جنرل قاسم سلیمانی جہاں بھی کسی مظلوم کی آواز سنتے کہ اس پر ظلم کیا گیا ہے تو وہ اس کی مدد کے لئے پہنچتے، ان کے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ چاہے افغانستان ہو یا شام ،لبنان ہو یا عراق ، ان کے لئے پیغمبر اسلامؐ کی سیرت پر عمل پیرا ہونا ضروری تھا اوروہ پیغمبرؐ کی حدیث کے عملی مصداق بننا چاہتے تھے
جیسا کہ پیغمبرؐ نے فرمایا: جو شخص بھی کسی مظلوم کی آواز سنے جو دوسرے مسلمانوں سے مدد مانگ رہا ہو اور وہ اس کی مدد کو نہ پہنچے تو وہ مسلمان نہیں ہے۔
مظلوم اور مزاحمت کا دفاع ان کا مشغلہ تھا، کوئی بھی یہ بھول نہیں سکتا جب محسن حججی کی شہادت کے بعد انہوں نے کہا: اگلے تین مہینوں میں داعش کا خاتمہ ہو جائے گا۔
خدا کے فضل سے یہ اہم کام انجام پایا اور وہ خطے میں مزاحمت کے علمبردار بن گئے۔ البتہ اس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ جنرل قاسم کی جانب سے اپنے ہمفکر وں کی امداد صرف ملک کی حدودسے باہر ہی محدود نہیں تھی ، بلکہ انہوں نے جنوب اور شمال کے سیلاب اور کرمان شاہ کے زلزلے میں دکھایا کہ وہ اپنے ہموطنوں کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔ اسی دوران چہلم کے موقع پر پیدل چلنے کے بعد انہوں نے تمام خدمتگزاروں کو حکم دیا کہ وہ زلزلہ زدہ افراد کی مدد کے لئے ایران و عراق کی سرحد سے کرمانشاہ کی طرف حرکت کریں۔
جیسا کہ پیغمبرؐ نے فرمایا: جو شخص بھی کسی مظلوم کی آواز سنے جو دوسرے مسلمانوں سے مدد مانگ رہا ہو اور وہ اس کی مدد کو نہ پہنچے تو وہ مسلمان نہیں ہے۔
مظلوم اور مزاحمت کا دفاع ان کا مشغلہ تھا، کوئی بھی یہ بھول نہیں سکتا جب محسن حججی کی شہادت کے بعد انہوں نے کہا: اگلے تین مہینوں میں داعش کا خاتمہ ہو جائے گا۔
خدا کے فضل سے یہ اہم کام انجام پایا اور وہ خطے میں مزاحمت کے علمبردار بن گئے۔ البتہ اس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ جنرل قاسم کی جانب سے اپنے ہمفکر وں کی امداد صرف ملک کی حدودسے باہر ہی محدود نہیں تھی ، بلکہ انہوں نے جنوب اور شمال کے سیلاب اور کرمان شاہ کے زلزلے میں دکھایا کہ وہ اپنے ہموطنوں کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔ اسی دوران چہلم کے موقع پر پیدل چلنے کے بعد انہوں نے تمام خدمتگزاروں کو حکم دیا کہ وہ زلزلہ زدہ افراد کی مدد کے لئے ایران و عراق کی سرحد سے کرمانشاہ کی طرف حرکت کریں۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب