مواد

شہید سلیمانی طاقتور مظلوم تھے


Jan 02 2021
شہید سلیمانی طاقتور مظلوم تھے
شہید سلیمانی کے مکتب کی بررسی
شہید سلیمانی کے چالیسویں کے موقع پر ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل کے سیکریٹری اور یونیورسٹی کے متعدد پروفیسرز کی موجودگی میں شہید قاسم سلیمانی کے مکتب کے مختلف پہلووں کے بارے میں گفتگو کی۔
کردار نے قاسم سلیمانی کی شخصیت کو پر کشش بنا دیا
یونیورسٹی کے پروفیسرحجت الاسلام والمسلمین علیرضا پناھیان نے اس اجلاس میں اپنی تقریر میں رہبر انقلاب کی طرف سے مکتب قاسم سلیمانی کی نامگذاری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ رہبر انقلاب کے بہترین عکس العمل اس بات کا سبب بنا کہ آج قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد بھی ان کے مکتب کے بارے میں بات چیت کی جا رہی ہے قاسم سلیمانی کے مکتب کا مطلب یعنی ایک انقلابی اور اسلامی مکتب کے بارے میں جو کہ عینی طور توجہ کا مرکز بنا تھا۔
انہوں نے اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ قاسم سلیمانی کی شخصیت اور ان کی شہادت نے معاشرے کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے کہا کہ جب معاشرہ اسلامی مکتب کی عینی شخصیت سے اس طرح متاثر ہوتا لیکن اسلامی مکتب کے نظریات سے اس طرح متاثر نہیں ہوتا شاید ہمیں اسلامی مکتب کے نظریات کو بیان کرنے کے لئے ایک مرتبہ پھر غور و خوض کرنا چاہیے۔
یونیورسٹی کے پروفیسر نے اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس شخصیت اور اس کی شہادت کی مقبولیت کی وجہ کا کئی طریقوں سے جائزہ لیا جا سکتا ہے اگر ہم الحاج قاسم کے اخلاص کی طرف اشارہ کریں تو یہ کہیں گے کہ بغیر طاقت، مزاحمت اور فداکاری کے اخلاص کا یہ اثر نہیں ہوتا لہذا قاسم سلیمانی کا مکتب ایک ایسے معاشرے سے ہے جس کو مختلف عناصر تشکیل دیتے ہیں پناہیان نے خطے میں ایران کے اثر و رسوخ کو حاج قاسم سلیمانی کے مکتب کے عناصر میں سے ایک قرار دیتے ہوئے کہا کہ علاقےمیں ایران کا اثر و رسوخ ہر ایرانی کے لئے فخر کی بات ہے حتی کہ انقلاب کے دشمن اور بیرون ملک رہنے والے بھی اس بات کو مانتے ہیں اگر یہ اثر و رسوخ نہ ہوتا تو شاید ہم حاج قاسم سلیمانی کی کامیابی کو نہیں دیکھ سکتے تھے جو قوم اپنی حدود سے خارج نہ ہو اور اپنی حدود میں رہے تو ان کے پاس قاسم سلیمانی جیسے بہادر نہیں ہوتے انہوں نے بیان کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ قاسم سلیمانی صرف مظلوم نہیں تھے بلکہ مقتدر بھی تھے اسی وجہ سے وہ لوگوں اور اپنی فوج کے درمیان محبوب کمانڈر بنے ہوئے تھے۔
یونیورسٹی کے پروفیسر نےحاج قاسم سلیمانی کے باعمل ہونے کو شہید سلیمانی کے مکتب کا ایک اور عنصر قرار دیتے ہوئے کہا کہ قاسم سلیمانی کا عملی اور اہل عمل ان کی شخصیت کا ایک دوسرا عنصر ہے انہوں نے نہ کسی سے وعدہ کیا ور نہ کسی سے صرف بات کی بلکہ اپنے عمل اور کردار سے ترقی پائی۔
پناہیان نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ جو مکتب اسلامی ہم بیان کرتے ہیں اس سے زیادہ سلیمانی کے مکتب کی جذابیت کیوں پائی جاتی کہا کہ مکتب اسلامی کے نظریے کو ہم معاشرے اور مدرسے میں بیان کرتے ہیں جو عملی میدان سے بہت زیادہ قریب نہیں ہے لہذا قاسم سلیمانی کے عملی ہونے ان کی شخصیت کو ایسا جذاب بنا دیا کہ سب ان کی طرف جذب ہو گئے قاسم سلیمانی نے ثابت کردیا کہ معاشرے کے لئے اہمیت کے قائل ہیں اور تمام انسانوں کا احترام کرتے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قاسم سلیمانی جانتے تھے کہ سالوں سے معاشرے کی محبوب شخصیت تھے لیکن اس کے باوجود بھی شہادت کے عاشق تھے اس طرح کی روحانیت اور اللہ سے رابطہ دوسری معنویات سے بہتر ہیں اور اسی چیز نے قاسم سلیمانی کو مزید محبوب بنا دیا۔
یونیورسٹی کے پروفیسر نے مزید کہا کہ اپنی تقریر کے دوسرے حصے میں اس بات کی طرف اشارہ کی طرف کرتے ہوئے فرماتے ہیں سلیمانی کے مکتب کے مطالعہ کرنے کے لئے دو چیزوں کی بررسی کرنا ضروری ہے سب سے پہلے قاسم سلیمانی کی شخصیت اور لوگوں کے بارے میں مطالعہ کرنا ضروری ہے انہوں نے کہا کہ جب لوگ اس شخصیت کے ساتھ جڑتے ہیں تو معلوم ہونا چاہیے کیوں کہ کس طرح لوگ اس شخصیت کی طرف جذب ہو کر ان سے محب کرتے ہیں۔
پناہیان نے اپنی تقریر کے آخر میں کہا کہ قاسلم سلیمانی اسلام ناب محمدی جو کہ امام خمینی(رہ) نے فرمایا تھا الگ سے نہیں ہیں لیکن کچھ خصوصیات ان کی شخصیت میں موجود تھیں جن سے ہم مکتب اسلام کو معرفی کرتے وقت غافل ہیں لیکن انشاء اللہ قاسم سلیمانی کا مکتب ان غفلتوں کو دور کر دے گا۔
قاسم سلیمانی دشمنوں سے نہیں ڈرتے تھے
مصطفی مصلح زادہ ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل کے سکریٹری اور اردن میں ایران کے سابق سفیر نے اپنی تقریر میں قاسم سلیمانی کی طرف شخصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دنیان میں بہت کم فوجی کمانڈر ایسی حکمت عملی اپناتے ہیں انہوں نے کہا کہ قاسم سلیمانی کی خصوصیات میں سے ایک یہ تھی کہ وہ حکمت عملی بنانے کے بعد میدان عمل میں بھی وارد ہوتے تھے۔
انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ قاسم سلیمانی اسلامی تہذیب اور امریکی قیادت والی مغربی تہذیب کے درمیان ہونے والی جنگ کے کمانڈر تھے انہوں روم جیسی تہذیبوں کے ساتھ ایرانی تہذیب کے کچھ مقابلوں اور صلیبی جنگوں صلاح الدین ایوبی کی جنگوں، سردار امام قلی اور رئیس علی دلواری کی طرف نیز اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان تمام تہذیبوں کے درمیان مقابلے ہوئے ان میں ایرانی تہذیب کو اپنی حدود کے با وجود اپنی صلاحیتوں کے مطابق کامیابیاں اور شکستیں ملی ہیں جن کو ان مناسب وقت پر بررسی کرنے کی ضرورت ہے۔
مصلح زادہ نے کہا کہ غزہ میں 22 دنوں کی جنگ اور حزب اللہ کی 33 دنوں کی جنگ کے بعد 2011 میں شام میں جنگ شروع ہوئی البتہ ایران 2012 تک ظاہر نہیں ہوا اور 2012 کو تیونس کانفرنس میں 60 ممالک کے سامنے خود سوریہ کا دوست بتایا تب تک سوریہ 80 فی صد زمین پر داعش کے جنگجوں نے قبضہ کر رکھا تھا۔
انہوں نے اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جنوری 2012 میں قاسم سلیمانی سوریہ کے صدر کے ساتھ کہ جس نے سوریہ کو ترک کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا اور داعش کے اس کے محل کے قریب پہنچ چکی تھی ملاقات کرتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ ہم جنگ کی کمانڈ اپنے ہاتھ میں لینے کے لئے تیار ہیں اور صدر نے بھی اس بات کو قبول کر لیا سردار قاسلم سلیمانی شہید ہمدانی کو اپنے جانشین کے عنوان سے معرفی کرتے ہیں اور پھر یہاں سے جنگ شروع ہو جاتی ہے۔
اردن میں ایران کے سابق سفیر نے اس بات کی یاد دہانی کرتے ہوئے کہا کہ اس مرحلے میں اسلامی محاذ کی فتوحات کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور 2019 میں جنگ کی صورتحال بالکل الٹ ہو جاتی ہے اور اس طرح شام کی 80 فی صد سرزمین پر فوج کا قبضہ ہو جاتا ہے اور قاسم سلیمانی اپنی فوج کے ساتھ مل کر اس ملک کے ایک عظیم حصے کو واپس لے لیا۔
مصلح زادہ نے روس کے کردار کی طرف بھی اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ 2014 اور پوتین کے ساتھ قاسم سلیمانی کی ملاقات کےبعد روس بھی جنگ میں داخل ہوا لیکن بری فوج کی کمانڈ شہید قاسم سلیمانی کے ہاتھ ہی میں تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ دوسری طرف کی اس تبدیلی اور پیشرفت کے بعد میدان جنگ کو شام سے عراق میں منتقل کر دیا لیکن عراق میں قدس فورس کے 67 کمانڈروں کے ساتھ قاسم سلیمانی کی آمد نے وہاں بھی جنگ کے نقشے کو تبدیل کردیا۔
ثقافتی انقلاب کونسل کے سکریٹری نے اپنی تقریر کے آخر میں کہا کہ قاسم سلیمانی کی سب اہم خصوصیت یہ تھی کہ وہ اپنے دشمن سے نہیں ڈرتے تھے اور تمام دھمکیوں کے باوجود میدان میں جاتے تھے انہوں نے سب سے پہلے دشمن کی پیشرفت کو روکا او اس کے بعد اپنی کامیابیوں کو ان پر مسلط کیا۔
خطے سے امریکی انخلا آج ایک بنیادی مطالبے میں تبدیل ہو چکا ہے
دستاویزی فلم ساز اور ٹی وی پروگرامر نادر طالب آبادی مکتب شہید قاسم کے پہلووں کے بارے میں بررسی کے عنوان سے منعقد ہونے والے اجلاس میں شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کے متعلق مغربی مفکریں اور مصنفین کے نظریات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کہ امریکہ کے صدر کے حکم سے داعش کے خلاف لڑنے والے سب سے بڑے کمانڈر کا قتل کیا گیا ہے یہ ان لوگوں کے لئے ابھی ہضم نہیں ہے اور امریکی مفکرین اور مصنفین ٹرمپ سے نفرت کرتے تھے لیکن اس واقعے کے بعد اور بھی زیادہ نفرت ہوگئی۔
انہوں نے مزید کہامیں آسکر ڈایٹر نامی ایک امریکی مصنف کے ساتھ انٹرویو کی تلاش میں تھا اور میں نے اس بات کی بہت عرصے تک کوشش کی لیکن میں اس میں کامیاب نہیں ہوا لیکن قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد اس نے ہمیں فون کیا اور کہا کہ وہ ہمارے ساتھ رہنا انٹرویو کرنا چاہتاہے۔
دستاویزی فلم بنانے والے اور ٹی وی پروگرامر نے مزید کہاایسا لگتا ہے کہ قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد ہم ایک نئے دور میں داخل ہوچکے ہیں جس سے ہمیں فائدہ لینا چاہیے ہم نرم جنگ کے میدان میں بھی متحرک اور جارحانہ ہوسکتے ہیں اور دوسری طرف کو چیلنج کرسکتے ہیں۔
افق روشن کانفرنسوں کا حوالہ دیتے ہوئے طالب زادہ نے کہاہمیں بغداد میں اپنی اگلی کانفرنس کا آغاز خطے سے امریکی فوجیوں کے انخلا پر مرکوز کرتے ہوئے کرنا تھا جو سردار قاسم سیمانی کی شہادت کے بعد علاقے کے عوام کا سنجیدہ مطالبہ بن گیا ہے۔
انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ نرم جنگ کا اثر سخت جنگ سے کم موثر نہیں ہے کہا کہ قاسم سلیمانی ایک بہترین حکمت عملی کے مالک تھے جو نرم جنگ کو سمجھتے تھے ہماری آج کا انتظام مختلف ہے اور ہمیں خطے سے امریکی فوج کے مکمل انخلا کے معاملے پر زور دینا ہوگا۔


نظری برای این مطلب ثبت نشده است.

رائے

ارسال نظر برای این مطلب