گزشتہ اقوام کی تاریخ کے مطالعہ کے بہت سے اثرات مرتب ہوتے ہیں، حضرت علی علیہ السلام اپنے بیٹے کو وصیت میں فرماتے ہیں: میرے بیٹے اگرچہ گزشتہ اقوام کی عمر میرے نصیب نہیں ہوئی لیکن میں نے ان کے اعمال میں نظر دوڑائی اور ان کی تاریخ میں ، میں نے غور و فکر کیا اور ان کی کتابوں کا جائزہ لیا کہ گویا میں ان میں سے ایک ہوگیا ہوں، بلکہ گویا میں نے ان کےتاریخی تجربات سے جو پایا ہے وہ یہ ہے کہ گویا میں نے ان کے پہلے اور آخری انسان کے ساتھ زندگی بسر کی ہے۔ جنرل قاسم سلیمانی بھی اپنے مولیٰ کے کلام کی پیروی کرتے ہوئے ایک ثابت قدم رہنے والے انسان کی طرح عمل پیرا ہوتے تھے۔
وہ کتابِ” الغارات” کی تقریظ میں لکھتے ہیں، جو شیعہ کتابوں میں ایک قدیمی کتاب ہے، یہ کتاب شیعہ کتابوں میں ایک پرانی کتاب ہے ، اسے ضرور پڑھئے ، وہ ایک مکمل مقتل ہے۔ اگر آپ اس کا مطالعہ کریں تو آج اس حکومت کے لئے جو علی ابن ابی طالبؑ کی حکومت کا دوام ہے ، انفرادی و اجتماعی تعصبات سے دوری اختیار کرتے ہوئے مزید آگاہ طور پرنگاہ کریں گے۔
اسی طرح جنرل قاسم سلیمانی جنگ کے بارے میں لکھی جانے والی کتابوں کا مطالعہ کرنے کا شوق رکھتے تھےاور ان پروہ جو نوٹس لکھتے تھے وہ ان کتابوں کو متعارف کرانے اور ان میں دلچسپی کا باعث بنتے تھے۔ جیسے یہ کتابیں ہیں: “من زندہ ام”(میں زندہ ہوں) معصوم آباد کی تالیف، “آن ۲۳ نفر” (وہ ۲۳ آدمی) احمد یوسف زادہ کی تالیف، ” وقتی مھتاب گم شد” (جب چاند چھپ گیا) حمید حسام کی تالیف۔
وہ کتابِ” الغارات” کی تقریظ میں لکھتے ہیں، جو شیعہ کتابوں میں ایک قدیمی کتاب ہے، یہ کتاب شیعہ کتابوں میں ایک پرانی کتاب ہے ، اسے ضرور پڑھئے ، وہ ایک مکمل مقتل ہے۔ اگر آپ اس کا مطالعہ کریں تو آج اس حکومت کے لئے جو علی ابن ابی طالبؑ کی حکومت کا دوام ہے ، انفرادی و اجتماعی تعصبات سے دوری اختیار کرتے ہوئے مزید آگاہ طور پرنگاہ کریں گے۔
اسی طرح جنرل قاسم سلیمانی جنگ کے بارے میں لکھی جانے والی کتابوں کا مطالعہ کرنے کا شوق رکھتے تھےاور ان پروہ جو نوٹس لکھتے تھے وہ ان کتابوں کو متعارف کرانے اور ان میں دلچسپی کا باعث بنتے تھے۔ جیسے یہ کتابیں ہیں: “من زندہ ام”(میں زندہ ہوں) معصوم آباد کی تالیف، “آن ۲۳ نفر” (وہ ۲۳ آدمی) احمد یوسف زادہ کی تالیف، ” وقتی مھتاب گم شد” (جب چاند چھپ گیا) حمید حسام کی تالیف۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب