جنرل شہید قاسم سلیمانی نے اپنی زندگی کا اکثر وبیشتر حصہ باطل کے خلاف حق کے محاذوں پر گزارا ، کیونکہ وہ مولا امیرالمومنین علی علیہ السلام کے کلام سے بخوبی واقف تھے: میں اس ذات کی قسم کھا رہا ہوں جس کے قبضہ ٔ قدرت میں ابوطالبؑ کے بیٹے کی جان ہے، تلوار کی ایک ہزار وار مجھ پر بستر پر موت سے زیادہ آسان ہے۔ جیسا کہ علی علیہ السلام نے اپنے عہد نامہ کے آخر میں مالک اشتر کو لکھا : ” میں خدا سے اس کی رحمت کی وسعت اور قدرت کی عظمت (جسے وہ چاہے عطا کرے) کا واسطہ دے کر اس سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ میری اور تمہاری زندگی کا انجام نیک بختی اور شہادت قرار دے۔ شہید قاسم سلیمانی نے بھی ” وقتی مہتاب گم شد” نامی کتاب پڑھنے کے بعد کتاب کی ابتدا میں اس کے راوی کی جانب لکھا: “جبکہ میں کل کے سینکڑوں شیروں میں سے ایک شیر سے اپنے آپ کو جوڑنے کی امید میں بہت بیتاب ہوں، اور میں کیا کروں؟ جیسے درد میں مبتلا ہو گیا ہوں۔ آج اس درد نے میرے پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیاہے، میں اکیلا ہی اکیلا رہ گیا ہوں” ۔ انہوں نے بھی خداوندمتعال سے موت یعنی شہادت طلب کی۔ اگرچہ دلوں کے رہبرحضرت آیت اللہ خامنہ ای دام ظلّہ کی جانب سے انہوں نے زندگی میں ہی “زندہ شہید” کا لقب لے لیا تھا۔
شہادت طلبی کا جذبہ
Dec 31 2020
رائے
ارسال نظر برای این مطلب