شہید سلیمانی کے بارے میں جنرل نجات کی ناگفتہ باتیں
کون سے شہید نے حاج قاسم کی مشکل حل کی؟
جنرل محمد حسین نجات جو انقلاب کی کامیابی سے پہلے منصورون گروپ میں سرگرم عمل تھے، انقلاب کے بعد کچھ دوسرے دوستوں کے ساتھ مل کر انہوں نے” سازمان مجاہدین انقلاب اسلامی” نامی تنظیم قائم کی۔ کردستان خطے میں انقلاب مخالف ناامنی ایجاد ہونے کے بعد وہ شہید محمد بروجردی کے ساتھ اس خطے میں گئے اور متعدد دیگر افراد کے ساتھ مل کر” بہادر کرد مسلم تنظیم” قائم کی۔ ۱۳۶۰ ھ،ش میں حضرت امام خمینی(ره) کے سیاسی جماعتوں اور گروہوں میں فوج موجود نہ ہونے پر مبنی حکم کے بعد وہ سازمان مجاہدین انقلاب اسلامی نامی تنظیم سے الگ ہو گئے اور سپاہ پاسداران میں شامل ہوگئے۔ انہوں نے ۱۳۷۸ ھ،ش میں ماہ تیر کے واقعات کے بعد ثاراللہ بریگیڈ کی کمان سنبھالی اور اس کے بعد انہوں نے ۱۳۸۹ھ،ش تک سپاہ ولی امرکی کمان سنبھالی۔ جنرل نجات نے سپاہ ولی امر کی کمانڈ کرنے کے بعد کچھ عرصہ کے لئے سپاہ کی انٹیلی جنس سروس کے جانشین کی حیثیت سے کام کیا۔ جنرل محمد حسین نجات اس وقت سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے ثقافتی اور سماجی نائب کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ شہید جنرل سلیمانی کی شخصیت اور ان کی جدوجہد کے بارے میں ہم نے جنرل محمد حسین نجات کے ساتھ گفتگو کی کہ مندرجہ ذیل متن میں اسے آپ پڑھ سکتے ہیں
شہید حاج قاسم سلیمانی نصرت الہی پر یقین رکھتے تھے۔
نوید شاہد: ہمارے ملک کی مشرقی سرحدوں میں منشیات کے خلاف جنگ میں حج قاسم سلیمانی کا کیا کردار تھا؟
جنرل حاج قاسم سلیمانی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک ہیرو اور کمانڈر تھے۔ جب وہ سیستان اور بلوچستان کی سپاہ قرارگاہ قدس کے کمانڈر تھے تو وہ ایام ہمارے ملک کی مشرقی سرحدوں پر منشیات فروشی کے قافلوں کی وسیع سرگرمی اور ان کے عروج اور دہشت گردی کی کاروائیوں کے ایام تھے، قومی سلامتی کونسل اس نتیجہ پر پہنچی کہ ان اقدامات سے نمٹنے کی ذمہ داری سپاہ کو سونپی جائے۔ سپاہ نے بھی اس علاقے کی قرارگاہ قدس کو جنرل سلیمانی کے حوالے کیا۔ جنرل سلیمانی قلیل مدت میں تمام مسلح قافلوں کا صفایا کرنے اورانہیں نابود کرنے میں کامیاب ہوئے جنہوں نے ہمارے ملک کی مشرقی سرحدوں پرناامنی ایجاد کی تھی۔ انہوں نے جنگ تحمیلی میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اس شعبے میں بھی کامیابی حاصل کی۔
امریکیوں نے داعش کو کیوں اور کیسے بنایا؟
امریکی ایک ایسی سیاست کے پیچھے تھے تا کہ مشرق وسطیٰ میں ناامنی اور عدم استحکام پیدا کر کے خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا سکیں۔ انہوں نے قابض صیہونی حکومت اور سعودی عرب کی مکمل حمایت کے ساتھ داعش کے نام سے ایک گروپ تشکیل دیا۔ ایسا کر کے انہوں نے ایسی جنگ شروع کرنے کی کوشش کی تا کہ وہ شیعوں اور سنیوں کو آپس میں لڑائیں یا بہتر ہے کہ ہم کہیں مسلمانوں کو مسلمانوں کے خلاف۔ وہ ایسی سیاست کے پیچھے تھے تا کہ قابض صیہونی حکومت اور مجرم امریکہ کے خلاف کھڑے ہونے اور لڑنے کے بجائے مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑائیں۔ انہوں نے خانہ جنگی شروع کرا دی اور ان کا ایک مقصد دنیا کو اسلام کا بدصورت اور متشدد چہرہ دکھانا تھا۔ ایسی پالیسی کو نافذ کرنے کے لئے انہوں نے غیرمنطقی دہشت گرد تنظیم داعش کو ایجاد کیا۔ ہر وہ تحریک جو خطے میں آزادی چاہتی تھی، کوئی بھی تحریک جو قابض صیہونی حکومت کے خلاف تھی اسے انہوں نے اس طریقہ سے خانہ جنگی میں مصروف کر دیا۔ اقتدار کے آغاز میں ہی موجودہ امریکی صدر نے تمام دنیا سے کہا کہ داعش کو اوباما حکومت اور امریکہ نے بنایا تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کے خالص جذبات کو استعمال کرتے ہوئے تکفیری تحریک تشکیل دی اور اس تکفیری تحریک نے شام میں بہت ساری ہلاکتیں انجام دیں اور پھر اس نے اس جرم کو عراق میں پھیلایا اور جاری رکھا۔
داعش کی تباہی میں جنرل سلیمانی کا کیا کردار تھا اور مختصر اور طویل مدتی میں امریکہ کے ذریعہ جنرل سلیمانی کے قتل کا مقصد کیا تھا اور کیا وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہے؟
قدس فورس کے کمانڈر کی حیثیت سے جنرل سلیمانی اس تکفیری گروہ کے خلاف جنگ میں ایک ہیرو تھے۔ جنرل سلیمانی ایک مشاورتی اور منصوبہ بند گروہ کے ذریعہ داعش اور جبہۃ النصر کو نابود کرنے میں کامیاب ہوئے کہ جنہوں نے شام کے کچھ علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔ اگر داعش اور جبہۃ النصر شام میں ناکام نہ ہوتیں تو ان کا اگلا مقصد ایران تھا۔ داعش نے قابض صیہونی حکومت، سعودی عرب اور امریکہ کی حمایت سے عراق کے کچھ حصوں پر قبضہ کر لیا اور کربلا کے قریب تک پیشقدمی کر لی۔ اس پیش قدمی کے نتیجہ میں آیت اللہ سیستانی نے جہاد کا اعلان کیا اور سپاہ کی قدس فورس کی مدد سے حشدالشعبی تشکیل دی گئی اور اسے ترقی ملی۔ اس راستہ میں عراقی عوام نے ہوشیاری سے کام لیا اور وہ منظم ہو گئے اور حاج قاسم اپنی امداد کے ذریعہ داعشی تکفیریوں کو عراقی فوجیوں اور حشد الشعبی تنظیم کے نتیجہ میں نابود کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ حاج قاسم کا خطاب جس میں انہوں نے کہا کہ چند مہینوں میں آپ کو داعش کا کوئی اثر نہیں ملے گا یہ خطے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے شکست کا اعلان تھا۔ حاج قاسم ایک ایسی تحریک کو نابود کرنے میں کامیاب ہوئے جسے امریکیوں نے صیہونی حکومت کے ساتھ مل کر اور سعودی عرب کی مالی امداد سے آغاز کیا تھا۔ تا کہ اس طریقے سے وہ مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگی ایجاد کر سکیں۔ امریکی، حاج قاسم کو شہید کرنے پر مجبور ہوگئے کیونکہ وہ بہت بڑے ہیرو تھے جو اس سازش کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوئے۔ داعش نے بالکل ان ہی نقاط کو نشانہ بنایا تھا جو انقلاب کی کامیابی کے بعد کئی سال امریکہ اور قابض صیہونی حکومت کے خلاف مزاحمت کا محور رہے یعنی شام اور عراق۔ ان کا اگلا مقصد ایران تھا جو خطے میں استکبار کے خلاف مزاحمت کا محور ہے۔ان کی تمام پالیسیوں کو جنرل سلیمانی نے شکست سے دوچار کیا۔ جیسا کہ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ حاج قاسم مزاحمت کے سید الشہداء تھے۔ وہ مزاحمت کے قائد اور علمبردار تھے۔ امریکیوں نے سردار سلیمانی کو بزدلانہ طریقے سے قتل کرکے خطے میں اپنی شکستوں کو دور کرنے کی کوشش کی لیکن نہ صرف وہ کامیاب نہیں ہوسکے بلکہ انہیں ایک اور شکست بھی ملی اور وہ عراق سے امریکی فوجوں کے انخلاء کا اعلان ہے اور لبنان، عراق، شام، یمن، فلسطین اور افغانستان میں کوئی جگہ بھی امریکی افواج اور پنٹاگون کے لئے محفوظ نہیں ہے۔
خطے میں حاج قاسم سلیمانی مزاحمتی محور کو مضبوط بنانے میں کیسے کامیاب ہوئے؟
مزاحمتی محور حاج قاسم کے قدس فورس میں جانے سے پہلے اور بعد بالکل مختلف تھا۔ اگر ہم دیکھتے ہیں کہ حزب اللہ اپنے ملک کے دفاع میں اتنی مضبوط ہو چکی ہے کہ صیہونی حکومت لبنان کے علاقے میں کسی حصہ پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کرتی تو یہ حزب اللہ کے لئے حاج قاسم کی مدد کا نتیجہ ہے جس نے حزب اللہ کو اتنا طاقتور بنا دیا ہے۔ اگر ہم دیکھتے ہیں کہ یمن کے حوثی سعودی عرب کے خلاف کھڑے ہو کر اپنے ملک کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں تو یہ حوثی بہادروں کو حاج قاسم کی امداد پہنچانے کا نتیجہ ہے۔ سعودی عرب نے حملہ کی ابتدا میں یہ اعلان کیا تھا کہ وہ چھ مہینے کے اندر یمن پر قبضہ کر لے گا لیکن ۴ سال گزرنے کے بعد بھی اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ رہا ہے۔ یمن میں سعودی عرب نے بے گناہ بچوں اور خواتین کا بہت بڑا قتل عام کیا ہے لیکن بین الاقوامی برادری نے اب تک خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ حوثی جنگجو اور آزادی کے حامی افراد ہیں اور جیسے ہی ہم اپنے تجربات کو ان کے ساتھ بانٹنے میں کامیاب ہوئے تو وہ دشمن کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوگئے۔ یہ چیز شام میں بھی رونما ہوئی یعنی امریکی چھ ماہ کے اندر بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے سعودی عرب کی مدد کو پہنچے۔ انہوں نے شام کی سرزمین پر بھی قبضہ کر لیا لیکن چونکہ بشار الاسد ایک استعمار مخالف انسان ہیں اور شامی فوج اور لوگ حاج قاسم کی مدد سے داعش کا صفایا کرنے میں کامیاب ہو گئے اور بشار الاسد ابھی بھی پائدار ہیں اور داعش نابود ہو گئی ہے۔ امریکیوں نے پھر ایک اور طریقہ استعمال کیا انہوں نے پہلے عراق پر قبضہ کیا اور پھر جمہوریت کے نام پر عراق میں کٹھ پتلی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی جسے قدس فورس نے عراقی عوام اور عراقی عوام کو اپنے تجربات پیش کرتے ہوئے اس سازش کو بھی ناکام بنا دیا۔ امریکیوں نے خود اعتراف کیا کہ انہوں نے اربوں ڈالر خرچ کئے لیکن عراق کی موجودہ حکومت ایران کی طرف مائل ہے۔
امریکیوں نے اعلان کیا کہ شہید حاج قاسم سلیمانی کے بیہمانہ قتل کی ایک وجہ کچھ لوگوں کی جانب سے عراق میں امریکی سفارت خانے پر حملہ تھا لیکن اس واقعہ کی حقیقت کیا ہے؟
جب امریکیوں نے دیکھا کہ ان کے سارے منصوبے اور سازشیں ناکام ہو چکی ہیں تو انہوں نے کچھ لوگوں کو غیر سرکاری گروہوں کی شکل میں منظم کرنے اور انہیں پیسہ دے کر عراقی حکومت کی خلاف احتجاج کرنے کے لئے تیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ امریکیوں نے پیسہ دے کر کچھ فسادیوں کو منظم کیا تا کہ اس موج پرسوار ہو کر عراقی حکومت کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا جائے اور اپنی کٹھ پتلی حکومت کو اقتدار میں لایا جائے۔ ابتدا میں تو امریکی اس موج پر سوار ہونے میں کامیاب ہو گئے اور انہوں نے پرتشدد مظاہروں کے ذریعہ عراقی حکومت اور پارلیمنٹ کے خاتمہ کی کوشش کی لیکن اسے جاری رکھنے میں ناکام ہو گئے۔ البتہ امریکیوں کی طرف سے شروع کی جانے والی یہ سازش حکومت اور پارلیمنٹ کو درہم برہم کرنے اور عراق میں بغاوت کا سبب بننے والی تھی لیکن عراقی عوام نے ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ جب عراقی عوام کو اس امریکی گندی سازش کا پتہ چلا تو انہوں نے امریکی سفارت خانے کی طرف مارچ کیا اور انہوں نے امریکی سفارت خانے پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ لوگوں نے وہاں امریکہ مردہ باد کے نعرے لگائے اور انہوں نے احتجاج کرتے ہوئے ان سے اپنی نفرت کا اعلان کیا۔ جب عراق داعش کی سازش کا شکار تھا تو ایران نے عراقی عوام اور حکومت کا ساتھ دیا اور کسی توقع کے بغیر تباہ شدہ علاقوں کی تعمیر نو اور امداد کا کام شروع کر دیا۔ ایران نے عراق کے تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو میں مدد کی۔ اس کے برعکس امریکی جو ہزاروں کلو میٹر دور سے اس ملک میں آئے اور اس ملک پر قضہ کیا انہوں نے نہ صرف اس ملک کی کوئی مدد کی بلکہ مختلف بہانوں سے اپنے طے شدہ اخراجات کے لئے عراقی عوام سے سالانہ ۱۵ لاکھ بیرل عراقی تیل لوٹتے رہے اور عراقی عوام اس سے بخوبی واقف ہیں یہ امریکی استعمار کی عادت ہے۔ لیکن ان دنوں عراقی عوام بیدار ہو چکے ہیں اور عراقی عوام کے نعروں کا رخ بھی تبدیل ہو گیا ہے اور انہوں نے عراق میں امریکی سفارت خانے کو آگ لگا دی جو وہاں ناامنی کی بنیادی وجہ تھی۔ جب امریکیوں نے دیکھا کہ شام اور عراق میں ان کے سارے منصوبے ناکام ہوچکے ہیں تو انہوں نے خطے میں اپنی شکست کی بنیادی وجہ قدس فورس اور حاج قاسم سلیمانی قرار دئے لہذا ٹرمپ کے پاس حاج قاسم کے قتل کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ یہ شیطانی حرکت عراق میں ان کی موجودگی کو ختم کرنے کا سبب بنے گی۔
آپ کے خیال میں لوگوں کے درمیان جنرل سلیمانی کی مقبولیت کی وجہ کیا ہے؟
حاج قاسم کی کچھ نمایاں خصوصیات پائی جاتی تھیں۔ ان کی پہلی خصوصیت یہ تھی کہ وہ ایران کی عزت کا سبب تھے یعنی جنرل سلیمانی امریکہ کے خلاف ایک ہیرو تھے۔ خطے میں اپنے اقدامات کے ذریعہ امریکہ نے مظلوم لوگوں پر تسلط جمانے کی کوشش کی لیکن جو شخص امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کے خلاف کھڑا ہوا وہ حاج قاسم سلیمانی تھے، لوگ امریکہ، صیہونی حکومت اور سعودی عرب سے نفرت کرتے ہیں۔ اگر رائے شماری کی جائے تو ۹۰ فیصد سے زیادہ لوگ ان ممالک سے نفرت کرتے ہیں۔ عوام ان ممالک کو خطے میں ناامنی کی وجہ سمجھتے ہیں، وہ ممالک جو خطے میں بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے کا سبب ہیں۔ خطے کے لوگوں کی بدبختی صرف امریکہ کی وجہ سے ہے۔ کسی بھی خطے میں جہاں دہشت گردی موجود ہے اسے امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔ خطے کے کسی بھی حصہ میں جہاں جنگ ہے وہ امریکہ کی وجہ سے ہے۔ اگر ہمارے ملک میں اختلاف نظر آتا ہے تو اس کا سبب بھی امریکہ ہے۔ ۲۸ مرداد کی بغاوت سے لے کر اب تک امریکہ ہمارا دشمن رہا ہے اور ایران سے ان کی دشمنی ثابت ہو چکی ہے۔ ایران میں ان عوامل کا مقابلہ کرنے والے ہیرو حاج قاسم ہیں۔ ایران کے علاوہ خطے کے کون سے افراد ان ممالک کے خلاف لڑ رہے ہیں؟ لبنانی حزب اللہ۔ حزب اللہ کی حمایت کون کرتا ہے؟ قدس فورس اور خاص طور پر حاج قاسم سلیمانی اور یمن میں بھی ایسا ہی ہے۔ حکومتوں اور آزادی کے حصول کے لئے لوگوں اورعوام سے استعمار کے خلاف جنگ کے سلسلہ میں حاج قاسم سلیمانی کی امداد نے انہیں لوگوں میں مقبول کر دیا کیونکہ لوگوں نے شام، عراق اور یمن میں معصوم بچوں کے قتل کو دیکھا تھا اور یہی کافی تھا کہ لوگ ایسے شخص سے محبت کرتے جس نے ان معصوم بچوں کا داعش اور امریکہ سے انتقام لیا۔
آپ کی نظر میں جنرل سلیمانی اور ان کے ساتھی شہداء کی نماز جنازہ میں لاکھوں افراد کی شرکت کی وجہ کیا تھی؟
ہمیں حاج قاسم کے جنازہ کی تقریب میں اتنی تعداد میں لوگوں کی توقع نہیں تھی۔ کسی کوبھی اتنی تعداد میں شرکت کی توقع نہیں تھی یہاں تک ان لوگوں کو بھی جو حاج قاسم کو قریب سے جانتے تھے اور ان سے لگاؤ رکھتے تھے۔ لوگوں کی شرکت اور استقبال توقع سے بالاتر تھا اور نہ صرف تہران اور کرمان میں بلکہ پورے ملک میں ایسا تھا۔ لوگوں کو یقین تھا کہ گزشتہ ۲۰ سالوں میں حاج قاسم تمام میدانوں میں حاضر رہے ہیں۔ ہمارے لوگوں کو قومی اور مذہبی فخر ہے اور انہوں نے ایسا محسوس کیا کہ ان کی مذہبی عزت شہید ہو گئی ہے جس کے مدافع حاج قاسم تھے۔ لوگوں کا اعتقاد تھا کہ حاج قاسم ایران کی عزت ہیں۔ حاج قاسم سیاسی مباحث میں داخل نہیں ہوئے اور وہ رہبرمعظم کے پیروکار تھے۔ حضرت امام خمینیؒ کی زندگی میں بھی حاج قاسم ایسے ہی تھے۔ وہ ثاراللہ بریگیڈ میں امام خمینیؒ کے حکم کے تابعدار تھے۔ جنرل سلیمانی مکمل طور پر رہبرمعظم کے فرمان کے تابع تھے۔ وہ سیاسی مباحث میں حصہ نہیں لیتے تھے اور رہبر کے راستہ کی پیروی کرتے تھے۔ اور وہ رہبر کے راستہ پر گامزن تھے۔ لوگ احساس کرتے تھے کہ ایک ایسی شخصیت پائی جاتی ہے کہ جو رہبر کے موقف پر عمل پیرا ہے اور لوگوں کے لئے اپنے ہیرو کا استقبال کرنے کے لئے یہی کافی تھا۔
کیا مستقبل میں خطے میں ہونے والی تبدیلیوں میں تبدیلی آئے گی؟
مستقبل میں خطے میں ہونے والی تبدیلیاں اسلامی جمہوریہ ایران کے مفاد میں ہوں گی۔ خطے میں پیش آنے والے واقعات میں حاج قاسم کی شہادت ایک اہم واقعہ تھا۔ مزاحمتی محور آئندہ واضح اور مضبوط تر ہوگا۔ ان کی شہادت امریکیوں کی بڑی غلطی خطے کے عوام کے سامنے چند نکتے واضح کرے گی۔ پہلی بات یہ ہے کہ لوگ خود سے پوچھتے ہیں کہ امریکی جھوٹ بول رہے ہیں کہ قاسم سلیمانی ایک دہشت گرد تھے اور ہم نے انہیں قتل کر دیا ہے! لیکن خطے کے لوگ جانتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا محور حاج قاسم ہیں کیونکہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ اس خطے میں امریکیوں، صہیونی حکومت اور سعودی عرب نے کیا جرائم انجام دئے ہیں۔ خطے کے ممالک کے عوام یہ اعلان کرتے ہیں کہ حاج قاسم ہمارے مددگار تھے کیونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف کون تھا اور ان کی آزادی کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنے والا کون ہے۔ مستقبل میں امریکی سے دشمنی مزید بڑھ جائے گی یعنی مستقبل میں امریکی غلطیوں کے لئے کوئی محفوظ جگہ نہیں ہوگی۔ کوئی بھی گروہ یا فرد جس کے ہاتھ میں اسلحہ آ جائے اسے علاقے میں موجود امریکیوں کو نشانہ بنانا چاہئے۔ امریکہ اب خطے کے ممالک اورحکومتوں پر اپنی پالیسیاں مسلط نہیں کر سکتا کیونکہ جو حکومت بھی امریکہ کی حامی ہے وہ عوام کو حکومت سے بیزار کر دے گی۔
سپاہ کی جانب سے امریکی اڈوں پر میزائل حملے کے کیا نتائج برآمد ہوں گے؟
عین الاسد اڈے کو نشانہ بنانے میں عراق اور خطے میں امریکی دہشت مکمل طور پر ختم ہو گئی ہے۔ ایرانی عوام اور خطے کے عوام نے سپاہ اوراسلامی جمہوریہ ایران سے انتقام کا مطالبہ کیا تھا اور سپاہ نے اعلان کیا کہ ہم خدا کے بھروسہ پرانتقام لیں گے کیونکہ ہم نصرت الہی پر یقین رکھتے تھے لہذا ہم نے فیصلہ کیا اور ہم نے ۴ دن کے اندر ہی اس فیصلہ پر عمل در آمد کیا۔ اور ہم نے امریکہ کے سب سے اہم مرکز پر حملہ کیا۔ امریکہ ایک کھوکھلی طاقت ہے اور حاج قاسم اس کی کھوکھلی طاقت پر یقین رکھتے تھے۔ وہ افراد جو اپنے دفتروں کو چھوڑ کر میدان میں گئے وہ متوجہ ہوگئے کہ امریکہ ایک کھوکھلی طاقت ہے اور وہ جو اپنے دفتروں میں بیٹھے ہوئے ہیں شائد وہ امریکی طاقت سے خوفزدہ تھے۔ اس میزائل حملے نے خطے میں امریکہ کے ساتھ محاذ آرائی کا رخ تبدیل کر دیا۔ پوری دنیا کو یہ احساس ہو گیا کہ امریکہ خالی ڈھول کی طرح ہے اور جواب دینے کی اس میں ہمت نہیں ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ مار کر دم دبا کربھاگنے کا زمانہ ختم ہو گیا ہے۔ حاج قاسم کی شہادت خطے میں ایک نیا باب کھولے گی اور امریکہ کے لئے خطہ ناامن ہو جائے گا۔ خطے میں امریکی دہشت ختم ہو جائے گی اورمزاحمتی محور ترقی کرے گا۔
جنرل سلیمانی سے آپ کی واقفیت کیسے ہوئی؟
میں ۱۳۶۰ ھ،ش سے انہیں جانتا تھا لیکن ہمارا قریبی تعاون اس وقت ہوا جب میں جنوبی محاذ پر موجود تھا۔ ۱۳۶۲ھ،ش کے آخر میں ہم حاج قاسم سے بہت مانوس ہو گئے۔ وہ ایک طاقتور کمانڈر تھے اور ثاراللہ بریگیڈ میں انہوں نے قیمتی خدمات انجام دیں۔ میں اس وقت خاتم الانبیاء کیمپ میں معلومات کے تحفظ کا انچارج تھا اور ہمارے جنرل سلیمانی کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔
آپ جنرل سلیمانی کے ساتھ کن کاروائیوں میں تھے اور کن میں انہیں اچھی کامیابی حاصل ہوئی؟
بدر، فاو، کربلائے۴ اور کربلائے۵ نامی کاروائیوں میں جنرل سلیمانی کے ساتھ تھا۔
ثاراللہ ۴۱ بریگیڈ ایک ناقابل شکست لشکر تھا جس نے اکثر کاروائیوں میں شاندار اور درخشاں شرکت کی۔ ثاراللہ ۴۱ بریگیڈ میں حاج قاسم کی کمانڈ نے جنجگوؤں کے جذبے پر مثبت اثر ڈالا اور ان کی شجاعت اور تدبیر اس چیز کا سبب بنی کہ ثاراللہ ۴۱ بریگیڈ نا قابل شکست فوج میں شمار ہو گیا۔ مجھے یاد ہے کہ حاج قاسم والفجر۸ نامی کاروائی میں بہت کامیاب رہے تھے اگرچہ والفجر۸ خصوصی کاروائیوں میں سے ایک تھی لیکن جنرل سلیمانی اس کاروائی میں مؤثر ثابت ہوئے تھے اور ان کاروائیوں میں جو کامیابی ملی وہ بڑی حد تک ان کی کاوشوں اور ثاراللہ۴۱ بریگیڈ کی جدوجہد کی مرہون منت ہے۔
ثاراللہ بریگیڈ میں شہید سلیمانی کی کون سی خصوصیات کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں؟
ثاراللہ بریگیڈ کی فوج ایک ناقابل شکست فوج تھی جنگ کے دوروان سخت کام ناقابل شکست فوجوں کے حوالے کیا جاتا تھا۔ اور ثاراللہ بریگیڈ بھی ان میں سے ایک کامیاب لشکر تھا کسی فوج کا ناقابل شکست ہونا اس کے کمانڈر پر منحصر ہوتا تھا۔ جنرل سلیمانی ایک شجاع اور نڈر کمانڈر تھے۔ جنرل سلیمانی کی بہادری سبب بنتی تھی کہ ثاراللہ لشکر مزید شجاع بن جائے اور کاروائیوں میں بھی کامیاب رہے۔
حاج قاسم کی ایک اور خصوصیت قابل منتظمین کی پرورش تھی۔ ثاراللہ بریگیڈ میں ان کی کمانڈ کے دوران ثارللہ لشکر میں بہت سے افراد نے ترقی کی کہ جن میں سے بہت سے افراد جنگ کے بعد پارلیمنٹ ممبر بنے، کچھ گورنر بنے اور بہت سے دوسرے ملکی عہدیدار بنے۔ وہ ایسے افراد کو میدان میں اتارتے تھے جو صلاحیت رکھتے تھے اور یہ چیز کی ان کی فوج کی ترقی کا سبب بنتی تھی۔ قدس فورس میں بہت سے لوگ موجود تھے جنہوں نے حج قاسم کے ساتھ تعاون کیا اور قدس فورس میں وہ مؤثر قوتوں میں تبدیل ہو گئے اور انہوں نے ہمارے اسلامی وطن کے لئے قابل قدر خدمات انجام دیں۔
ہمیں شہید سلیمانی کی اخلاقی خصوصیات کے بارے میں بتائیں؟
قاسم سلیمانی تدبیر اور منصوبہ بندی کے تحت کام کرتے تھے۔ اور تدبیر اور منصوبہ بندی کے تحت ہی وہ اہم کامیابیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے تھے۔ شہید سلیمانی اجلاس میں خاموش رہتے تھے لیکن اگر کاروائی پر تبادلہ خیال کیا جاتا تو وہ اپنے خیالات کا واضح اظہار کرتے ہوئے دوسرے کمانڈروں کو بھی اس منصوبے پر عملدرآمد کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔ کاروائیوں میں وہ اپنے کمانڈروں کے تابعدار تھے اور سخت میدانوں سے کبھی ڈرتے نہیں تھے۔ وہ نہایت ہی مہربان تھے اور ثاراللہ۴۱ بریگیڈ میں موجود تمام فوجیوں کے ساتھ بھائی جیسے تھے۔ کاروائیوں میں وہ مطمئن و پرسکون رہتے تھے اور ان کا اخلاق نہایت خاص اور ناقابل فراموش تھا۔
ملک اور قوم کے لئے میجرجنرل سلیمانی کی میراث کیا تھی؟
حاج قاسم انسداد دہشت گردی کا محور تھے یعنی خطہ میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے کمانڈر۔ ہمارے نزدیک حاج قاسم کی میراث مزاحمت کے محور پر اتحاد میں پوشیدہ تھی کیونکہ وہ مزاحمتی محور کے سید الشہداء اور علمبردار تھے۔ حاج قاسم کی ایک اور میراث حاج قاسم کا مکتب ہے۔
حاج قاسم کے مکتب سے آپ کی قطعی مراد کیا ہے؟
میں اس سلسلے میں کچھ موارد کی طرف اشارہ کر رہا ہوں:
ان کی پہلی اور سب سے اہم خوبی ان کا خلوص تھا، حاج قاسم خدا کی خوشنودی کے لئے اپنا کام انجام دیتے تھے اور انہیں دوسرے امور سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ وہ صرف اس چیز پر توجہ رکھتے تھے کہ خدا ان سے کیا چاہتا ہے اور خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے انہیں کیا کرنا چاہئے۔
حاج قاسم شرعی ذمہ داری کے مطابق کام کرتے تھے اگر شرعی ذمہ داری ہوتی تو وہ منصوبہ بندی کے تحت کام کرتے اور اس ذمہ داری کو انجام دینے کی کوشش کرتے تھے۔
حاج قاسم صاحب تدبیر تھے مشرق وسطیٰ میں مقیم امریکی افواج (سینٹ کام) کے سربراہ کا کہنا ہے کہ میں نے ۱۰ سال حاج قاسم کا مقابلہ کیا ہے وہ کہتے ہیں حاج قاسم بہت دماغ سے کام لیتے ہیں وہ منصوبہ بندی کے تحت کام انجام دیتے ہیں اور بہت ہی دقت کے ساتھ منصوبہ بناتے ہیں وہ بہت ہی ذہین شخص ہیں اور وہ جہاں بھی کاروائی کرتے ہیں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ امریکی دشمن حاج قاسم کی اس طرح تعریف کرتا ہے: وہ اشارہ کرتے ہیں کہ ایرانی عربوں کے برعکس مراعات دینے پر راضی نہیں ہوتے اور ایرانی اس وقت تک مراعات دینے پر راضی نہیں ہوتے جب تک وہ ہم سے مراعات نہ لیں۔ ہمارا دشمن حاج قاسم کو صاحب تدبیر سمجھتا ہے، حاج قاسم تیزی سے کام انجام دیتے تھے البتہ وہ تیزی جس میں دقت بھی پائی جاتی تھی اور وہ بہت جلد اپنے مقصد تک پہنچتے تھے۔
حاج قاسم کی منصوبہ بندی مشہور تھی، وہ خطے کے لئے دور کے افق دیکھتے تھے وہ دشمن کے منصوبوں پر نظر رکھتے تھے اور وہ طویل المدتی منصوبہ بناتے تھے۔ وہ ایسے شخص نہیں تھے جو اپنے کمرے میں بیٹھ جائیں بلکہ وہ میدان میں ہوتے تھے اور مقصد کو حاصل کرنے کے لئے منظم منصوبہ بندی کرتے تھے۔
حاج قاسم کی مینیجمنٹ میدان میں نظر آتی تھی۔ حاج قاسم کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ پہلے خود کاروائی کا جائزہ لینے جاتے تھے اور اس کے بعد وہ دوسروں کو اپنے ساتھ لے کر جاتے تھے۔ کاروائیوں میں وہ کہتے تھے کہ آؤ نہ کہ بھاگ جاؤ۔
حاج قاسم شجاع تھے، شجاعت اور خوف نہ ہونے میں فرق ہے۔ بے خوف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کسی سے مت ڈرو لیکن شجاعت یہ ہے کہ وہ خود سخت کام انجام دینے کے لئے میدان میں آ کر منصوبہ بندی کرتے تھے۔ وہ سخت میدانوں میں خوفزدہ نہیں ہوتے تھے۔ مسلط کردہ جنگ میں عراق کے پاس سامان موجود تھا لیکن اس کے بجائے ہمارے پاس منصوبہ بندی تھی۔ جنرل سلیمانی امریکہ سے نہیں ڈرتے تھے اور نصرت الہی پر یقین رکھتے تھے اور خدا پر بھروسہ کرتے تھے۔
جنرل سلیمانی کی کامیابی کا سبب کیا چیز بنتی تھی؟
حاج قاسم جانتے تھے کہ انہیں خدا پر بھروسہ کرنا چاہئے اور خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے میدان میں جاتے تھے اور کامیابی کے ساتھ واپس آتے تھے، حاج قاسم کی معرفت یقینی تھی اور خدا ان کی مدد کرتا تھا۔ رک جانا اور شکست سے دوچار ہونا حاج قاسم کے جذبے میں نہیں تھا۔ حاج قاسم کی لغت میں نہیں ہو سکتا، میں نہیں کر سکتا اور مایوس ہونا وغیرہ نہیں پایا جاتا تھا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ راہِ حق قربانی چاہتا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ ہم راہ حق پر چلیں اور اس کی قیمت ادا نہ کریں وہ جب راہ حق پر چلتے تھے تو وہ جانتے تھے کہ انہیں قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ وہ ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے امریکی مجھے شہید کریں گے لیکن وہ مجھے شہید کرنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ اس کی قیمت انہیں ادا کرنی پڑے گی اور اس کی قیمت یہ تھی کہ وہ شہید ہو گئے اور امریکیوں کو سخت ضربت لگا گئے۔
شہید احمد کاظمی سے شہید سلیمانی کے گہرے لگاؤکے سلسلے میں اگر آپ کے ذہن میں کوئی واقعہ ہے تو بیان فرمائیں۔
حاج قاسم شہید احمد کاظمی اور حسین خرازی سے بہت لگاؤ رکھتے تھے۔ انہوں نے حسین خرازی کو بہت جلد کربلائے۵ میں کھو دیا اور وہ شہید احمد کاظمی کے گہرے دوست اور ان سے بہت مانوس تھے۔ حاج احمد کاظمی کے شہید ہونے کے بعد حاج قاسم بہت پریشان ہو گئے اور کچھ عرصہ وہ حاج احمد کاظمی کے پڑوسی رہے ہیں۔ وہ جب گھر تشریف لاتے تھے تو شہید حاج احمد کاظمی کے اہلخانہ سے ملنے جاتے تھے۔ اور ان کے بچوں سے بہت محبت کرتے تھے اور ان کی مشکلات کو دور کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ حاج قاسم بعض اوقات شہید حاج احمد کاظمی کے باغیچہ میں خود ہل جوتتے تھے اور درختوں کی کٹائی کرتے تھے۔ وہ ان کے صحن میں پھول لگا کر ان کے گھر کے صحن کو اس طرح سجاتے تھے، ان کا عقیدہ تھا کہ حاج کاظم ان کی مشکلات حل کرتے ہیں۔ شہید سلیمانی کی اہلیہ نے میری اہلیہ کے لئے بیان کیا تھا کہ جس دن حاج قاسم نے آ کر ہمارے صحن میں پھول لگائے تو شہید احمد کاظمی ان کی اہلیہ کے خواب میں آئے تھے اس طرح کہ ایک رسّی ان کے ہاتھ میں تھی اور اس میں متعدد گرہیں لگی ہوئی تھیں۔ شہید احمد کاظمی گرہیں کھولنے میں مصروف تھے اور انہوں نے اپنی اہلیہ سے کہا تھا حاج قاسم کی زندگی میں کچھ گرہیں لگی ہوئی ہیں اور میں انہیں کھول رہا ہوں۔ حاج قاسم خود ہمیشہ کہتے تھے کہ حاج احمد نے میرے کاموں کی بہت سی گرہیں کھولی ہیں۔
آپ کئی سالوں تک رہبر معظم انقلاب کے ساتھ رہے ہیں، برائے مہربانی رہبر معظم انقلاب کے ساتھ ان کے تعلقات کے بارے میں بتائیں؟
رہبر معظم انقلاب اور جنرل سلیمانی کے درمیان گہرے تعلقات پائے جاتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ رہبر معظم انقلاب کی نظر میں دو افراد ایسے تھے کہ دوسروں کی نسبت ان کے ساتھ رہبرکا سلوک مختلف ہوتا تھا اوران کے ساتھ نہایت حسن سلوک سے پیش آتے تھے۔ ایک شہید حاج قاسم سلیمانی اور دوسرے شہید احمد کاظمی تھے۔ جب یہ دو افراد رہبر کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے تو آپ اپنا با برکت ہاتھ ان کی گردنوں پر رکھ ان کے چہروں کا بوسہ لیا کرتے تھے اور انہیں مورد محبت اور تعریف قراردیتے تھے۔ ان دونوں شہیدوں کے ساتھ رہبر معظم انقلاب کا سلوک باپ بیٹے کے درمیان رابطے جیسا تھا۔
رہبر معظم کے ساتھ جنرل سلیمانی کے سلسلہ میں اگر آپ کے ذہن میں کوئی واقعہ ہے تو ماہنامہ یاران کے قارئین کے لئے اسے بیان کریں؟
مجھے یاد ہے کہ ۱۳۸۴ھ،ش میں اپنے صوبہ کرمان کے دورہ کے دوران رہبر معظم انقلاب نے تاکید کی جنرل قاسم سلیمانی ان کے ساتھ ملاقاتوں میں موجود رہیں۔ رہبر معظم انقلاب کے سفر کے دوران ایسا پروگرام بنایا جاتا تھا کہ وہ صوبہ میں شہداء کے متعدد کنبوں سے ملاقات کر سکیں۔ سیکیورٹی کے مسائل کی وجہ سے شہداء کے اہل خانہ کو ان ملاقاتوں کے بارے میں مطلع نہیں کیا جاتا تھا اور شائد ۱۵ منٹ قبل اس دورے کی خبر شہداء کے اہل خانہ تک پہنچتی تھی۔ ایک ملاقات طے پائی اور شہید کے اہل خانہ کچھ منٹ پہلے رہبر معظم انقلاب کے آنے کے بارے میں باخبر ہوئے، ہم ایک ایسے شہید کے گھر گئے جو ثاراللہ بریگیڈ کی ایک بٹالین کے کمانڈر تھے۔ جب ہم داخل ہوئے تو ہم نے دیکھا کہ گھر میں ہجوم ہمارے تصور سے کہیں زیادہ تھا۔ ابتدا میں ہم نے سوچا کہ شائد شہید کے اہل خانہ کو جب پتہ چلا کہ رہبر معظم انقلاب تشریف لا رہے ہیں تو انہوں نے اپنے رشتہ داروں کو مطلع کیا ہوگا اور وہ بھی ان کے گھر آئے ہیں۔ جب ہم نے وجہ پوچھی تو ہمیں معلوم ہوا کہ اس رات جس شہید کے گھر میں گئے تھے اس کی بیٹی کی ثاراللہ لشکر کے شہداء میں سے ایک کمانڈر کے بیٹے کے ساتھ منگنی کی تقریب تھی۔
شہید کے اہل خانہ نے شہید حاج قاسم کے کان میں کچھ کہا! رہبر معظم انقلاب نے جنرل سلیمانی سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ جنرل سلیمانی نے کہا ان کا کہنا ہے کہ اس منگنی کے سلسلہ میں ان کا جواب مثبت ہے اگر ممکن ہو تو رہبر معظم خطبہ عقد پڑھیں؟ رہبر معظم نے خطبہ عقد پڑھنا شروع کیا اور رہبر معظم نے اس لڑکی سے پوچھا کہ کیا آپ مجھے اختیار دے رہی ہیں کہ میں آپ کا نکاح فلاں جناب سے پڑھوں؟ اس لڑکی نے کہا اگر آپ وعدہ کریں کہ آخرت میں میری شفاعت کریں گے تو میں آپ کو اختیار دیتی ہوں۔
رہبر معظم انقلاب نے فرمایا میں کیوں آپ کا شفیع بنوں۔ حاج قاسم سلیمانی کا مقام خدا کے نزدیک مجھ سے زیادہ بالا تراور اونچا ہے۔ وہ زندہ شہید ہیں اور وہ آپ کے شفیع ہوں گے۔ رہبر معظم انقلاب کا جنرل سلیمانی کے سلسلے میں ایسا نظریہ تھا۔
کون سے شہید نے حاج قاسم کی مشکل حل کی؟
جنرل محمد حسین نجات جو انقلاب کی کامیابی سے پہلے منصورون گروپ میں سرگرم عمل تھے، انقلاب کے بعد کچھ دوسرے دوستوں کے ساتھ مل کر انہوں نے” سازمان مجاہدین انقلاب اسلامی” نامی تنظیم قائم کی۔ کردستان خطے میں انقلاب مخالف ناامنی ایجاد ہونے کے بعد وہ شہید محمد بروجردی کے ساتھ اس خطے میں گئے اور متعدد دیگر افراد کے ساتھ مل کر” بہادر کرد مسلم تنظیم” قائم کی۔ ۱۳۶۰ ھ،ش میں حضرت امام خمینی(ره) کے سیاسی جماعتوں اور گروہوں میں فوج موجود نہ ہونے پر مبنی حکم کے بعد وہ سازمان مجاہدین انقلاب اسلامی نامی تنظیم سے الگ ہو گئے اور سپاہ پاسداران میں شامل ہوگئے۔ انہوں نے ۱۳۷۸ ھ،ش میں ماہ تیر کے واقعات کے بعد ثاراللہ بریگیڈ کی کمان سنبھالی اور اس کے بعد انہوں نے ۱۳۸۹ھ،ش تک سپاہ ولی امرکی کمان سنبھالی۔ جنرل نجات نے سپاہ ولی امر کی کمانڈ کرنے کے بعد کچھ عرصہ کے لئے سپاہ کی انٹیلی جنس سروس کے جانشین کی حیثیت سے کام کیا۔ جنرل محمد حسین نجات اس وقت سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے ثقافتی اور سماجی نائب کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ شہید جنرل سلیمانی کی شخصیت اور ان کی جدوجہد کے بارے میں ہم نے جنرل محمد حسین نجات کے ساتھ گفتگو کی کہ مندرجہ ذیل متن میں اسے آپ پڑھ سکتے ہیں
شہید حاج قاسم سلیمانی نصرت الہی پر یقین رکھتے تھے۔
نوید شاہد: ہمارے ملک کی مشرقی سرحدوں میں منشیات کے خلاف جنگ میں حج قاسم سلیمانی کا کیا کردار تھا؟
جنرل حاج قاسم سلیمانی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک ہیرو اور کمانڈر تھے۔ جب وہ سیستان اور بلوچستان کی سپاہ قرارگاہ قدس کے کمانڈر تھے تو وہ ایام ہمارے ملک کی مشرقی سرحدوں پر منشیات فروشی کے قافلوں کی وسیع سرگرمی اور ان کے عروج اور دہشت گردی کی کاروائیوں کے ایام تھے، قومی سلامتی کونسل اس نتیجہ پر پہنچی کہ ان اقدامات سے نمٹنے کی ذمہ داری سپاہ کو سونپی جائے۔ سپاہ نے بھی اس علاقے کی قرارگاہ قدس کو جنرل سلیمانی کے حوالے کیا۔ جنرل سلیمانی قلیل مدت میں تمام مسلح قافلوں کا صفایا کرنے اورانہیں نابود کرنے میں کامیاب ہوئے جنہوں نے ہمارے ملک کی مشرقی سرحدوں پرناامنی ایجاد کی تھی۔ انہوں نے جنگ تحمیلی میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اس شعبے میں بھی کامیابی حاصل کی۔
امریکیوں نے داعش کو کیوں اور کیسے بنایا؟
امریکی ایک ایسی سیاست کے پیچھے تھے تا کہ مشرق وسطیٰ میں ناامنی اور عدم استحکام پیدا کر کے خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا سکیں۔ انہوں نے قابض صیہونی حکومت اور سعودی عرب کی مکمل حمایت کے ساتھ داعش کے نام سے ایک گروپ تشکیل دیا۔ ایسا کر کے انہوں نے ایسی جنگ شروع کرنے کی کوشش کی تا کہ وہ شیعوں اور سنیوں کو آپس میں لڑائیں یا بہتر ہے کہ ہم کہیں مسلمانوں کو مسلمانوں کے خلاف۔ وہ ایسی سیاست کے پیچھے تھے تا کہ قابض صیہونی حکومت اور مجرم امریکہ کے خلاف کھڑے ہونے اور لڑنے کے بجائے مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑائیں۔ انہوں نے خانہ جنگی شروع کرا دی اور ان کا ایک مقصد دنیا کو اسلام کا بدصورت اور متشدد چہرہ دکھانا تھا۔ ایسی پالیسی کو نافذ کرنے کے لئے انہوں نے غیرمنطقی دہشت گرد تنظیم داعش کو ایجاد کیا۔ ہر وہ تحریک جو خطے میں آزادی چاہتی تھی، کوئی بھی تحریک جو قابض صیہونی حکومت کے خلاف تھی اسے انہوں نے اس طریقہ سے خانہ جنگی میں مصروف کر دیا۔ اقتدار کے آغاز میں ہی موجودہ امریکی صدر نے تمام دنیا سے کہا کہ داعش کو اوباما حکومت اور امریکہ نے بنایا تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کے خالص جذبات کو استعمال کرتے ہوئے تکفیری تحریک تشکیل دی اور اس تکفیری تحریک نے شام میں بہت ساری ہلاکتیں انجام دیں اور پھر اس نے اس جرم کو عراق میں پھیلایا اور جاری رکھا۔
داعش کی تباہی میں جنرل سلیمانی کا کیا کردار تھا اور مختصر اور طویل مدتی میں امریکہ کے ذریعہ جنرل سلیمانی کے قتل کا مقصد کیا تھا اور کیا وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہے؟
قدس فورس کے کمانڈر کی حیثیت سے جنرل سلیمانی اس تکفیری گروہ کے خلاف جنگ میں ایک ہیرو تھے۔ جنرل سلیمانی ایک مشاورتی اور منصوبہ بند گروہ کے ذریعہ داعش اور جبہۃ النصر کو نابود کرنے میں کامیاب ہوئے کہ جنہوں نے شام کے کچھ علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔ اگر داعش اور جبہۃ النصر شام میں ناکام نہ ہوتیں تو ان کا اگلا مقصد ایران تھا۔ داعش نے قابض صیہونی حکومت، سعودی عرب اور امریکہ کی حمایت سے عراق کے کچھ حصوں پر قبضہ کر لیا اور کربلا کے قریب تک پیشقدمی کر لی۔ اس پیش قدمی کے نتیجہ میں آیت اللہ سیستانی نے جہاد کا اعلان کیا اور سپاہ کی قدس فورس کی مدد سے حشدالشعبی تشکیل دی گئی اور اسے ترقی ملی۔ اس راستہ میں عراقی عوام نے ہوشیاری سے کام لیا اور وہ منظم ہو گئے اور حاج قاسم اپنی امداد کے ذریعہ داعشی تکفیریوں کو عراقی فوجیوں اور حشد الشعبی تنظیم کے نتیجہ میں نابود کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ حاج قاسم کا خطاب جس میں انہوں نے کہا کہ چند مہینوں میں آپ کو داعش کا کوئی اثر نہیں ملے گا یہ خطے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے شکست کا اعلان تھا۔ حاج قاسم ایک ایسی تحریک کو نابود کرنے میں کامیاب ہوئے جسے امریکیوں نے صیہونی حکومت کے ساتھ مل کر اور سعودی عرب کی مالی امداد سے آغاز کیا تھا۔ تا کہ اس طریقے سے وہ مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگی ایجاد کر سکیں۔ امریکی، حاج قاسم کو شہید کرنے پر مجبور ہوگئے کیونکہ وہ بہت بڑے ہیرو تھے جو اس سازش کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوئے۔ داعش نے بالکل ان ہی نقاط کو نشانہ بنایا تھا جو انقلاب کی کامیابی کے بعد کئی سال امریکہ اور قابض صیہونی حکومت کے خلاف مزاحمت کا محور رہے یعنی شام اور عراق۔ ان کا اگلا مقصد ایران تھا جو خطے میں استکبار کے خلاف مزاحمت کا محور ہے۔ان کی تمام پالیسیوں کو جنرل سلیمانی نے شکست سے دوچار کیا۔ جیسا کہ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ حاج قاسم مزاحمت کے سید الشہداء تھے۔ وہ مزاحمت کے قائد اور علمبردار تھے۔ امریکیوں نے سردار سلیمانی کو بزدلانہ طریقے سے قتل کرکے خطے میں اپنی شکستوں کو دور کرنے کی کوشش کی لیکن نہ صرف وہ کامیاب نہیں ہوسکے بلکہ انہیں ایک اور شکست بھی ملی اور وہ عراق سے امریکی فوجوں کے انخلاء کا اعلان ہے اور لبنان، عراق، شام، یمن، فلسطین اور افغانستان میں کوئی جگہ بھی امریکی افواج اور پنٹاگون کے لئے محفوظ نہیں ہے۔
خطے میں حاج قاسم سلیمانی مزاحمتی محور کو مضبوط بنانے میں کیسے کامیاب ہوئے؟
مزاحمتی محور حاج قاسم کے قدس فورس میں جانے سے پہلے اور بعد بالکل مختلف تھا۔ اگر ہم دیکھتے ہیں کہ حزب اللہ اپنے ملک کے دفاع میں اتنی مضبوط ہو چکی ہے کہ صیہونی حکومت لبنان کے علاقے میں کسی حصہ پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کرتی تو یہ حزب اللہ کے لئے حاج قاسم کی مدد کا نتیجہ ہے جس نے حزب اللہ کو اتنا طاقتور بنا دیا ہے۔ اگر ہم دیکھتے ہیں کہ یمن کے حوثی سعودی عرب کے خلاف کھڑے ہو کر اپنے ملک کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں تو یہ حوثی بہادروں کو حاج قاسم کی امداد پہنچانے کا نتیجہ ہے۔ سعودی عرب نے حملہ کی ابتدا میں یہ اعلان کیا تھا کہ وہ چھ مہینے کے اندر یمن پر قبضہ کر لے گا لیکن ۴ سال گزرنے کے بعد بھی اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ رہا ہے۔ یمن میں سعودی عرب نے بے گناہ بچوں اور خواتین کا بہت بڑا قتل عام کیا ہے لیکن بین الاقوامی برادری نے اب تک خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ حوثی جنگجو اور آزادی کے حامی افراد ہیں اور جیسے ہی ہم اپنے تجربات کو ان کے ساتھ بانٹنے میں کامیاب ہوئے تو وہ دشمن کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوگئے۔ یہ چیز شام میں بھی رونما ہوئی یعنی امریکی چھ ماہ کے اندر بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے سعودی عرب کی مدد کو پہنچے۔ انہوں نے شام کی سرزمین پر بھی قبضہ کر لیا لیکن چونکہ بشار الاسد ایک استعمار مخالف انسان ہیں اور شامی فوج اور لوگ حاج قاسم کی مدد سے داعش کا صفایا کرنے میں کامیاب ہو گئے اور بشار الاسد ابھی بھی پائدار ہیں اور داعش نابود ہو گئی ہے۔ امریکیوں نے پھر ایک اور طریقہ استعمال کیا انہوں نے پہلے عراق پر قبضہ کیا اور پھر جمہوریت کے نام پر عراق میں کٹھ پتلی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی جسے قدس فورس نے عراقی عوام اور عراقی عوام کو اپنے تجربات پیش کرتے ہوئے اس سازش کو بھی ناکام بنا دیا۔ امریکیوں نے خود اعتراف کیا کہ انہوں نے اربوں ڈالر خرچ کئے لیکن عراق کی موجودہ حکومت ایران کی طرف مائل ہے۔
امریکیوں نے اعلان کیا کہ شہید حاج قاسم سلیمانی کے بیہمانہ قتل کی ایک وجہ کچھ لوگوں کی جانب سے عراق میں امریکی سفارت خانے پر حملہ تھا لیکن اس واقعہ کی حقیقت کیا ہے؟
جب امریکیوں نے دیکھا کہ ان کے سارے منصوبے اور سازشیں ناکام ہو چکی ہیں تو انہوں نے کچھ لوگوں کو غیر سرکاری گروہوں کی شکل میں منظم کرنے اور انہیں پیسہ دے کر عراقی حکومت کی خلاف احتجاج کرنے کے لئے تیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ امریکیوں نے پیسہ دے کر کچھ فسادیوں کو منظم کیا تا کہ اس موج پرسوار ہو کر عراقی حکومت کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا جائے اور اپنی کٹھ پتلی حکومت کو اقتدار میں لایا جائے۔ ابتدا میں تو امریکی اس موج پر سوار ہونے میں کامیاب ہو گئے اور انہوں نے پرتشدد مظاہروں کے ذریعہ عراقی حکومت اور پارلیمنٹ کے خاتمہ کی کوشش کی لیکن اسے جاری رکھنے میں ناکام ہو گئے۔ البتہ امریکیوں کی طرف سے شروع کی جانے والی یہ سازش حکومت اور پارلیمنٹ کو درہم برہم کرنے اور عراق میں بغاوت کا سبب بننے والی تھی لیکن عراقی عوام نے ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ جب عراقی عوام کو اس امریکی گندی سازش کا پتہ چلا تو انہوں نے امریکی سفارت خانے کی طرف مارچ کیا اور انہوں نے امریکی سفارت خانے پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ لوگوں نے وہاں امریکہ مردہ باد کے نعرے لگائے اور انہوں نے احتجاج کرتے ہوئے ان سے اپنی نفرت کا اعلان کیا۔ جب عراق داعش کی سازش کا شکار تھا تو ایران نے عراقی عوام اور حکومت کا ساتھ دیا اور کسی توقع کے بغیر تباہ شدہ علاقوں کی تعمیر نو اور امداد کا کام شروع کر دیا۔ ایران نے عراق کے تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو میں مدد کی۔ اس کے برعکس امریکی جو ہزاروں کلو میٹر دور سے اس ملک میں آئے اور اس ملک پر قضہ کیا انہوں نے نہ صرف اس ملک کی کوئی مدد کی بلکہ مختلف بہانوں سے اپنے طے شدہ اخراجات کے لئے عراقی عوام سے سالانہ ۱۵ لاکھ بیرل عراقی تیل لوٹتے رہے اور عراقی عوام اس سے بخوبی واقف ہیں یہ امریکی استعمار کی عادت ہے۔ لیکن ان دنوں عراقی عوام بیدار ہو چکے ہیں اور عراقی عوام کے نعروں کا رخ بھی تبدیل ہو گیا ہے اور انہوں نے عراق میں امریکی سفارت خانے کو آگ لگا دی جو وہاں ناامنی کی بنیادی وجہ تھی۔ جب امریکیوں نے دیکھا کہ شام اور عراق میں ان کے سارے منصوبے ناکام ہوچکے ہیں تو انہوں نے خطے میں اپنی شکست کی بنیادی وجہ قدس فورس اور حاج قاسم سلیمانی قرار دئے لہذا ٹرمپ کے پاس حاج قاسم کے قتل کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ یہ شیطانی حرکت عراق میں ان کی موجودگی کو ختم کرنے کا سبب بنے گی۔
آپ کے خیال میں لوگوں کے درمیان جنرل سلیمانی کی مقبولیت کی وجہ کیا ہے؟
حاج قاسم کی کچھ نمایاں خصوصیات پائی جاتی تھیں۔ ان کی پہلی خصوصیت یہ تھی کہ وہ ایران کی عزت کا سبب تھے یعنی جنرل سلیمانی امریکہ کے خلاف ایک ہیرو تھے۔ خطے میں اپنے اقدامات کے ذریعہ امریکہ نے مظلوم لوگوں پر تسلط جمانے کی کوشش کی لیکن جو شخص امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کے خلاف کھڑا ہوا وہ حاج قاسم سلیمانی تھے، لوگ امریکہ، صیہونی حکومت اور سعودی عرب سے نفرت کرتے ہیں۔ اگر رائے شماری کی جائے تو ۹۰ فیصد سے زیادہ لوگ ان ممالک سے نفرت کرتے ہیں۔ عوام ان ممالک کو خطے میں ناامنی کی وجہ سمجھتے ہیں، وہ ممالک جو خطے میں بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے کا سبب ہیں۔ خطے کے لوگوں کی بدبختی صرف امریکہ کی وجہ سے ہے۔ کسی بھی خطے میں جہاں دہشت گردی موجود ہے اسے امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔ خطے کے کسی بھی حصہ میں جہاں جنگ ہے وہ امریکہ کی وجہ سے ہے۔ اگر ہمارے ملک میں اختلاف نظر آتا ہے تو اس کا سبب بھی امریکہ ہے۔ ۲۸ مرداد کی بغاوت سے لے کر اب تک امریکہ ہمارا دشمن رہا ہے اور ایران سے ان کی دشمنی ثابت ہو چکی ہے۔ ایران میں ان عوامل کا مقابلہ کرنے والے ہیرو حاج قاسم ہیں۔ ایران کے علاوہ خطے کے کون سے افراد ان ممالک کے خلاف لڑ رہے ہیں؟ لبنانی حزب اللہ۔ حزب اللہ کی حمایت کون کرتا ہے؟ قدس فورس اور خاص طور پر حاج قاسم سلیمانی اور یمن میں بھی ایسا ہی ہے۔ حکومتوں اور آزادی کے حصول کے لئے لوگوں اورعوام سے استعمار کے خلاف جنگ کے سلسلہ میں حاج قاسم سلیمانی کی امداد نے انہیں لوگوں میں مقبول کر دیا کیونکہ لوگوں نے شام، عراق اور یمن میں معصوم بچوں کے قتل کو دیکھا تھا اور یہی کافی تھا کہ لوگ ایسے شخص سے محبت کرتے جس نے ان معصوم بچوں کا داعش اور امریکہ سے انتقام لیا۔
آپ کی نظر میں جنرل سلیمانی اور ان کے ساتھی شہداء کی نماز جنازہ میں لاکھوں افراد کی شرکت کی وجہ کیا تھی؟
ہمیں حاج قاسم کے جنازہ کی تقریب میں اتنی تعداد میں لوگوں کی توقع نہیں تھی۔ کسی کوبھی اتنی تعداد میں شرکت کی توقع نہیں تھی یہاں تک ان لوگوں کو بھی جو حاج قاسم کو قریب سے جانتے تھے اور ان سے لگاؤ رکھتے تھے۔ لوگوں کی شرکت اور استقبال توقع سے بالاتر تھا اور نہ صرف تہران اور کرمان میں بلکہ پورے ملک میں ایسا تھا۔ لوگوں کو یقین تھا کہ گزشتہ ۲۰ سالوں میں حاج قاسم تمام میدانوں میں حاضر رہے ہیں۔ ہمارے لوگوں کو قومی اور مذہبی فخر ہے اور انہوں نے ایسا محسوس کیا کہ ان کی مذہبی عزت شہید ہو گئی ہے جس کے مدافع حاج قاسم تھے۔ لوگوں کا اعتقاد تھا کہ حاج قاسم ایران کی عزت ہیں۔ حاج قاسم سیاسی مباحث میں داخل نہیں ہوئے اور وہ رہبرمعظم کے پیروکار تھے۔ حضرت امام خمینیؒ کی زندگی میں بھی حاج قاسم ایسے ہی تھے۔ وہ ثاراللہ بریگیڈ میں امام خمینیؒ کے حکم کے تابعدار تھے۔ جنرل سلیمانی مکمل طور پر رہبرمعظم کے فرمان کے تابع تھے۔ وہ سیاسی مباحث میں حصہ نہیں لیتے تھے اور رہبر کے راستہ کی پیروی کرتے تھے۔ اور وہ رہبر کے راستہ پر گامزن تھے۔ لوگ احساس کرتے تھے کہ ایک ایسی شخصیت پائی جاتی ہے کہ جو رہبر کے موقف پر عمل پیرا ہے اور لوگوں کے لئے اپنے ہیرو کا استقبال کرنے کے لئے یہی کافی تھا۔
کیا مستقبل میں خطے میں ہونے والی تبدیلیوں میں تبدیلی آئے گی؟
مستقبل میں خطے میں ہونے والی تبدیلیاں اسلامی جمہوریہ ایران کے مفاد میں ہوں گی۔ خطے میں پیش آنے والے واقعات میں حاج قاسم کی شہادت ایک اہم واقعہ تھا۔ مزاحمتی محور آئندہ واضح اور مضبوط تر ہوگا۔ ان کی شہادت امریکیوں کی بڑی غلطی خطے کے عوام کے سامنے چند نکتے واضح کرے گی۔ پہلی بات یہ ہے کہ لوگ خود سے پوچھتے ہیں کہ امریکی جھوٹ بول رہے ہیں کہ قاسم سلیمانی ایک دہشت گرد تھے اور ہم نے انہیں قتل کر دیا ہے! لیکن خطے کے لوگ جانتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا محور حاج قاسم ہیں کیونکہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ اس خطے میں امریکیوں، صہیونی حکومت اور سعودی عرب نے کیا جرائم انجام دئے ہیں۔ خطے کے ممالک کے عوام یہ اعلان کرتے ہیں کہ حاج قاسم ہمارے مددگار تھے کیونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف کون تھا اور ان کی آزادی کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنے والا کون ہے۔ مستقبل میں امریکی سے دشمنی مزید بڑھ جائے گی یعنی مستقبل میں امریکی غلطیوں کے لئے کوئی محفوظ جگہ نہیں ہوگی۔ کوئی بھی گروہ یا فرد جس کے ہاتھ میں اسلحہ آ جائے اسے علاقے میں موجود امریکیوں کو نشانہ بنانا چاہئے۔ امریکہ اب خطے کے ممالک اورحکومتوں پر اپنی پالیسیاں مسلط نہیں کر سکتا کیونکہ جو حکومت بھی امریکہ کی حامی ہے وہ عوام کو حکومت سے بیزار کر دے گی۔
سپاہ کی جانب سے امریکی اڈوں پر میزائل حملے کے کیا نتائج برآمد ہوں گے؟
عین الاسد اڈے کو نشانہ بنانے میں عراق اور خطے میں امریکی دہشت مکمل طور پر ختم ہو گئی ہے۔ ایرانی عوام اور خطے کے عوام نے سپاہ اوراسلامی جمہوریہ ایران سے انتقام کا مطالبہ کیا تھا اور سپاہ نے اعلان کیا کہ ہم خدا کے بھروسہ پرانتقام لیں گے کیونکہ ہم نصرت الہی پر یقین رکھتے تھے لہذا ہم نے فیصلہ کیا اور ہم نے ۴ دن کے اندر ہی اس فیصلہ پر عمل در آمد کیا۔ اور ہم نے امریکہ کے سب سے اہم مرکز پر حملہ کیا۔ امریکہ ایک کھوکھلی طاقت ہے اور حاج قاسم اس کی کھوکھلی طاقت پر یقین رکھتے تھے۔ وہ افراد جو اپنے دفتروں کو چھوڑ کر میدان میں گئے وہ متوجہ ہوگئے کہ امریکہ ایک کھوکھلی طاقت ہے اور وہ جو اپنے دفتروں میں بیٹھے ہوئے ہیں شائد وہ امریکی طاقت سے خوفزدہ تھے۔ اس میزائل حملے نے خطے میں امریکہ کے ساتھ محاذ آرائی کا رخ تبدیل کر دیا۔ پوری دنیا کو یہ احساس ہو گیا کہ امریکہ خالی ڈھول کی طرح ہے اور جواب دینے کی اس میں ہمت نہیں ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ مار کر دم دبا کربھاگنے کا زمانہ ختم ہو گیا ہے۔ حاج قاسم کی شہادت خطے میں ایک نیا باب کھولے گی اور امریکہ کے لئے خطہ ناامن ہو جائے گا۔ خطے میں امریکی دہشت ختم ہو جائے گی اورمزاحمتی محور ترقی کرے گا۔
جنرل سلیمانی سے آپ کی واقفیت کیسے ہوئی؟
میں ۱۳۶۰ ھ،ش سے انہیں جانتا تھا لیکن ہمارا قریبی تعاون اس وقت ہوا جب میں جنوبی محاذ پر موجود تھا۔ ۱۳۶۲ھ،ش کے آخر میں ہم حاج قاسم سے بہت مانوس ہو گئے۔ وہ ایک طاقتور کمانڈر تھے اور ثاراللہ بریگیڈ میں انہوں نے قیمتی خدمات انجام دیں۔ میں اس وقت خاتم الانبیاء کیمپ میں معلومات کے تحفظ کا انچارج تھا اور ہمارے جنرل سلیمانی کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔
آپ جنرل سلیمانی کے ساتھ کن کاروائیوں میں تھے اور کن میں انہیں اچھی کامیابی حاصل ہوئی؟
بدر، فاو، کربلائے۴ اور کربلائے۵ نامی کاروائیوں میں جنرل سلیمانی کے ساتھ تھا۔
ثاراللہ ۴۱ بریگیڈ ایک ناقابل شکست لشکر تھا جس نے اکثر کاروائیوں میں شاندار اور درخشاں شرکت کی۔ ثاراللہ ۴۱ بریگیڈ میں حاج قاسم کی کمانڈ نے جنجگوؤں کے جذبے پر مثبت اثر ڈالا اور ان کی شجاعت اور تدبیر اس چیز کا سبب بنی کہ ثاراللہ ۴۱ بریگیڈ نا قابل شکست فوج میں شمار ہو گیا۔ مجھے یاد ہے کہ حاج قاسم والفجر۸ نامی کاروائی میں بہت کامیاب رہے تھے اگرچہ والفجر۸ خصوصی کاروائیوں میں سے ایک تھی لیکن جنرل سلیمانی اس کاروائی میں مؤثر ثابت ہوئے تھے اور ان کاروائیوں میں جو کامیابی ملی وہ بڑی حد تک ان کی کاوشوں اور ثاراللہ۴۱ بریگیڈ کی جدوجہد کی مرہون منت ہے۔
ثاراللہ بریگیڈ میں شہید سلیمانی کی کون سی خصوصیات کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں؟
ثاراللہ بریگیڈ کی فوج ایک ناقابل شکست فوج تھی جنگ کے دوروان سخت کام ناقابل شکست فوجوں کے حوالے کیا جاتا تھا۔ اور ثاراللہ بریگیڈ بھی ان میں سے ایک کامیاب لشکر تھا کسی فوج کا ناقابل شکست ہونا اس کے کمانڈر پر منحصر ہوتا تھا۔ جنرل سلیمانی ایک شجاع اور نڈر کمانڈر تھے۔ جنرل سلیمانی کی بہادری سبب بنتی تھی کہ ثاراللہ لشکر مزید شجاع بن جائے اور کاروائیوں میں بھی کامیاب رہے۔
حاج قاسم کی ایک اور خصوصیت قابل منتظمین کی پرورش تھی۔ ثاراللہ بریگیڈ میں ان کی کمانڈ کے دوران ثارللہ لشکر میں بہت سے افراد نے ترقی کی کہ جن میں سے بہت سے افراد جنگ کے بعد پارلیمنٹ ممبر بنے، کچھ گورنر بنے اور بہت سے دوسرے ملکی عہدیدار بنے۔ وہ ایسے افراد کو میدان میں اتارتے تھے جو صلاحیت رکھتے تھے اور یہ چیز کی ان کی فوج کی ترقی کا سبب بنتی تھی۔ قدس فورس میں بہت سے لوگ موجود تھے جنہوں نے حج قاسم کے ساتھ تعاون کیا اور قدس فورس میں وہ مؤثر قوتوں میں تبدیل ہو گئے اور انہوں نے ہمارے اسلامی وطن کے لئے قابل قدر خدمات انجام دیں۔
ہمیں شہید سلیمانی کی اخلاقی خصوصیات کے بارے میں بتائیں؟
قاسم سلیمانی تدبیر اور منصوبہ بندی کے تحت کام کرتے تھے۔ اور تدبیر اور منصوبہ بندی کے تحت ہی وہ اہم کامیابیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے تھے۔ شہید سلیمانی اجلاس میں خاموش رہتے تھے لیکن اگر کاروائی پر تبادلہ خیال کیا جاتا تو وہ اپنے خیالات کا واضح اظہار کرتے ہوئے دوسرے کمانڈروں کو بھی اس منصوبے پر عملدرآمد کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔ کاروائیوں میں وہ اپنے کمانڈروں کے تابعدار تھے اور سخت میدانوں سے کبھی ڈرتے نہیں تھے۔ وہ نہایت ہی مہربان تھے اور ثاراللہ۴۱ بریگیڈ میں موجود تمام فوجیوں کے ساتھ بھائی جیسے تھے۔ کاروائیوں میں وہ مطمئن و پرسکون رہتے تھے اور ان کا اخلاق نہایت خاص اور ناقابل فراموش تھا۔
ملک اور قوم کے لئے میجرجنرل سلیمانی کی میراث کیا تھی؟
حاج قاسم انسداد دہشت گردی کا محور تھے یعنی خطہ میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے کمانڈر۔ ہمارے نزدیک حاج قاسم کی میراث مزاحمت کے محور پر اتحاد میں پوشیدہ تھی کیونکہ وہ مزاحمتی محور کے سید الشہداء اور علمبردار تھے۔ حاج قاسم کی ایک اور میراث حاج قاسم کا مکتب ہے۔
حاج قاسم کے مکتب سے آپ کی قطعی مراد کیا ہے؟
میں اس سلسلے میں کچھ موارد کی طرف اشارہ کر رہا ہوں:
ان کی پہلی اور سب سے اہم خوبی ان کا خلوص تھا، حاج قاسم خدا کی خوشنودی کے لئے اپنا کام انجام دیتے تھے اور انہیں دوسرے امور سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ وہ صرف اس چیز پر توجہ رکھتے تھے کہ خدا ان سے کیا چاہتا ہے اور خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے انہیں کیا کرنا چاہئے۔
حاج قاسم شرعی ذمہ داری کے مطابق کام کرتے تھے اگر شرعی ذمہ داری ہوتی تو وہ منصوبہ بندی کے تحت کام کرتے اور اس ذمہ داری کو انجام دینے کی کوشش کرتے تھے۔
حاج قاسم صاحب تدبیر تھے مشرق وسطیٰ میں مقیم امریکی افواج (سینٹ کام) کے سربراہ کا کہنا ہے کہ میں نے ۱۰ سال حاج قاسم کا مقابلہ کیا ہے وہ کہتے ہیں حاج قاسم بہت دماغ سے کام لیتے ہیں وہ منصوبہ بندی کے تحت کام انجام دیتے ہیں اور بہت ہی دقت کے ساتھ منصوبہ بناتے ہیں وہ بہت ہی ذہین شخص ہیں اور وہ جہاں بھی کاروائی کرتے ہیں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ امریکی دشمن حاج قاسم کی اس طرح تعریف کرتا ہے: وہ اشارہ کرتے ہیں کہ ایرانی عربوں کے برعکس مراعات دینے پر راضی نہیں ہوتے اور ایرانی اس وقت تک مراعات دینے پر راضی نہیں ہوتے جب تک وہ ہم سے مراعات نہ لیں۔ ہمارا دشمن حاج قاسم کو صاحب تدبیر سمجھتا ہے، حاج قاسم تیزی سے کام انجام دیتے تھے البتہ وہ تیزی جس میں دقت بھی پائی جاتی تھی اور وہ بہت جلد اپنے مقصد تک پہنچتے تھے۔
حاج قاسم کی منصوبہ بندی مشہور تھی، وہ خطے کے لئے دور کے افق دیکھتے تھے وہ دشمن کے منصوبوں پر نظر رکھتے تھے اور وہ طویل المدتی منصوبہ بناتے تھے۔ وہ ایسے شخص نہیں تھے جو اپنے کمرے میں بیٹھ جائیں بلکہ وہ میدان میں ہوتے تھے اور مقصد کو حاصل کرنے کے لئے منظم منصوبہ بندی کرتے تھے۔
حاج قاسم کی مینیجمنٹ میدان میں نظر آتی تھی۔ حاج قاسم کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ پہلے خود کاروائی کا جائزہ لینے جاتے تھے اور اس کے بعد وہ دوسروں کو اپنے ساتھ لے کر جاتے تھے۔ کاروائیوں میں وہ کہتے تھے کہ آؤ نہ کہ بھاگ جاؤ۔
حاج قاسم شجاع تھے، شجاعت اور خوف نہ ہونے میں فرق ہے۔ بے خوف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کسی سے مت ڈرو لیکن شجاعت یہ ہے کہ وہ خود سخت کام انجام دینے کے لئے میدان میں آ کر منصوبہ بندی کرتے تھے۔ وہ سخت میدانوں میں خوفزدہ نہیں ہوتے تھے۔ مسلط کردہ جنگ میں عراق کے پاس سامان موجود تھا لیکن اس کے بجائے ہمارے پاس منصوبہ بندی تھی۔ جنرل سلیمانی امریکہ سے نہیں ڈرتے تھے اور نصرت الہی پر یقین رکھتے تھے اور خدا پر بھروسہ کرتے تھے۔
جنرل سلیمانی کی کامیابی کا سبب کیا چیز بنتی تھی؟
حاج قاسم جانتے تھے کہ انہیں خدا پر بھروسہ کرنا چاہئے اور خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے میدان میں جاتے تھے اور کامیابی کے ساتھ واپس آتے تھے، حاج قاسم کی معرفت یقینی تھی اور خدا ان کی مدد کرتا تھا۔ رک جانا اور شکست سے دوچار ہونا حاج قاسم کے جذبے میں نہیں تھا۔ حاج قاسم کی لغت میں نہیں ہو سکتا، میں نہیں کر سکتا اور مایوس ہونا وغیرہ نہیں پایا جاتا تھا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ راہِ حق قربانی چاہتا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ ہم راہ حق پر چلیں اور اس کی قیمت ادا نہ کریں وہ جب راہ حق پر چلتے تھے تو وہ جانتے تھے کہ انہیں قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ وہ ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے امریکی مجھے شہید کریں گے لیکن وہ مجھے شہید کرنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ اس کی قیمت انہیں ادا کرنی پڑے گی اور اس کی قیمت یہ تھی کہ وہ شہید ہو گئے اور امریکیوں کو سخت ضربت لگا گئے۔
شہید احمد کاظمی سے شہید سلیمانی کے گہرے لگاؤکے سلسلے میں اگر آپ کے ذہن میں کوئی واقعہ ہے تو بیان فرمائیں۔
حاج قاسم شہید احمد کاظمی اور حسین خرازی سے بہت لگاؤ رکھتے تھے۔ انہوں نے حسین خرازی کو بہت جلد کربلائے۵ میں کھو دیا اور وہ شہید احمد کاظمی کے گہرے دوست اور ان سے بہت مانوس تھے۔ حاج احمد کاظمی کے شہید ہونے کے بعد حاج قاسم بہت پریشان ہو گئے اور کچھ عرصہ وہ حاج احمد کاظمی کے پڑوسی رہے ہیں۔ وہ جب گھر تشریف لاتے تھے تو شہید حاج احمد کاظمی کے اہلخانہ سے ملنے جاتے تھے۔ اور ان کے بچوں سے بہت محبت کرتے تھے اور ان کی مشکلات کو دور کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ حاج قاسم بعض اوقات شہید حاج احمد کاظمی کے باغیچہ میں خود ہل جوتتے تھے اور درختوں کی کٹائی کرتے تھے۔ وہ ان کے صحن میں پھول لگا کر ان کے گھر کے صحن کو اس طرح سجاتے تھے، ان کا عقیدہ تھا کہ حاج کاظم ان کی مشکلات حل کرتے ہیں۔ شہید سلیمانی کی اہلیہ نے میری اہلیہ کے لئے بیان کیا تھا کہ جس دن حاج قاسم نے آ کر ہمارے صحن میں پھول لگائے تو شہید احمد کاظمی ان کی اہلیہ کے خواب میں آئے تھے اس طرح کہ ایک رسّی ان کے ہاتھ میں تھی اور اس میں متعدد گرہیں لگی ہوئی تھیں۔ شہید احمد کاظمی گرہیں کھولنے میں مصروف تھے اور انہوں نے اپنی اہلیہ سے کہا تھا حاج قاسم کی زندگی میں کچھ گرہیں لگی ہوئی ہیں اور میں انہیں کھول رہا ہوں۔ حاج قاسم خود ہمیشہ کہتے تھے کہ حاج احمد نے میرے کاموں کی بہت سی گرہیں کھولی ہیں۔
آپ کئی سالوں تک رہبر معظم انقلاب کے ساتھ رہے ہیں، برائے مہربانی رہبر معظم انقلاب کے ساتھ ان کے تعلقات کے بارے میں بتائیں؟
رہبر معظم انقلاب اور جنرل سلیمانی کے درمیان گہرے تعلقات پائے جاتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ رہبر معظم انقلاب کی نظر میں دو افراد ایسے تھے کہ دوسروں کی نسبت ان کے ساتھ رہبرکا سلوک مختلف ہوتا تھا اوران کے ساتھ نہایت حسن سلوک سے پیش آتے تھے۔ ایک شہید حاج قاسم سلیمانی اور دوسرے شہید احمد کاظمی تھے۔ جب یہ دو افراد رہبر کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے تو آپ اپنا با برکت ہاتھ ان کی گردنوں پر رکھ ان کے چہروں کا بوسہ لیا کرتے تھے اور انہیں مورد محبت اور تعریف قراردیتے تھے۔ ان دونوں شہیدوں کے ساتھ رہبر معظم انقلاب کا سلوک باپ بیٹے کے درمیان رابطے جیسا تھا۔
رہبر معظم کے ساتھ جنرل سلیمانی کے سلسلہ میں اگر آپ کے ذہن میں کوئی واقعہ ہے تو ماہنامہ یاران کے قارئین کے لئے اسے بیان کریں؟
مجھے یاد ہے کہ ۱۳۸۴ھ،ش میں اپنے صوبہ کرمان کے دورہ کے دوران رہبر معظم انقلاب نے تاکید کی جنرل قاسم سلیمانی ان کے ساتھ ملاقاتوں میں موجود رہیں۔ رہبر معظم انقلاب کے سفر کے دوران ایسا پروگرام بنایا جاتا تھا کہ وہ صوبہ میں شہداء کے متعدد کنبوں سے ملاقات کر سکیں۔ سیکیورٹی کے مسائل کی وجہ سے شہداء کے اہل خانہ کو ان ملاقاتوں کے بارے میں مطلع نہیں کیا جاتا تھا اور شائد ۱۵ منٹ قبل اس دورے کی خبر شہداء کے اہل خانہ تک پہنچتی تھی۔ ایک ملاقات طے پائی اور شہید کے اہل خانہ کچھ منٹ پہلے رہبر معظم انقلاب کے آنے کے بارے میں باخبر ہوئے، ہم ایک ایسے شہید کے گھر گئے جو ثاراللہ بریگیڈ کی ایک بٹالین کے کمانڈر تھے۔ جب ہم داخل ہوئے تو ہم نے دیکھا کہ گھر میں ہجوم ہمارے تصور سے کہیں زیادہ تھا۔ ابتدا میں ہم نے سوچا کہ شائد شہید کے اہل خانہ کو جب پتہ چلا کہ رہبر معظم انقلاب تشریف لا رہے ہیں تو انہوں نے اپنے رشتہ داروں کو مطلع کیا ہوگا اور وہ بھی ان کے گھر آئے ہیں۔ جب ہم نے وجہ پوچھی تو ہمیں معلوم ہوا کہ اس رات جس شہید کے گھر میں گئے تھے اس کی بیٹی کی ثاراللہ لشکر کے شہداء میں سے ایک کمانڈر کے بیٹے کے ساتھ منگنی کی تقریب تھی۔
شہید کے اہل خانہ نے شہید حاج قاسم کے کان میں کچھ کہا! رہبر معظم انقلاب نے جنرل سلیمانی سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ جنرل سلیمانی نے کہا ان کا کہنا ہے کہ اس منگنی کے سلسلہ میں ان کا جواب مثبت ہے اگر ممکن ہو تو رہبر معظم خطبہ عقد پڑھیں؟ رہبر معظم نے خطبہ عقد پڑھنا شروع کیا اور رہبر معظم نے اس لڑکی سے پوچھا کہ کیا آپ مجھے اختیار دے رہی ہیں کہ میں آپ کا نکاح فلاں جناب سے پڑھوں؟ اس لڑکی نے کہا اگر آپ وعدہ کریں کہ آخرت میں میری شفاعت کریں گے تو میں آپ کو اختیار دیتی ہوں۔
رہبر معظم انقلاب نے فرمایا میں کیوں آپ کا شفیع بنوں۔ حاج قاسم سلیمانی کا مقام خدا کے نزدیک مجھ سے زیادہ بالا تراور اونچا ہے۔ وہ زندہ شہید ہیں اور وہ آپ کے شفیع ہوں گے۔ رہبر معظم انقلاب کا جنرل سلیمانی کے سلسلے میں ایسا نظریہ تھا۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب