شاعروں کو شاعر پسند ہوتے ہیں، کھلاڑیوں کو کھلاڑی اور بہادر قومیں ہمیشہ بہادروں کو اپنا ہیرو سمجھتی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہر عہد میں باطل کے آگے توحیدِ حق کے مجاہد سر کٹوا کر کلمہ حق کو بلند کرتے آئے ہیں۔ کئی بہادر آئے اور اپنی جرات مندانہ داستان رقم کرکے امر ہوتے رہے، انہی میں سے ایک ایسے ہی جری اور بہادر، ملتِ اسلامیہ کے ہیرو قاسم سلیمانی شہید کے واقعات اور کارنامے میڈیا میں دیکھتا رہا اور ان سے عقیدت مندانہ سا تعلق محسوس ہونے لگا تھا۔ صحافت کا طالبِ علم ہونے کے ناطے حالاتِ حاضرہ سے آگاہی اور عالمی خبروں پر نظر رکھنا روزمرہ زندگی کا حصہ ہے، لیکن ایک سال قبل ملتِ اِسلامیہ کے عظیم مجاہد قاسم سلیمانی کی شہادت کی خبر نے بے چین اور اداس بھی کر دیا تھا۔ خبر سنتے ہی احباب کو اطلاع دی کہ “عالمِ اسلام کے عظیم مجاہد قاسم سلیمانی شہید ہوگئے۔” اگرچہ کم افراد ہی “شہید” کے کارناموں سے باخبر تھے، لیکن ہم میں سے اکثریت عوام ان کی ذات کو نہیں جانتی تھی۔ چشمِ فلک نے یہ بھی دیکھا کہ شہید کے خون کی تاثیر کے باعث اِس دل خراش سانحہ پر ہر آنکھ اشک بار اور ہر دِل اداس تھا۔ ایسے میں قلم کچھ اِس طرح رقم طراز ہوا “حاج قاسم سلیمانی! اے ملت اسلامیہ کے عظیم مجاہد! آپ نے تو ہمیں ہمیشہ فتح و کامرانی کی خبر دی تھی، یہ کیسا دن آن پڑا ہے۔ آپ کو کبھی دیکھا تھا نہ ملے، لیکن ہمیشہ آپ کی فتح کے قصے سنتے آئے ہیں، الفاظ نہیں ہیں، بس جب سے آپ کی جدائی کی خبر ملی ہے آنکھیں برس رہی ہیں۔
الم ناک دن گزرنے کے بعد رات گئے خواب دیکھا، جس کے مناظر ابھی چشمِ تصور میں محفوظ ہیں۔ “دیکھا کہ ایک نیوز سٹوڈیو میں شہید قاسم سلیمانی کے ساتھ والی نشست پر بیٹھا ہوں، ان کے چہرے پر مسکراہٹ سجی ہوئی ہے، میں ان سے انٹرویو میں چند سوال کرتا ہوں اور کچھ دیر بعد وہ مجھ سے مسکراتے ہوئے جدا ہو رہے ہیں۔ ملاقات کی خوشی میں زیرِ لب مسکراہٹ سے انہیں رخصت کرتا ہوں” اور بے چینی سے بیدار ہوتا ہوں۔ بیس دنوں کے بعد مسلسل تحقیق کے بعد کتاب گمنامی سے دلوں کی حکمرانی تک” قاسم سلیمانی شہید” منظر عام پر آئی اور ایک ہی ماہ میں کتاب کا دوسرا ایڈیشن بھی آیا۔ کتاب میں وہ مضامین اور سوانحی خاکے شامل ہیں، جو آج اخبارات اور ویب سائٹس پر ہیں اور شاید کل نہ ہوں۔ یہ ملتِ اسلامیہ کے عظیم مجاہد کی یاد اور اس کے بعد مسلسل بدلتی صورتِ حال کو اگلی نسل تک پہنچانے کی ایک چھوٹی سی کوشش ہے۔
اگرچہ ایران میں شہید قاسم سلیمانی کی زندگی میں ہی دس کتب شائع ہوچکی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ان کے کارناموں کو نصاب کا حصہ بھی بنایا جا رہا ہے، لیکن یہ کتاب دیگر تمام کتب سے اس لیے بھی ذرا مختلف ہے کہ دنیا بھر میں اردو زبان کے قارئین کے لیے کتاب کے پہلے حصہ میں پاکستان کے قومی اخبارات میں کالم نویسوں کے شائع ہونے والے کالم اور مشرق وسطی کے معروف تجزیہ نگاروں کے تجزیات ہیں، جبکہ ساتھ ساتھ معروف علمی و ادبی شخصیات کے خصوصی مضامین بھی شامل کیے گئے ہیں۔ دوسرے حصے میں عالمی میڈیا کی نظر میں قاسم سلیمانی کی زندگی، کارناموں اور قتل کی وجوہ پر مبنی اہم تجزیاتی رپورٹس شامل ہیں۔ کتاب کا تیسرا حصہ قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد عالمی رہنماوں کا ردِعمل، تقریریں، ملک کی معروف علمی و مذہبی شخصیات، سابق فوجی افسران، دانش ور اور صحافی حضرات کے تاثرات پر مبنی ہے۔ شہید کی زندگی کے اہم واقعات ان کے خطوط اور شہید کی زندگی کا آخری اور پہلا انٹرویو کتاب کے چوتھے حصے کا اہم ترین جزو ہے۔ پانچویں حصہ میں عقیدت اور جذبات سے سرشار نامور شعرائے کرام کے کلام کو کتاب کی زینت بنایا گیا ہے اور آخری حصہ میں شہید کی تصاویر ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ کے فاتح عالم اسلام کے عظیم مجاہد شہید قاسم سلیمانی کی نمایاں خصوصیات اور کارناموں کا ذکر کیا جائے تو ان کی ماموریت شیعہ سنی اتحاد بھی تھا، یعنی شہادت کے بعد ایسا کام کیا ہے کہ شیعہ اور سنی متحد ہوگئے ہیں اور شہید کی عظمت کے گُن گا رہے ہیں اور پوری دنیا میں اظہارات ہوئے ہیں حتیٰ کہ عراق میں کردوں اور دیگر حلقوں میں جو بائینڈنگ فورس تھی، وہ شہید کی ذات تھی۔ اسی طرح امریکہ مشرق وسطیٰ کو دو ٹکروں میں تقسیم کرنا چاہتا تھا تو آیت اللہ خامنہ ای کی طرف سے ایک معین پلان ہوا اور شہید نے اُن کے پلان کے مطابق امریکہ کو مشرق وسطیٰ کی تقسیم سے روک لیا۔ انہوں نے یہ کام نہیں ہونے دیا۔ شہید نے صرف ایران کی نہیں بلکہ عراق کی جنگ لڑی ہے۔ یہ امریکہ کا جنگی نقشہ تھا، شہید نے لبنان کی جنگ لڑی۔ شہید نے پاکستان کی جنگ لڑی، کیونکہ بلوچستان کے ٹکرے اور گوارد کا معاملہ یہ سب امریکی پلان تھا اور شیعہ سنی اتحاد کے لئے اس خطے میں بڑا چیلنج داعش کی صورت میں تھا۔
امریکہ کے وزیر دفاع نے کہا کہ ہم نے ایسی پلاننگ کی ہے کہ ہم داعش کو ایک جگہ روک دیں گے، یعنی یہ داعش کو ختم نہیں بلکہ باقی رکھنے کی جنگ لڑ رہے تھے اور شہید نے اُن کے خواب اور اہداف کو چکنا چور کر دیا ہے۔ امریکہ جو داعش کے خاتمہ کے بہانہ سے آیا ہوا تھا، وہ اپنا جواز کھو چکا ہے۔ شہید نے داعش کو ختم کرکے افغانستان اور پاکستان کو بھی بچایا ہے۔ ہم بطور پاکستان شہید کے مقروض ہیں، شہید نے ہماری جنگ شام اور عراق میں لڑی ہے۔ شہید کا ایک عجیب و غریب پہلو تھا کہ شہید میدان جنگ میں بھی اسلامی آداب اور اسلامی اقدار کو چھوڑنے کو تیار نہیں تھے، یعنی جنگ کے دوران بھی کچھ ضابطے ہیں، جیسا کہ دشمن اگر ہتھیار پھینک دیں تو اس کو نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا۔ دشمن آپ کے ہاتھ میں آجائے اور وہ توبہ کا اظہار کرے تو اس کو چھوڑ دیں، جانوروں، فصلوں اور املاک کو نقصان نہیں پہینچایا جاسکتا۔ ایک ایسی جنگ میں جو انتہائی غیر متناسب تھی۔ جہاں داعش نے اپنا خوف پیدا ہی اسی بنیاد پر کیا ہے کہ جلاو گھیراو، قتل عام، لوٹ مار، بربریت اور ایسے انداز سے قتل کرنا وغیرہ، لیکن وہاں کوئی ایک ایسا واقعہ نہیں ملا کہ داعش کے مقابلے میں شہید نے جو مورچہ سنبھالا ہو، کہیں کسی اسلامی اقدار کی پاسداری نہ کی ہو۔ کوئی بھی انسان اس کی مثال لانے کے لئے قاصر ہے۔
یہ مجاہدِ اسلام سے ہی ممکن ہے اور شہید جیسی ہستی سے ہی ممکن ہے۔ اس کے علاوہ جنگی مراحل میں ہی نہیں ہے حتیٰ کہ ایک معرکہ میں جب اہلسنت کو ابوکمال کے علاقے سے داعش نے نکال دیا تھا تو شہید کو ایک گھر میں مجبوری میں داخل ہونا پڑا تو شہید نے اس کی معنوی کیفیت کا بھی احساس کیا اور شہید نے وہاں پر نوافل پڑھے اور وہاں ایک تحریر لکھی، اُس گھر کے مالک کے لئے ایک پیغام چھوڑا کہ میں ایک شیعہ ہوں، میرا نام قاسم سلیمانی ہے، جن معنوں میں میں شیعہ ہوں، اُن معنوں میں آپ بھی شیعہ ہیں، کیونکہ آپ اہلبیت سے محبت کرتے ہیں اور آپ اہلسنت ہیں اور میں بھی اہلسنت ہوں۔ میں نے آپ کے لئے نوافل ادا کئے ہیں، اس سب کے باوجود اگر کوئی کمی رہ گئی ہو تو میں ہرجانہ ادا کرنے کے لئے تیار ہوں اور یہ ایران میں میرا رابطہ نمبر ہے۔ شہید قاسم سلیمانی کا قیام اور جہاد عالمِ اسلام کے لئے، شہید کو کسی خاص علاقے، مسلک یا گروہ سے منسوب کرنا شہید کی ارزش کم کرنے کے متراف ہے۔ شہید نے شام میں دنیا کو داعش جیسے ناسور کے شر سے محفوظ رکھنے کے لئے صفِ اول میں جہاد کیا اور داعش کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ بلاشبہ جنرل قاسم سلیمانی عالم اسلام کے عظیم مجاہد اور شہیدِ انسانیت ہیں۔
بشکریہ :اسلام ٹائمز
الم ناک دن گزرنے کے بعد رات گئے خواب دیکھا، جس کے مناظر ابھی چشمِ تصور میں محفوظ ہیں۔ “دیکھا کہ ایک نیوز سٹوڈیو میں شہید قاسم سلیمانی کے ساتھ والی نشست پر بیٹھا ہوں، ان کے چہرے پر مسکراہٹ سجی ہوئی ہے، میں ان سے انٹرویو میں چند سوال کرتا ہوں اور کچھ دیر بعد وہ مجھ سے مسکراتے ہوئے جدا ہو رہے ہیں۔ ملاقات کی خوشی میں زیرِ لب مسکراہٹ سے انہیں رخصت کرتا ہوں” اور بے چینی سے بیدار ہوتا ہوں۔ بیس دنوں کے بعد مسلسل تحقیق کے بعد کتاب گمنامی سے دلوں کی حکمرانی تک” قاسم سلیمانی شہید” منظر عام پر آئی اور ایک ہی ماہ میں کتاب کا دوسرا ایڈیشن بھی آیا۔ کتاب میں وہ مضامین اور سوانحی خاکے شامل ہیں، جو آج اخبارات اور ویب سائٹس پر ہیں اور شاید کل نہ ہوں۔ یہ ملتِ اسلامیہ کے عظیم مجاہد کی یاد اور اس کے بعد مسلسل بدلتی صورتِ حال کو اگلی نسل تک پہنچانے کی ایک چھوٹی سی کوشش ہے۔
اگرچہ ایران میں شہید قاسم سلیمانی کی زندگی میں ہی دس کتب شائع ہوچکی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ان کے کارناموں کو نصاب کا حصہ بھی بنایا جا رہا ہے، لیکن یہ کتاب دیگر تمام کتب سے اس لیے بھی ذرا مختلف ہے کہ دنیا بھر میں اردو زبان کے قارئین کے لیے کتاب کے پہلے حصہ میں پاکستان کے قومی اخبارات میں کالم نویسوں کے شائع ہونے والے کالم اور مشرق وسطی کے معروف تجزیہ نگاروں کے تجزیات ہیں، جبکہ ساتھ ساتھ معروف علمی و ادبی شخصیات کے خصوصی مضامین بھی شامل کیے گئے ہیں۔ دوسرے حصے میں عالمی میڈیا کی نظر میں قاسم سلیمانی کی زندگی، کارناموں اور قتل کی وجوہ پر مبنی اہم تجزیاتی رپورٹس شامل ہیں۔ کتاب کا تیسرا حصہ قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد عالمی رہنماوں کا ردِعمل، تقریریں، ملک کی معروف علمی و مذہبی شخصیات، سابق فوجی افسران، دانش ور اور صحافی حضرات کے تاثرات پر مبنی ہے۔ شہید کی زندگی کے اہم واقعات ان کے خطوط اور شہید کی زندگی کا آخری اور پہلا انٹرویو کتاب کے چوتھے حصے کا اہم ترین جزو ہے۔ پانچویں حصہ میں عقیدت اور جذبات سے سرشار نامور شعرائے کرام کے کلام کو کتاب کی زینت بنایا گیا ہے اور آخری حصہ میں شہید کی تصاویر ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ کے فاتح عالم اسلام کے عظیم مجاہد شہید قاسم سلیمانی کی نمایاں خصوصیات اور کارناموں کا ذکر کیا جائے تو ان کی ماموریت شیعہ سنی اتحاد بھی تھا، یعنی شہادت کے بعد ایسا کام کیا ہے کہ شیعہ اور سنی متحد ہوگئے ہیں اور شہید کی عظمت کے گُن گا رہے ہیں اور پوری دنیا میں اظہارات ہوئے ہیں حتیٰ کہ عراق میں کردوں اور دیگر حلقوں میں جو بائینڈنگ فورس تھی، وہ شہید کی ذات تھی۔ اسی طرح امریکہ مشرق وسطیٰ کو دو ٹکروں میں تقسیم کرنا چاہتا تھا تو آیت اللہ خامنہ ای کی طرف سے ایک معین پلان ہوا اور شہید نے اُن کے پلان کے مطابق امریکہ کو مشرق وسطیٰ کی تقسیم سے روک لیا۔ انہوں نے یہ کام نہیں ہونے دیا۔ شہید نے صرف ایران کی نہیں بلکہ عراق کی جنگ لڑی ہے۔ یہ امریکہ کا جنگی نقشہ تھا، شہید نے لبنان کی جنگ لڑی۔ شہید نے پاکستان کی جنگ لڑی، کیونکہ بلوچستان کے ٹکرے اور گوارد کا معاملہ یہ سب امریکی پلان تھا اور شیعہ سنی اتحاد کے لئے اس خطے میں بڑا چیلنج داعش کی صورت میں تھا۔
امریکہ کے وزیر دفاع نے کہا کہ ہم نے ایسی پلاننگ کی ہے کہ ہم داعش کو ایک جگہ روک دیں گے، یعنی یہ داعش کو ختم نہیں بلکہ باقی رکھنے کی جنگ لڑ رہے تھے اور شہید نے اُن کے خواب اور اہداف کو چکنا چور کر دیا ہے۔ امریکہ جو داعش کے خاتمہ کے بہانہ سے آیا ہوا تھا، وہ اپنا جواز کھو چکا ہے۔ شہید نے داعش کو ختم کرکے افغانستان اور پاکستان کو بھی بچایا ہے۔ ہم بطور پاکستان شہید کے مقروض ہیں، شہید نے ہماری جنگ شام اور عراق میں لڑی ہے۔ شہید کا ایک عجیب و غریب پہلو تھا کہ شہید میدان جنگ میں بھی اسلامی آداب اور اسلامی اقدار کو چھوڑنے کو تیار نہیں تھے، یعنی جنگ کے دوران بھی کچھ ضابطے ہیں، جیسا کہ دشمن اگر ہتھیار پھینک دیں تو اس کو نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا۔ دشمن آپ کے ہاتھ میں آجائے اور وہ توبہ کا اظہار کرے تو اس کو چھوڑ دیں، جانوروں، فصلوں اور املاک کو نقصان نہیں پہینچایا جاسکتا۔ ایک ایسی جنگ میں جو انتہائی غیر متناسب تھی۔ جہاں داعش نے اپنا خوف پیدا ہی اسی بنیاد پر کیا ہے کہ جلاو گھیراو، قتل عام، لوٹ مار، بربریت اور ایسے انداز سے قتل کرنا وغیرہ، لیکن وہاں کوئی ایک ایسا واقعہ نہیں ملا کہ داعش کے مقابلے میں شہید نے جو مورچہ سنبھالا ہو، کہیں کسی اسلامی اقدار کی پاسداری نہ کی ہو۔ کوئی بھی انسان اس کی مثال لانے کے لئے قاصر ہے۔
یہ مجاہدِ اسلام سے ہی ممکن ہے اور شہید جیسی ہستی سے ہی ممکن ہے۔ اس کے علاوہ جنگی مراحل میں ہی نہیں ہے حتیٰ کہ ایک معرکہ میں جب اہلسنت کو ابوکمال کے علاقے سے داعش نے نکال دیا تھا تو شہید کو ایک گھر میں مجبوری میں داخل ہونا پڑا تو شہید نے اس کی معنوی کیفیت کا بھی احساس کیا اور شہید نے وہاں پر نوافل پڑھے اور وہاں ایک تحریر لکھی، اُس گھر کے مالک کے لئے ایک پیغام چھوڑا کہ میں ایک شیعہ ہوں، میرا نام قاسم سلیمانی ہے، جن معنوں میں میں شیعہ ہوں، اُن معنوں میں آپ بھی شیعہ ہیں، کیونکہ آپ اہلبیت سے محبت کرتے ہیں اور آپ اہلسنت ہیں اور میں بھی اہلسنت ہوں۔ میں نے آپ کے لئے نوافل ادا کئے ہیں، اس سب کے باوجود اگر کوئی کمی رہ گئی ہو تو میں ہرجانہ ادا کرنے کے لئے تیار ہوں اور یہ ایران میں میرا رابطہ نمبر ہے۔ شہید قاسم سلیمانی کا قیام اور جہاد عالمِ اسلام کے لئے، شہید کو کسی خاص علاقے، مسلک یا گروہ سے منسوب کرنا شہید کی ارزش کم کرنے کے متراف ہے۔ شہید نے شام میں دنیا کو داعش جیسے ناسور کے شر سے محفوظ رکھنے کے لئے صفِ اول میں جہاد کیا اور داعش کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ بلاشبہ جنرل قاسم سلیمانی عالم اسلام کے عظیم مجاہد اور شہیدِ انسانیت ہیں۔
بشکریہ :اسلام ٹائمز
رائے
ارسال نظر برای این مطلب