ان کے اجتماعی ہونے کے بارے میں آخری بات جو ہے وہ یہ ہیکہ وہ خود کو لوگوں کے نظریے اور مشوروں کا محتاج سمجھتے تھے اس بات کی تھوڑی توضیح دینی ہو گی اسی نگاہ کے مطابق کے لوگ عیال اللہ ہیں خدا لوگوں کے نقطہ نظر سے آپ کی پرواہ کرتا ہے یعنی خدا جو دروازے اور خدا کے درمیان دروازے پر دھیان دینا چاہتا ہے وہ خدا کی مخلوق ہے اور یہ مخلوق خدا کے لئے ایک معیار ہے کہ آپ اچھے انسان ہیں یا نہیں یہ ایک بہت ہی اہم مسئلہ ہے۔
آپ اسلام پر اپنی جان کو فدا کرنے والے سپاہیوں کو جمع کر کے ان سے پوچھتے تھے کہ کیا میں اچھا انسان ہوں اور ان سے کہتے تھے کہ ہاں کہیں قاسم سلیمانی مجاہد فی سبیل اللہ تھے لیکن ان کے ذہن میں اصلا یہ تصور نہیں تھا کہ وہ خود کچھ ہیں یا ان کے پاس کچھ ہے صرف کہتے تھے کہ اے لوگو گواہی دو کہ میں اچھا انسان ہوں کتنا ایمان چاہیے اور پھر اپنے کفن پر دوسروں سے لکھواتے تھے کہ قاسم سلیمانی اچھا انسان ہے یہ وہی ہے جس کے بارے میں کہا تھا کہ وہ ہر چیز کو کمال کی نگاہ سے دیکھتے تھے ان کا ماننا تھا کہ اگر لوگ راضی ہوں گے تو اللہ بھی راضی ہو گا یعنی اللہ کی رضایت اس کے بندوں کی رضایت میں ہے لوگوں کی نسبت یہ اعتقاد بہت اہم اور دلچسب ہے۔
یہاں تک ہم نے کوشش کہ مصادیق کے ساتھ قاسم سلیمانی کے اجتماعی ہونے کے بارے میں بات کریں شہید سلیمانی کو شہداء کے بہت زیادہ معتقد تھے ان کاماننا تھا کہ اگر دن میں سو مرتبہ بھی شہداء کے لئے صلوات پڑھی جائے پھر بھی کم ہے شہید کی خصوصیات میں سے ایک خصوٰصت یہ تھی کہ وہ ہر کام کو اچھے طریقے سے انجام دیتے تھے اور کسی بھی کام میں سستی نہیں کرتے تھے۔
ہم لوگوں کے بارے میں یہ بحث ہوتی ہے کہ ہمین ولایتمدار ہونا چاہیے لیکن شہید سلیمانی کے متعلق صرف یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ صرف ولایت مدار تھے بلکہ وہ ولایت افزا تھےیعنی نہ وہ صرف وہی ولایت کے مدار کے مطابق حرکت کررہے تھے بلکہ دوسروں کو اس طرف دعوت دیتے تھے وہ ولی فقیہ کے مسئلہ کو ایک الگ نظر سے دیکھتے تھے ان کا ماننا تھا کہ ہم کام حکیم ولی فقیہ کے زیر قیادت ہیں۔
شہید سلیمانی کا ماننا ہے بہت کم لوگ انقلاب کے مخالف ہیں اور بقیہ افراد کو انقلابی مانتے تھے اور وہ اسی نظریے کے تحت ممتازین کے درمیان فرق کے قائل نہیں تھے ان کے نزدیک دائیں بائیں گروہوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی ان کے لئے جو چیز اہم تھی وہ صرف رہبری تھی اس کے باوجود انہوں نے ولایت افزائی کے ذریعے اکثریت کو گمراہی سے نکال کر رہبری کی طرف لے گئے ہیں۔
ان کی نگاہ انسانوں کے قریب ہونے سے اللہ کے قریب ہو سکتے ہیں انہوں بوکمال آپریشن کے دوران ایک گھر سے بیٹھ کر کمانڈنگ کی جب ان کی کاروائی ختم ہوئی ہو تو انہوں نے خود ایک خط لکھا اور بتایا کہ میں آپ کے گھر کے استعمال کرنے کے لئے مجبور تھا میں آپ سے التماس کرتا ہوں کہ مجھے اس کام کی وجہ سےمعاف کردیں پھر انہوں نے اس کو قرآن میں رکھا اور اس کو ایک کھڑکی میں رکھ دیا اور کہا کہ انھیں ڈھونٖڈو انہوں نے کہا کہ نہیں ہے اور بہت پہلے چلے گئے ہیں لیکن انہوں نے فرمایا کہ انہیں ضرور ڈھونڈیں اور پھر معلوم ہوا کہ ترکی کے ایک گاوں میں ہیں اور وہ وہاں بھاگ کر گئے ہیں اور وہ لوگ بشار اسد کے مخالفین میں سے ہیں لیکین پھر بھی ان کے ٹیلیفون نمبر کو ڈھنونڈتے ہیں اور انھیں کال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں قاسم سلیمانی ہوں کچھ عرصے کے لئے میں آپ کے گھر میں تھا اور ویاں میں نے نماز پڑؑھی ہے اس لئے آپ سے معافی چاہتا ہوں تانکہ وہاں پر پڑھی جانے والی میری نمازیں قبول ہو جائیں اور میں نے سنا ہے کہ آپ کے پاس کوئی دوسرا گھر نہیں ہے انہوں نے کہا کہ ہم تو بھاگ کر آ گئے ہیں اور معلوم بھی نہیں کہ واپس آئیں گے بھی یا نہیں لیکن وہ اس بات سے بہت زیادہ متاثر ہوئے کہ شہید نے انھیں فون کیا ہے۔
آپ اسلام پر اپنی جان کو فدا کرنے والے سپاہیوں کو جمع کر کے ان سے پوچھتے تھے کہ کیا میں اچھا انسان ہوں اور ان سے کہتے تھے کہ ہاں کہیں قاسم سلیمانی مجاہد فی سبیل اللہ تھے لیکن ان کے ذہن میں اصلا یہ تصور نہیں تھا کہ وہ خود کچھ ہیں یا ان کے پاس کچھ ہے صرف کہتے تھے کہ اے لوگو گواہی دو کہ میں اچھا انسان ہوں کتنا ایمان چاہیے اور پھر اپنے کفن پر دوسروں سے لکھواتے تھے کہ قاسم سلیمانی اچھا انسان ہے یہ وہی ہے جس کے بارے میں کہا تھا کہ وہ ہر چیز کو کمال کی نگاہ سے دیکھتے تھے ان کا ماننا تھا کہ اگر لوگ راضی ہوں گے تو اللہ بھی راضی ہو گا یعنی اللہ کی رضایت اس کے بندوں کی رضایت میں ہے لوگوں کی نسبت یہ اعتقاد بہت اہم اور دلچسب ہے۔
آپ اسلام پر اپنی جان کو فدا کرنے والے سپاہیوں کو جمع کر کے ان سے پوچھتے تھے کہ کیا میں اچھا انسان ہوں اور ان سے کہتے تھے کہ ہاں کہیں قاسم سلیمانی مجاہد فی سبیل اللہ تھے لیکن ان کے ذہن میں اصلا یہ تصور نہیں تھا کہ وہ خود کچھ ہیں یا ان کے پاس کچھ ہے صرف کہتے تھے کہ اے لوگو گواہی دو کہ میں اچھا انسان ہوں کتنا ایمان چاہیے اور پھر اپنے کفن پر دوسروں سے لکھواتے تھے کہ قاسم سلیمانی اچھا انسان ہے یہ وہی ہے جس کے بارے میں کہا تھا کہ وہ ہر چیز کو کمال کی نگاہ سے دیکھتے تھے ان کا ماننا تھا کہ اگر لوگ راضی ہوں گے تو اللہ بھی راضی ہو گا یعنی اللہ کی رضایت اس کے بندوں کی رضایت میں ہے لوگوں کی نسبت یہ اعتقاد بہت اہم اور دلچسب ہے۔
یہاں تک ہم نے کوشش کہ مصادیق کے ساتھ قاسم سلیمانی کے اجتماعی ہونے کے بارے میں بات کریں شہید سلیمانی کو شہداء کے بہت زیادہ معتقد تھے ان کاماننا تھا کہ اگر دن میں سو مرتبہ بھی شہداء کے لئے صلوات پڑھی جائے پھر بھی کم ہے شہید کی خصوصیات میں سے ایک خصوٰصت یہ تھی کہ وہ ہر کام کو اچھے طریقے سے انجام دیتے تھے اور کسی بھی کام میں سستی نہیں کرتے تھے۔
ہم لوگوں کے بارے میں یہ بحث ہوتی ہے کہ ہمین ولایتمدار ہونا چاہیے لیکن شہید سلیمانی کے متعلق صرف یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ صرف ولایت مدار تھے بلکہ وہ ولایت افزا تھےیعنی نہ وہ صرف وہی ولایت کے مدار کے مطابق حرکت کررہے تھے بلکہ دوسروں کو اس طرف دعوت دیتے تھے وہ ولی فقیہ کے مسئلہ کو ایک الگ نظر سے دیکھتے تھے ان کا ماننا تھا کہ ہم کام حکیم ولی فقیہ کے زیر قیادت ہیں۔
شہید سلیمانی کا ماننا ہے بہت کم لوگ انقلاب کے مخالف ہیں اور بقیہ افراد کو انقلابی مانتے تھے اور وہ اسی نظریے کے تحت ممتازین کے درمیان فرق کے قائل نہیں تھے ان کے نزدیک دائیں بائیں گروہوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی ان کے لئے جو چیز اہم تھی وہ صرف رہبری تھی اس کے باوجود انہوں نے ولایت افزائی کے ذریعے اکثریت کو گمراہی سے نکال کر رہبری کی طرف لے گئے ہیں۔
ان کی نگاہ انسانوں کے قریب ہونے سے اللہ کے قریب ہو سکتے ہیں انہوں بوکمال آپریشن کے دوران ایک گھر سے بیٹھ کر کمانڈنگ کی جب ان کی کاروائی ختم ہوئی ہو تو انہوں نے خود ایک خط لکھا اور بتایا کہ میں آپ کے گھر کے استعمال کرنے کے لئے مجبور تھا میں آپ سے التماس کرتا ہوں کہ مجھے اس کام کی وجہ سےمعاف کردیں پھر انہوں نے اس کو قرآن میں رکھا اور اس کو ایک کھڑکی میں رکھ دیا اور کہا کہ انھیں ڈھونٖڈو انہوں نے کہا کہ نہیں ہے اور بہت پہلے چلے گئے ہیں لیکن انہوں نے فرمایا کہ انہیں ضرور ڈھونڈیں اور پھر معلوم ہوا کہ ترکی کے ایک گاوں میں ہیں اور وہ وہاں بھاگ کر گئے ہیں اور وہ لوگ بشار اسد کے مخالفین میں سے ہیں لیکین پھر بھی ان کے ٹیلیفون نمبر کو ڈھنونڈتے ہیں اور انھیں کال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں قاسم سلیمانی ہوں کچھ عرصے کے لئے میں آپ کے گھر میں تھا اور ویاں میں نے نماز پڑؑھی ہے اس لئے آپ سے معافی چاہتا ہوں تانکہ وہاں پر پڑھی جانے والی میری نمازیں قبول ہو جائیں اور میں نے سنا ہے کہ آپ کے پاس کوئی دوسرا گھر نہیں ہے انہوں نے کہا کہ ہم تو بھاگ کر آ گئے ہیں اور معلوم بھی نہیں کہ واپس آئیں گے بھی یا نہیں لیکن وہ اس بات سے بہت زیادہ متاثر ہوئے کہ شہید نے انھیں فون کیا ہے۔
آپ اسلام پر اپنی جان کو فدا کرنے والے سپاہیوں کو جمع کر کے ان سے پوچھتے تھے کہ کیا میں اچھا انسان ہوں اور ان سے کہتے تھے کہ ہاں کہیں قاسم سلیمانی مجاہد فی سبیل اللہ تھے لیکن ان کے ذہن میں اصلا یہ تصور نہیں تھا کہ وہ خود کچھ ہیں یا ان کے پاس کچھ ہے صرف کہتے تھے کہ اے لوگو گواہی دو کہ میں اچھا انسان ہوں کتنا ایمان چاہیے اور پھر اپنے کفن پر دوسروں سے لکھواتے تھے کہ قاسم سلیمانی اچھا انسان ہے یہ وہی ہے جس کے بارے میں کہا تھا کہ وہ ہر چیز کو کمال کی نگاہ سے دیکھتے تھے ان کا ماننا تھا کہ اگر لوگ راضی ہوں گے تو اللہ بھی راضی ہو گا یعنی اللہ کی رضایت اس کے بندوں کی رضایت میں ہے لوگوں کی نسبت یہ اعتقاد بہت اہم اور دلچسب ہے۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب