صہیونی عناصر بھی اپنا بوریا بسترہ گول کرکے رخت سفر باندھ لیں گے۔
اپنی تقریر کو اس بات کے ساتھ ختم کرنا چاہتا ہوں کہ ٹرمپ اور اس کے نادان ساتھیوں کو اندازہ نہیں کہ انہوں کیا کیا ہے؟ وقت گزرنے کے ساتھ انہیں اندازہ ہوگا کہ کتنا احمقانہ کام انجام دیا ہے۔ میرا خطاب حضرت زینب علیہا السلام کے دربار یزید میں خطاب سے استعارہ ہے کہ اے ٹرمپ اور امریکی حکام! کیسا خون تم نے بہایا ہے؟ یہ خون معمولی خون نہیں ہے۔ یہ مصیبت دوسری مصیبتوں سے مختلف ہے۔ شہید سلیمانی کے خون کا بدلہ دیگر شہدائے مقاومت کے خون کا بدلہ لینے کے مترادف ہے۔ جب بدلے کے لئے اس آپشن کو انتخاب کیا تو ہمارے کردار اور رفتار میں تبدیلی نہیں آنی چاہئے۔ شہید سلیمانی پر مجھے رشک آتا ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں سختیاں برداشت کیں اور آخر میں سکون نصیب ہوا۔ اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ شہید سلیمانی کو شہادت کی موت عطا کی۔ ان کے پاک خون سے امت مسلمہ کو نیا اور تازہ موقع نصیب ہوا ہے تاکہ استکبار کے تسلط اور قبضے سے خود کو نجات دے اگرچہ وقتی طور پر مشکلات پیش آسکتی ہیں لیکن آخر میں کامیابی ہمارے ہی قدم چومے گی۔
اے مقاومت کے حامیو! صبر کرنے والو! پاک اور شریف لوگو! شہید سلیمانی اور دوسرے شہداء کے پاک خون کی خاطر ہم اپنا سفر جاری رکھیں گے۔ ان شہداء کا خون رائیگان نہیں جائے گا اور آخری کامیابی ہمیں ہی نصیب ہوگی۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب