( سال 1366شمسی میں ہفت روزہ پیام انقلاب کو دئیے گئے شہید قاسم سلیمانی کے انٹرویو سے اقتباس)
میں کرمان کے یونٹ سپاہ 7 صاحب الزمان کا کمانڈر ہوں۔میں 1337 شمسی میں کرمان کے نواحی گاوں قنات ملک میں پیدا ہوا۔ میں نے میٹرک کرلی ہے۔ میرا گھر میاں بیوی، ایک بیٹا اور ایک بیٹی پر مشتمل ہے۔ انقلاب سے پہلے واٹر بورڈ میں ملازمت کرتا تھا۔ انقلاب اسلامی کے بعد 1379 شمسی کے تیسرے مہینے میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کا رکن بنا۔ جنگ شروع ہوئی۔ ہوائی اڈوں پر عراقی حملوں کے بعد کرمان ائیرپورٹ پر جہازوں کی حفاظت پر مامور ہوا۔ جنگ کے دو یا تین ماہ بعد 300 افراد پر مشتمل گروہ کے ساتھ جنگی محاذ کی طرف نکلا اور اپنے دستے کی قیادت کی۔
محاذ پر پہنچنے کے بعد گمان ہوا کہ دشمن ہر کام کرسکتا ہے لیکن ہم نے پہلے حملے میں ہی دشمن کو شاہراہ سوسنگرد سے عقب نشینی پر مجبور کرتے ہوئے حمیدیہ کی طرف دھکیل دیا۔ اس دوران دشمن کو کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ اس کے بعد دشمن کے بارے میں ہونے والا گمان ختم ہوگیا۔ مجھے یاد ہے کہ اس حملے کے بعد ہم رات کو عراقی کیمپوں میں جاتے تھے۔ حمید چریک نامی ایک دوست تھا جو بعد میں شہید ہوا؛ حمید بعض اوقات موٹرسائیکل پر عراقی سرحد کے اندر جاتا تھا۔ اس وقت کسی کو توقع نہیں تھی کہ اسی سال جنگ ختم ہوگی۔ اگر کوئی کہتا کہ چھے سال بعد جنگ ختم ہوگی تو بھی کسی کو یقین نہ آتا البتہ آٹھ سال بعد جنگ ختم ہوگئی۔ مجھے جنگی امور اور مہم جوئی کا بہت شوق تھا اسی لئے محاذ پر گیا تھا۔ اسی شوق کی وجہ سے شروع میں پندرہ دنوں کے لئے میدان جنگ میں گیا لیکن جنگ ختم ہونے تک واپس نہیں آیا۔
میری نظر میں بہترین کاروائی جس میں میں نے شرکت کی، فتح المبین تھی۔ اس وقت ہمیں ایک یونٹ تشکیل دینے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ میں زخمی تھا۔ شوش اور دشت عباس کے محاذوں پر تعیینات کمانڈر کی جانشینی مجھے سونپی گئی تھی۔ یہ آپریشن کارکردگی کے حوالے سے میرے لئے بہت یادگار اور ناقابل تھا کیونکہ ہمارے پاس اسلحے کی شدید قلت تھی اس کے باوجود مجاہدین نے تقریبا 3000 عراقی سپاہیوں کو گرفتار کیا تھا۔ والفجر 8 آپریشن میں بھی جو کامیابیاں ہمیں ملی تھیں، جوانوں کی تیاری اور محنت و مشقت کے لحاظ سے بہت لذت بخش تھیں۔ کرمان سے تعلق رکھنے والے لشکر ثاراللہ نے اس آپریشن میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ جنگ کی قیادت کرنے والوں کے لئے سب سے دشوار مرحلہ وہ ہوتا ہے جب ان کا کوئی ساتھی شہید ہوجائے۔ اگر شہید ہونے والا اس لشکر کے لئے بنیادی حیثیت رکھتا ہو تو کمانڈر کے غم میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ جس وقت حسن باقری اور مجید بقائی شہید ہوئے تو ہمیں احساس ہوا کہ جنگ کے دوران ہم میں کمزوری آئی ہے۔ شہید حسن باقری میدان جنگ کے بہشتی تھے۔ ان جیسے لوگ جنگی سالاروں کے لئے مشکلات حل کرنے اور دشمن کا دباو کم کرنے کے لئے بہترین مددگار ہوتے ہیں۔
میں کرمان کے یونٹ سپاہ 7 صاحب الزمان کا کمانڈر ہوں۔میں 1337 شمسی میں کرمان کے نواحی گاوں قنات ملک میں پیدا ہوا۔ میں نے میٹرک کرلی ہے۔ میرا گھر میاں بیوی، ایک بیٹا اور ایک بیٹی پر مشتمل ہے۔ انقلاب سے پہلے واٹر بورڈ میں ملازمت کرتا تھا۔ انقلاب اسلامی کے بعد 1379 شمسی کے تیسرے مہینے میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کا رکن بنا۔ جنگ شروع ہوئی۔ ہوائی اڈوں پر عراقی حملوں کے بعد کرمان ائیرپورٹ پر جہازوں کی حفاظت پر مامور ہوا۔ جنگ کے دو یا تین ماہ بعد 300 افراد پر مشتمل گروہ کے ساتھ جنگی محاذ کی طرف نکلا اور اپنے دستے کی قیادت کی۔
محاذ پر پہنچنے کے بعد گمان ہوا کہ دشمن ہر کام کرسکتا ہے لیکن ہم نے پہلے حملے میں ہی دشمن کو شاہراہ سوسنگرد سے عقب نشینی پر مجبور کرتے ہوئے حمیدیہ کی طرف دھکیل دیا۔ اس دوران دشمن کو کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ اس کے بعد دشمن کے بارے میں ہونے والا گمان ختم ہوگیا۔ مجھے یاد ہے کہ اس حملے کے بعد ہم رات کو عراقی کیمپوں میں جاتے تھے۔ حمید چریک نامی ایک دوست تھا جو بعد میں شہید ہوا؛ حمید بعض اوقات موٹرسائیکل پر عراقی سرحد کے اندر جاتا تھا۔ اس وقت کسی کو توقع نہیں تھی کہ اسی سال جنگ ختم ہوگی۔ اگر کوئی کہتا کہ چھے سال بعد جنگ ختم ہوگی تو بھی کسی کو یقین نہ آتا البتہ آٹھ سال بعد جنگ ختم ہوگئی۔ مجھے جنگی امور اور مہم جوئی کا بہت شوق تھا اسی لئے محاذ پر گیا تھا۔ اسی شوق کی وجہ سے شروع میں پندرہ دنوں کے لئے میدان جنگ میں گیا لیکن جنگ ختم ہونے تک واپس نہیں آیا۔
میری نظر میں بہترین کاروائی جس میں میں نے شرکت کی، فتح المبین تھی۔ اس وقت ہمیں ایک یونٹ تشکیل دینے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ میں زخمی تھا۔ شوش اور دشت عباس کے محاذوں پر تعیینات کمانڈر کی جانشینی مجھے سونپی گئی تھی۔ یہ آپریشن کارکردگی کے حوالے سے میرے لئے بہت یادگار اور ناقابل تھا کیونکہ ہمارے پاس اسلحے کی شدید قلت تھی اس کے باوجود مجاہدین نے تقریبا 3000 عراقی سپاہیوں کو گرفتار کیا تھا۔ والفجر 8 آپریشن میں بھی جو کامیابیاں ہمیں ملی تھیں، جوانوں کی تیاری اور محنت و مشقت کے لحاظ سے بہت لذت بخش تھیں۔ کرمان سے تعلق رکھنے والے لشکر ثاراللہ نے اس آپریشن میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ جنگ کی قیادت کرنے والوں کے لئے سب سے دشوار مرحلہ وہ ہوتا ہے جب ان کا کوئی ساتھی شہید ہوجائے۔ اگر شہید ہونے والا اس لشکر کے لئے بنیادی حیثیت رکھتا ہو تو کمانڈر کے غم میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ جس وقت حسن باقری اور مجید بقائی شہید ہوئے تو ہمیں احساس ہوا کہ جنگ کے دوران ہم میں کمزوری آئی ہے۔ شہید حسن باقری میدان جنگ کے بہشتی تھے۔ ان جیسے لوگ جنگی سالاروں کے لئے مشکلات حل کرنے اور دشمن کا دباو کم کرنے کے لئے بہترین مددگار ہوتے ہیں۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب