شہید سلیمانی فرما تے تھے کہ اگر ہم دن میں سو مرتبہ شہداء پر درود نہ بھیجیں تو ہم نے ان کے حق میں ظلم کیا ہے اور آپ خود بھی شہداء پر درود اور صلوات بھیجنے کے پایبند تھے اور حقیر نے اس بات کو کئی بار مشاہدہ کیا ہے۔
وہ جب کمانڈنگ بلیڈنگ میں داخل ہوتے تھے تو وہ دو منزلہ عمارت کی بلڈنگ تھی جس میں اوپر جانے کے لئے ایک سیڑھی تھی جو نیچے سے اوپر جانے کا راستہ ہے اور اس راستے میں شہداء کی تصاویر لگی ہوئی ہیں اور یہ تصویر ان کے میز کے ییچھے بھی لگی ہوئی تھیں جو آج تک لگی ہوئی ہیں آپ جب بھی اس بلڈنگ میں داخل ہوتے تھے تو ہر تصویر کے سامنے کھڑے ہوتے اور فاتحہ خوانی کرتے تھے اور ان میں سے کچھ تصاویر کے سامنے زیادہ دیر کھڑے رہتے تھے اور کچھ تصاویر کو اپنے ہاتھ سے چھومتے تھے لہذا وہ جب بھی اس بلڈنگ میں داخل ہوتے تھے اور وہاں پر موجود افراد نے اس بات کی گواہی بھی دیتے تھے کہ یہ ان کا ہر روز کا عمل تھا اور بلڈنگ کے دروازے سے لے کر ان کے کمرے تک تقریبا 50 تصاویر تھیں جن کے پاس وہ کھڑے ہو کر فاتحہ خوانی کرتے تھے اور انھیں اپنے کمرے تک پہنچننے میں اور اس پچاس قدم کے راستے کو طہ کرنے میں تقریبا 20 منٹ لگ جاتے تھے۔
حالانکہ معمول کے مطابق ایک انسان ایک بار ایک کام کرتا ہے یا دو بار ایسا کام کرتا ہے یا کبھی کسی ایک جگہ شہداء کی قبر ہوتی ہے تو انسان اس کی زیارت کرتا ہے اس کو چومتا ہے وہاں نماز پڑھتا ہے یا اگر کسی شخص کے راستے میں شہداء کا مقبرہ ہے تو وہاں پر رک کر فاتحہ خوانی کر لیتا ہے لیکن ایک مرتبہ ایک شخص ہر روز اس کام کو کرتا ہے تو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ شہید نے شہداء کے ساتھ ایک عہد کیا ہوا تھا اور ان کا یہ عمل حقیقت میں اسی وعدے کا جز ہے جس کے بارے میں اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اگر ہم ہر روز سو مرتبہ شہداء پر درود نہ بھیجیں تو ہم نے ان پر ظلم کیا ہے اور خود بھی ان کا یہی طریقہ کار تھا اور وہ اس طرح شہداء کی تصاویر کے پاس سے گزرتے تھے۔
اب اس کو ان کے اس اس جملے کے ساتھ ملا کر دیکھیں جس میں آپ نے فرمایا کہ وہی شہید ہوتا ہے جو دنیا میں بھی شہید ہو اس چھوٹے سے جملے میں بہت مطالب موجود ہیں وہی شہید ہوگا جو اس دنیا میں بھی شہید ہو یعنی ہوشیار رہے اور اپنا خیال رکھے اور اس بات کو سمجھ لے کہ اس دنیا میں کوئی بھی چیز بغیر حساب کتاب کے خلق نہیں ہوئی اب میں بھی اس نقطہ نظر سے ان کے مقبول ہونے کی بحث میں جاوں گا البتہ اب تک ہم نے جو کچھ کہا ہے وہ اس بحث سے باہر نہیں ہے۔
وہ جب کمانڈنگ بلیڈنگ میں داخل ہوتے تھے تو وہ دو منزلہ عمارت کی بلڈنگ تھی جس میں اوپر جانے کے لئے ایک سیڑھی تھی جو نیچے سے اوپر جانے کا راستہ ہے اور اس راستے میں شہداء کی تصاویر لگی ہوئی ہیں اور یہ تصویر ان کے میز کے ییچھے بھی لگی ہوئی تھیں جو آج تک لگی ہوئی ہیں آپ جب بھی اس بلڈنگ میں داخل ہوتے تھے تو ہر تصویر کے سامنے کھڑے ہوتے اور فاتحہ خوانی کرتے تھے اور ان میں سے کچھ تصاویر کے سامنے زیادہ دیر کھڑے رہتے تھے اور کچھ تصاویر کو اپنے ہاتھ سے چھومتے تھے لہذا وہ جب بھی اس بلڈنگ میں داخل ہوتے تھے اور وہاں پر موجود افراد نے اس بات کی گواہی بھی دیتے تھے کہ یہ ان کا ہر روز کا عمل تھا اور بلڈنگ کے دروازے سے لے کر ان کے کمرے تک تقریبا 50 تصاویر تھیں جن کے پاس وہ کھڑے ہو کر فاتحہ خوانی کرتے تھے اور انھیں اپنے کمرے تک پہنچننے میں اور اس پچاس قدم کے راستے کو طہ کرنے میں تقریبا 20 منٹ لگ جاتے تھے۔
حالانکہ معمول کے مطابق ایک انسان ایک بار ایک کام کرتا ہے یا دو بار ایسا کام کرتا ہے یا کبھی کسی ایک جگہ شہداء کی قبر ہوتی ہے تو انسان اس کی زیارت کرتا ہے اس کو چومتا ہے وہاں نماز پڑھتا ہے یا اگر کسی شخص کے راستے میں شہداء کا مقبرہ ہے تو وہاں پر رک کر فاتحہ خوانی کر لیتا ہے لیکن ایک مرتبہ ایک شخص ہر روز اس کام کو کرتا ہے تو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ شہید نے شہداء کے ساتھ ایک عہد کیا ہوا تھا اور ان کا یہ عمل حقیقت میں اسی وعدے کا جز ہے جس کے بارے میں اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اگر ہم ہر روز سو مرتبہ شہداء پر درود نہ بھیجیں تو ہم نے ان پر ظلم کیا ہے اور خود بھی ان کا یہی طریقہ کار تھا اور وہ اس طرح شہداء کی تصاویر کے پاس سے گزرتے تھے۔
اب اس کو ان کے اس اس جملے کے ساتھ ملا کر دیکھیں جس میں آپ نے فرمایا کہ وہی شہید ہوتا ہے جو دنیا میں بھی شہید ہو اس چھوٹے سے جملے میں بہت مطالب موجود ہیں وہی شہید ہوگا جو اس دنیا میں بھی شہید ہو یعنی ہوشیار رہے اور اپنا خیال رکھے اور اس بات کو سمجھ لے کہ اس دنیا میں کوئی بھی چیز بغیر حساب کتاب کے خلق نہیں ہوئی اب میں بھی اس نقطہ نظر سے ان کے مقبول ہونے کی بحث میں جاوں گا البتہ اب تک ہم نے جو کچھ کہا ہے وہ اس بحث سے باہر نہیں ہے۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب