عراق میں ایران کے سابق سفیرکاظم قمی نے خطے کی صورتحال اور امریکی اقدامات کے بارے میں گفتگو کی۔ انہوں نے اسی طرح شہید سلیمانی کے اقدامات کی تفصیلات بھی بتائیں۔
قمی نے عراق پر امریکی حملے کے بارے میں کہا: ۲۰۰۳ میں عراق پر امریکی قبضہ اس ملک کے ذریعہ ایران پر امریکی حملے کا پیش خیمہ تھا اور اگر ہم سابق امریکی صدر کے بیانات پر نگاہ ڈالیں تو ہم متوجہ ہوں گے کہ ایران کے خلاف فوجی کاروائی کا معاملہ اس وقت اٹھایا گیا تھا جب امریکیوں نے عراق پر قبضہ کیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا: اگر امریکہ عراق میں کامیاب ہو جاتا تو بلاشبہ ایران پر اپنی فوجی کاروائی کرتا۔ کیونکہ ملک کے اندر سے بھی کچھ اشارے دئے گئے تھے۔ امریکی نقطہ نظر سے عراق” امریکی ماڈل کا ایک نیا مشرق وسطیٰ” کا پہلا قدم تھا اور رہبر معظم انقلاب کی حکمت عملی اور اسلامی جمہوریہ کا نظام بھی یہی چاہتا تھا کہ امریکی عراق میں ناکام ہو جائیں۔
کاظم قمی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ مشرق وسطیٰ کے نئے منصوبے کے تحت جن مقاصد کو حاصل کرنا چاہتا تھا وہ سب ہمارے ملک اور خطے میں آزاد حکومتوں کے مفادات اور اسلامی مزاحمت اور حزب اللہ کے خلاف تھے۔ امریکی اس بہانے سے خطے میں آئے تھے کہ ان کا کہنا تھا کہ یہاں دہشت گردی عالمی امن اور سلامتی کے لئے خطرہ ہے اور ہم اس سے نمٹنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کی قیادت خود سنبھالی۔ اور ان ہی بہانوں سے انہوں نے افغانستان پر قبضہ کیا اور پھرعراق آگئے۔
سابق ایرانی سفارتکار نے زور دیا: یہ رجحان بتا رہا ہے کہ اگر امریکی عراق میں کامیاب ہو جاتے تو اگلا قدم ایران اور مشرق وسطیٰ اور مغربی ایشیاء کا پورا خطہ تھا نیز اس کے نتیجہ میں بین الاقوامی نظام متأثر ہو جاتا۔
جنرل سلیمانی اور عراق میں ان کی موجودگی کے بارے میں قمی نے کہا: یہ کہ جنرل سلیمانی نے عراق کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں یعنی استکباری نظام کے خلاف جنگ میں اولین ترجیح قرار دیا وہ رہبر انقلاب اور مسلح افواج کے اعلیٰ کمانڈرکی تدابیرکا نتیجہ تھا چاہے وہ قومی سلامتی اوراسلام کے مفادات اور بین الاقوامی نظام پر عراق کے اثرات ہوں۔ اسلامی جمہوریہ اور عراقی حکومت اور عوام کے نتائج ایسے عظیم نتائج ہیں جن کا تحفظ ضروری ہے۔ عراق دشمن کے محاذ سے نکل کر اپنے کیمپ میں داخل ہوگیا اور اس نے اس عمل کو مستحکم کیا۔
کردوں کے سامنے جنرل سلیمانی کا فیصلہ کن موقف
اس سوال کے جواب میں کہ جنرل سلیمانی نے بھی اسی مسئلے میں وسیع تر کوششیں کیں اور کردوں سے متعدد ملاقاتیں کیں اور کیا آپ کو بخوبی معلوم ہے کہ وہ کس بارے میں گفتگو کرتے تھے؟ قمی نے کہا: ہمارے شہید کمانڈر نے علیحدگی پسند تحریک کے رہنماؤں سے کئی گھنٹے بات چیت کی۔ انہوں نے انہیں واضح طور پر کہا کہ یہ کام کُردوں اور عراق اور خطے کی آزادی اور علاقائی سالمیت کے مفاد میں نہیں ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ قوموں کی بنا پر سیاسی سرحدوں کی تشکیل کا مطلب خطے کی تقسیم ہے۔ وہ کہتے تھے کہ یہ معاملہ صرف عراقی کردستان کا نہیں بلکہ پورے خطے کا معاملہ ہے اور یہ خطے کی ترجیح نہیں ہےلیکن ان کا کہنا تھا کہ اب ہم نے اپنا فیصلہ کر لیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: حاج قاسم نے ان سے کہا کہ میں بغداد اور ترکی جا رہا ہوں کیا میں آپ کے دوست کی حیثیت سے جاؤں یا آپ کے دشمن کی حیثیت سے؟ آپ کو کوئی ایسا لیڈر یا سیاسی شخصیت نظر نہیں آئے گی جو اتنی ایمانداری اور فیصلہ کن بات کرے۔ خطے کے ممالک کے رہنماؤں اور عراقی شخصیات نے اعتراف کیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ اپنے کہے ہوئے پر صادق ہے۔ وہ اب بھی یہی کہتے ہیں۔ جب کہ بعض اوقات جب بعض افراد نے امریکہ پر بھروسہ کیا تو دیکھا کہ امریکہ نے انہیں فوراً ہی ترک کر دیا ہے۔
کاظم قمی نے کہا: ۲۰۰۳ سے جب اسلامی جمہوریہ نے حاج قاسم کی سربراہی میں عراق اور خطے میں قدم رکھا تو ہمیں حکومت سازی اور بنیادی آئین سے لے کر داعش وغیرہ تک ہر روز ایک اہم واقعہ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس عرصے کے دوران اور ان تمام واقعات کے باوجود، اسلامی جمہوریہ ایران، عراقی حکومت، عوام اور شخصیات کے ساتھ تعاون میں مصروف عمل رہی ہے اور دوطرفہ تعاون کو فروغ دینے اور تقویت پہنچانے کے لئے بہت ساری کوششیں کی جا چکی ہیں۔
جنرل سلیمانی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے کاراکاس میں صف بندی
انہوں نے جنرل سلیمانی کی خصوصیات اور صفات کے بارے میں کہا: حاج قاسم کی ذاتی خصوصیات میں ایک وہی خدمات ہیں جو انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اسلام، قرآن، ائمہ اطہارؑ اور انسانی برادری کے لئے انجام دیں۔ میری نظر میں ہمیں اس تناظر سے اس مسئلہ کو دیکھنا چاہئے کہ آخر کار کس وجہ سے حاج قاسم ایران، خطے اور دنیا میں اتنے ممتاز ہوئے؟
قمی نے مزید کہا: یہ ایک حقیقت ہے۔ لاتینی امریکہ میں حاج قاسم کی یاد میں تقریب منانا ناقابل یقین تھا۔ مثلاً کاراکاس میں لوگ ایرانی سفارت خانے کے سامنے کئی گھنٹے کھڑے رہے اور اپنے خراج تحسین پیش کرنے اور یادگار رجسٹر پر دستخط کے لئے انہوں نے ایک کلو میٹر صف بندی کی۔ کچھ علاقوں میں،شہادت کے بعد کچھ دن تک تقریبات کا انعقاد کیا گیا جو خداوندمتعال کی عنایت ہے۔
انہوں نے کہا: ان کا ماننا تھا کہ حاج قاسم انسانیت کی راہ کے شہید ہیں جو بین الاقوامی دہشت گردی یعنی امریکی حکومت کے ہاتھوں شہید ہوئے اور حاج قاسم وہ شخص ہیں جو انسانیت کے خادم تھے۔ وینزویلا کے لوگوں کا یہی نظریہ ہے اور میرا ان لوگوں سے سامنا رہا ہے جو میں کہہ رہا ہوں۔
قمی نے عراق پر امریکی حملے کے بارے میں کہا: ۲۰۰۳ میں عراق پر امریکی قبضہ اس ملک کے ذریعہ ایران پر امریکی حملے کا پیش خیمہ تھا اور اگر ہم سابق امریکی صدر کے بیانات پر نگاہ ڈالیں تو ہم متوجہ ہوں گے کہ ایران کے خلاف فوجی کاروائی کا معاملہ اس وقت اٹھایا گیا تھا جب امریکیوں نے عراق پر قبضہ کیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا: اگر امریکہ عراق میں کامیاب ہو جاتا تو بلاشبہ ایران پر اپنی فوجی کاروائی کرتا۔ کیونکہ ملک کے اندر سے بھی کچھ اشارے دئے گئے تھے۔ امریکی نقطہ نظر سے عراق” امریکی ماڈل کا ایک نیا مشرق وسطیٰ” کا پہلا قدم تھا اور رہبر معظم انقلاب کی حکمت عملی اور اسلامی جمہوریہ کا نظام بھی یہی چاہتا تھا کہ امریکی عراق میں ناکام ہو جائیں۔
کاظم قمی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ مشرق وسطیٰ کے نئے منصوبے کے تحت جن مقاصد کو حاصل کرنا چاہتا تھا وہ سب ہمارے ملک اور خطے میں آزاد حکومتوں کے مفادات اور اسلامی مزاحمت اور حزب اللہ کے خلاف تھے۔ امریکی اس بہانے سے خطے میں آئے تھے کہ ان کا کہنا تھا کہ یہاں دہشت گردی عالمی امن اور سلامتی کے لئے خطرہ ہے اور ہم اس سے نمٹنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کی قیادت خود سنبھالی۔ اور ان ہی بہانوں سے انہوں نے افغانستان پر قبضہ کیا اور پھرعراق آگئے۔
سابق ایرانی سفارتکار نے زور دیا: یہ رجحان بتا رہا ہے کہ اگر امریکی عراق میں کامیاب ہو جاتے تو اگلا قدم ایران اور مشرق وسطیٰ اور مغربی ایشیاء کا پورا خطہ تھا نیز اس کے نتیجہ میں بین الاقوامی نظام متأثر ہو جاتا۔
جنرل سلیمانی اور عراق میں ان کی موجودگی کے بارے میں قمی نے کہا: یہ کہ جنرل سلیمانی نے عراق کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں یعنی استکباری نظام کے خلاف جنگ میں اولین ترجیح قرار دیا وہ رہبر انقلاب اور مسلح افواج کے اعلیٰ کمانڈرکی تدابیرکا نتیجہ تھا چاہے وہ قومی سلامتی اوراسلام کے مفادات اور بین الاقوامی نظام پر عراق کے اثرات ہوں۔ اسلامی جمہوریہ اور عراقی حکومت اور عوام کے نتائج ایسے عظیم نتائج ہیں جن کا تحفظ ضروری ہے۔ عراق دشمن کے محاذ سے نکل کر اپنے کیمپ میں داخل ہوگیا اور اس نے اس عمل کو مستحکم کیا۔
کردوں کے سامنے جنرل سلیمانی کا فیصلہ کن موقف
اس سوال کے جواب میں کہ جنرل سلیمانی نے بھی اسی مسئلے میں وسیع تر کوششیں کیں اور کردوں سے متعدد ملاقاتیں کیں اور کیا آپ کو بخوبی معلوم ہے کہ وہ کس بارے میں گفتگو کرتے تھے؟ قمی نے کہا: ہمارے شہید کمانڈر نے علیحدگی پسند تحریک کے رہنماؤں سے کئی گھنٹے بات چیت کی۔ انہوں نے انہیں واضح طور پر کہا کہ یہ کام کُردوں اور عراق اور خطے کی آزادی اور علاقائی سالمیت کے مفاد میں نہیں ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ قوموں کی بنا پر سیاسی سرحدوں کی تشکیل کا مطلب خطے کی تقسیم ہے۔ وہ کہتے تھے کہ یہ معاملہ صرف عراقی کردستان کا نہیں بلکہ پورے خطے کا معاملہ ہے اور یہ خطے کی ترجیح نہیں ہےلیکن ان کا کہنا تھا کہ اب ہم نے اپنا فیصلہ کر لیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: حاج قاسم نے ان سے کہا کہ میں بغداد اور ترکی جا رہا ہوں کیا میں آپ کے دوست کی حیثیت سے جاؤں یا آپ کے دشمن کی حیثیت سے؟ آپ کو کوئی ایسا لیڈر یا سیاسی شخصیت نظر نہیں آئے گی جو اتنی ایمانداری اور فیصلہ کن بات کرے۔ خطے کے ممالک کے رہنماؤں اور عراقی شخصیات نے اعتراف کیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ اپنے کہے ہوئے پر صادق ہے۔ وہ اب بھی یہی کہتے ہیں۔ جب کہ بعض اوقات جب بعض افراد نے امریکہ پر بھروسہ کیا تو دیکھا کہ امریکہ نے انہیں فوراً ہی ترک کر دیا ہے۔
کاظم قمی نے کہا: ۲۰۰۳ سے جب اسلامی جمہوریہ نے حاج قاسم کی سربراہی میں عراق اور خطے میں قدم رکھا تو ہمیں حکومت سازی اور بنیادی آئین سے لے کر داعش وغیرہ تک ہر روز ایک اہم واقعہ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس عرصے کے دوران اور ان تمام واقعات کے باوجود، اسلامی جمہوریہ ایران، عراقی حکومت، عوام اور شخصیات کے ساتھ تعاون میں مصروف عمل رہی ہے اور دوطرفہ تعاون کو فروغ دینے اور تقویت پہنچانے کے لئے بہت ساری کوششیں کی جا چکی ہیں۔
جنرل سلیمانی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے کاراکاس میں صف بندی
انہوں نے جنرل سلیمانی کی خصوصیات اور صفات کے بارے میں کہا: حاج قاسم کی ذاتی خصوصیات میں ایک وہی خدمات ہیں جو انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اسلام، قرآن، ائمہ اطہارؑ اور انسانی برادری کے لئے انجام دیں۔ میری نظر میں ہمیں اس تناظر سے اس مسئلہ کو دیکھنا چاہئے کہ آخر کار کس وجہ سے حاج قاسم ایران، خطے اور دنیا میں اتنے ممتاز ہوئے؟
قمی نے مزید کہا: یہ ایک حقیقت ہے۔ لاتینی امریکہ میں حاج قاسم کی یاد میں تقریب منانا ناقابل یقین تھا۔ مثلاً کاراکاس میں لوگ ایرانی سفارت خانے کے سامنے کئی گھنٹے کھڑے رہے اور اپنے خراج تحسین پیش کرنے اور یادگار رجسٹر پر دستخط کے لئے انہوں نے ایک کلو میٹر صف بندی کی۔ کچھ علاقوں میں،شہادت کے بعد کچھ دن تک تقریبات کا انعقاد کیا گیا جو خداوندمتعال کی عنایت ہے۔
انہوں نے کہا: ان کا ماننا تھا کہ حاج قاسم انسانیت کی راہ کے شہید ہیں جو بین الاقوامی دہشت گردی یعنی امریکی حکومت کے ہاتھوں شہید ہوئے اور حاج قاسم وہ شخص ہیں جو انسانیت کے خادم تھے۔ وینزویلا کے لوگوں کا یہی نظریہ ہے اور میرا ان لوگوں سے سامنا رہا ہے جو میں کہہ رہا ہوں۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب