مواد

عالمی دہشت گردی کے خلاف  جنگ کے علمبردار


Jan 07 2021
عالمی دہشت گردی کے خلاف  جنگ کے علمبردار
شہید جنرل قاسم سلیمانی عالمی دہشت گردی کے خلاف  جنگ کے علمبردار
تہران۔ ایرنا۔ شہید حاج قاسم سلیمانی  عراق اور شام کی  جنگ کے ساتھ ہی کامیابی کی چوٹیوں کو حاصل کرنے کے لئے جہادی انداز میں  حاضر ہوئے اورداعش کےخلاف لڑے۔ آج انہیں ہر ایک عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے علمبردار کے طور پرپہچانتا ہے۔ اس عظیم شہید نے اپنی شہادت  کے آخری لمحہ تک استکبارکے خلاف جنگ ترک نہیں کی اور وہ خود بھی امریکی عالمی دہشت گردی کا نشانہ بنے۔
جنرل قاسم سلیمانی  ولایت فقیہ کے مطیع تھے اور وہ ہمیشہ خود کو ولایت کا سپاہی سمجھتے تھےوہ  اپنی انتھک کوششوں کے ذریعہ دہشت گرد گروہوں کو تباہی  کے دہانے پر پہنچانے میں کامیاب رہے۔ اور وہ وقت کے پیچیدہ حالات میں ترجیحات کو بخوبی تشخیص دیتے تھےاور ان کا مقابلہ کرتے تھے، خطے میں ان کی شخصیت اور عظمت  کی وجہ سے دشمنوں کی نیندیں اڑ گئی تھیں۔اور وہ مزاحمتی محاذ کی  انتھک کوششوں  سے یکجہتی اوراتحاد تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے اوریقینی طور پر اس محبوب و بےلوث او رایثارگر کمانڈر کی شہادت کے بعد مزاحمتی محاذ متحد انداز میں دشمنوں کا مقابلہ کرے گا اورعالمی استکبار کا مقابلہ کرنے کے لئے مزید کام کرے گا۔ امریکی دہشت گردوں نے ۱۳ دی ۱۳۹۸ھ، شمسی کو حاج قاسم سلیمانی کو شہید کر دیا۔
اصول گرا (قدامت پسند)میڈیا
حاج قاسم دنیا کے مشہور اسٹریجسٹ تھے۔
شہید جنرل قاسم سلیمانی  کے جنگی ساتھیوں میں ایک محمد اللہ مرادی فارس نیوز ایجنسی کو دئے گئے  ایک انٹرویو  میں کہتے ہیں:    فارس نیوز ایجنسی: جنرل سلیمانی دنیاکے ایک ذہین اسٹریجسٹ تھے یہ تصور کہ بعض کہتے ہیں کہ جنرل سلیمانی کی شہادت کے بعد ملک میں ان جیسا کوئی شخص موجود نہیں ہے، غلط ہے کیونکہ ملک میں  جنرل قاسم سلیمانی کی مانند  ہزاروں افراد موجود ہیں  جو گمنام ہیں البتہ جنرل سلیمانی دوسرے کمانڈروں سے مختلف تھے اور رہبر انقلاب اسلامی کے بعد وہ پہلے شخص ہیں جن سے لوگ بہت محبت کرتے تھےاور ان کی شہادت نے دلوں پر بہت بڑا داغ لگا دیا ہے۔ حاج قاسم سلیمانی بعض حالات میں ایسے موقف اختیار کرتے تھے کہ جو  اتحاد ایجاد کرنے پر مبنی ہوا کرتے تھےاوربعض مقامات پر وہ اعلان کرتے تھے کہ ہم حکومت کے خلاف کام نہیں کر رہے ہیں  بلکہ رہبر معظم انقلاب نے فرمایا کہ حکومت کی مدد کریں لہذا ہم بھی مدد کر رہے ہیں ، اگر تنقید بھی کرتے ہیں تو  یہ حکومتی نظام کی ترقی اور اتحاد ایجاد کرنے کے لئے ہے۔” حاج قاسم” کی شخصیت اس قدر مؤثر شخصیت تھی کہ بے پردہ، باپردہ، دائیں بازو، بائیں بازو پارٹیاں، بوڑھے، جوان، مرد اور خواتین  سب جنرل سلیمانی کی شہادت پر افسوس کرتے ہیں۔حتی کہ جو اسلام کی طرف مائل نہیں ہیں وہ بھی حاج قاسم کی عدم موجودگی سے غمزدہ ہیں۔ عراقی  کردستان کے لوگوں میں ایران کے مقابلے میں شہید حاج قاسم  زیادہ جذابیت کے حامل ہیں جیسا کہ مسعود بازرانی  ایک یادداشت میں بیان کرتے ہیں کہ داعش ، شہرِ  اربیل پر قبضہ کرنے ہی والی تھی اور شہر پر ان کا قبضہ ہونے ہی والا تھا،  اسی وجہ سے ہم نے متعدد ممالک سے مدد کی درخواست کی لیکن ان میں سے کسی نے مدد نہیں کی اس کے بعد ہم نے ایران سے مدد کی درخواست کی تو انہوں نے فوراً میرا نمبر حاج قاسم سے ملایا  تو حاج قاسم نے کہا: جناب مسعود کل صبح کی نماز کے وقت اربیل میں ملاقات ہو گی۔مسعود بارزانی بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا دیر ہو جائے گی آج رات ہی تشریف لائیں ورنہ یہ شہر داعش کے قبضہ میں چلا جائے گالیکن حاج قاسم نے کہا: جناب مسعود  آج رات  صرف اس شہر کی حفاظت کریں جب تک ہم پہنچ جاتے۔ حاج قاسم صبح پہنچے اور انہوں نے ہمارے مجاہدوں  کو منظم کیا اور کچھ ہی گھنٹوں میں  ہمیں کامیابی ملنا شروع ہو گئی اور اسی دن داعش  تقریباً ۱۰۰ کیلو میٹر پیچھے ہٹنے پر مجبورہوگئی۔جب ہم نے داعش کے متعدد رہنماؤں اور کمانڈروں کو گرفتار کر لیا تو ہم نے ان سے پوچھا کہ یہ کیسے ہوا آپ لوگ تو کل پورے شہر کا محاصرہ کرنے والے تھےلیکن آج پیچھے ہٹ گئے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ گذشتہ رات ہمیں معلوم ہوا کہ  جنرل سلیمانی آپ کی مدد کے لئے عراق آنے والے ہیں لہذا ہماری افواج کا حوصلہ پست ہو گیا اور ہماری بہت سی فوج سلیمانی کے خوف سے فرار ہو گئی۔اگر ہم اس واقعہ کو  جدید جنگی قوانین و اصولوں سے موازنہ کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ لغت میں ایسی کوئی جنگ نہیں ملے گی جس میں ایک کمانڈر کے خوف سے سو کیلو میڑپیچھے ہٹا جائے۔ حاج قاسم کی ٹیکنیک  عالمی طاقتوں کی سیاست سے بالکل مختلف تھی  اور وہ ان کی سیاست  سے آگے بڑھ جاتی ہے،  اصل میں جب حاج قاسم کی عظمت دشمن کو سو کیلو میٹر دور بھگا لے جاتی ہے توخدا جانتا ہے کہ  ان کی ٹینیک ، ان کے منصوبے اورپروگرام کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟۔ شام میں ہونے والے واقعات کے دوران کرد یزیدی حاج قاسم کو ایک ہمدرد باپ کی طرح دوست رکھتے تھے کیونکہ انہوں نے ان کی مدد کی اوران کی عزت بچائی۔ شام کےکردوں کے خلاف ترکی کی “بہار ِامن” نامی کاروائی میں خود اردگان کو امریکہ نے دھوکہ دیا کیونکہ امریکہ  نے اس جیل کو بچانے کے لئے شام کے کردوں کے خلاف اردگان کو دھوکہ دیا جہاں سیکڑوں داعشی قیدی تھے، اس نے اردگان کو شامی کردوں کے خلاف اکسایا اور اردگان  کی  یہ کاروائی سبب بنی کہ وہ قیدی جو کردوں اور حاج قاسم کی مدد اور زحمت سے اسیر بنے تھے، وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔لہذا  ترکی نے اس کاروائی میں کوئی نتیجہ حاصل نہیں کیا بلکہ صرف  کچھ مظلوم لوگوں کو بے گھر و آوارہ  کر دیا۔ حاج قاسم کا عقیدہ تھا کہ ہمیں ایسی  فوجی ٹینیک سے استفادہ کرنا چاہئےکہ جس سے امریکہ کو کوئی فائدہ نہ پہنچےلہذا  ان کی حکمت عملی یہ تھی کہ شام، ترکی، عراق اور ایران کے کردوں کو محفوظ رکھا جائے اور ان کا عقیدہ تھا کہ ان علاقوں میں موجود کرد،  ایرانی ہیں لہذا ہمیں اس اتحاد کو برقرار رکھنا چاہئےاور کرد بھی یہی سمجھ رہے تھے۔
ہم مضبوط قدموں سے شہید سلیمانی  کے عظیم راستے کو جاری رکھیں گے
اسلامی مشاوراتی اسمبلی کے  پارٹی  رکن حجت الاسلام علی رضا سلیمی نے رسا نیوز ایجنسی  کے ساتھ  گفتگو میں  بیان کیا: جنرل شہید حاج قاسم سلیمانی ایک مکمل اور انتھک مجاہد تھے، رہبر معظم انقلاب  کے مطابق  شہید حاج قاسم سلیمانی مکتبِ اسلام  اورامام خمینیؒ  کے خونی مکتب کے تربیت یافتہ تھے۔شہید حاج قاسم  سلیمانی ایک ماہر دشمن شناس تھے، انہوں نے زمانے کے پیچیدہ حالات میں ترجیحات کوبخوبی پہچانا اورانہوں نے وجود کی گہرائی سے یہ سمجھ لیا کہ تمام فسادات کا سرچشمہ امریکہ اور صہیونی ہیں۔ لہذا انہوں نے فساد کے جراثیم کے خلاف  لڑنے کے لئے ہرممکن کوشش کی۔ شہید حاج قاسم سلیمانی نے اپنی تیز نظر وں سے سمجھ لیا کہ عالم اسلام  کی نجات کا واحد عنصر مقاومت ہے۔مغرب کے ڈرپوک و بزدل اوران کے اتحادی بین الاقوامی اور علاقائی پیشرفت میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکتے کیونکہ یہ لوگ دشمنوں کو مسلسل مراعات دے رہے ہیں لیکن شہید حاج قاسم سلیمانی نے مسلسل دشمن سے فائدہ اٹھایا اور اسے شکست دی۔ آج یمن، عراق، شام، پاکستان اور افغانستان میں مزاحمتی محاذ بہت منسجم ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا: آج مزاحمت کے تمام محاذدشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے متحد ہیں اورعالمی استکبار کا مقابلہ کرنے کے لئے سرگرم ہیں ۔ انہوں نے اس بات پر تاکیدکرتے ہوئے کہ مزاحمتی محاذ کی یکجہتی اور  ہم آہنگی شہید حاج قاسم سلیمانی کی کاوشوں کی مرہون منت ہے، کہا کہ وہ ولایت فقیہ کے مطیع تھے اور ہمیشہ اپنے آپ کو ولایت کا سپاہی سمجھتے تھے اسی وجہ سے وہ دلوں کے امیر بن گئےاور لوگ اپنے پورے وجود سے ان سے محبت کرتے تھے،ان کی عظمت نے دشمن کی نیندیں اڑا دی تھیں  اور دشمنوں پر ان کا اچھا خاصا رعب و دبدبہ تھا۔       اس عظیم و عالمی شہید نے جدوجہد کی اورسب کو دکھا دیا کہ جنگ وجدوجہد کا کوئی وقت نہیں ہوتا، وہ اپنی انتھک کوششوں سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں کامیاب رہے ۔ انہوں نے  یہ بیان کرتے ہوئے کہ شہید حاج قاسم سلیمانی رہبر معظم انقلاب کے الفاظ کے مطابق عالم اسلام کے ایک بین الاقوامی شہید تھے، تاکید کی کہ  مغربی دنیانے  دہشت گردی کے خلاف جنگ کا صرف نعرہ لگایا لیکن ہمارے بہادر جنرل نے دہشت گردی کا مقابلہ کیا اور انہوں نے دکھایا کہ نعرہ بازی اور عمل کے درمیان کتنی دوری ہے۔ وہ خدا کی راہ میں مجاہدوں اور تیار دلوں کے درمیان ایک بین الاقوامی ہم آہنگی پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے، ہمارا فرض ہے کہ ہم شہید حاج قاسم سلیمانی کے راستے کو جاری رکھیں اور اس مشن کو بہترین انداز میں پایۂ تکمیل تک پہنچائیں جو انہوں نے ہمارے کندھوں پر رکھا ہے۔ اس کینسر والے غدود کو ختم کرنے کے لئے آج ہمیں  پہلے سےکہیں زیادہ  سخت محنت اور تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔اس عظیم شہید نے ہمیں سکھایا کہ  دشمن جس زبان کو سمجھتا ہے وہ مزاحمت کی زبان ہے۔ انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ دشمن کبھی بھی  مذاکرات کی زبان سے پیچھے نہیں ہٹے گا، بیان کیا کہ مذاکرات کا دم بھرنے والے لوگ حاج قاسم سلیمانی کی شہادت کا جواز کیسے پیش کر یں گے؟ کچھ عہدیداروں نے مغرب سے گھنٹوں  اور مہینوں تک مذاکرات جاری رکھے  لیکن کیا ان مذاکرات کا نتیجہ حاج قاسم کی شہادت تھی؟ آج ہمیں حاج قاسم سلیمانی کے راستے کو زیادہ سنجیدگی سے جاری رکھنا چاہئے۔
جنرل سلیمانی کے خون نے مغربی، عبری اور عربی مثلث کے خاتمے کو تیزی بخشی
اسلامی مشاورتی اسمبلی کے قانونی و عدالتی کمیشن کے ایوان صدر کے ممبر یحیی کمالی پور نے  دفاع پرس نیوز ایجنسی کو دئے گئے ایک انٹرویو میں بیان کیا : امریکی حکام یہ یقین رکھتے تھے کہ جنرل سلیمانی کی شہادت سے خطے میں مزاحمتی محاذ کی کاوشیں ہمیشہ کے لئے بند ہو جائیں گی کیونکہ وہ اس حقیقت سے واقف تھے کہ  جنرل سلیمانی مشرق وسطی میں ان کے مقاصد کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔انہوں نے اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ  حاج قاسم سلیمانی کی شہادت نہ صرف  اسلامی جمہوریہ ایران    بلکہ پوری دنیا میں مقاومت، ایثار، شجاعت ، قربانی اور شہادت کے کلچر کو پھیلانے کا سبب بنی۔ حاج قاسم سلیمانی  کے بہائے گئے خونِ ناحق نے مغربی، عبرانی اورعربی  کی ظالم، فاسد اورفاسق حکومت کے خاتمے کو تیزی بخشی۔ جنرل سلیمانی کے اعزاز میں منعقد تقریب میں دنیا کے آزادی پسند لوگوں کی وسیع پیمانے پر شرکت اس کی واضح  مثال ہے۔نہ صرف ہمارے ملک کی  شہید پرور قوم اوراسلامی انقلاب کے نظریات کے پابندافراد بلکہ پوری امت مسلمہ خصوصا مزاحمتی محاذ نے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے مرتکب افراد سے منصفانہ انتقام لینے کا مطالبہ کیا ہےاور اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے جب تک یہ اہم کام انجام نہ پائے۔عہدیدار نے اس چیز کی  تاکید کی  کہ آج   اور شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کی بدولت مزاحمتی محاذ خطے میں عالمی استکبار اور اس کے اتحادیوں کو اہم دھچکا لگانے کے لئے پہلے سے زیادہ تیار ہے۔ انہوں نے مزید کہا : ہم اس عظیم سانحے کے مرتکبین سے انتقام لینے میں کسی سرحد کو نہیں مانتے کہ جس نے ہمارے ملک کے عوام اور دنیا کے مظلوموں کے دلوں کو رنجیدہ کیاہے۔ اور اس سلسلہ میں ہم رہبر انقلاب اسلامی کے حکم کے تابعدار ہیں۔ہماری شہید پرور اور سوگوار قوم  یہ جان لے کہ  جیسے ہی اس عظیم سانحے کے مرتکبین سے سخت انتقام لینے کا حکم صادر ہو گا  تو اس ملک سے وابستہ وحشی امریکی فوجیوں اور راشن خورقوتوں کو نہ صرف اس ملک بلکہ پوری دنیا  میں سلامتی اور امن  نہیں ملے گا، سخت انتقام قریب ہے۔
حاج قاسم کے خون نے اتحاد ایجاد کیا
شبستان  نیوز ایجنسی نے ” حاج قاسم کے خون نے اتحاد ایجاد کیا” کے عنوان سے ایک رپورٹ میں  اعلان کیا : ایران میں کچھ دنوں سے الگ  سا ماحول ہے، پوری قوم تمام سیاسی ، مذہبی نظریات سے قطع نظر اپنے قومی ہیروکو کھو دینے سے اشک بہا رہی ہے، جس نے اس سرحد و خطے کی سلامتی کے لئے سالوں تک کاوشیں کیں اور جمعرات کو ایام فاطمیہ کے پہلے عشرہ میں اپنے زحمتوں کا ثواب اپنی والدہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے لیا۔ اور خطے اور دنیا کے لاکھوں آزاد لوگوں کی دلوں کو رنجیدہ کردیا، دلوں کے کمانڈر حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے روضے کی زیارت کی اوروہاں سے ان کے بھائی حضرت عباس ،علمدار  کربلا کی سرزمین  میں جانے کی اجازت حاصل کی۔ایک عجیب زیارت، سب سے پہلے تشہیرِ کربلا کے روضے کے سامنے تعظیم اور اس کے بعد پوری دنیا کے محبوب   حضرت امام حسین  اور حضرت ابوالفضل العباس علیہما السلام کے روضے میں تشییع اور آخر میں اپنے جنگی ساتھی ابو مہدی المہندس کے ساتھ ایوانِ نجف  کو چومنا، حاج قاسم کی تشییع جنازہ  نے نہ صرف تہران بلکہ ایران کے تمام شہروں میں دل جیت لئے اور نہ صرف تہران میں بلکہ مشہد، قم ، اہوازمیں امام خمینیؒ کی رحلت کے بعد  لاکھوں کی تعداد میں ایک  تشییع جنازہ میں تبدیل ہو گئی۔بلکہ ان کے آبائی گاؤں کرمان میں بھی ملک کے اندر اور بیرون ملک سے لاکھوں افراد نے اس تقریب میں شرکت کی۔کل صبح سے اور صبح کی نماز کے بعددسیوں ہزار عاشق کرمان کی سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے عقیدت اور احترام کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔خداکی طرف سے جنرل قاسم کے لئے اس سے بڑھ  کر کوئی جزا نہیں تھی، ایرانی سرزمین میں لوگ اس  کمانڈر کا نام نہایت خوبصورتی سے لیتے ہیں۔عراق، شام، لبنان، یمن، پاکستان، افغانستان اور ہندوستان کے بہت سے لوگ آئے تھے تا کہ لوگوں کے مجمع میں یہ کہیں کہ حاج قاسم ہمارے چچا ہیں، ہمارے والد ہیں۔دلوں کے کمانڈر نے دنیا کے  بہت سے مشہور جملوں  اور مادی فارمولوں کو تبدیل کر دیا اور ہم نے دیکھا کہ جو شخص میڈیا میں زیادہ نظر آتا ہے وہ زیادہ مقبول نہیں ہوتا۔اس اصل کو جنرل سلیمانی نے ختم کر دیا لیکن اب ان کا مقام  ایک ایک بچے کے دل میں ہے، فلکیاتی حقوق اور مشنوں کے حق میں انہوں نے ہمت نہیں ہاری  اور انہوں نے زندگی کو ایک اور طرح سے چلایا۔ لوگوں کی دلیرانہ شرکت و موجودگی سے ہماری مراد صرف فرنٹ لائن ہی نہیں ہے، آج وطن کی فرنٹ لائن اس کی سڑکیں ہیں سب سڑکوں پر آئے تھےتا کہ حاج قاسم کو الوداع کہیں۔ حاج قاسم نے اپنی شہادت سے دشمن کے مقاصد پر پانی پھیر دیا  اور ہم نے دیکھا کہ بشار الاسد نے جنرل سلیمانی کی میت کو شام بھی لے جانے کی تاکید کی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاد جاری ہے۔ حاج قاسم نے داعش  کے ذریعہ مقبوضہ علاقوں کی آزادی کے لئے اپنے آپ کو وقف کیا اور داعش کی ناک کو زمین پر رگڑ ڈالا اور  پوری  دنیا کے لوگ انہیں ایک بہترین نمونۂ عمل اور مجاہد کے طور پر ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ ہاں اب  نہ صرف کرمان بلکہ پورے ایران کے لوگ اپنا سر اونچا  اور سینہ تان کر کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس بہت سے حاج قاسم ہیں۔ ہم وطنوں میں سے  کرمان کے ایک ہم وطن جو شہید  حاج قاسم سلیمانی اور مزاحمتی شہداء  کی تاریخی الوداعی تقریب میں موجود تھے،  وہ ان سے دلی محبت کے بارے میں کہتے ہیں: میں حاجی نامی جگہ  کا رہنے والا ہوں،  وہ ہرلحاظ سے ایک مکمل انسان تھےمردہ باد امریکہ، مردہ بادا سرائیل۔حاج قاسم میرے بھائی جیسے تھے، حاج قاسم ہم جوانوں کے با پ تھے، حاج قاسم ایک خدائی شہید تھے اور جیسا کہ ان کی بیٹی کہتی تھیں میرے بابا شہادت  کے عاشق تھے، ہم بھی یہ کہتے ہیں کہ ایرانی مزاحمت کے والد شہادت کے عاشق تھےاور مجھے امید ہے کہ دانشوران کے راستے پر چلیں گے۔ وہ کہتے ہیں: آدھی رات کو حاج قاسم کی شہادت ایک بزدلانہ کا م تھا،مرد وہ ہوتا ہے جو روبرو ہو کر لڑتا ہے نہ کہ پیٹھ میں خنجر گھونپے۔ زمانہ بدلتے دیر نہیں لگتی اور بے شرم ٹرمپ کی باری بھی آنے والی ہے۔
جنرل سلیمانی کی باعظمت تشییع جنازہ مزاحمتی محاذ پر روشن مستقبل کی خوشخبری ہے
دفاع پرس  ایجنسی نے ایک مضمون میں مازندران کی سپاہ ِکربلا کے کمانڈر” محمد حسین بابائی” کی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا : ملک میں جنرل سلیمانی کی باعظمت تشییع جنازہ مثالی تھی اوریہ مسئلہ مزاحمتی محاذ پر روشن مستقبل کی خوشخبری اورتبدیلی کی علامت ہے۔ انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ شہید حاج قاسم سلیمانی نے ۴۱ سال تک اسلام کی راہ میں جہاد کیا، وہ ہمیشہ مزاحمتی محاذ پر خطروں میں رہتے تھے سپاہ اورحکومتی نظام نے حاج قاسم سلیمانی کے لئے نشریاتی کام انجام نہیں دیا بلکہ خدا نے حاج قاسم کی محبت کو دنیا کے مسلمانوں کے دلوں میں ڈالا ہے۔مازندران کی سپاہ ِ کربلا کے کمانڈرنے بیان کیا کہ جنرل سلیمانی کی تشییع جنازہ حیران کن تھیں اورانقلاب اسلامی کے عمل پر اس نے بہت اثر ڈالا۔ حاج قاسم کی شہادت سے اسلامی جمہوریہ ایران کی زندگی کو دوام ملا اوربہت سے سلیمانی رونما ہوں گے۔ بابائی نے یہ کہتے ہوئے کہ جنرل سلیمانی کا طرز عمل اور رویہ مخلصانہ تھا بیان کیا: ان کی شجاعت بے نظیر اور بے مثال تھی اور جنرل سلیمانی  امام زمانہؑ کے نائب کے حقیقی سپاہی تھی۔انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ جنرل سلیمانی کے قتل نے استکبار کی بنیادیں ہلا دی ہیں اور یقیناً     اسے تباہ و برباد کر دے گی، واضح کیا : جنرل سلیمانی جنگی میدانوں کے سب سے پرامن کمانڈر تھے اور جنگی میدانوں میں وہ کوشش کرتے تھے کہ جانی نقصان کم ہو۔
جنرل سلیمانی کی شہادت اسلامی انقلاب کے عالمی ہونے کا ایک اہم قدم ہے
ایک مضمون میں آئی، آر، آئی ، بی نے سپاہِ ولیعصر (عج) میں ولی فقیہ کے  حلقۂ نمائندگی کے سربراہ  حجت الاسلام  رستگاری کی گفتگو نقل کرتے ہوئے بیان کیا: شہادت معاشرے کی روح کے جسم میں زندگی کا ایک انجیکشن ہےاور یہ شہداء کا خون ہے جو معاشرے کو خصوصیت بخشتا ہے ۔جنرل قاسم سلیمانی ایک نئی توانائی کے لئے ایک زندگی بخش انجیکشن ہیں اور یقیناً اسلام کے بہادر کمانڈر حاج قاسم سلیمانی  اور ان کے ساتھیوں کی شہادت انقلاب کے دوسرے مرحلے کو یقینی طور پرمستحکم کرے گی۔اسلام کے بہادر کمانڈر نے اپنی پوری زندگی اسلام اور مسلمانوں کی خدمت میں بسر کی اور اس عظیم شہید کے کارنامے ناقابل فراموش ہیں۔ خوزستان کی شہید پرور قوم ، شہید حاج قاسم سلیمانی کی بہادری کو کبھی فراموش نہیں کرے گی۔خوزستان کے عوام نے  حاج قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھی شہدا ء کے پاک اور مقدس  پیکروں کی تشییع جنازہ کی الوداعی تقریب میں اپنی ناقابل بیان شرکت سے یہ ظاہر کیا کہ وہ اس عظیم شہیداور ان کی انتھک کوششوں کی قدرجانتے ہیں۔ اس تقریب کے تسلسل میں خوزستان کے ایک شاعر نے حاج قاسم سلیمانی کی تعریف میں اشعار خوانی کی اورمداح اہلبیتؑ احمد طرفی نے بھی اس عظیم شہیداورا ن کے ساتھی شہداء کے غم پرسینہ زنی کرائی۔  جنرل سلیمانی کی شہادت انقلاب اسلامی کے عالمی ہونے کے لئے ایک اہم قدم ہے۔
شہید سلیمانی  کو اپنی سادہ زندگی میں ڈھونڈنا چاہئے
شہید سلیمانی کے ایک ساتھی کمانڈر اہوازیان  بسیج نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہتے ہیں: شہید سلیمانی خطے اور دنیا کی اقوام کے مابین اپنی شان و وقار کے باوجود اپنی ذاتی زندگی میں ایک سادہ انسان تھے۔ان کی سادگی ناقابل تصور ہے،  ایک ایسی حیثیت کا حامل شخص، جس نے اپنی چالیس سال کی خدمت  و نوکری کے دوران  اپنے  مشن اوراضافی ٹائم کا ایک ریال بھی نہیں لیا لہذا انہیں اپنی سادہ زندگی میں جستجو کرنا  اور پہچاننا چاہئے۔اس  جرم میں امریکہ ،  برطانیہ، اسرائیل اور منافقین  کے ایک گروہ کا ہاتھ عیاں ہےانہوں نے کسی نہ کسی طرح ان کے قتل کی منصوبہ بندی کی تھی اور  ان کی شہادت کے بارے میں اطمینان حاصل کرنے کے لئے انہوں نے تین مرحلوں میں کام کیا۔  ہم سب جانتے تھے کہ حاج قاسم کی شہادت کا وقت ہر لمحہ میں مزید قریب  ہو رہا ہے  اور اس چیز کو ہم ان کے چہرہ، نگاہ اور  سلوک میں محسوس کر سکتے تھے وہ خود بھی اس موضوع سے بخوبی  آگاہ تھے، وہ  اپنی شہادت سے ایک، دو گھنٹے قبل  کچھ تحریر کرتے  ہیں،  وہ کئی مرتبہ کاغذ پر  کچھ لکھ کر مٹا دیتے ہیں  یہاں تک یہ جملہ لکھتے ہیں اے خدا مجھے پاک و صاف اپنی بارگاہ میں قبول کر لے۔حاج قاسم ہمیشہ  راہ ولایت فقیہ میں سپاہی کو اپنے لئے فخر سمجھتے تھے ۔ حاج قاسم نے امام خمینیؒ کے اس قول پر عمل کیا جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ قدس کا راستہ کربلا سے گزرتا ہے اور آج ہم قدس کے دروازوں کے پاس پہنچ چکے ہیں۔حاج قاسم نے ہمارے عظیم الشان رہبر کے کلام کو عملی جامہ پہنایا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر دشمن ایک مارے گا تو دس کھائے گا اور اس چیز کو شام اور لبنان  کے حالیہ واقعات میں  ہم نے مشاہدہ کیا جہاں مزاحمتی محاذ نے صہیونی حکومت سے ایک کے بدلے میں دس  شامل کرکے شہداء کے خون کا بدلہ لیا۔شہید سلیمانی کی اہم سرگرمیوں کو خفیہ ہونے کی وجہ سے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس طرح کی شخصیت  لوگوں کے درمیان اتنی محبوب ہو جائے؟ سوائے اس کے کہ خدا نے خود چاہا کہ سلیمانی باعظمت ہو جائیں۔جب ملک کے صوبوں میں سیلاب آیا تو حاج قاسم نے ان علاقوں میں اپنے آپ کو پہنچایا اور لوگوں کی مدد کی، جبکہ بہت سے عہدیدار ان علاقوں میں جانے کے لئے تیار نہیں ہوئے۔انہوں نے ۱۵ دن و رات ان علاقوں میں سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی مدد کی۔ شہید سلیمانی کا ایک اور اقدام اور کارنامہ   خطے کے جوانوں  کو داعش کے خلاف جنگ میں لانا تھا جس کی حمایت ۱۱۶ ممالک کر رہے تھے دوسرے الفاظ میں  یوں کہا جائے کہ دنیا کی دو تہائی فوج  داعش کی مدد کر رہی تھی۔
قاسم سلیمانی کی شہادت پورے مزاحمتی محاذ  کے اتحاد کا سبب ہے
فارس نیوز ایجنسی  کو دئے گئے ایک انٹرویو میں صوبہ اصفہان کے پائدار محاذ کے سکریٹری  مہران زینلیان کہتے ہیں: اسلامی انقلاب نے  اپنے راستہ میں شہداء کے خون کی وجہ سے پہلے کی نسبت زیادہ مستحکم و پائدار، ترقی کی ہےاور اس سلسلہ میں حاج قاسم سلیمانی کی شہادت قابلِ تفسیر ہے۔  حاج قاسم  سلیمانی کا خون  اس وقت اس  شجرۂ طیبہ پر نچھاور ہوا  جب ہمارے پیارے ملک، خطے اور اسلامی ممالک میں نئے  نئے فتنے ایجاد ہو رہے تھے اور یہاں تک کہ اسلامی ممالک میں غیر ملکی افواج کی موجودگی  سے فتنے و بغاوتیں اور ہمارے ملک میں ان کے داخلی عوامل کی نقل و حرکتیں منجملہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے بعد حالیہ واقعات بھی ان کے ابھرنے کی علامت ہیں۔اس کے باوجود ہم سب نےان دو دنوں میں  دیکھا کہ کس طرح مختلف ممالک میں انقلابی محاذ کے جذبے نے اسلامی ممالک سے فتنے ایجاد کرنے والوں  کے بستر گول کر دئے اوروہ  مزاحمتی محاذ میں اتحاد کا سبب بنا۔ جیسا کہ رہبر معظم انقلاب نے فرمایا: اس راستہ کے مجاہدین  کے انتظار میں کامیابی یقینی ہے اور رہبر معظم کی تاکید اور اس مسئلہ کو یقینی طور پر بیان کرنایعنی تمام انقلابی قوتوں اورمزاحمتی محاذ کے لئے اچھی خبر ہے۔حاج قاسم سلیمانی کو کھو دینا سب کے لئے سخت ہےاور دوسری طرف سے ان  شہداء کا خون ہی ہے جس نے انقلاب اسلامی کے شجرۂ طیبہ کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ اور ہم سب کو معاشرے میں معاشی، ثقافتی، سیاسی اور فوجی مختلف شعبوں میں ایک اور قاسم بننے کی ضرورت ہے۔ یہ انتقام سخت اور سنجیدہ ہونا چاہئے لیکن میری نظر  میں اور رہبر انقلاب اسلامی کی تدبیر سے یہ انتقام کچھ فوجی اڈوں پر حملہ کرنے اوران کی افواج کو تباہ کرنے تک محدود نہیں ہے اور شائد بہترین انتقام اس خطے سے خاص طور پر عراق سے امریکی انخلاء ہے جو یقیناً رونما ہونا چاہئے۔غیر ملکی میڈیا ، غزہ،لبنان، عراق، شام، پاکستان اور حتی کہ یورپی ممالک  میں عوامی جذبے کو دیکھ رہا ہے کہ اس نے دشمن کے دل میں کس طرح  خوف و لرزہ طاری کر دیا ہے اور یہ وہی سیاسی اور معاشرتی  میدان کی پاکیزگی ہے جو ایک طرف سے کفر و طاغوت کے دل میں دہشت پیدا کرتی ہے اور دوسری طرف سے جذبہ، جوش، بیداری کا احساس اور انتقام، مزاحمتی محاذ کو مضبوط کرنے کا سبب  بنے گا۔
شہید سلیمانی کے خون کا نتیجہ،  امریکہ کو اس خطے سے نکالنے میں پوشیدہ ہے
آنا نیوز ایجنسی نے تاکستان کی سپاہ ِ امام علی علیہ السلام کے کمانڈر علی رضا حیدری کے خطاب کے بارے میں ایک رپورٹ میں بتایا : حقیقت میں  جنرل سلیمانی  ولی فقیہ کے مالک اشتر تھے اور آج عالم اسلام اور مزاحمتی محاذ  اس سرفراز جنرل کے غم و ماتم میں ہیں۔میجر جنرل حاج قاسم سلیمانی ولایت فقیہ کے وفادار دوست، اسلامی وطن کے ایک بے مثال محافظ ، آٹھ سالہ دفاع مقدس کا ناتمام خزانہ اور مزاحمت کے علمبردار تھے، انہوں نےاپنے اور اسلامی جمہوریہ کے نظام اوردنیا کے مسلمانوں اور مظلوم ممالک کے نظام کی حفاظت کے شاندار ریکارڈ  اپنے نام کئے اور عظیم الشان بہادرانہ  قدم اٹھایا۔اگر یہ عزیز شہید نہ ہوتے تو ہمارے یہاں امن نہ ہوتا۔کیونکہ سلامتی و امن سب سے بڑا سرمایہ ہےاور ہمیں اس کی قدر کرنی چاہئے، شہداء تمام مشکلات کو اچھی نظر سے دیکھتے تھے اور خدا کی راہ میں تمام چیزیں اچھی ہیں۔حیدری نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ٹرمپ کی یہ ناقابل فراموش غلطی انقلاب اور مزاحمت کے محاذ پر ایک نئی لہر پیدا کرے گی، بتایا:  یقینی طور پر، اس شہید کے  مبارک خون کا نتیجہ ، امریکہ کو اس خطے سے باہر نکالنا ہو گا اور اس خطے سے امریکہ کو ذلیلانہ انداز میں باہر نکالنے سے ہی کہا جا سکتا ہے کہ ہم نے اسلام کے بہادر شہیدکا انتقام لیا ہے۔جنرل حاج قاسم سلیمانی کی مدح و تعریف میں مداح اہلبیتؑ حاج محمد اطہری نے بھی اشعار کہے ہیں۔ اس تقریب میں حاج قاسم سلیمانی کی شہادت کی مناسبت سے  صوبہ قزوین کے جنوب اور مغرب میں اسلامی آزاد یونیورسٹی کے سربراہ  رضا شعبان نژاد کا پیغام پڑھا گیا۔  “مِنَ المُؤمِنینَ رِجالٌ صَدَقوا ما عاهَدُوا اللَّهَ عَلَیهِ َفمِنهُم مَن قَضیٰ نَحبَهُ وَمِنهُم مَن یَنتَظِرُ وَ ما بَدَّلوا تَبدیلاً”  ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے وعدہ کو سچا کر دکھایا ہے ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا ہے  اور راہ حق میں شہادت پر فائز ہو چکا ہے اور کوئی اس کا انتظار کر رہا ہے، انہوں نے اپنے رویےّ میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔اس پیغام کے دوام میں آیا ہے:نہایت افسوس اوراندوہ کے ساتھ  اسلام اوراسلامی مزاحمتی محاذ، شہید حاج قاسم سلیمانی کی بے مثال شہادت  کو امام زمانہؑ ، رہبر معظم انقلاب، اسلامی آزاد یونیورسٹی کے طلاب  اور تمام آزادی پسندوں اور ظلم کا مقابلہ کرنے والوں کی خدمت میں مبارکباد اور تسلیت عرض کرتے ہیں  اور ہمیں یقین ہے کہ خدائی وعدے کے مطابق، آخری کامیابی خدا کے متلاشی اور ذمہ دار افراد کے نصیب ہو گی  اور آخر کار جارحیت  و ظلم کے پیشواؤں کا مکر و فریب خود انہیں ہی لے ڈوبے گا۔بے شک  اس انتھک مجاہداور اس کے شہیدساتھیوں کا پاک خون اسلامی مزاحمتی محاذکو   مجرم   امریکہ کی سربراہی میں عالمی کفر و استکبار پر انتہائی کامیابی تک  پہنچنے کے لئے شجرۂ طیبہ کو تقویت بخشے گا ۔
تشییع جنازہ میں لاکھوں افراد کی شرکت
تسنیم نیوز ایجنسی نے ایک رپورٹ میں علوم اسلامی اکیڈمی کے سربراہ  آیت اللہ سید محمد مہدی میرباقری  کی گفتگو کے حوالے سے نقل کیا ہے : سبقت لے جانے والے لوگ ایسے میدانوں میں قدم رکھتے ہیں جو ابھی فتح نہیں ہوئے ہیں، ایسا راستہ جو مبہم ہے اس میں خدا مدد کرتا ہے  تو وہ راستہ کھل جاتا ہے اور دوسرے  اس راستے میں اس کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔ اس نکتہ پر توجہ رکھنا لازمی ہے کہ اس مبہم وادی میں قدم رکھنا بہت سخت اور مشکل کام ہے لہذا اس میں بڑے لوگوں کی موجودگی کی ضرورت ہے، جن میں سے ایک حاج قاسم سلیمانی تھے۔آیت اللہ میر باقری نے  عالم اسلام میں مزاحمتی قوتوں کا نٹ ورک ایجاد کرنے  کے لئے جنرل شہید سلیمانی کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: عالم اسلام میں  استکباری  شیطانوں کے خلاف باہمی جڑے ہوئے نیٹ ورک کی تشکیل آسان کام نہیں ہے۔انہوں نے کئی بار خود کو خطرے میں ڈالا، انہوں نے اس چیز پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ جو شخص خدا کی بارگاہ میں امتحان پاس کر لیتاہےتو خداوندمتعال اس سے اگلا امتحان زیادہ سختی سے لیتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنرل شہید قاسم سلیمانی ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے ہمیشہ خود کو شہادت کے لئے تیار کر رکھا تھا اور ہر سفر پر انہیں شہید ہونے کا احتمال پایا جاتا تھا۔وہ ان لوگوں میں سے تھے جن کے اندر  اپنی تمام تر جدوجہد، جرأت اور اعزاز کے باوجود کسی برتری اور بدعنوانی کو نہیں دیکھا گیا جبکہ  تمام بدعنوانیوں کی جڑ برتری طلبی ہے۔وہ شخص جو خود کو  ثابت نہیں کرنا چاہتا  اور وہ صرف بندگی کرنا چاہتا ہےوہ اپنے تمام کاموں کو دین کے راستے میں قرار دیتا ہے، جنرل شہید مکمل طور پر متواضع شخص  تھے۔
اصلاح پسند میڈیا
جنرل سلیمانی  قومی اتحاد کا نمونہ
آرمان ملی اخبار نے  ایک یادداشت میں  اصول گرا اورسیاسی و سرگرم  کارکن حسین کنعانی مقدم کے قلم سے لکھا ہے:  امریکی  دہشت گرد اور مجرم حکومت کے ذریعہ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعدامریکیوں سے مذاکرات پر مبنی بہت سے سیاسی غباریا سیاسی دھڑوں میں سمجھوتے اور امن کی باتیں ختم ہو گئیں اور عملی طورپر جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت سے پیدا ہونے والے سیاسی طوفان اور زلزلے نے اس غبارآلود ماحول کو شفاف کر دیا۔اب ہم سیاسی فضا میں بھی بصیرت میں اضافے کا مشاہدہ کر رہے ہیں،  اور ملک کے ماہرین، جماعتیں اور گروہ امریکہ کے خلاف جدودجہد کے میدان میں داخل ہو گئے ہیں۔جبکہ اس  ملک کے اعضاء و جوارح سے جرم و جنایت جنم لیتے ہیں تو وہ باضابطہ طور پر یہ اعلان کر رہا ہے کہ ایران اور عراق کے ایک سینئر فوجی کمانڈر کا قتل کر دے گا اور دہشت گروں کے دائرے میں آ جائے گا۔لہذا یہ سب کے لئےخطرے کی گھنٹی تھی کہ سب یہ جان لیں  کہ امریکی کس طریقہ کار کے حامل ہیں۔دوسری طرف سے یہ کہنا چاہئے کہ شائد مزاحمت کار شہداء کے پیکروں کے اس عظیم منظر میں تقریباً  ۴ نسلیں موجود تھیں جو مردہ باد امریکہ اور مردہ باد اسرائیل کے نعرے لگا رہے تھے اور وہ   ملکی عہدیداروں سے جنرل سلیمانی اور دیگر شہداء کے انتقام کا مطالبہ کر رہے تھے۔لہذا ایسا لگتا ہے کہ لاکھوں افراد کا یہ  مجمع  ایک طرح کا ریفرنڈم تھا۔ بہت سے لوگوں نے امریکیوں کے ساتھ مفاہمت اور امن کے لئے ریفرنڈم کروانا چاہا،  لیکن اسلام کے بہادر جنرل کی پاک جسم کی تشییع جنازہ میں لاکھوں افراد کی شرکت نے یہ واضح کر دیا کہ ایران متحدہ طور پرامریکی اور اسکتباری مخالف ہے اور تمام دھڑے اورگروہ اس مسئلہ پر متفق ہیں۔ دوسری طرف سے ایسا لگتا ہے کہ وہ لوگ جو سوچ رہے تھے کہ  کوئی دروازہ کھلا  ہے   تو اس واقعہ کے بعد تمام دروازے بند ہو گئے اور قوم کے ارادے کے سامنے عہدیداروں کو بھی قاعدہ کے طورپر قوم کے حقوق کے حصول کے لئے اپنے اجرائی اقدامات فراہم کرنا ہوں گے۔بہرحال  یہ اتحاد اور ہم آہنگی  بے مثال ہے اور ہمیں اسے برقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔خاص کر آئندہ پارلیمانی انتخابات میں ہم اس کے ذریعہ  سیاسی سرگرمیوں کا سرمشق قرار دیتے ہوئے ایک مؤثر، ہوشیار، امریکی مخالف اور انقلابی پارلیمنٹ  کا قیام عمل میں لائیں اور دوسرے قدم کی طرف آگے بڑھیں۔جس نکتہ پر تاکید کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ جنرل شہید قاسم سلیمانی کی شخصیت کسی  گروہ سے مخصوص نہیں تھی اور انہوں نے سیاسی دھڑوں کے کھیلوں میں حصہ نہیں لیا بلکہ وہ انقلابی محاذ پر تھے، وہ خود کو ولایت کا سپاہی کہلاتے تھے اور وہ  اپنے دائرہ کار کو انقلاب، امام خمینیؒ  اور رہبر معظم انقلاب کی بنیاد پر مرتب کرتے تھے۔ شہید سلیمانی ایک ایسے سیاستدان تھےجنہوں نے خود کو سیاست سے آلودہ نہیں کیااور لوگوں کے دل و دماغ میں جگہ بنا لی۔
ایسا جنرل جو ہمیشہ سپاہی رہا
ایلنا نیوز ایجنسی نے ایک رپورٹ میں لکھا: کئی سالوں سے ہم پڑھ رہے ہیں  اور وہ بیان کر  رہے ہیں: امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کا سب سے اعلیٰ رتبہ انتقام کا رتبہ ہے اور اگر امام حسین علیہ السلام پر گریہ انتقام کے لئے نہ ابھارے تو وہ حقیقی گریہ نہیں ہے! اس حقیقت کو اہل عشق و محبت بخوبی سمجھتے ہیں جیسے حاج قاسم ۔لیکن ہماری چھوٹی جانوں کے لئے شائد یہ چیز مانوس نہیں تھی! وقت گزرتا رہا اور گزرتا رہا یہاں تک کہ حاج قاسم کے داغ نے یہ معاملہ حل کر دیا، ان دنوں یہ داغ اس قدر کمر شکن ہے کہ آنسو اسے کم نہیں کر سکتے۔لیکن  چھوٹے اور بڑے کے دل کی  جو آرزو تھی اورہے وہ ایک  حقیقت ہے۔ سخت انتقام۔ حاج قاسم کو سبھی چاہتے تھے، لہذا انہوں نے کائنات کے  سب سے بڑے معاملہ کو ایسے حل کیا کہ سب سمجھ جائیں۔نہ صرف اہل عشق  ومحبت۔ اب اس بڑے نقصان میں اور جنرل شہید قاسم سلیمانی کے بزدلانہ قتل کے بعد پورا ایرانِ اسلامی متفقہ طور پر اس نقصان پر سیاہ پوش ہو گیا اوراس بہادر مرد  کے لئے  چھوٹے ، بڑے  ، مرد اور خواتین   سب  نے خون کے آنسو بہائے۔مدافعین حرم کے  شہداء کے اہل خانہ نے کئی بار یہ اعتراف کیا کہ گویا انہوں نے ایک مرتبہ پھر اپنے والد کو کھو دیا ہے اورایک بار پھر سوگ کا لباس  پہن لیا ہے۔ لیکن  نوجوانوں  نے اپنی قمیضوں کے اوپر  جنرل سلیمانی کی تصویرچھپوا کر دشمنوں کو بتا دیا کہ اگرتم نے  قاسم سلیمانی کو ہم سے چھین لیاہے تو یاد رہے کہ بہت سارے قاسم راستے میں ہیں۔میں ایک  طالبہ سے پوچھتا ہوں  جو سڑک کے کنارے لگی ہوئی عظیم شہید ” حاج قاسم سلیمانی” کی تصویر کو غور سے دیکھ رہی تھی کہ آپ کیا محسوس کر رہی ہیں؟ تو وہ کہتی ہیں: میڈیا اور سوشل نٹ ورکس پراپنی پروفائلز کی تصویروں کو حاج قاسم سلیمانی کی تصویر میں تبدیل کرکے ہم اپنے دشمنوں کو بتلا رہے ہیں کہ  ہم ہرگز   تمہیں،  تمہارے میڈیا کھیل کے ذریعہ مقتول اور قاتل کی جگہ تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔  مدافع حرم شہید ” محمود رادمہر” کی والدہ  بنام عقیلہ ملازادہ  اپنے بیان کو جاری رکھتے  ہوئے کہتی ہیں کہ جنرل  سلیمانی کی شہادت مزاحمتی محاذکے مابین مزید  ہم آ ہنگی اور محاذِ باطل کے سامنے پائداری کا باعث بنے گی۔ شیطان بزرگ امریکہ اور تڑمپ یہ جان لیں کہ ایرانِ اسلامی  اور مزاحمت کا محورتربیت یافتوں اور شہادت کے تشنہ لبوں سے بھرا ہوا ہے جو جنرل سلیمانی کی طرح ان سے لڑنے کے لئے تیار ہیں۔وہ امام جماعت جو ساری کی جامع مسجد  سے نکلتے ہیں  ان کی  موجودہ صورتحال سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ ان کا سینہ ایک سنگین غم سے بھرا ہوا ہے  ، میں  ان سے دلوں کے کمانڈر حاج قاسم سلیمانی کے بارے میں پوچھتا ہوں تو وہ جواب دیتے ہیں:  شہید جنرل حاج قاسم سلیمانی نے اپنی شہادت کے ساتھ اسلامی انقلاب کی تاریخ میں بہادری اور ایثار کا ایک اور میدان کھولا اورمزاحمتی محاذ پر اس شہید کے ولایت مدار مکتب کے بے شمار تربیت یافتہ افراد   مجرم امریکہ سے عنقریب تاریخ کا سب سے بڑا انتقام  لیں گے۔یہ عظیم کمانڈر ایران کی اسلامی قوم کے لئے اتنا عزیز ہے کہ ہر ایک صوبے نے ایک علیحدہ مہم کے ذریعہ اپنے صوبے میں حاج قاسم سلیمانی  کے پیکرِ مطہر کو پہنچانے کا مطالبہ کیا،  اور اہل ِ مازندران  نے بھی اس عنوان سے اپنی مہم کا آغاز کیا کہ ” کمانڈر ہم منتظر ہیں”۔ جی ہاں حاج قاسم ایک مشہور شخصیت کے حامل تھے جو تمام ایرانیوں کے محبوب تھے چاہے وہ کسی بھی سوچ اور سیاسی خیالات کے مالک ہوں۔اپنے زمانے کے مالک اشتر، حاج قاسم سلیمانی کی شہادت اسلام اور اسلامیِ ایران کے لئے بہت بھاری نقصان ہے جیسا  کہ رہبر معظم انقلاب  نے حاج قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد ایک بیان میں فرمایا: شہادت ان سارے سالوں میں ان کی انتھک کوششوں کا صلہ تھا،    ان کے جانے سے خدائی مدد اور طاقت سے ان کا راستہ اور ان کا کام ہرگز نہیں رکے گا،  لیکن ان مجرموں سے سخت انتقام لیا جائے گا جنہوں نے اپنے پلید ہاتھوں کو  کل رات ان  اور دوسرے شہداء کے خون میں آلودہ کیا۔
جس دن جنرل سلیمانی کی دوجڑواں نواسیاں دنیا میں آئیں
رویداد ایران نامی نیوز سائٹ نے بچوں کے ماہر ڈاکٹر محمد ترکمن اورجنرل سلیمانی کی ہمنشینی اور ان کی یادوں کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: دو سال پہلے جنرل سلیمانی کی دو  نواسیاں دنیا میں آئیں۔جس ہسپتال میں، بچوں کے ڈاکٹر کے طور پر میری ڈیوٹی تھی ،  وہ  بچیاں اپنے  وقت سے پہلے ہی اسی میں پیدا ہوئیں، وہ وقت سے پہلے دنیا میں آئیں تھیں اور ان کا وزن بھی کم تھا لہذا انہیں کچھ دنوں کے لئے ہسپتال میں داخل کرنا ضروری تھا،  ان بچیوں کی دیکھ بھال کا اعزاز میرے نصیب ہوا۔ یہ چند دن حاج قاسم سلیمانی کی کلاس  میں اخلاق کا ایک مختصر سمسٹر گزارنے کے لئے کافی تھے۔سچ مچ  اس وقت تک میں نے صرف داعش کے خلاف جنگ میں جنرل کی دلیری اور بہادری کے بارے میں سنا تھا ان کے نام نے میرے لئے سلامتی کا ایک اچھا احساس پیدا کیا لیکن ایران  کے دوسرے  فوجی چہرہ نے  اپنی انسانیت، معرفت اور تواضع  کے ذریعہ میرے اورہسپتال کی نرسوں کے ذہن میں ایک پائدار تصویرکشی کی۔ایک حقیقی انسان کی علامت۔ ڈاکٹر ترکمن جنرل کی تواضعِ زندگی کی  فصل کے اوراق کو ان جملوں کے ساتھ بیان کرتے ہیں: حاج قاسم سلیمانی کی نواسیوں کو خصوصی شرائط کی وجہ سے مختصر وقت کے لئے ہسپتال کے اسپیشل کمرہ  میں داخل کرنا ضروری تھا لیکن ہمارے پاس اسپیشل کمرہ خالی نہیں تھا۔ میں نے ان بچوں میں سے ایک بچے کی والدہ  سے بات کی جس کے بچے کی حالت تشویشناک نہیں تھی اور انہیں بتایا کہ ایک کمرہ تین گھنٹوں میں خالی ہو جائے گا۔میں نے  آہستہ سے کہا کہ ہمارے ہسپتال میں جنرل سلیمانی کی نواسیاں ہیں اورہمارے پاس  ان کو ہسپتال میں الگ رکھنے کے لئے اسپیشل کمرہ نہیں ہے آپ کے بچے کی حالت بہتر ہو رہی ہے ، اگر آپ متفق ہوں تو ہم ان کمرہ میں ان بچیوں کو داخل کریں،  بچے کی والدہ نے جیسے ہی جنرل سلیمانی کا نام سنا تو وہ چونک گئی اور کہا کیوں نہیں! وہ جنرل کو دیکھنے کے لئے ہسپتال کے اصلی  راستہ کی طرف دوڑ کر گئی اور انہوں نے چلتے ہوئے کہا: حاج قاسم  سلیمانی  نے جو زندگی ہمارے امن و سلامتی کے لئے وقف کی ہے اس کی تلافی کیسے کی جا سکتی ہے؟ یہ سب سے کم اور بہت ہی معمولی کام ہے۔ہم نے کمرہ خالی کیا اور جنرل سلیمانی کو بتایا کہ ہم ابھی بچیوں کو ہسپتال میں داخل کریں گے،  انہوں نے جیسے ہی یہ داستان سنی تو کہا: ایسا ہرگز نہ کرنا، آپ نے یہ کام کیوں کیا؟ کیا آپ نے میری نواسیوں کو ہسپتال میں داخل کرنے کے لئے ایک بیمار بچے کو کمرہ سے باہر نکال دیا ہے؟میرے بچوں اور دوسروں میں کوئی فرق نہیں ہے۔  مہربانی کرو اس بچے کو اسپیشل کمرے میں واپس لاؤ ، ہم باقی بیماروں کی طرح کمرہ خالی ہونے کا انتظار کریں گے!میں نے کہا: جنرل ! جیسے ہی اس بچے کی ماں نے سنا کہ ہم آپ کی نواسیوں کو داخل کرنا چاہتے ہیں تو اس نے خود کمرہ خالی کرنے کا اصرار کیا۔ لیکن انہوں نے کہا: نہیں جناب ڈاکٹر صاحب! میں نے جو کہا وہی کرو اور بچے کوکمرہ میں واپس لاؤ۔
عوامی ہونا جنرل سلیمانی کی  مقبولیت کی بنیادی وجہ
برنا نیوز ایجنسی نے ایک رپورٹ میں ثقافت اور فنون سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد کا انٹرویو لیا اور لکھا: سید رضا  میرکریمی: جنرل سلیمانی نے ہمیں سکھایا کہ کس طرح مؤثرثابت ہوا جا سکتا ہے اور لوگوں کے دلوں کو کیسے جیتا  جا سکتا ہے؟ سید رضا میر کریمی  سنیما  کے ڈائریکٹر  کے مطابق بنیادی سوال یہ ہے کہ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ کیسے  کوئی شخصیت متواضع و شائستہ بن سکتی ہے، اور وہ بہت سارے معاملات پر تبصرہ نہ کرے جن  کے بارے میں سب اظہار نظر کا دغدغہ رکھتے ہیں، احسان کے بغیر اور سخاوتمندانہ کام انجام دے،صرف خدا کی خوشنودی کو مد نظر رکھے اور اس طرح کے امور۔ کیا خداوندمتعال اس کے سلوک و رفتار کی  سچائی کو لوگوں کی دلوں میں گہری محبت میں تبدیل نہیں  کر  سکتا ہے؟   میرے خیال سے ان تمام خصوصیات میں اور خاص طور پر ایک سچی توانائی چھپی ہوئی ہےجس کی ضمانت خود خدا نے دی ہےاورہم سب لوگوں اور عہدیداروں کے لئے اس سے سبق حاصل کرنے کا  بہترین موقع ہے ۔ ہمیں جنرل سلیمانی جیسے ایک عمدہ نمونہ سے  سیکھنا چاہئے کہ کس طرح مؤثر ثابت ہوا جا سکتا ہے  اور کسی تبلیغ و تشہیر کے بغیر لوگوں کے دلوں کو جیتا جا سکتاہے۔ سنیما اور ٹیلی ویژن کے پروڈیوسر، محسن علی اکبری نے بیان کیا: جس چیز نے جنرل سلیمانی کو لوگوں کے درمیان محبوب بنایا ہے وہ ان کی عاجزی و تواضع ہے، انہوں نے کبھی جھوٹا وعدہ نہیں دیا اوروہ  جو بات کرتے تھے اس پر عمل پیرا ہوتے تھے۔ہمارے پاس  جنرل حاج قاسم سلیمانی کی تقریریں اور لیکچرز زیادہ مقدار میں موجود نہیں ہیں ، اگر ان کی تقریر کی ویڈیو کہیں ملتی ہے تو وہ دل کی بات کرتے ہیں۔یہ بات ہم سب پر واضح ہے کہ حاج قاسم سلیمانی ایک ایسے شخص تھے جو عہدے اور منصب کے بارے میں نہیں سوچتےتھےانہوں نے اس طرح کے مسائل میں خود کو نہیں جھکڑا وہ روحانیت و معنویت میں غرق تھے۔میرے خیال سے قاسم سلیمانی کی جگہ لینا بہت مشکل ہے اور انہیں کھونا ہم سب کے لئے دردناک ہے۔ شہید قاسم سلیمانی ایک محبوب شخص ہیں جن کی مقبولیت کا تعلق اس ملک کی سرحدوں تک محدود نہیں ہےہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی اس عظیم شہید کے قتل کی مذمت کے لئے مظاہرے ہو رہے ہیں۔آج ہندوستان جیسے ممالک میں عزاداری  و سوگ منایا جا رہا ہے جہاں میرے خیال سے شہید سلیمانی کبھی نہیں گئےاوریہ چیز جنرل سلیمانی کی شخصیت کی انفرادیت کی علامت ہے۔ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ جنرل سلیمانی اتنے مقبول کیسے ہو گئے کہ آج تقریباً تمام اسلامی ممالک سوگوار ہیں۔پروڈیوسر نے آخر میں کہا: جنرل سلیمانی ایرانی عوام کے دلوں میں ہیں اور سب جانتے ہیں کہ اگر وہ نہ ہوتے تو آج شائد ہمارے ملک کی صورتحال مختلف ہوتی اور داعش بھی اپنے جرائم جاری رکھتی۔شہید قاسم سلیمانی کی مقبولیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سنیما کے ہدایتکار اور ڈائیریکٹرمصطفی رزاق  کریمی نے بیان کیا: حاج قاسم سلیمانی کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ ان کے عوامی ہونے میں ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ اس شخصیت کے بہت زیادہ شیفتہ ہو گئے ہیں جو اپنی نوعیت میں بے مثال ہے۔
کرمان کا غوغا   و بھیڑ
ایرانی اخبار نے “کرمان کا غوغا” کے عنوان سے ایک رپورٹ میں لکھا ہے : قدس فورس کے شہید کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی اور ۴۰ سال ان کی ہمراہی کرنے والے ان کے ساتھی  کمانڈر شہید  حسین پور جعفری  کے پیکروں کو لے جانے والا طیارہ ۴ شہروں سے گزر کر لاکھوں ایرانیوں کی جانب سے الوادع کرنے کے بعد منگل کی صبح کرمان انٹرنیشنل ائیرپورٹ پہنچا۔ شہید قاسم سلیمانی کے پیکرِ مطہر کی منتقلی سے پہلے اس شہید کے اہل خانہ ،ان کی اہلیہ، بچے اورکچھ رشتہ دار طیارے  سے اترے اور صوبائی اور ملکی عہدیداروں نے ان کا استقبال کیا۔جنرل شہید کے کرمان داخل ہونے سے پہلے کرمان کے رہائیشیوں کی ایک بڑی تعدادایئرپورٹ سے متصل سڑکوں پر گھنٹوں سے انتظار کر رہی تھی۔شہر کرمان کے داخلی راستوں پر بہت زیادہ ٹریفک نظر آ رہی تھی اور ملک کے مختلف حصوں سے لوگ جنازے میں شرکت کے لئے کرمان آ رہے تھے۔کرمان ہوائی اڈے سے گلزار شہداء تک لوگوں کی بہت بڑی بھیڑ تھی جو تشییع جنازہ کے مقام پر صبح سویرے ہی پہنچ چکے تھے۔نہ صرف کرمان کے عوام بلکہ دوسرے صوبوں سے بھی ہزاروں افراداپنے کمانڈر کو الوداع کہنےکے لئے اس شہر آئے تھے۔ صوبہ کرمان کی انتظامیہ نے اطلاع دی ہے کہ کرمان میں داخل ہونے والی  ۹۴۰۰۰ سے زیادہ  گاڑیوں کا تعلق دوسرے صوبوں سے تھا۔جنرل سلیمانی اور ان کے ساتھی کی تشییع جنازہ کی آخری رسومات کل صبح ۸ بجے ، نائب صدر اور متعدد وزراء ، عدلیہ کے ایک وفد اور کرمان میں فوجی کمانڈروں کی موجودگی میں آغاز ہوئیں۔قومی میڈیا اور نیوز ایجنسیوں کی براہ راست تصاویر نے کرمان میں لوگوں کی  بے مثال بہت بڑی تعداد کو دکھایا۔  لوگوں نے مندرجہ ذیل نعروں کی گونج میں میدان آزادی سے گلزار شہداء تک کا راستہ طے کیا۔مرگ بر آمریکا۔ مرگ بر اسرائیل۔ این ھمہ لشکر آمدہ۔ بہ عشق رھبر آمدہ۔ نہ سازش نہ تسلیم۔ انتقام انتقام۔ تاہم  اس پروگرام میں شریک افراد کا ہجوم ایک حادثہ کا سبب بنا اور اس کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوگئے۔
طے ہے کہ یہ جناب آپ کے بابا کو واپس لائیں گے لیکن۔۔۔
ایسنا خبررساں ایجنسی  نے مدافعِ حرم  زکریا شیری کی والدہ رقیہ آقائی کے ساتھ ایک انٹرویو میں بیان کیا:میں ہمیشہ زکریا شیری کے بچوں، فاطمہ اور محمد صدرا کو ٹی وی پر حاج قاسم سلیمانی کی تصویر دکھاتی اور کہا کرتی تھی:  طے ہے کہ یہ جناب آپ کے بابا کا جنازہ واپس لائیں گے۔اب جنرل کی شہادت کے بعد میں فاطمہ اور محمد صدرا سے کیا کہوں!؟ اے عظیم کمانڈر، عالی مقام شہید، آپ نے اپنے جانے سے شہداء کے بچوں کو اکیلا کیوں چھوڑ دیا ہے؟ آپ نے جانے سے شہداء کے اہل خانہ کو کیوں غم میں مبتلا  کر دیا ہے؟ میں نے آپ کو کبھی بھی قریب سے نہیں دیکھا لیکن جب بھی میں ، آپ کو ٹی وی پر دیکھتی تو  میرے دل کو سکون پہنچتا تھا۔جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت نے ہم سب کی کمرتوڑ دی ہے،   جنرل کی شہادت سے ایک بار پھر ہم داغدار ہوئے ، آپ کی شہادت کے بعد اب ہم خدا سے دعا گو ہیں کہ وہ تمام ایرانی خاندانوں خصوصاً  شہداء کے اہل خانہ اور خصوصاً مدافع حرم کے شہداء کے اہل خانہ کو صبر عطا کرے۔ امریکیوں نے خوف کے مارے حاج قاسم سلیمانی کو شہید کر دیالیکن وہ یہ جان لیں کہ وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔یہ سچ ہے کہ شہداء کے اہل خانہ ایک بار پھر یتیم ہو گئے ،  لیکن وہ ہرگز مایوس نہیں ہوں گے اور اب بھی امید باقی ہے۔شہید کی والدہ نے یہ بیان کرتے ہوئے کہا  کہ امام زمانہؑ کی مدد سے ہم امریکیوں کو شکست دیں گے۔ امام زمانہؑ سپاہ قدس کے مددگار ہیں، ان شاء اللہ خداوندمتعال اور امام زمانہؑ کی مدد سے ان شہداء کے خون کا بدلہ لیں گے اور وہ امریکہ کو منہ توڑ جواب دیں گے۔خداوندمتعال کی مدد سے ابھی بھی بہت سے سلیمانی پائے جاتے ہیں اور ان کی مانند بہت سے ہیں،  جب دفاع مقدس کے دوران  رجائی و باہنر اور دیگروں کو  شہید کیا گیا تو ہم نے حاج قاسم جیسے افراد کی سرگرمیوں اور تربیت کا مشاہدہ کیا، ہمارے پاس اب بھی حاج قاسم موجود ہیں اور  رہیں گے۔
 


نظری برای این مطلب ثبت نشده است.

رائے

ارسال نظر برای این مطلب