حاج قاسم سلیمانی اور میں نے 1992 میں مسجد نبوی میں عقد اخوت پڑھا تھا اور ایک دوسرے کے بھائی بنے، اس وقت سے ان کے ساتھ میرے تعلقات زیادہ گہرے ہو گئے، حاج قاسم میں میری دلچسپی ایسی تھی جسے نہ بیان کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی سمجھایا جاسکتا ہے،اگر میں ان سے کچھ دن نہیں مل پاتا تھا تو بہت پریشان ہوجاتا تھا۔
یہ ان کی شہادت سے پانچ چھ دن پہلے کی بات ہے،کیونکہ میں جانتا تھا کہ حاجی اپنے گھر والوں کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزار سکتے اس لیے جب وہ گھر جاتے تھے تو میں انھیں پریشان نہیں کرتا تھا، دوسری طرف میں نے سنا تھا کہ ان کے کچھ کام ان دنوں میں پھنسے ہوئے ہیں، میں نے خدا کا نام لے کر انھیں فون کیا اور کہاکہ جب ہمارے بزرگوں کوکوئی سخت مسئلہ درپیش آتا ہے اوران کے کام پھنس جاتے ہیں تو وہ حضرت معصومۂ قم سلام اللہ علیہا کے روضے پر جاتے ہیں ، دو رکعت نماز پڑھتے ہیں اور اپنا مسئلہ حل کرلیتے ہیں، میں آپ کو بھی یہی مشورہ دیتا ہوں، انہوں نے کہا کہ ہاں ایسا ہی ہے ، میں کل قم میں زیارت کے لیے آؤں گااورپ سے بھی ملوں گا انشاء اللہ۔” 29 دسمبر2019کو اتوار کی شام حسین پورجعفری نے مجھے فون کیا اور کہا کہ ہم آپ سے ملنے آپ کے گھر آرہے ہیں وہاں سے ایک ساتھ حضرت معصومہ علیہا السلام کی زیارت کے لیے جائیں گے،وہ آئے اور ہم ساتھ میں زیارت کرنے گئے، حاجی نے دو رکعت نماز بھی پڑھی۔
زیارت کے بعد میں سوچ رہاتھا حاجی ہمارے گھر آئیں گے اور ہم باتیں بھی کریں گے اور کھانا بھی ساتھ میں کھائیں گے لیکن حاجی نے کہا کہ مجھے کام ہے اور میرے پاس وقت نہیں ہے مجھے تہران واپس جانا ہے۔
حاج قاسم نہیں کہنے والا آدمی نہیں تھے، اگر میں اصرار کرتا تو وہ مان لیتے لیکن جب انھوں نے کہا کہ کام ہے تو اصرار کرنے کی گنجائش نہیں رہی، میں نے ان سے کہا کہ جب آپ ہمارے گھر نہیں چل سکتے ہیں تو میں آپ کے ساتھ تہران چلوں گا۔
اس رات حاج قاسم کی گاڑی کے علاوہ کوئی اور گاڑی نہیں تھی،ان کے ساتھ کوئی بھی محافظ نہیں تھا،صرف میں اور حاج قاسم تھےاور پورجعفری جو گاڑی چلا رہے تھے۔ ہم نے راستے میں حاجی سے باتیں کی۔ حاجی نے کچھ فون کیے ، ہم ماضی کی یادیں سناتے سناتےتہران پہنچ گئے۔
سفر کے دوران پورجعفری خاموش رہے ،کچھ نہیں بولے،وہ نہایت ہی باادب اور سنجیدہ انسان تھے،ان کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی، اس رات میں نے ان سے کہا کہ حسین ، میں آپ پربہت رشک کرتا ہوں۔،انھوں نے پوچھا:کیوں؟ میں نے کہا :کیونکہ آپ ہمیشہ حاجی کے ساتھ ہیں، حاج قاسم نے ہنستے ہوئے کہا: آپ نے صرف حسین کے ساتھ میری ہنسی خوشی دیکھی ، آپ نے اس کے ساتھ میری تلخی اور غصہ نہیں دیکھا ہے،اسی لیے آپ اس پر رشک کررہے ہیں ،یہ حسین مجھے بیس سال سے برداشت کر رہےہیں، حسین پھر ہنس دیے، جب ہم حاجی کے گھر پہنچے تو ہم نے ایک دوسرے کو الوداع کہا ، یہ اس محبوب خدا سے میری آخری ملاقات تھی۔
راوی: محمود خالقی
متولد مارچ کتاب سے ماخوذ کچھ کمی زیادتی کے ساتھ/صص167-168.
رائے
ارسال نظر برای این مطلب