مواد

سردار سلیمانی کی شخصیت کے مختلف پہلو


Jan 03 2021
سردار سلیمانی کی شخصیت کے مختلف پہلو
سردار سلیمانی کی شخصیت کے مختلف پہلو
میری نگاہ میں حاج قاسم کے متعلق ہمیں کچھ چیزوں کا خیال رکھنا چاہئے  جن میں سے ایک نا مناسب چیزوں کو ان کی طرف منسوب نہ کیا جائے اور دوسرا ان کی شخصیت کو مسخ کرنے سے اجتناب کریں۔  یہ چیزیں بہت خطرناک ہیں کہ جن کے خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں اور ان  کا مقابلہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔  آیۃ اللہ بھجت، آقای شاہ آبادی  اور دیگر افراد کے متعلق بہت زیادہ مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا۔  یہ بات درست ہے کہ پاک و پاکیزہ افراد صاحب کرامت ہوتے ہیں  اور پر معنی باتیں کرتے ہیں  اور ممکن ہے کہ ان کی زندگی میں فوق العادہ اتفاقات رونما ہوئے ہوں دوسرا مسئلہ یہ کہ ہمیں خیال رکھنا ہو گا کہ ان کی شخصیت تحریف نہ ہو انکی زندگی میں ولایت مداری سب سے اعلی مرتبہ ہے اورجہاد قیادت کے ارادہ کو تحقق بخشنے کے لئے تھا قاسم سلیمانی کی ولایتمداری کے کمال کے مرحلے پر فائز تھے۔
نیروی قدس کیون بنائی گئی
انقلاب کی صورتحال ایسی تھی کہ جس کو ایران کی سرحدوں میں منحصر نہیں کیا سکتا تھا دوسرا نکتہ یہ تھا کہ خطے میں فکری اور انقلابی تحریکیں شروع ہو چکی تھیں جیسے  مصر میں اخوان المسلمین،الجزائر میں نجات اسلامی گروہ،فلسطین میں اسلامی تحریک حماس اس دوران ایران میں بھی میں انقلابی تحریکیں قائم ہوئیں  آفس آف لبریشن موومنٹ کی طرح  جس کے مرکزی ممبر نے یقینا نطام کے لئے بہت ساری مشکلات پیدا کیں سید مہدی ہاشمی جو کہ منتظری کے دفتر سے وابستہ تھے اس تحریک کے سربراہ تھے  اور اس طرح کی بہت ساری تحریکوں سے جڑے ہوئے تھے اگر ان کو کنٹرول نہ کیا جاتا تو بہت زیادہ مشکلات پیدا کرتے
اہداف اور عظیم الشان نظریات کے لحاظ سے ان تحریکوں کی انتہائی ضروریات اور اسلامی انقلاب کے مفادات کا تقاضا یہ تھا کہ ان تحریکوں کی فکر و نظریہ اور روحانیت کے صحیح معنوں میں رہنمائی اور ان کی تائید کے لئے ایک ہدایت یافتہ اور منظم تنظیم تشکیل دی جاسکے۔ بہترین آپشن وہی تھا جوا ہوا یعنی ایک انقلابی ادارے کی طرف سے ایک قوی کام ہوا جو سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ہے۔
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر کا تقرر براہ راست کمانڈر انچیف کے ذریعے کیا جاتا ہے اور سپاہ قدس کے کمانڈر کو بھی کمانڈر انچیف کے ذریعے تعینات کیا جاتا ہے اور براہ راست رہبر انقلاب کی اس انقلابی ادارے کی  رہنمائی  میں اعلٰی اور جامع اقدام  یہی تھا کہ متعدد اہداف کے حصول کے لئے قدس فورس بنائی جائے، پہلا ہدف انقلاب اسلامی ایران کے نعروں کی جہتیں فراہم کرنا تھا یعنی وہی نعرہ نہ مشرقی اور نہ ہی مغربی  متکبروں کا مقابلہ کرنے اور مظلوموں کا دفاع کا نعرہ اسلامی انقلاب کا بنیادی نعرہ تھا۔
ان نعروں کو پورا کرنا تھا دوسرا مقصد مغربی ایشیاء ، وسطی ایشیاء ، اور مشرقی ایشیاء میں خطے کی وسیع پیمانے کی ضروریات کو حل کرنا تھا۔ تیسرا مسئلہ انقلاب کی ثقافت کی منتقلی یعنی وہی بسیجی ثقافت۔
چوتھا مسئلہ مزاحمت کے تفکرات کو قوی کرنا تھا اور پانچواں مسئلہ فلسطین کا دفاع اور عصری تاریخ میں عالم اسلام کے سب سے اہم مسئلے کی حیثیت سے اس کی نجات تھی ان چند اہداف کی وجہ سے ایک فوج قدس فوج کے نام سے بنی تاکہ ان اہداف کو عملی جامہ پہنایا جا سکے اور حقیقت میں جس شخص نے رہبر معظم کے نظریات کو عملی جامعہ پہنایا اور مجسم کیا وہ قاسم سلیمانی ہی تھا وہ دنیا میں اپنا ایک صاف اور شفاف ریکارڈ چھوڑنے میں کامیاب ہوئے اور ان کی یہ خدمات ہمیشہ کے لیئے تاریخ میں باقی رہیں گی اور ان کے لگائے ہوئے درختوں کے میووں سے مظلوم اور مستضعفین فائدہ اُٹھائیں گے۔
قاسلم سلیمانی کے فوجی نظریے میں وسیلے کا جواز
قاسم سلیمانی کے فوجی نطریے کی بنیاد اور اصل جائز اور شرعی وسیلے پر تھی یعنی ان کی موجودگی میں کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کبھی بھی حرام ذرائع کا استعمال کرنا ممکن نہیں تھا۔وہ اپنی ایک تقریر میں علاقے میں موجود فوجیوں کو وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ محتاط رہیں کہ لوگوں کے گھروں میں داخل نہ ہوں یا لوگوں کا سامان استعمال نہ کریں یہاں تک کہ اس قتل و غارت سے جس کی اپنی وجوہات جس کی اپنی جگہ ہے اس خود ساختہ مذہبی تحریک کے اہداف اور ڈھانچہ نظام کے مطابق نہیں ہے۔
ان کے لیئے سب سے اہم مسئلہ کیا تھا جس پر پوری طرح توجہ دیتے تھے؟
سب سے اہم مسئلہ سے جس کی طرف وہ سب سے زیادہ توجہ دیتے تھے قیادت تھی اور اگر آج ہم قاسم سلیمانی کی تعریف کر رہےہیں اور ان کے نمایاں کاموں کا ذکر کر رہے ہیں تو یہ سب اس رہنمائی کا نتیجہ ہے جس سے سپاہ پاسداران اور قدس فوج مسفیذ ہیں۔
سردار سلیمانی نے امریکی منصوبوں کو نابود کر دیا
مغربی ایشیائی خطے میں ہم نے تاثیز گزار واقعات دیکھے ہیں  مثال کے طور پر بش کی سربراہی میں  امریکی حکمت عملی نے عسکریت پسندانہ انداز اختیار کیا دوسرے الفاظ میں یعنی امریکا کو عالمی سطح پر تین سنگین چیلنجوں کا سامنا تھا پہلا چیلنج روس کے ساتھ فوجی چیلنج تھا،دوسرا چیلنج چین کے ساتھ اقتصادی چیلنج تھا،تیسرا چیلنج ایران کے ساتھ فکری اور تہذیبی چیلنج تھا جس کو وہ دوسروں سے زیادہ سنگین سمجھ رہے تھے اور وہ یہ سوچنے لگے کہ انھیں اس وقت اسلامی انقلاب سے زیادہ خطرہ ہے اگر اس انقلاب کو کنٹرول نہ کیا گیا تو امریکی آمریت کو سنگین چیلینجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔
گیارہ ستمبر کے واقعات نے امریکا کو موقع فراہم کیا اور بش نےایران کے مشرق میں افغانستان اور مغرب میں عراق پر قبضہ کیا جب کہ اس سے پہلے انہوں مشرق وسطی کو اپنا ہدف قرار دیا ہوا تھا اصل میں مغربی ایشیاء میں کافی عرصے سے امریکی5 اہم اہداف کا پیچھا کر رہے تھے ان کو پہلا کا ہدف چین اور روس کو مداخلت سے روکنا تھا  دوسرا مقصد اسرائیل کو نیل سے لے کر فرات تک ترقی یافتہ بنانا تھا تاکہ وہ اپنے مفادات کو برقرار رکھ سکے،تیسرا ہدف اپنی طاقت کی حفاظت اور اس پر تسلط حاصل کرنا تھا،چوتھا ہدف اسلام کی نشر و اشاعت کا مقابلہ اور پانچواں ہدف اسلامی انقلاب ایران کے ساتھ مقابلہ تھا یہ 5 اہداف گذشتہ 3 دہائیوں سے طے ہوئے تھے جن میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ممکن ہے حکمت عملی میں تبدیلی ہو لیکن ہدف وہی ہے۔
 
اس معاملے میں اسلامی انقلاب کا خاتمہ ایک بنیادی اہداف تھا  لیکن اس کے طریقے اور تدبیریں مختلف ہیں اس وقت  مسٹر بش امریکی گریٹر مڈل ایسٹ کی تشکیل کرنے آئے تھے وہ کہاں سے شروع کریں؟ یہ ایک سلسلہ ہے جس نے شام ، عراق اور ایران کو نشانہ بنایا۔
لیکن اس کا آغاز حزب اللہ سے ہونا تھا جو کہ ایک نیابتی جنگ تھی ان کا یہ ماننا تھا کہ اگر انہوں نے ایران یا شام یا عراق پر حملہ کیا تو ان کے پانچ اہداف میں سے ایک  اسرائیل خطرے میں پڑ جائے گا، حالانکہ ان کا اصلی ہدف اسرائیل کی حفاظت تھی لہذا وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ سب سے پہلے حزب اللہ کو ختم کریں کیوں کہ اگر انھیں دوسرے اہداف حاصل کرنا ہیں تو حزب اللہ کو راستے سے ہٹانا ہوگا لہذا مشرق وسطی کی شروعات حزب اللہ سے ہوئی اور اس کی ساری پلاننگ وہیں سے ہوئی۔
اسلامی انقلاب کا کردار یہاں سے شروع ہوا اور یہاں پر قاسم سلیمانی نے ایک اہم اور ہمیشہ زندہ رہنے والا کردار ادا کیا تھا۔اگرحزب اللہ ہار جاتا توان کا یہ سلسلہ آگے بڑھتا۔ قاسم سلیمانی کا کردار یہ تھا انہوں نے امریکی منصوبوں کا وہیں دم گھوٹ دیا اور حزب اللہ اسرائیل کے مقابلے میں کھڑا کر دیا
محترمہ رائس سے پوچھا گیا کہ یہ جو قتل عالم آپ کر رہے ہیں یہ کیا ہے؟
کہتی ہیں کہ مشرق وسطی کا درد بہت زیادہ ہے لہذا یہ بات معلوم تھی کہ یہ ایک نیابتی جنگ ہے امریکا کی حکمت علمی فوجی طاقت اور ثقافت پر مشتمل تھی جیسے مقدسات پر حملہ،قرآن کو آگ لگانا جنگ صلیبی تھی جو اسلام اور مغربی تہذیب کے مابین ایک محاذ آرائی تھی،آخر کار بش کو خالی ہاتھ میدان چھوڑ کر جانا پڑا۔
عراق میں بھی قاسم سلیمانی اور دیگر افراد کا کردار بہت کارآمد تھا۔
امریکی حکومت بنانا چاہتے تھے بش کے تین یا چار اہداف تھے  جیسے ریاستی تعمیر ، ادارہ سازی ، اور اسلامی انقلاب کو ختم کرنا یا اس پر قابو پانا لیکن ان کو چار سال کے بعد بہت خرچ کرنے کے بعد خالی ہاتھ جانا پڑا تھا یعنی انہوں نے عراق میں  چھ ساتھ کھرب ڈالر خرچ کئے اوراس دوران تقریبا چار ہزار فوجی بھی ہلاک ہوئے لیکن انہیں کچھ نہیں ملا افغانستان میں بھی ایسا ہی تھا اور اسی طرح افغانستان میں بھی دو دہائیوں کے بعد بھی خرچ کر رہے ہیں لیکن ابھی تک کچھ حاصل نہیں کر سکے امریکی منصوبوں کے خلاف قاسم سلیمانی کا کردار ایک دو مورد میں نہیں تھا۔
امریکیوں نے عراق میں شیعہ نامی سیکولر ٹیکنوکریٹ حکومت کا تسلط حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن ایسا کیوں نہیں ہو سکا اور اس دور میں جناب نوری مالکی وزیر اعظم بنے یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کو تاریخ بعد میں لکھی گی اور بیان کرے گی۔ بہت سارے سخت مسائل پیش آئے اور عراق کو امریکہ کے چنگل سے بچانے اور مستقل کرنے کے لئے قاسم سلیمانی نے جو کام کئے اس سے امریکہ کی ساری زحمتیں بیکار ہو گئی۔
 
مسٹر بش نے محسوس کیا کہ براہ راست عسکریت پسندانہ جنگ سے فائدہ نہیں ہوگا  اور امریکی حکمت عملی2007  اور 2008 کے بعد آہستہ آہستہ  بدل گئی اور براہ راست جنگ کی جگہ نیابتی جنگ نے لےلی اور اصل میں جنگ اسلامی معاشرے میں منتقل ہو گئی جو کہ بہت بڑا خطرہ تھا جیسے کہ مصر کی فوج،یمن، عراق اور شام کو متزلزل کر دیا جس سے عالم اسلام کو بہت زیادہ نقصان ہوا۔ عالم اسلام کو اس  سے پیسوں اور انسانی قوت کا نقصان بھی ہوا ایران نے یہاں پر کیا کردار ادا کیا تاکہ وہ اس طرح کے منصوبوں کا مقابلہ کر سکے ایران کا کرداد کافی اہم تھا اس نیابتی جنگ میں ان کا اصلی ہدف ہم تھے وہ ہمیں میدان میں لانا چاہتے تھے۔
صدام کے کویت پر قبضے کے بعد جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو پارلیمنٹ کے متعدد ارکان نے آقا کو خط لکھا کہ وہ خالد بن ولید بن گیا ہے اور ہمیں صدام کی مدد کرنی چاہیےامام خمینی (رح) کا ماننا تھا کہ صدام کے ساتھ امریکہ کی جنگ گدھوں کی جنگ ہے یہ ایک عاقالانہ تدبیر تھی جو انہوں نے اختیار کی تھی اسلامی دنیا پر نیابتی اور ثقافتی جنگ مسلط کی گئی تھی اور شام اور عراق کو خانہ جنگی ور پراکسی جنگ کے لیئے تباہ کر امریکہدیا گیا تھا جب کہ کی رہنمائی میں سعودی عرب، امارات اور دوسرے ممالک کے پیسوں ، ہتھیاروں اور فوجیوں کی مدد سے داعش جیسی دہشت گرد تنظیم کو بنایا جس نے عراق کے کچھ حصے پر قبضہ کر لیا اور وہ اس لڑائی کو شام تک لے گئے۔
ان کا ہدف ایران تھا لیکن وہ دمشق اور بغداد پر قبضہ کرنے کے بعد ایران کی طرف بڑھنا چاہتے تھے اب یہاں پر اس منصوبے سے نمٹنے کے لئے قاسم سلیمانی کا کیا کردار تھا؟ اور ان کی کیا حکمت عملی تھی؟ اور اگر بغداد پر قبضہ ہو جاتا تو کیا ہوتا؟
حالات کچھ ایسے تھے کہ خود بشار اسد نے کہا تھا کہ ہمارے پڑوسی فرار ہوگے ہیں اور صرف میں بچا ہوں لیکن قاسم سلیمانی نے بشار اسد سے کہا ہم دمشق کو نجات دلانے میں  آپ کی مدد کر سکتے ہیں۔
وہ تجاویز جنہیں بشار اسد نے قاسم سلیمانی کے اصرار پر قبول کیا
قاسم سلیمانی کی تجویز یہ تھی کہ شیعوں اور علویوں کو مسلح کریں جناب بشار اسد صاحب بہت زیادہ اس بات کے حق میں نہیں تھے لیکن قاسم سلیمانی کے اصرار کے بعد انہوں نے قاسم سلیمانی کی تجویز پرعمل کرتے ہوئے شیعوں،علویوں اور متعدد دیگر گروہوں کو مسلح کیا اور دمشق شہر کو چار حصوں میں تقسیم کیا اور کہا کہ ہر ایک اپنے حصے کی حفاظت کرے اور استحکام ، دفاع اور حملہ یا محاذ آرائی کے تین مراحل تیار کیے گئے تھے اور آہستہ آہستہ دمشق کو دہشتگردوں سے صاف کر دیا،آج کہاں اور وہ دن کہاں عراق میں بھی اسی طرح تھے میں ایک رات کاظمین میں تھا اور حشد الشعبی کے کچھ کمانڈر بھی وہیں تھے انہوں نے زور دے کر کہا کہ تین عوامل نے عراق کو بچایا ، پہلا اسلامی جمہوریہ ایران ، جس کا مطلب تھا رہبر انقلاب اسلامی اور قاسم سلیمانی کے ساتھ کام کرنے والے فوجی تھے دوسرا مرجعیت  اور تیسرا حشد الشعبی تھی۔
ان تین عوامل نے عراق کو گرنے سے بچایا اور بغداد کو باقی رکھا شام اور عراق میں چار پانچ اہداف تھے شام میں ، پہلا مقصد شام کی آزادی پر منحصر تحریک کو برقرار رکھنا تھا جس کے ماسٹر مائنڈ بشار اسد تھے قاسم سلیمانی اس بات کی بہت زیادہ کرتے تھے کہ اگر بشارد اسد میدان چھوڑ دیتے تو سب کچھ خراب ہو جاتا۔
شام میں ہمارا ہدف استقلال اور مزاحمت کو بر قرار رکھنا تھا اگر شام مزاحمتی حلقے سے الگ ہوجاتا تو مزاحمت سے ہمارا رابطہ ختم ہوجاتا۔اردگان شام کو اخوان المسلمین کے ساتھ ملحق کرنا چاہتا تھا کیوں کہ وہ بھی اخوانی تھا مصر میں مرسی اور حماس بھی اخوانی تھے اور شام بھی اخوانی تھے یہ وہ ٹوپی تھی جو امریکیوں نے پہنائی تھی کیونکہ امریکیوں کا یہ خیال تھا کہ اخوان کو کنٹرول کرنا شیعہ کریسنٹ کا مقابلہ کرنے سے کہیں زیادہ آسان ہے۔
ہم جس صورتحال میں تھے اس کو سمجھنا بہت ضروری تھا۔یہ قاسم سلیمانی کی ہوشیاری تھی جو ان منصوبوں اور سازشوں کو سمجھتے تھے اور وہ جانتے تھے مثال کے طور پر ، اردگان ، سعودی عرب یا دوسرے ممالک کیا کرنا چاہتے ہیں۔
اگلا مقصد اہلبیت عظمت و طھارت کے تقدس کا دفاع کرنا تھا  حریم اہل بیت کے دفاع کا معاملہ واقعا ایک اہم حکمت عملی تھی شام میں ہماری موجودگی سلامتی ، اسٹریٹجک اور لازمی  تھی۔ یعنی اگر بغداد اور دمشق پر قبضہ ہوگیا  تو تہران بھی خطرہ میں پڑ جائے گا۔شام میں ہماری موجودگی سلامتی ، حکمت عملی اور ہماری ذمہ داری تھی اگربغداد اور دمشق پر قبضہ ہوجاتا تو تہران بھی خطرے میں پڑھ جاتا۔
قاسم سلیمانی  کے تشیع جنازے کے  دن  ایک عورت سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ کیوں آئی؟ انہوں نے جواب دیا کہ اگر قاسم سلیمانی نہ ہوتے تو داعش تہران میں ہوتی۔
میں جنگ کے دوران سے ہی آپریشنوں میں حصہ لے رہا ہوں لیکن قاسم سلیمانی سے زیادہ آشنا نہیں تھا وہ ثاراللہ لشکر کے کمانڈر تھے میں اینٹیلی جینس میں آنے سے پہلے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی یونٹ میں جناب فاکر صاحب کا نمایندہ تھا لیکن اینٹلی جنس میں آنے کے بعد ہمارے تعلقات بڑھ گئے ہمارے گہرے تعلقات تھے اور میں بھی اکثر اوقات ان کی طرف رجوع کرتا تھا اور وہ بھی میری عزت کرتے تھے۔
طہ ہوا تھا کہ قدس فورس میں کچھ تبادلے کئے جائیں تو میں نے متعلقہ شخص کو قاسم سلیمانی کے پاس بھیجا تو انہوں نے فرمایا کہ جناب سعیدی صاحب  جس کو بھی رکھیں گے مجھے کوئی اعترض نہیں صرف جائنگ کے وقت سے مجھے آگاہ کردیں مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کیونکہ کچھ لوگ اس بارے میں موقف اختیار کرتے ہیں کہ آپ ایسا کیوں کرنا چاہتے ہیں اور آپ نے ہمیں پہلے کیوں نہیں بتایا جب میں نے دیکھا انہوں نے ہمیں بہت زیادہ اختیار دیا ہے  تو میں نے تین نام ان کے سامنے پیش کئے اور ان سے عرض کیا کہ جس کو چاہیں انتخاب کر لیں ہمیں کوئی اعترض نہیں اور انہوں نے بھی ان ناموں میں سے جناب شیرازی صاحب کو انتخاب کیا اور ہم نے ان کو جائن کروایا۔ ایک شر پسند کی گرفتاری پر رھبر انقلاب اسلامی کا قابل توجہ رد عمل
ایک دن شھید رکن آبادی  کہ جو لبنان کے سفیر تھے اور منا کے حادثے میں شھید ہو گئے تھے، میرے پاس آئے اور کہنے لگے  کہ میں آپ کو ایک واقعہ سنانا چاہتا  ہوں۔  انہوں نے کہا کہ حاج قاسم نے جو ایک اہم کام کیا وہ شام کے اعلی کمانڈروں  میں تحرک پیدا کرنا تھا  جس کی بدولت وہ مختلف طریقوں سے آگےبڑھ رہے ہیں۔
ایک دن انہوں نے میٹینگ کی اور شامی فوج کے اعلی عہدے داروں اور کمانڈروں کو جمع  کیا اور ان سے کہا ، صرف حمص تک کیوں، ہم حلب تک کیوں نہیں جاتے؟
انہوں نے جواب دیا کیونکہ وہاں دشمن تعداد میں زیادہ ہیں اور خطرناک ہیں۔  قاسم  سلیمانی بھیس بدل کر اس علاقے میں گئے اور واپس آ کر پھر ایک میٹینگ رکھی اور سب کو بتایا کہ دشمن کی تعداد زیادہ نہیں ہے اور اس سے مقابلہ کیا جا سکتا ہےاور انہوں نے مقابلہ کی حکمت عملی بھی بیان کی۔  ایک کمانڈر نے کہا کہ آپ کے کوٹ کا بٹن میرے تمغوں سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔آپ دوسرے ملک سے آ کے ہمارے لئے جان قربان کر رہے ہیں لیکن ہم اپنی سرزمین کی حفاظت نہیں کر پا رہے۔
قاسم سلیمانی کا کہنا تھا کہ ایک مرتبہ ہم نے ایک شر پسند کو گرفتار کیا اوراس کی خبر رہبر معظم تک پہنچائی۔ آقا نے پوچھا  کہ آپ نے اسے کیسے گرفتار کیا؟  ہم نے بتایا کہ ہم نے اسے بخش دیا تھا،  آقا نے فرمایا کہ معاف کرنے کے بعد گرفتار کیا؟ یہ صحیح نہیں ہے۔اس نے آپ پر یقین کیا تھا تو آپ کو بھی اسے آزاد کر دیا چاہئے۔  حاج قاسم کا کہنا تھا کہ یہ میرے لئے بہت عجیب بات تھی لیکن چونکہ رہبر معظم کا فرمان تھا اس لئے ہمیں اسے آزاد کرنا پڑا۔ یہ وہ ظرافتیں ہیں کہ جو ایک انسان کے متعھد ہونے کی نشاندھی کرتی ہیں  یعنی  زمانے کے رھبر کے متعلق کسی شک و تردید کے نہ ہونے پر متعھد ہونا۔
اگر کسی کے پاس دیسی ہتھیار موجود ہیں تو وہ آگے بڑھ کر دشمن کا مقابلہ کر سکتا ہے سعودی عرب جیسی نا کارہ اور دوسروں پر منحصر طاقتوں کے بر عکس  کہ جن کے پاس خود کے میزائیل بھی نہیں ہیں۔ حماس حزب اللہ اور یمن اس سے مختلف ہیں انہوں نے اپنے داخلی وسائل کا استعمال کیا ہے۔ حاج قاسم سلیمانی کی صلاحیتوں میں سے ایک، علاقائی اور مقامی ہتھیاروں کے ذریعے مزاحمتی تنظیموں کو طاقت فراہم کرنا ہے۔ حاج قاسم کا دوسرا ہدف کہ جس میں وہ کامیاب ہوئے خطے میں امن و امان کا قیام تھا۔ حاج قاسم بعض لوگوں کی طرح صرف داخلی سلامتی کی حد تک نہیں دیکھتے تھے  کہ جو صرف داخلی سلامتی پر زور دیتے ہیں  اور کہتے ہیں کہ عراق اور شام میں ہمارا کیا کام ہے؟  سلامتی اور امنیت کے متعلق ان کی سوچ محدود ہے حتی کہ امنیتی اداروں میں کام بھی کر چکے ہوں۔  حاج قاسم  علاقائی اور بین الاقوامی امنیت کے قائل تھے۔  یعنی ہماری سلامتی پورے خطے کی سلامتی سے منسلک ہے اور اگر ہم  اپنی سرحدوں سے باہر اپنا دفاع نہیں کریں گے تو ہمیں تہران میں اپنا دفاع کرنا پڑے گا۔  ایک تیسرا مسئلہ کہ جو حاج قاسم کی نگاہ میں اہمیت رکھتا تھا وہ غیر مساوی اور متنازعہ جنگ تھی کہ جو رہبر معظم کی جانب سے بیان کئے گئے مھم اصولوں میں سے ایک ہے۔  رہبر معظم نے ایک مقام پر فرمایا تھا  کہ ممکن ہے  دشمن کے پاس ایسے وسائل ہوں کہ جو آپ کے پاس نہیں ہیں،  لہذا آپ بھی ایسی  چیزوں کو حاصل کریں کہ جو دوسروں کے پاس نہیں ہیں اور مناسب وقت پر ان کا استعمال کریں۔
حاج قاسم نے غیر مساوی طاقت کو غیر متناسب طاقت میں تبدیل کر دیا۔ امریکہ، چین اور روس جیسی برابری والی طاقتیں موجود ہیں  ایسی صورتحال میں ایک کم طاقت والے ملک کو اپنی  طاقت کو اس حد تک بڑھانا ہوگا کہ جہاں وہ اسرائیل کے مقابلے میں حزب اللہ کی طرح غیر متزلزل ہو جائے،  یعنی اگر اسرائیل حملہ کرتا تو حزب اللہ ۱۰۰ میزائیل فائر کرے گی اور اسی طرح حماس بھی۔  یہ حاج قاسم کا ہنر تھا  کہ انہوں غیر مساوی جنگ کو  متنازع جنگ میں تبدیل کر دیا۔
اس کے بعد حاج قاسم کی شھادت کی بات ہے کہ جو خطے سے امریکہ کا بوریا بستر گول کرنے کا باعث بنی  کہ جس کے شواھد قابل مشاہدہ ہیں۔ سردار سلیمانی کی شھادت کا دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی شخصیت کا جادو دنیا کے ہر کونے تک پہنچ گیا۔
سردار  سلیمانی کے کردار کو مسخ کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔
میری نگاہ میں حاج قاسم کے متعلق ہمیں کچھ چیزوں کا خیال رکھنا چاہئے  جن میں سے ایک نا مناسب چیزوں کو ان کی طرف منسوب نہ کیا جائے اور دوسرا ان کی شخصیت کو مسخ کرنے سے اجتناب کریں۔  یہ چیزیں بہت خطرناک ہیں کہ جن کے خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں اور ان  کا مقابلہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔  آیۃ اللہ بھجت، آقای شاہ آبادی  اور دیگر افراد کے متعلق بہت زیادہ مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا۔  یہ بات درست ہے کہ پاک و پاکیزہ افراد صاحب کرامت ہوتے ہیں  اور پر معنی باتیں کرتے ہیں  اور ممکن ہے کہ ان کی زندگی میں فوق العادہ اتفاقات رونما ہوئے ہوں، لیکن کوشش کریں  کہ ان کی شخصیت مسخ نہ ہو۔
کیا رہبر معظم کے متعلق حاج قاسم کا نظریہ  (Optional)آپشنل تھا؟
حاج قاسم  کی ولایت محوری ، پانچ مراحل سے گذر چکی تھی، کہ جن میں سے پہلا مرحلہ  تدابیر کو سمجھنا تھا۔  یعنی ولایت کا صحیح مطلب سمجھنا۔  دوسرا ولایت پر ایمان  تھا، یعنی ولایت فقیہ پر ایمان رکھتے تھے۔
کیا حکمران اور پارلیمنٹ کے نمایندگان بھی ایسے ہی ہیں؟
تیسرا حامی ولایت ہونا تھا ، یعنی حمایت میں دن اور رات نہیں دیکھتے تھے۔  چوتھا ولایت کا دفاع کرنا تھا، یعنی ہمیشہ اور پورے وجود کے ساتھ ولایت کے دفاع میں کھڑے رہتے تھے۔  مختلف مقامات پر بالخصوس رہبر معظم کے سلسلے میں انہوں نے مختلف لوگوں کے ساتھ تبادلہ خیال کیا اور ان کے ساتھ بحث کی۔  پانچواں اور سب سے مھم مرحلہ رھبر کے ارادوں کو پورا کرنے کے لئے جھاد کرنا تھا۔  اور یہ مرحلہ  حاج قاسم کی ولایت محوری کے کمال کا مرحلہ ہے۔


نظری برای این مطلب ثبت نشده است.

رائے

ارسال نظر برای این مطلب