مواد

 قاسم سلیمانی تنہا ایک مکتب


Feb 15 2023
 قاسم سلیمانی تنہا ایک مکتب





شہید قاسم سلیمانی ایک ہمہ جہت شخصیت کی حامل ذات تھی، انسانی فطرت میں بہت سی متضاد صفات موجود ہیں، اسلام نے بھی ان متضاد صفات کو وقت اور جگہ کی مناسبت سے اظہار کرنے کو بہترین حکمت عملی و بصیرت قرار دیا ہے۔ قاسم سلیمانی کی ذات جہاں مخفی و پوشیدہ تھی وہیں آپ کی ذمہ داریاں بھی مخفیانہ و پوشیدہ تھیں لیکن بوقت ضرورت آپ کی ذات اور ذمہ داریاں سب پہ عیاں اور آشکار بھی ہوئیں۔ مکتب علوی کا یہ سپاہی، عصر حاضر کا مالک اشتر جہاں رحم دل و نرم مزاج تھے وہیں دشمن کے لئے سخت دل اور سخت مزاج بھی تھے۔ مولا علی (ع) کی سیرت پر چلتے ہوئے آپ راتوں کو اٹھ کر جائے نماز پر رو رو کر خدا سے راز و نیاز کرنے والے تھے، وہیں آپ شب و روز دشمن کے قلب میں گھس کر انہیں زیر و زبر کرنے والے بھی تھے۔ توحید سے بےانتہا عشق و محبت کے ساتھ اہلبیت کے بےانتہا عاشق بھی تھے۔ آپ فکروں کو جہت دینے کے لئے دلوں کو مسحور کرنے اور پگھلانے والے سخنور کے ساتھ جوش و جذبے کی مد و جزر کو طوفان میں بدلنے والے خطیب بھی تھے۔ شہدا کے ننھے منھے بچوں کو دیکھ کر ان کے لئے رنجیدہ و شرمندہ ہونے والے سرپرست کے ساتھ قاتلوں و ظالموں کو ان کے انجام تک پہنچانے والے قہرمان و دلاور بھی تھے۔



دشمن کے آلہ کاروں کے خلاف مٹھی بھر جوانوں کو متحد کرکے انہیں رسوا کرنے والے کمانڈر ہونے کے ساتھ داعشی جیسے خونخواروں کوجان سے مارنے کی بجائے گرفتار کرکے ان کے ذہنوں کو بیدار کرکے اسلام کے حقیقی پرچم تھام کر یہود و ہنود سے مقابلہ کرنے کا درس دینے والے بہترین مدرس بھی تھے۔ عراق و شام کے مقدس مقامات کے محافظ ہونے کے ساتھ خانہ کعبہ و بیت المقدس کے حقیقی نگہبان و پاسبان بھی تھے۔ میدان جنگ کے غازی ہونے کے ساتھ سیاست کے میدان کا شاہسوار بھی تھے۔ جنگی میدان کے بہترین مدبر بھی تھے تو پر امن خارجہ پالیسی کے پالیسی ساز بھی تھے۔ عراق و شام و لبنان کو متحد کرنے کے ساتھ ایران و سعودی عرب کے درمیان بہتر تعلقات کے لئے ثالثی کا کردار بھی تھے۔ مشرق وسطی میں استعماری سازشوں کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ کے ساتھ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کے بہترین داعی و وسیلہ بھی تھے۔ مکتب اسلام کے بہترین متعلم کے ساتھ بےمثال، بےلوث و شفیق معلم بھی تھے۔ آپ نے مکتب اسلام سے جو سیکھا اس پر یوں عمل کیا کہ رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے آپ کو تنہا ایک ”مکتب“ قرار دیا۔ اب ہم اس مکتب کی کچھ خصوصیات کو مختصر بیان کریں گے۔



ملت کی تعریفلغوی تعریفملت لغت میں طریقہ اور آئین کو کہا جاتا ہے۔اصطلاحی معنیاصطلاح میں تمام ادیان توحیدی کے پیروکاروں کو ملت کہا جاتا ہے۔ اسی لئے اہل کتاب یعنی عیسائی یہودی یا صائبین میں سے کوئی اسلام قبول کرے پھر دوبارہ اپنے سابق مذہب کی طرف جائے تو فقہ تشیع میں اسے ”مرتد ملی“ کہا جاتا ہے۔ فارسی زبان میں کسی بھی ملک کے عوام کے لئے بھی ملت کہا جاتا ہے۔ (حسین توفیقی، آشنائی با ادیان بزرگ، صفحہ ٤)



مکتب کی تعریفلغوی معنیمکتب لغت میں ”پڑھنا لکھنا“ سیکھنے کی جگہ کو کہا جاتا ہے۔اصطلاحاصطلاح میں مکتب اسکول یا مدرسے کو کہا جاتا ہے جہاں بچہ ابتدائی طور پر پڑھنا لکھنا سیکھتا ہے۔



مکتب شہید سلیمانیرہبر معظم سید علی خامنہ ای نے شہید قاسم سلیمانی کو تنہا ایک مکتب اور ملت قرار دیا۔ وہ قاسم سلیمانی جس نے مشرق وسطی میں کیمبرج یونیورسٹی اور آکسفرڈ یونیورسٹی جیسی معروف مغربی درسگاہوں اور امریکہ، فرانس، برطانیہ اور اسرائیل سمیت یورپ کے معروف عسکری اداروں سے فارغ التحصیل اور تربیت پانے والے سینکڑوں تھنک ٹینکس کے بنائے ہوئے نقشے کو مشرق وسطیٰ میں پارہ پارہ کرتے ہوئے دشمن کو ناکام و نامراد کیا، نہ فقط ناکام کیا بلکہ ایران کی ایک عام درسگاہ سے واجبی تعلیم حاصل کرنے والی اس شخصیت نے اپنے نقشے اور ہدف کو کامیاب بھی کیا، یوں دنیا کے نام نہاد عسکری تجزیہ نگاروں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ شہید قاسم سلیمانی کی یہ مخلصانہ و دلیرانہ کوشش و جدوجہد دراصل مغرب کے تمام علمی و فوجی قوتوں کی ناکامی اور بےاہمیت ہونے پر واضح دلیل ہے۔ ایران کی جنگی، علمی اور اسلحے کے میدان میں ترقی و پیشرفت کو ہم مکتب سلیمانی کی ترقی و پیشرفت بھی کہ سکتے ہیں، لہذا میں اس مکتب کی چندچیدہ خصوصیات کو یہاں ذکر کروں گا۔



مکتب سلیمانی اور کربلاقاسم سلیمانی راہ کربلا کے راہی اور مکتب عاشورا کے سپاہی تھے۔ آپ کی پوری زندگی عاشورائی و کربلائی تھی۔ آپ عاشورائی سانچے میں یوں ڈھل کر نکھر گئے تھے کہ مکتب کربلا کا عملی مقصد، ہدف اور اثرات آپ کی زندگی میں کامل نظر آتے ہیں۔ کربلائی مکتب کا رنگ آپ کی زندگی میں بدرجہ اتم موجود تھا۔ امام حسین علیہ سلام کی پیروی کرتے ہوئے آپ باطل طاقتوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑے ہوئے۔ اپنے لئے شہادت کے راستے کا انتخاب کیا۔ آپ بھی امام حسین (ع) کی طرح مہمان بن کر عراق گئے تھے۔ جس طرح امام حسین (ع) کے لئے خود عراق سے کچھ مددگار میسر ہوئے تھے، آپ کو بھی عراق سے کچھ باوفا جانثار و مددگار میسر تھے۔ آپ کے جسم بھی حضرت قاسم کی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہوئے۔ آپ کی شہادت کے فورا بعد تہران میں استعمار کے چند آلہ کاروں نے خوشی کا اظہار کیا۔ دجالی میڈیا نے اسے دنیا میں دکھا کر یزیدی پروپگنڈوں کی طرح پروپیگنڈہ کرنے کی ناکام کوشش کی کہ خاکم بدھن کہ ”ایک دہشت گرد مارا گیا“ پھر عراق سے لے کر ایران تک انسانوں کے سمندر نے آپ کے جسد خاکی کا یوں استقبال کیا کہ رہتی دنیا تک کے لئے ایک مثال بن گیا۔



ایشیاء سے افریقہ تک، پاکستان سے ہندوستان تک، یورپی ممالک سے خود امریکا تک، فلسطین سے اسرائیل تک ہر باضمیر انسان نے صدائے احتجاج بلندی کی۔ دجالی میڈیا کے نہ چاہنے کے باوجود شہید کی میت کا استقبال و تاریخی تشییع جنازہ کا عظیم تاریخی مناظر دکھانے پر مجبور ہوا۔ جس طرح یزیدی لشکر واقعہ کربلا کو کربلا میں دفن کرنے میں نہ فقط ناکام ہوئے بلکہ کوفہ سے شام کے بازاروں و درباروں تک حقائق کو بیان کرنے سے نہ روک سکے، ویسے ہی شہید قاسم سلیمانی کا ذکر اور مشن کو سوشل میڈیا سے الیکٹرونک میڈیا، ایران و عراق کی سرحدوں سے باہر دیگر ملکوں بلکہ خود امریکہ اور یورپ میں پہنچنے سے نہ روک سکے، جس طرح کربلا والے شہید ہوکر یزیدیت کے لئے پہلے سے زیادہ خطرناک بن گئے۔ قاسم سلیمانی بھی شہید ہونے کے بعد جغرافیائی سرحدوں سے نکل کر دوسرے ممالک کی عوامی اجتماعات، اسمبلیوں، اخباروں اور چینلوں تک پہنچ گئے۔ استعمار کی لاکھ کوشش کے باوجود عوام کے دلوں سے اس بےلوث شخصیت کی محبت کو نہیں نکال سکا۔ قاسم سلیمانی پہلے کرمانی، ایرانی و اسلامی تھا مگر شہادت کے بعد ”سلیمانی عالمی“ بن گیا۔



صالح و نڈر رہنماکسی بھی مکتب یا ملت کے لئے ایک صالح و بےخوف رہنما کا ہونا ضروری ہے۔ صالح و نڈر رہنما ہی قاسم سلیمانی جیسی شخصیات کو تربیت کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہید قاسم سلیمانی اپنے وصیت نامے میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ”اے میرے اللہ میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے اپنے عبد صالح خمینی (رح) کے بعد مجھے ایک اور عبد صالح یعنی خامنہ ای کی راہ پر گامزن کیا کہ جس کی مظلومیت بہت بڑی ہے۔ ان دو عظیم شخصیات کی تربیت کے سبب شہید قاسم سلیمانی ایک عالمی اور بےمثال کمانڈر بن کے ابھرا۔ جس نے علوی صفات کے رنگ میں رنگتے ہوئے حضرت مالک ابن اشتر اور شہید مصطفی چمران کی یاد کو دوبارہ زندہ کیا۔



ولایت فقیہنظام ولایت فقیہ کی حفاظت کو آپ اپنی زندگی کا مقصد و محور سمجھتے تھے۔ واقعا آپ نے اپنی زندگی کو اسی نظام کی حفاظت کے لئے وقف کی تھی۔ آپ مجتہدین کو دینی اساس مانتے تھے مگر نظام ولایت فقیہ کو اس دین اور مکتب کی روح سمجھتے تھے۔ اسی لئے آپ نے اپنی وصیت نامے کے ایک حصے میں ایرانی بہن بھائیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ ”اے میرے پیارے ایرانی بہن بھائیوں! اے سربلند اور پر افتخار لوگو! آپ پر میری جان اور مجھ جیسوں کی جان ہزار مرتبہ نثار ہو۔ جیسے تم لوگوں نے ہزاروں جانیں اسلام اور ایران پر قربان کی ہیں۔ اس اصول یعنی ولی فقیہ کی حفاظت کرنا خاص طور پر اس حکیم مظلوم دین، فقہ، عرفان، معرفت میں ممتاز، عزیز خامنہ ای کو اپنی جان سے ذیادہ عزیز رکھنا، اس کے احترام کو مقدسات میں سے شمار کرنا“ ان کلمات سے اس نظام اور رہبر معظم سے آپ کے قلبی و روحی وابستگی کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔



مکتب قاسم کی مناجاتجس نے مکتب علوی سے صحیفہ سجادیہ اور دعائے کمیل جیسی دعائیں پڑھی اور سیکھی ہو۔ ایسا بندہ ہی توحید شناس و توحید پرست بن سکتا ہے۔ اس کی مناجاتوں میں بھی صحیفہ سجادیہ اور دعائے کمیل کی چاشنی و روانی ہوگی جیسا کہ شہید اپنی وصیت نامے میں فرماتا ہے کہ ”اے میرے مہربان ! میں پیچھے رہ جانے کی بےقراری اور رسوائی کی وجہ سے سڑکوں پر آوارہ ہوگیا ہوں۔ میں گرمیوں سردیوں میں ایک موہوم امید لئے ہوئے اس شہر سے اس شہر اس صحرا سے اس صحرا میں دربدر پھر رہا ہوں۔ اے کریم حبیب! تیرے کرم سے امید لگا رکھی ہے، تو خود جانتا ہے کہ میں تجھ سے پیار کرتا ہوں، اچھی طرح جانتے ہو کہ میں تیرے علاوہ کسی کو نہیں چاہتا، مجھے اپنا وصل عطا فرما۔ الله اكبر اپنے رب سے یوں راز و نیاز علوی مزاج شہید قاسم سلیمانی کا ہی طرہ امتیاز تھا۔



دوستوں کا انتخابدوست انسانی زندگی میں بہت اثر انداز ہوتا ہے، اسی لئے اسلام نے بھی دوستوں اور ساتھیوں کے انتخاب کو خاص اہمیت دی ہے۔ دوستی کوئی خونی رشتہ داری یا علاقائی وابستگی کی بنیاد پر نہیں ہوتی بلکہ فکری و نظریاتی اور کردار و عمل میں ہم آہنگی کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ ایسے دوست پھر سکون و قوت کا باعث بنتے ہیں۔ شہید قاسم سلیمانی خود سب کے لئے بےلوث دوست تھے اور بہت سارے آپ کے بےلوث دوست تھے۔ ہم جیسے ان دیکھے لوگ جب ان کی عشق میں گرفتار ہیں تو ان کے ساتھی اور دوست ان سے کتنے متاثر ہونگے؟ ہم جیسے لوگ سوشل میڈیا اور مختلف چینلز پر آپ کی متاثر کن آواز کے لہجے کے سحر میں جگڑ جاتے ہیں تو ان کی قربت میں نزدیک سے انہیں دیکھنے اور سننے والے کتنے متاثر ہونگے؟



العہد ویب سائٹ عراق کے مطابق ان کے قریبی ساتھی شہید ابومہدی المہندس سے ایک انٹرویو میں جب پوچھا گیا کہ وہ کونسی شخصیت ہے جسے دیکھ کر انہیں سکون ملتا ہے؟ تو ان کا جواب تھا ”قاسم سلیمانی“ اپنے شہید ساتھیوں کے بارے میں شہید قاسم سلیمانی اپنے وصیت نامے میں فرماتے ہیں کہ ”پروردگار تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے اپنے بہترین بندوں یعنی اس راہ کے مجاہدین و شھدا کے ہم نشینی عطا کی، ان کے جنتی گالوں پر بوسہ لینے اور ان کی الہی خوشبو سونگھنے کے خوبصورت مواقع عنایت فرمائے۔ ان کلمات اور شہید ابومہندس کے ساتھ شہادت سے ہمیں اس مکتب میں دوستی کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ خدا ہمیں بھی بےلوث دینی دوست بننے اور بنانے کی توفیق عطا کرے۔



انسان دوستشہید قاسم سلیمانی انسانیت سے بھرپور صفات و جذبات کے حامل انسان تھے۔ آپ کے پاس جنگ اور صلح میں معیار اساسی انسانیت تھی۔ آپ کا دل ایران کے شیعوں، عراق کے کردوں، عیسائیوں، شام کے سنیوں و علویوں، فلسطین کے سنیوں اور یمن کے زیدیوں کے لئے یکساں دھڑکتا اور تڑپتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کبھی ایران کے سیستان میں تو کبھی افغانستان کے قندھار میں، کبھی عراق کے کردستان میں تو کبھی شام کے حلب و جولان میں، کبھی فلسطین کے غزہ کے زیر زمین بنکروں میں تو کبھی یمن کے پہاڑوں میں ہوتے تھے۔ یہ کوئی لفاظی نہیں بلکہ اس پر ثبوت بھی ہمارے پاس موجود ہیں۔ اپریل 2019ء میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے قاسم سلیمانی کی قدس فورس اور ایرانی پاسداران انقلاب کو دہشت گرد قرار دیا، اس الزام کے ساتھ کہ یہ لوگ اسرائیل مخالفت تنظیموں یعنی لبنان کے حزب اللہ اور فلسطین کے حماس والجہاد کی مدد کرتے ہیں۔



امریکی محکمہ دفاع نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ قاسم سلیمانی عراق اور پورے خطے میں امریکی مفادات و فوجیوں پر حملے میں شریک ہے۔ بی بی سی فارسی کی ایک دستاویزی فلم کے لئے ایک انٹرو دیتے ہوئے عراق میں سابق سفیر ”رئن کروکر“ نے بھی کہا تھا کہ جرنل سلیمانی کا بغداد مزاکرات میں اہم کردار تھا۔ ان کے مطابق جب وہ افغانستان میں امریکی سفیر تھے تو انہوں نے وہاں بھی طالبان اور افغانیوں میں جرنل قاسم سلیمانی کے اثر و رسوخ کو محسوس کیا تھا۔ آپ کی شہادت کے بعد تمام اقوام عالم نے گہرے دکھ و رنج کا اظہار کیا۔ فلسطین کے حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسمعیل ہنیہ نے شہید کو شہید فلسطین و شہید مسجد اقصٰی قرار دیا تھا۔ شہید قاسم سلیمانی دنیائے اسلام کے واحد جنرل تھے جہنوں نے دو دفعہ سرزمین غزہ کا خفیہ دورہ کیا اور زیر زمین بنکرز بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔



سادگیکہتے ہیں کہ شہید انتہائی سادہ زندگی کیا کرتے تھے۔ کتاب سردا دلھا میں ایک واقعہ یوں رقم ہے کہ مصر سے ایک گروہ حکومتی سطح پر ایران آیا۔حکومتی افراد سے ملنے کے بعد اگلے روز پھر اسی دفتر میں آیا تو رئیس دفتر نے متعجب انداز میں پوچھا کہ ہمارے معاملات تو کل ختم ہوگئے تھے تو ایک مصری جوان نے جو فارسی بول سکتا تھا اس مسئول سے سرگوشی میں کہا کہ ہماری ایک اہم آرزو ہے آپ اسے پورا کریں گے تو ہم واپس جائیں گے۔ پوچھنے پر بتایا کہ ہم حاجی قاسم سے ملنا چاہتے ہیں۔ {اس وقت عام لوگ شہید کو پہچانتے بھی نہیں تھے}۔ المختصر اگلے روز ایک جگہ انہیں بلایا گیا۔ یہ لوگ جب پہنچے تو کچھ لوگوں نے استقبال کیا اور دس منٹ کے لئے ایک کمرے میں بٹھایا تو اس مصری نے مسئول سے پھر پوچھا حاجی صاحب کب آئیں گے؟ تب مسئول نے کہا حاجی صاحب نے ہی آپ لوگوں کا استقبال کیا تھا ابھی دس منٹ میں دوسرے مہمانوں کو فارغ کرکے آئیں گے۔



کہتے ہیں کہ آپ انتہائی سادہ غذا کھاتے تھے، سادہ لباس پہنتے تھے۔ آپ کو قمیص شلوار بھی پسند تھے، کئی تصاویر میں آپ کو قمیص شلوار میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ آپ کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ دنیائے استکبار کی نیندیں اڑانے والا، ان کے مقاصد کو خاک میں ملانے والا یہ وصیت کرتا ہے کہ میرے قبر کے کتبے پر کوئی القاب نہ لکھے جائیں، سبحان الله۔ اپنے مخصوص لوگوں سے بےتحاشا القابات پر خاموش رہنے والوں کو چاہیئے کہ کم از کم آپ کی اس سیرت سے کوئی درس ضرور حاصل کریں۔ یقیناً ایسے مخلص و بےلوث اور نڈر افراد کو دنیا جینے نہیں دیتی مگرخدا بھی انہیں مرنے نہیں دیتا۔ خدا شہادت کی موت دے کر ایسے لوگوں کو زمین و زمان کی حدود سے نکال کر ہمیشہ کے لئے زندہ و جاوید کرتے ہوئے اسے عالمی و جہانی بناتا ہے۔



نتیجہشہید قاسم سلیمانی واقعی شجاع، مخلص، بابصیرت، دیندار و ایماندار، دل سوز، عاشق اہلبیت تھے۔ جنہوں نے اپنی زندگی مسلسل دین پر عمل اور اس کی حفاظت کرتے ہوئے شہادت کے درجے پہ فائز ہوئے۔ رہبر معظم فرماتے ہیں کہ شہید قاسم سلیمانی طرح و عمل دونوں انجام دیتے تھے۔ یعنی ایسا نہیں تھا کہ صرف عملی بندہ ہو فکر و سوچ اور بصیرت نہ ہو۔ فقط نظریاتی و گفتاری بھی نہیں تھے بلکہ عملی میدان میں ہر جگہ پیش پیش ہوتے تھے۔ یعنی آپ ایک بابصیرت عملی شخصیت تھے۔ آپ سخت انقلابی بھی تھے مگر اس وجہ سے کسی کی شخصیت کشی بھی نہیں کرتے تھے۔ پرچم ولایت کے حقیقی علمبردار و پشت پناہ تھے مگر عراق شام اور یمن و فلسطین میں موجود حکومتوں کے استحکام بھی چاہتے تھے ان حکومتوں کو جمہوری ہونے کے سبب مشرک و کافر نہیں سمجھتے تھے۔



استعماری سازشوں کے مقابل ان حکومتوں کی بقاء و استحکام کے لئے عملی جدوجہد بھی کرتے تھے۔ خدا ہمیں ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خود ساختہ وابستگیوں اور ذات کے دائرے سے نکل کر معاشرے میں شائستگی و بالیدگی، لطافت و ظرافت کے ساتھ اپنی شرعی زمہ داری کو ادا کرنے اور کسی کی بھی شخصیت کو مجروح کئے بغیر اپنی شخصیت کو بنانے، سنوارنے اور ہر حال میں مولا علی (ع) کی سیرت پر چلتے ہوئے کبھی میثم، کبھی بوذر، کبھی سلمان، کبھی مقداد، کبھی عمار، کبھی اشتر، کبھی ابراہیم، کبھی مختار، کبھی علی ابن یقطین، کبھی آیت اللہ مدرس کبھی، ابومہندس تو کبھی قاسم سلیمانی بن کر اپنی شرعی مسئولیت کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین



محمد بشیر دولتی


نظری برای این مطلب ثبت نشده است.

رائے

ارسال نظر برای این مطلب