اب ہم عوامی سطح کی طرف واپس آئیں عوامی سطح پر ان کے کچھ نظریے تھے ان کا سب سے پہلا نظریہ یہ تھا کہ لوگ ضد انقلاب نہیں ہیں اور نہ ہی انقلاب کے خلاف ہیں اس حوالے سے وہ بہت بے فکر تھے وہ بڑے پختہ دلائل کے ساتھ اپنے نظریے پر قائم تھے اس دوران بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا 1397 سے پہلے اور بعد میں بھی کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان میں سے کچھ مشکلات کافی تلخ اور تیز تھیں لیکن ان کا پھر بھی ماننا تھا کہ لوگ متدین اور انقلابی ہیں اور ایسا نہیں کہ لوگ مشکلات کی وجہ سے انقلاب کو چھوڑ دیں۔
جنرل سلیمانی کا ماننا تھا کہ انقلاب کے خلاف بہت کم لوگ تھے اور وہ باقی افراد کو انقلاب کے دائرے میں شمار کرتے تھے آپ نے شاید جنرل کا وہ مشہور جملہ سنا ہوگا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ بے پردہ لڑکیاں ہماری اپنی لڑکیاں ہیں ہمیں ان کے ساتھ گرمجوشی کے ساتھ پیش آنا چاہیے اور یہ انقلاب کی مخالف اور بد کردار لڑکیوں سے الگ ہیں ہمارے ساتھ میٹینگ میں بھی جب وہ بات کرنا چاہتے تھے تو انہوں ایک اور کلمے کا اضافہ کیا اور فرمایا کہ ان کا ظاہری انحراف بھی ہماری ہی غلطی ہے ہم نے صحیح کام نہیں کیا ہم لوگوں کے درمیان نہیں ہیں ہماری زندگی عام لوگوں کی طرح نہیں ہے تو اسی طرح ہوگا اپنی میٹینگوں میں ہم پر بھی اس طرح تنقید کرتے تھے لیکن ان کا پہلا نکتہ یہ تھا کہ لوگ ہم کو عام آدمیوں کی طرح دیکھتے ہیں نہ کہ ایک حزب اللہ اور مذہبی عناصر کی طرح دیکھتے ہیں وہ اسی نگاہ سے ہمیں دیکھتے تھے اور اسی نگاہ سے لوگوں کو بھی دیکھتے تھے وہ لوگوں کو بہت مانتے تھے اور ان کا ماننا تھا کہ لوگ بہت اچھے ہیں اور انھیں اس بات پر کبھی شرمندگی نہیں ہوتی تھی کہ ہم ان کے کمرے میں جائیں اور وہاں پر ہم سے پہلے ایک جینس پینے ہوئے جوان جنرل سے ملنے آیا ہوا تھا اور وہ اپنے دفتر میں بیٹھ کر اس سے باتیں کر رہے تھے وہ ایسے افراد سے ملتے تھے ان کو اپنے گلے سے لگاتے تھے ان سے باتیں کرتے تھے لوگوں کے ساتھ ان کا برتاو ایسا تھا۔
پس سب سے پہلے ان کا یہ ماننا تھا کہ لوگ اچھے ہیں اور انہیں کوئی مشکل نہیں اور وہ انقلاب کو اور اس نظام کو قبول کرتے ہیں وہ ہر قبیلے کے افراد کو مانتے تھے وہ سیاسی میدان میں بھی ان گروہ بندی اور کسی ایک پارٹی کے طرفدار نہیں تھے البتہ کچھ لوگوں نے اس میدا میں بھی غلط فائدہ اٹھایا تھا۔
جنرل سلیمانی کا ماننا تھا کہ انقلاب کے خلاف بہت کم لوگ تھے اور وہ باقی افراد کو انقلاب کے دائرے میں شمار کرتے تھے آپ نے شاید جنرل کا وہ مشہور جملہ سنا ہوگا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ بے پردہ لڑکیاں ہماری اپنی لڑکیاں ہیں ہمیں ان کے ساتھ گرمجوشی کے ساتھ پیش آنا چاہیے اور یہ انقلاب کی مخالف اور بد کردار لڑکیوں سے الگ ہیں ہمارے ساتھ میٹینگ میں بھی جب وہ بات کرنا چاہتے تھے تو انہوں ایک اور کلمے کا اضافہ کیا اور فرمایا کہ ان کا ظاہری انحراف بھی ہماری ہی غلطی ہے ہم نے صحیح کام نہیں کیا ہم لوگوں کے درمیان نہیں ہیں ہماری زندگی عام لوگوں کی طرح نہیں ہے تو اسی طرح ہوگا اپنی میٹینگوں میں ہم پر بھی اس طرح تنقید کرتے تھے لیکن ان کا پہلا نکتہ یہ تھا کہ لوگ ہم کو عام آدمیوں کی طرح دیکھتے ہیں نہ کہ ایک حزب اللہ اور مذہبی عناصر کی طرح دیکھتے ہیں وہ اسی نگاہ سے ہمیں دیکھتے تھے اور اسی نگاہ سے لوگوں کو بھی دیکھتے تھے وہ لوگوں کو بہت مانتے تھے اور ان کا ماننا تھا کہ لوگ بہت اچھے ہیں اور انھیں اس بات پر کبھی شرمندگی نہیں ہوتی تھی کہ ہم ان کے کمرے میں جائیں اور وہاں پر ہم سے پہلے ایک جینس پینے ہوئے جوان جنرل سے ملنے آیا ہوا تھا اور وہ اپنے دفتر میں بیٹھ کر اس سے باتیں کر رہے تھے وہ ایسے افراد سے ملتے تھے ان کو اپنے گلے سے لگاتے تھے ان سے باتیں کرتے تھے لوگوں کے ساتھ ان کا برتاو ایسا تھا۔
پس سب سے پہلے ان کا یہ ماننا تھا کہ لوگ اچھے ہیں اور انہیں کوئی مشکل نہیں اور وہ انقلاب کو اور اس نظام کو قبول کرتے ہیں وہ ہر قبیلے کے افراد کو مانتے تھے وہ سیاسی میدان میں بھی ان گروہ بندی اور کسی ایک پارٹی کے طرفدار نہیں تھے البتہ کچھ لوگوں نے اس میدا میں بھی غلط فائدہ اٹھایا تھا۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب