مواد

شہید سلیمانی کے ساتھ حرم حضرت امیر المومنین علیہ السلام میں ایک شب قدر


Jan 02 2021
شہید سلیمانی کے ساتھ حرم حضرت امیر المومنین علیہ السلام میں ایک شب قدر
شہید قاسم سلیمانی کے میدان جنگ کے ساتھی محمود خالقی رسا نیوزایجنسی کو حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے حرم میں شب قدر گزارنے  کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں؛
رمضان المبارک 1440 کی اٹھارہ تاریخ کوہم اپنے گھر والوں کے ساتھ دس دن ٹھہرنے کی نیت سے نجف اشرف گئے۔  دیر سے پہنچنے کی وجہ سے پہلے دن کا روزہ قضا ہوگیا۔ رہائش ڈھونڈنے کے لئے نجف اشرف کی گلیوں اور کوچوں کے چکر لگائے۔ دماغ پگھلانے والی گرمی نے ہمارا برا حال کردیا تھا۔ نجف سے تعلق رکھنے والے ایک عالم دین نے ہماری حالت دیکھی تو مدد کو آئے۔ مسافر ہونے کی وجہ سے انہوں نے ہمیں ایک ثقافتی مرکز لے جاکر ٹھنڈا پانی پلایا اور ادارے کے کسی اہلکار کے ذریعے ہمیں اپنی رہائشگاہ تک پہنچایا۔ قم سے نجف کا سفر 24 گھنٹے میں طے ہونے کی وجہ سے ہم تھک گئے تھے۔ کچھ دیر استراحت کے بعد غسل کرکے حرم میں زیارت کے لئے جانے کا ارادہ کرلیا۔ مغرب کے لئے دو گھنٹے تھے۔ حرم کے کسی کونے میں نماز پڑھ رہا تھا اسی دوران حاج قاسم کو نزدیک سے گزرتے دیکھا۔ ایک ہفتہ پہلے تہران میں شہید تہامی کے گھر پر ہماری ملاقات ہوئی تھی۔ ملاقات کے دوران میں نے کہا کہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ نجف اشرف میں گزارنا چاہتا ہوں۔ حاج قاسم نے بھی جواب دیا کہ مجھے بھی انیسویں رات کو حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے روضے میں شب بیداری کا شوق ہے۔
حاج قاسم اذن دخول کا ذکر پڑھنے کے لئے ٹھہرگئے۔ میں آگے بڑھا تاکہ سلام کرکے خیریت پوچھ لوں۔ حسین پور جعفری اور چند احباب بھی ان کے ہمراہ تھے۔ حاج قاسم نے کہا کہ زیارت پڑھ کر آپ سے ملتا ہوں۔میں زیارت اور دعا میں مشغول ہوا حسین نے بھی میرے ساتھ کھڑے ہوکر زیارت اور نماز ادا کی۔ حاج قاسم کو زیارت پڑھنے میں ایک گھنٹہ لگا۔ اس کے بعد میرے پاس آکر کہا کہ مغرب کے بعد رابطہ کرکے ملتے ہیں۔ قریب میں کھڑے زائرین نے حاج قاسم کو پہچانا اور حسرت کی نگاہ سے ہماری ملاقات کا منظر دیکھنے لگے۔ بعض زائرین اپنی نیابت میں حاج قاسم کے بوسے لینے کی درخواست کرنے لگے۔ حاج قاسم سے ملاقات کی وجہ سے مجھے انتہائی مسرت ہوئی۔  یہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا مجھ پر خصوصی کرم تھا کہ زیارت کے دوران حاج قاسم سے بھی ملاقات ہوئی۔ مغرب کے بعد رابطہ کیا تو کہا کہ رات دس بجے باب القبلہ کے مقام پر ملاقات ہوگی۔ مقررہ وقت سے پہلے حاج قاسم چند دوستوں کے ساتھ آئے۔ حرم مطہر کے صحن میں ایک واقع ایک کمرے میں داخل ہوئے گویا پہلے سے بات ہوچکی تھی۔ حاج قاسم حرم کی چھت پر شب بیداری کرنا چاہتے تھے۔ انتظامیہ نے کہا کہ تعمیراتی کام جاری ہے اس لئے چھت پر ٹھہرنے کا انتظام نہیں ہوسکتا۔ حاج قاسم نے بھی اصرار کئے بغیر قبول کرلیا۔ حسین نے کمرے میں موجود افراد میں سے کسی ایک کا تعارف کرایا۔ ابومہدی المہندس کا نام سنا تھا لیکن نزدیک سے دیکھنے کا موقع نہیں ملا تھا۔  ابومہدی انتہائی ملنسار اور نورانی چہرے کے مالک تھے۔ پہلی نگاہ میں ہی ان سے  عقیدت ہوگئی ۔
کمرے میں موجود تمام احباب ذکر اور تلاوت میں مشغول ہوگئے۔ حاج قاسم بھی اپنی مخصوص عینک کے ساتھ تلاوت میں مصروف ہوئے۔ عبادت کا سلسلہ ایک گھنٹے تک جاری رہا۔ حاج قاسم نے کہا کہ تین دنوں تک نماز قضا پڑھنا چاہتا ہوں؛ آپ نماز جماعت پڑھائیں۔  معزز افراد کی موجودگی امامت کے لئے آگے بڑھنا میرے لئے بہت دشوار تھا لیکن قبول کرنا پڑاکیونکہ فقط میرے سر پر عمامہ تھا۔ بہرحال نماز ظہر کو اطمینان اور سکون سے پڑھ لیا۔ نماز کے بعد حاج قاسم نے آگے بڑھ کر آہستہ اور پروقار لہجے میں کہا کہ نماز اور اعمال زیادہ ہیں لہذا نماز کی سرعت کا تھوڑا بڑھائیں۔ اسی دوران یاد آیا کہ شہید تہامی کے گھر دوستوں کے ساتھ نماز پڑھتے وقت بھی انہوں نے اسی طرح دوستانہ لہجے میں یہی درخواست کی تھی اور کہا تھا کہ حاج محمود! مہمانوں نے افطار نہیں کیا ہے؛ نماز کو طول دینے کے بجائے ذرا جلدی پڑھائیں۔ شب قدر کے موقع پر کمرے میں موجود افراد کی اکثریت  مجھے نہیں جانتی تھی اسی لئے حاج قاسم زیادہ احترام کے ساتھ پیش آرہے تھے۔ اس طرح کے واقعات ان کی زندگی میں بہت زیادہ پیش آئے۔ بہرحال تین دن کی نماز قضا پڑھی گئی۔ نماز کے بعد حاج قاسم نے بلند آواز میں دعائے جوشن کبیر پڑھنا شروع کیا۔ کافی عرصے بعد ان کو بلند آواز میں گریہ کرتے دیکھا۔  اس سے پہلے گلزار شہدائے کرمان میں مخصوصا شہید یوسف الہی کی قبر پر اور جمعہ کے دن نماز عصر کے بعد حاج قاسم کے گھر پر مجلس ہوتی تھی جہاں گریہ و زاری کرتے دیکھا تھا۔ دعائے جوشن کبیر کا آدھا حصہ ابومہدی کو پڑھنے کے لئے دیا جن کی آواز نہایت حزین اور دلنشین تھی۔دعا ختم ہونے کے بعد میں چند اخلاقی نکات بیان کئے اور قرآنی آیت وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حقیر نے کہا کہ خدا کی رحمت چاہتے ہو تو ان لوگوں کو بخش دیں جن کا ہماری گردنوں پر کوئی حق ہے۔ اس کے بعد قرآنی اعمال شروع ہوگئے۔ بغیر کسی تمہید و مقدمے کے مخصوص دعا پڑھنا شروع کیا اور ائمہ معصومین علیہم السلام کو شفیع قرار دیتے ہوئے ۔۔۔
 
 


نظری برای این مطلب ثبت نشده است.

رائے

ارسال نظر برای این مطلب