کتاب کے اس حصے میں حاج قاسم سلیمانی کی پرجوش اور غم انگیز تقریریں پیش کی گئی ہیں جو انہوں نے والفجر 8 آپریشن میں شہید ہونے والوں کی کرمان میں تشییع کے دوران کی تھیں۔
ان تقریروں کے دوران حاج قاسم کی غم اور گریہ و زاری سے بھرپور آواز سننے پر مجمع بھی رونے پر مجبور ہوا تھا۔ یہ تقریر دفاع مقدس کے بارے میں شہید سلیمانی کی یادگارترین تقریروں میں شمار ہوتی ہے۔ اے عزیز، غیرت مند، فداکار، شہادت طلب اور شہادت پرور لوگو! خداوند عالم کی طرف سے شہادت کی صورت میں عطا ہونے والا ہدیہ آپ کو مبارک ہو۔
یہ کامیابی اللہ کا عطیہ ہے۔ اس سے ہمارے دلوں کو خوشی اور سکون ملا ہے۔ لشکر کے پورے یونٹ پر خدا نے کرم کیا اور ہم اپنے ہدف میں کامیاب ہوئے۔ لشکر ثاراللہ کے زندہ بچنے والے سپہ سالاروں اور سپاہیوں کے دلوں پر خوشی کے بجائے غم طاری ہے؛ عزیزترین افراد کو کھونے اور ان کی جدائی کا غم۔
ہونٹوں پر مسکراہٹ کیسے آسکتی ہے جب محفل میں ابراہیم ہندوزادہ جیسا ساتھی موجود نہیں؟
اس چہرے پر مسکراہٹ کیسے آسکتی ہے جب ہمارے درمیان محمد نصراللہی جیسا دوست موجود نہیں؟
اس لب پر مسکراہٹ کیسے دیکھی جاسکتی ہے جب لشکر ثاراللہ کے پرچمدار احمد امینی کھوچکا ہو؟
دلیر اور فداکار طالب علم حسن یزدانی کو کھونے کے بعد کیسے مسکراہٹ آسکتی ہے؟
اے شہداء کی ماوں اور بہنو! آج ان پانچ افراد کے اجتماع میں ہمارے پاس ایک حمزہ بھی تھا جو جنگ احد میں حضرت حمزہ کی مانند ہے۔ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: حمزہ پر کوئی رونے والا نہیں۔ ہمارے سامنے موجود حمزہ پر بھی کوئی رونے والا نہیں ہے۔
اے کرمان کے لوگو! غیرت مند جوانو! مخلص، غیرت مند اور ٹوٹ کر چاہنے والے ہمارے درمیان نہیں رہے۔ لشکر کے علمدار اپنے خون اور جان کو قربان کرتے ہوئے آپ کو یہ کامیابی ہدیہ کرکے چلے گئے۔ اے لوگو! اللہ جانتا ہے کہ مظلوم رضاکاروں اور جنگی محاذوں پر پابرہنہ لڑنے والوں کی بارگاہ الہی میں آخری آرزو یہ تھی کہ اے اللہ! وہ دن دیکھنے کو نہ ملے جب ہماری قوم کا سر جھکا ہوا ہو۔ اے اللہ! اس 22 بہمن کو ہماری قوم کو کامیابی عطا فرما۔
وہ آپ کے چہرے پر مسکراہٹ اور خوشی دیکھنا چاہتے تھے۔ یہی ان کی دعا اور خدا کے حضور تمنا تھی۔ میں شہداء کے بارے میں کیا کہوں؛ ہمارے یہ عزیز، مخلص اور عرفاء چلے گئے۔ اے اللہ! تو گواہ ہے کہ والفجر 8 آپریشن کے پانچ دنوں میں کبھی رضاکاروں کے چہرے سے آنسو خشک نہیں ہوئے۔ ان کی گردنیں ہمیشہ جھکی رہتی تھیں۔ لب پر یہی دعا ہوتی تھی کہ بارالہا! ہمارا چہرہ سیاہ نہ کرے۔ ہمیں شرمسار نہ کرے۔ اے خدا! ان اشکوں اور آنسووں نے عصائے موسی کا کام کیا اور نیل میں شگاف ڈالا۔ انہی آنسووں نے دریائے اروند کو شق کیا اور مظلوم رضاکاروں کو اس پار پہنچا دیا۔ ہم نے اندازہ لگایا تھا کہ تاریکی اور طوفان سے بھرپور اس رات میں کامیابی کی کوئی ظاہری امید نہیں تھی۔
ہم نے خدا کے حضور دعا کی کہ خداوندا! جس طرح تو نے موسی کو نیل عبور کرایا، ہمیں بھی اس دریا کے پار پہنچادے۔ اے خدا! تو نے خود کہا ہے کہ جو ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں؛ ہم انہیں راستہ دکھادیتے ہیں۔ اے اللہ! تو نے کہا کہ حرکت کرو میں رہنمائی کروں گا؛ پس ہماری مدد کرے۔ اللہ نے اس رات کے آپریشن میں ہماری مدد کی۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب