2014 ء کے موسم گرما میں دولت اسلامیہ (داعش) کے ذریعہ موصل پر قبضہ ، نوری المالکی کی حکومت کے خلاف سنیوں کی بغاوت کا عروج تھا۔ عراقی حکومت اس وقت لرز اٹھی جب جہادیوں نے دارالحکومت کی جانب حملہ کا آغاز کیا اور 48 گھنٹوں کے اندر ایران نے اپنے درجنوں افسروں کے ساتھ سلیمانی کو عراقیوں کی مدد کے لئے بغداد روانہ کیا۔ ابو مہدی المہندس کہتے ہیں: یہ سلیمانی کا احسان تھا کہ عراقی کردستان کے دارالحکومت اربیل پر داعش کا قبضہ نہ ہو سکا۔ ہم سب ایک ساتھ وہاں موجود تھے۔ چار اگست کو امریکی وہاں سے چلے گئے تھے۔ وہ داعش کے حملے کے دو ماہ بعد ہی اربیل واپس آئے ۔ابو مہدی المہندس اس وقت رضاکار لوگوں کے ایک گروہ کی سربراہی کر رہے تھے، ایک ایسا گروہ جو عراق میں شیعہ مذہبی طاقت کے مرکزی رہنما ، آیت اللہ سیستانی کے حکم اور فتوے کے نتیجہ میں تشکیل پایا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب عراقی فوج داعش کے خلاف شکست سے روبروہو رہی تھی۔
تب سلیمانی ایک محبوب شخصیت بن گئے۔ سپاہیوں کی جانب سے جنگی خطوط پر ان کے ساتھ ہونے اور ان کے ساتھ سیلفیاں لینے کی خواہش بڑھ گئی تھی۔ جنرل ، جو ہمیشہ ایک معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ حاضر ہوتے تھے اور ایک قسم کی نمایشی عاجزی کا مظاہرہ کیا کرتے اوروہ ایران کے اتحادیوں کو یقین دلاتے تھے، جبکہ وہ ایرانیوں کو ایران کی سرحدوں کے قریب جہادی خلیفہ کے قیام کے خوف سے سکون بھی دلاتے تھے۔
عراق کی حزب الدعوۃ کے ایک سینئر ممبر علی الادیب کہتے ہیں: سلیمانی ایرانی حکومت کی حفاظت کے لئے لڑ رہے ہیں ، لیکن ان کے لئے یہ ایک عقیدتی اور مذہبی جنگ ہے۔ مذہبی عقائد انسان کو قوم پرست عقائد سے زیادہ ترغیب دلاتےہیں۔
جب سلیمانی اور ان کے اتحادی اپنی مرضی سے جنگ لڑ رہے تھے ، جنرل پیٹراؤس نے پیش گوئی کی کہ ملک میں جہادیزم کامیاب ہو جائے گا۔ انہوں نے اس وقت لی مونڈے سے ” ایرانی سلطنت اور اس کے فرقہ وارانہ اتحادیوں” کے عنوان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا : ایک ایسا خطرہ جس کا طویل عرصہ تک عراق کو سامنا کرنا پڑے گا وہ ایران کی حمایت یافتہ شیعہ ملیشیا ہے جو بغداد کی سیاسی طاقت کو مجروح کرنے کے لئے ہر طرح کے ذرائع استعمال کر ے گی۔
پڑوسی ملک شام میں بشار الاسد کے مخالفین غیر ملکی قابض طاقتوں بالخصوص ایران پر تنقید کرتے ہیں۔ سلیمانی کی زیرقیادت بین الاقوامی عسکریت پسندی غیر معمولی پیمانے پر پہنچ چکی ہے۔ روسی تحقیقاتی مرکز کے مطابق ، 20،000 سے 25،000 کے درمیان جنگجو کسی بھی وقت علاقے میں تعینات ہونے کے لئے تیار ہیں۔ اس اقلیت میں تقریباً 3،000 ایرانی فوجی بھی شامل ہیں۔ لبنان کی حزب اللہ اس قوت کا ایک اہم حصہ ہے۔ عراقی ملیشیا بھی اس فورس کی مدد کر رہی ہے۔ ایران میں تارکین وطن شیعوں کی بڑی آبادی میں افغانوں اور پاکستانیوں کی یونٹ بھی اس میں موجود ہے ۔ 1990ء کی دہائی میں طالبان سے لڑنے کے لئے سپاہ پاسداران کی جانب سے ان کے بہت سے کمانڈر وں کی حمایت کی گئی تھی ۔
دمشق میں جہاں شیعوں کی آبادی ایک سے دو فیصد ہے ، وہاں انہوں نے تفرقہ پیدا کیا ہے۔ امریکا میں میریلینڈ یونیورسٹی کے محقق فلپ اسمتھ اس مطلب کو بیا ن کرتے ہوئے اس کے ضمن میں ایرانیوں کے صبر اور دوراندیشی کے بارے میں کہتے ہیں: ایران کے مفادات میں پہلا شامی نیٹ ورک دمشق میں عراقی شیعوں کی جلاوطنی کے دوران تشکیل دیا گیا ۔وہ عراقی جنہیں 2000ء کی دہائی میں شام میں سپاہ پاسداران نے اس ارادے سے پناہ دی تھی کہ ایک دن شائد انہیں ان کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
واشنگٹن میں ماہرین ، سپاہ پاسداران اور بین الاقوامی نیم فوجی نیٹ ورک کے اتحاد کی وضاحت میں یوں کہتے ہیں : ایرانیوں کی روحانی قیادت کی مذہبی اور سیاسی اطاعت اس اتحاد کی اہم وجہ ہے۔ لیکن جنگ میں رفاقت اور مفادات دونوں پہلو پائے جاتے ہیں لہذا یہ چیز لازمی طور پر مکمل اطاعت کا باعث نہیں بن سکتی۔
ابو مہدی المہندس کہتے ہیں: ایرانی چاہتے ہیں کہ ہم مضبوط ہوں لیکن بہت زیادہ نہیں۔ ہمیں عراق میں ایک مضبوط فوج کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایران کے خلاف ایک مضبوط مذاکرات کار اور چاپلوس بھی۔
لبنانی حزب اللہ کے منظر سے بھی سلیمانی کے خلاف دو گمنام تنقیدی آوازیں اٹھی ہیں۔ یہ تنقیدی آوازیں سلیمانی پر الزام عائد کرتی ہیں کہ وہ جنگ میں لبنانی عربوں کو استعمال کررہے ہیں۔
ایران کی سپریم قومی سلامتی کونسل کے سکریٹری جنرل علی شمخانی کہتے ہیں: فرد فیصلہ نہیں کر سکتا ، نظام فیصلہ کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں تہران سے سلیمانی کے کمانڈروں جانب سے احکامات جاری ہو تے ہیں۔ سلیمانی تہران آکر جنگی علاقوں کی صورتحال کی وضاحت کرتے ہیں اور ہم ان کے نفاذ کے لئے اسٹریٹجک فیصلے کرتے ہیں۔
لیکن ایسا لگتا ہے کہ سلیمانی خاص طور پر عراق کے حوالے سے وسیع خودمختاری رکھتے ہیں۔ شمخانی مزید کہتے ہیں: وہ جنگ کے منصوبے بنا کر انہیں عملی جامہ پہناتے ہیں ۔ وہ فیصلہ کرتے ہیں اور عمل کرتے ہیں۔ ہم ان کی ٹیکنیک کے انتخاب میں مداخلت نہیں کرتے ہیں۔ ان کے اندر اپنے مشن کو انجام دینے کے لئے ضروری اہلیت موجود ہے۔
تہران کے ایک سیاسی تجزیہ نگار نے اپنا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے کہا : سلیمانی کی ہمیشہ( آیت اللہ) خامنہ ای تک فوری اور آسانی سے رسائی ہے ، اور یہ وہ عنصر ہے جو انہیں خاص اثر و رسوخ فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
تہران سنیما میں جنرل سلیمانی کی تعریف میں کم از کم تین فیچر فلمیں بنائی اور نشر کی گئیں ان میں سے ایک انیمیشن فلم تھی۔ سلیمانی کے لئے حکومتی میڈیا کی جانب سے حد سے زیادہ تبلیغات سے یہ یقین پیدا ہوسکتا ہے کہ سیاسی کیریئر کی تیاری کے لئے کوشش کی جارہی ہے۔
ایک سابق انقلابی نمائندہ اور اب اسلامی جمہوریہ کے محتاط مبصر احمد سلامتیان کہتے ہیں: صدر روحانی تالیران (فرانسیسی تاریخ میں ڈپلومیسی کی مثال) ہیں وہ ایک سفارتکار ہیں جو خارجہ امور کے ذریعے اقتدار میں آئے ہیں ۔لیکن قاسم سلیمانی نپولین ہیں جو فوجی عہدہ سے انہیں ملا ہے وہ مشہورجنرل اورشہرت کے حامل ہیں ، لیکن آج ایران کو کسی نپولین کی ضرورت نہیں ہے۔
ستمبر 2016 ء میں جب ایران میں صدارت کے لئے ان کی امیدواری کی افواہیں پھیل گئیں تو قومی ہیرو نے ایک بیان میں تمام عزائم کی تردید کی کہ : ان شاء اللہ وہ اپنی زندگی کے آخری حصے تک ایک سپاہی رہیں گے۔
ستمبر 2013 ءمیں تہران میں اپنی والدہ کی آخری رسومات کے دوران سلیمانی نے مغرب کے ساتھ تعلقات کےحامی ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کو گلے لگایا جو ان دونوں کی قرابت کی علامت ہے۔ اسی طرح انہوں نے لبنانی حزب اللہ کے ماہر کمانڈر عماد مغنیہ کے بیٹے جہاد کو بھی اپنے والد کی طرح آغوش میں لیا، ، جو جنوری 2015 ء میں اسرائیلی ہیلی کاپٹرکی بمباری میں شامی سرزمین پر مارے گئے تھے۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب