بسم اللّہ الرّحمن الرّحیم
و الحمد للّہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سیدنا محمد و آلہ الطاھرین سیّما بقیۃ اللّہ فی الارضین۔
بہت شکریہ آپ کی باتوں کے لیے جو جناب سلامی صاحب نے بھی بیان کیں اور محترم خواتین نے بھی۔ شہید عزیز کی تعریف اور ان کے بارے میں بڑے اچھے اور اہم جملے جو انسان کے دل میں اتر جاتے ہیں، اسی طرح ان کاموں اور فعالیتوں کا ذکر جو آپ ہمارے اس عزیز کی برسی پر انجام دے رہے ہیں۔ یہ ساری وہ چیزیں ہیں جو انسان کو خوش کرتی ہیں، مسرور کرتی ہیں۔ بحمد اللہ، شہید کے اہل خانہ کی بھی، شہید سلیمانی کی شہادت کے بعد معاشرے میں زیادہ بانشاط، زیادہ آمادہ اور زیادہ واضح فعالیت دکھائي دیتی ہے۔ یہ بھی ہمارے عزیز شہیدوں کے خون کی برکت ہے۔ یہ ہمارے لیے بھی خوشی کی بات ہے۔
خیر باتیں تو بہت کہی گئي ہیں۔ ان دنوں انسان اخبار میں، ٹی وی پر، اس کی، اس کی زبان سے، نماز جمعہ کے خطبوں میں، ہر جگہ جہاں جہاں اس کی آنکھیں اور کان کام کرتے ہیں، بحمد اللہ شہید قاسم سلیمانی کا ذکر ہے۔ یہ چیز انسان کو خوش کرتی ہے۔ ہر کوئي کسی نہ کسی انداز میں ان کے بارے میں بات کرتا ہے اور ان کی تعریف کرتا ہے، الحمد للہ، خدا کا شکر۔ جب یہ چیزیں دکھائي دیتی ہیں تو خوشی ہوتی ہے۔ پچھلے سال شہید سلیمانی کی دوسری برسی تھی، میں معاشرے اور دوسری سطحوں پر دیکھ رہا تھا، جو خبریں آ رہی تھیں، میں دیکھ رہا تھا کہ بغیر کسی پرچار کے، کہیں سے کوئي حکم جاری ہوئے بغیر لوگ خودبخود اس شہید کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔ اس سال بھی ایسا ہی ہے۔ الحمد للہ ان معاملوں میں ہمارے سامنے کوئي مشکل اور کوئي کمی نہیں ہے۔
شہید سلیمانی کی بات کی جائے تو کبھی ہم اس عظیم مرد کے انفرادی مسائل اور ذاتی خصوصیات کے بارے میں بات کرتے ہیں کہ جو بڑا طویل اور اچھا باب ہے۔ وہ شجاع تھے، مومن تھے، بڑی ذمہ داری قبول کرنے والے تھے، جوکھم اٹھانے والے تھے، ذہین تھے، عقل مند تھے، جب بھی انھیں یہ محسوس ہوتا تھا کہ کوئي کام ہونا چاہیے یا ہو سکتا ہے تو وہ قدم آگے بڑھاتے تھے۔ ان کے کام میں رکنا، شش و پنج اور شک وغیرہ نہیں ہوتے تھے۔ یہ ان کی ذاتی خصوصیات ہیں۔ اس طرح کی نمایاں خصوصیات ان میں کافی تھیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ بااخلاص تھے، وہ اس فکر میں نہیں رہتے تھے کہ ان کا نام ہو، حیثیت بنے، لوگ جانیں وغیرہ وغیرہ۔ اخلاص بہت اہم ہے اور مجھے لگتا ہے کہ ان کا یہ اخلاص ہی تھا کہ خداوند عالم نے اس طرح انھیں پاداش عطا کی۔ یہ دنیوی پاداش ہے۔ یہ احترام، خراج عقیدت، تعریف اور پتہ نہیں کیا کیا، یہ سب شہید سلیمانی کے کاموں کی دنیوی پاداش ہے، اخروی اجر کے بارے میں ہمارے ذہن اور ہماری عقلیں تصور تک نہیں کر سکتیں۔ وہ ان چیزوں سے کہیں بالاتر ہے کہ ہم لوگ اس کے بارے میں سوچ بھی سکیں لیکن یہی چیزیں جو ہم دنیا میں دیکھ رہے ہیں وہ ان کے اخلاص کا صلہ ہیں، یہ بھی ان کی ذاتی خصوصیات میں سے ایک تھی۔ بہت صاف دل کے تھے، سچے انسان تھے، سیدھی بات کرتے تھے، گوکہ وہ پیچیدہ سیاسی مسائل میں شامل ہوتے تھے، آگے بڑھتے تھے اور بڑے اچھے انداز میں کام بھی کرتے تھے لیکن اسی کے ساتھ وہ بڑے صاف گو اور دھوکے فریب سے عاری انسان تھے، یہ بہت اہم ہے۔ وہ جس شعبے میں بھی کام کرتے تھے، ایسے ہی تھے۔ یہ ان کی ذاتی خصوصیات ہیں، یہ وہ چیزیں ہیں کہ جن سے ہم اس سلسلے میں اس طرح بہرہ مند ہو سکتے ہیں کہ ان خصوصیات کو دیکھیں اور انھیں اپنے اندر پیدا کریں۔ اگر یہ خصوصیات ہم میں نہیں ہیں تو انھیں پیدا کریں۔ ہم واقعی ذمہ دار بنیں، واقعی بااخلاص بنیں، حقیقت میں خدا کے لیے کام کریں، صاف گو اور صاف دل والے بنیں۔ یہ اس طرح کی خصوصیات ہیں۔
دوسرا حصہ، شہید سلیمانی کی کام سے متعلق خصوصیات کا ہے، یعنی ان کے کام کے علاقے اور کام کے میدان کا ہے۔ میں جب نظر ڈالتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ لوگ زیادہ تر داعش کے مقابلے میں شہید قاسم سلیمانی کی کوششوں کا ذکر کرتے ہیں، چاہے وہ عراق میں ہو یا شام میں، ٹھیک ہے، یہ واقعی بہت اہم کام تھا، حقیقت میں داعش ایک بلا تھی اور ہے اور شہید سلیمانی نے اس میدان میں بہت اچھا کام کیا، اچھی طرح سے آگے بڑھے، بہت اچھی طرح سے امتحان میں کامیاب ہوئے اور ان تمام انفرادی خصوصیات کو، جن میں سے بعض کی طرف میں نے اشارہ کیا، اس معاملے میں استعمال کیا اور بڑے فتنے کا، جو روز بروز پھیلتا ہی جا رہا تھا، سر کچل دیا اور اس کی بہت سی جڑوں کو کاٹ دیا، یہ بہت اہم حصہ ہے لیکن شہید قاسم سلیمانی کا سب سے اہم کام یہ نہیں تھا بلکہ یہ ان کے کاموں میں سے ایک تھا۔ ان کا زیادہ اہم کام، جسے وہ عہدہ سنبھالتے ہی انجام دینے کے لیے کوشاں تھے، خطے میں مزاحمتی محاذ کی تقویت تھی، وہی چیز جس سے سامراج کو شکایت ہے، امریکا اس چیز کی طرف سے شکی ہے، مختلف معاملوں میں برابر ہم سے اس بات پر بحث کرتا ہے، تکرار کرتا ہے کہ “آپ کیوں خطے میں موجود ہیں؟ کیوں فلاں حکومت، فلاں گروہ یا فلاں شخص کی حمایت کرتے ہیں؟” یعنی مزاحمت کا معاملہ۔
آج ہمارے خطے میں ایک ایسی حقیقت پائي جاتی ہے جس کا نام ہم نے استقامت رکھا ہے۔ یہ استقامت صرف صیہونی حکومت کے مقابلے میں نہیں ہے بلکہ سامراج کے تسلط کے مقابلے میں ہے۔ البتہ استکبار کا سرغنہ اور شیطان بزرگ امریکا ہی ہے لیکن یہ صرف امریکا تک محدود نہیں ہے بلکہ دوسری سامراجی طاقتیں بھی مستکبر ہیں۔ یہ استقامت، ان طاقتوں کے مقابلے میں ہے۔ شہید قاسم سلیمانی نے، میری نظر میں، میرے تجربے کے مطابق اور جو کچھ میں نے محسوس کیا اس کے مطابق، اس استقامتی محاذ میں ایک نئي روح پھونک دی اور اس کے سامنے ایک نیا راستہ کھول دیا۔ انھوں نے اس محاذ کو روحانی لحاظ سے بھی لیس کیا اور مادی لحاظ سے بھی لیس کیا۔ شہید سلیمانی کے بارے میں ہمارے عزیز و عظیم سید جناب سید حسن نصر اللہ صاحب کی گواہی، جو واقعی ایک بے نظیر انسان ہیں، اس سلسلے میں ایک عظیم باب ہے۔ وہ گواہی دیتے ہیں کہ شہید سلیمانی نے مزاحمت کو دوبارہ زندہ کیا۔ ہم خود بھی قریب سے دیکھتے تھے کہ اس سلسلے میں ان کی کوشش، بڑی نمایاں اور اہم کوشش تھی۔ شہید سلیمانی کا بنیادی کام، درحقیقت یہ تھا، یعنی مزاحمت کی حفاظت، مزاحمت کو فروغ دینا، مزاحمت کو لیس کرنا اور مادی و روحانی لحاظ سے مزاحمت کا احیاء۔ وہ ان لوگوں کو جوش و جذبہ عطا کرتے تھے، روحانیت عطا کرتے تھے، راستہ اور سمت دکھاتے تھے، کبھی ان کا ہاتھ پکڑتے اور انھیں اس سمت میں لے جاتے تھے جہاں انھیں روحانی اور معنوی لحاظ سے جانا چاہیے، مادی لحاظ سے بھی انھوں نے ان کے ہاتھ مضبوط کیے۔
ہم بھولے نہیں ہیں، میں خود ان برسوں کی تقاریر میں کہا کرتا تھا کہ فلسطینی، پتھروں کے ذریعے لڑ رہے ہیں، واقعی اس وقت فلسطینی، ہاتھوں میں پتھر لے کر لڑتے تھے، ان کے پاس کوئي دوسری چیز نہیں تھی۔ اب آپ اس صورتحال کا، آج کے فلسطین سے موازنہ کیجیے، چاہے وہ غزہ کے حالات ہوں یا جو کچھ غرب اردن میں ہو رہا ہے، کیا ان کا موازنہ کیا جا سکتا ہے؟ مطلب یہ ہے کہ مزاحمت نے انھیں زندہ کر دیا، دوسری زندگي دی، داخلی وسائل کے سہارے، مقدس دفاع کے دوران اپنے تجربات کے سہارے، انھیں دیے جانے والے اچھے مشوروں کے سہارے۔ شہید سلیمانی نے اس سلسلے میں بہت بڑا کام انجام دیا۔اسے جاری رہنا چاہیے۔ قاآنی صاحب نے بحمد اللہ بہت اچھا کام کیا ہے، خوب آگے بڑھے ہیں اور بعض معاملات میں انھوں نے اس خلا کو بحمد اللہ پوری طرح سے پر کر دیا ہے۔ کام آگے بڑھ رہا ہے اور اسے آگے بڑھنا ہی چاہیے، مطلب یہ کہ راستہ اور سمت یہی ہے، خطے میں مزاحمت کی جہت، بہت اہم مسئلہ ہے۔ پورا استقامتی محاذ، خود کو اسلام کا بازو، اسلامی نظام کا بازو سمجھتا ہے۔ یہ بھی ایک مسئلہ ہے جس پر توجہ دی جانی چاہیے۔
شہید قاسم سلیمانی کے بارے میں، ایک دوسرا نکتہ جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ان کی ممتاز صفات اور خصوصیات ہیں۔ جو لوگ بھی ان کے بارے میں بات کرتے ہیں اس بات کا خیال رکھیں کہ شہید سلیمانی کی خصوصیات کو ماورائي اور ناقابل حصول نہ بنا دیں۔ یہ ایک زندہ انسان کی خصوصیات ہیں جو ہمارے سامنے ہے۔ “یَاکُلُ الطَّعامَ وَ یَمشی فِی الاسواق”(2) مطلب یہ کہ ایسا نہ ہو کہ یہ سوچا جائے کہ یہ ناقابل حصول مقام ہے، نہیں! شہید سلیمانی زندہ تھے اور کسی کو بھی ان کی ان صفات کے بارے میں پتہ نہیں تھا۔ اس وقت بھی ایسے لوگ ہیں جن کے بارے میں کسی کو نہیں پتہ کہ وہ کون ہیں۔ اگر انھیں شہادت کی توفیق نصیب ہوئي تو شاید، جو کچھ وہ ہیں، اس کے بعض حصے سامنے آ جائيں، سمجھ میں آ جائيں، جان لیے جائيں۔ اس نکتے پر توجہ رکھیے۔
ایک اور نکتہ، جو ہماری گفتگو کا آخری نکتہ ہے، یہ ہے کہ شہید سلیمانی کو زندہ رہنا چاہیے۔ تمام شہداء کو زندہ رہنا چاہیے۔ ہمیں ان پر فراموشی کی گرد، فراموشی کا غبار نہیں بیٹھنے دینا چاہیے۔ شہید قاسم سلیمانی سب سے نمایاں شہداء میں شامل ہیں۔ انھیں زندہ رہنا چاہیے۔ ان کے زندہ رہنے کا ایک حصہ ہمارا اور آپ کا کام ہے۔ اس کا ایک حصہ، خدا کا کام ہے جس کا ہم سے کوئي تعلق نہیں ہے اور خدا خود انھیں زندہ رکھے گا لیکن ایک حصہ بہرحال ہمارا اور آپ کا کام ہے۔ بالکل امام حسین علیہ السلام کے معاملے کی طرح۔ امام حسین کو اللہ نے زندہ رکھا ہے لیکن اگر میں اور آپ مجلس نہ کریں، ماتم نہ کریں، باتیں نہ کریں، منبر پر نہ جائيں، مصائب نہ پڑھیں تو یہ چیز عملی جامہ نہیں پہنے گي۔ مطلب یہ کہ اللہ کے ارادے کے لیے اسباب ضروری ہیں، اللہ اسباب بھی خدا خود پیدا کرتا ہے لیکن ان اسباب کے ذریعے کام انجام پاتا ہے اور اس کے اسباب ہم اور آپ ہیں، “وَ تَسَبَّبَت بِلُطفِکَ الاَسباب”(3) پروردگار کے لطف سے اسباب، سببیت پاتے ہیں لیکن اسباب کو موجود ہونا چاہیے اور یہ سبب ہیں۔
تو ہمیں، جو اسباب ہیں، کس طرح کام کرنا چاہیے؟ ابھی جب میں آ رہا تھا تو ٹیلی ویژن پر کرمان کے شہداء کے مزار اور شہید قاسم سلیمانی کے مزار کے اطراف کے مناظر دکھائے جا رہے تھے، بہت زیادہ بھیڑ تھی۔ یہ بھیڑ بہرحال ہے لیکن کب تک رہے گي؟ کتنے سال تک؟ ہم اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے لیکن ہم ایسا کام کر سکتے ہیں کہ یہ یقینی ہو جائے، کس طرح؟ مختلف طریقوں سے شہید سلیمانی کی انفرادی اور سماجی خصوصیات کو زندہ رکھ کر اور خاص طور پر فن و ہنر کی راہوں سے۔ یہ طریقہ ہے، آپ نے بتایا، ان محترمہ نے بھی بتایا کہ مختلف سطحوں کے لیے کتابیں تیار کرنے کا منصوبہ ہے، یہ اچھا ہے لیکن کتاب، کام کا ایک حصہ ہے، ڈاکیومینٹری بنانا، فلم بنانا، سیریل بنانا، قصہ گوئي، یہ سب اہم ہیں، یہ بہت اثر انداز ہوتے ہیں، خود شہید سلیمانی کے بارے میں بھی اور خاص طور سے ابو مہدی المہندس رضوان اللہ علیہ کے بارے میں بھی کہ واقعی وہ بھی ایک نمایاں انسان تھے، بہت نمایاں تھے۔ وہ بھی بااخلاص تھے، ان کے اخلاص کی وجہ سے ہی خداوند عالم نے اس طرح انھیں اپنا لطف اور اپنی رحمت عطا کی اور اسی طرح ان کے دوسرے ساتھی اور وہ دوسرے لوگ بھی ہیں جو ان کے ساتھ شہید ہوئے۔ یا جو لوگ میدان جنگ اور دوسری جگہوں پر ان کے ساتھ رہے، ان چیزوں کو پھیلانا چاہیے، ان کی یادوں کو محفوظ رکھنے کے لیے مختلف طریقوں سے خاص طور سے فن و ہنر کے ذریعے محفوظ رکھنے کے لیے کوئي پروگرام بنایا جانا چاہیے۔
ان شاء اللہ خداوند عالم ان کے درجات بلند کرے۔ ان شاء اللہ خداوند عالم ہمیں ان سے ملحق کر دے۔ ہمیں ان کی قدر سمجھنے کی توفیق عطا کرے۔ ان شاء اللہ ان کی توجہ، ان کی دعا اور ان کی شفاعت ہمیں نصیب ہو۔ جیسے دنیا میں ہماری بڑی قربت تھی، ہم بہت اچھے دوست تھے، اللہ کچھ ایسا کرے کہ آخرت میں بھی ہم ایسے ہی رہیں، ہماری آپس میں قربت رہے۔ ہمارا بہترین رشتہ رہے، ہماری دوستی رہے، ان شاء اللہ۔
و السّلام علیکم و رحمۃ اللّہ و برکاتہ
رائے
ارسال نظر برای این مطلب