عراق میں شہید سلیمانی کی کئی سالہ موجودگی اور داعش کے خلاف جنگ میں نوری مالکی کی ناگفتہ باتیں
نوری المالکی، عراقی صدر کے نائب اور اس ملک کی اسلامی دعوۃ پارٹی کے سربراہ ایک ایسے سیاستدان ہیں جو ایران کو بخوبی جانتے ہیں۔ وہ ۲۰۰۶ سے ۲۰۱۵ تک عراق کے وزیر اعظم رہے ہیں ایران اور حاج قاسم سلیمانی سے ان کے مستقل تعلقات تھے۔ انہوں نے عراق میں داعش کے داخلے اور حشدالشعبی کی تشکیل اور عراق کو داعش سے نجات دینے میں حاج قاسم کی کردار پر گفتگو انجام دی۔
نوری المالکی نے ” ویژہ نامہ مکتب حاج قاسم” نامی مجموعہ کے ساتھ گفتگو میں حشدالشعبی کی تشکیل کے ابتدائی دنوں سے لے کر داعش کے خلاف اس فورس کی اہم کاروائیوں میں حاج قاسم سلیمانی کے ساتھ ان کی بہت سی گفتگو ہے کہ ذیل میں اس کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے۔
داعش کا بحران کب شروع اور یہ تنظیم عراق میں کیسے داخل ہوئی؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم، خداوند دو عظیم اور عزیز شہداء حاج قاسم سلیمانی اور حاج ابو مہدی المہندس پر رحمت نازل کرے، جہاد، خدمات، تلاش اور پائداری کے انجام کے عنوان سے وہ شہادت کے حقدار تھے، ہم نے ان کے ساتھ مشکل وقت گزارا لیکن اچھا وقت تھا کیونکہ ایمان، خدا پر اعتماد اور دین، نظام اور قانون شکنی کرنے والوں کا سامنا کرنے میں عشق و محبت سے لبریز وقت تھا۔
داعش کا مسئلہ سلامتی کا مسئلہ بننے سے پہلے درحقیقت ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ داعش ان موقفوں اور تنازعات اور بحرانوں کا نتیجہ ہے جو خطے میں پائے جاتے تھے، بحیثیت عراقی اور اسلامی جمہوریہ ہمارے درمیان کہ جسے ہم مزاحمت کا علاقہ کہنے کا حق رکھتے ہیں، مزاحمت اپنی تمام شاخوں اور ٹہنیوں کے ساتھ اپنے متحرک اور قوی مرکز یعنی جمہوری اسلامی کے ساتھ جس نے طویل عرصے سے مختلف ارادوں سے اس کا مقابلہ کیا چاہے وہ علاقائی ہوں جیسے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستیں یا بین الاقوامی سطح پر جیسے امریکہ۔ امریکہ اپنے منصوبے اور منافع کے تحت عرب اور اسلامی خطے میں تبدیلیاں کرنا چاہتا تھا اسی وجہ سے اس نے ایک اور موقف اختیار کیا کہ جس کی بنا پر اس نے ایران کے خلاف محاصرے اور پابندیاں لگانے کا راستہ اختیار کیا۔ اس کے بعد اس نے خطے میں ایران کے بازو کاٹنے کی کوشش کی تا کہ وہ اسرائیل کے حق میں مزاحمت کو کمزور کرے۔ اسرائیل، ممالک اور طاقتور تحریکوں کی شکل میں مزاحمتی محور سے بہت خوفزدہ تھا جیسے عراق میں الحشد الشعبی، اسی طرح لبنان، شام، فلسطین اور یمن میں بھی ۔ داعش کو وجود میں لانے کے عوامل اور پس منظر یہ تھا اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں: عراق کے سامنے امریکی موقف اس ملک کی دشمنی اور مخالفت کی شکل میں ظاہر ہوا کہ جس کے متعدد عوامل تھے منجملہ: ۲۰۱۱ کے آخر میں امریکی فوجیوں کا عراق سے انخلاء، امریکی وقار اور اس کے فخر کے لئے ایک زخم سمجھا جانے لگا کیونکہ اگر امریکہ کسی ملک میں داخل ہوا ہے تو عراق کے علاوہ وہ کسی ملک سے ابھی تک واپس نہیں گیا ہے۔ سیاستدانوں کی نسبت امریکی افواج عراق سے انخلاء اور اس سے دستبرداری کے معاملہ میں زیادہ پریشان تھی اور وہ واضح طور پر یہ کہتی تھی کہ انہیں عراق واپس جانا چاہئے اور واپسی کے لئے وہ بہانہ تلاش کر رہے تھے۔
ایک اور مسئلہ جس نے تنازعہ کو جنم دیا اور داعش کے وجود میں آنے کا سبب بنا وہ شام کا مسئلہ تھا۔ کیونکہ ہمارا موقف بالکل واضح اور صریح تھا اور میں نے یہ بات واشنگٹن اور میرے اور اوباما کے درمیان مشترکہ پریس کانفرنس میں کہی۔ یہ موقف میں نے ایک اہم اجلاس میں ہلیری کلنٹن ( وقت کی وزیر خارجه ) اور متعدد دیگر افراد کی موجودگی میں بھی بیان کیا اور میں نے ان سے کہا: میں آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ بشارالاسد کی حکومت نہیں گرے گی اور یہ غلط فہمی ہے کہ وہ گر جائے گی اور ہم اسے ہرگز نہیں گرنے دیں گے کیونکہ شام لیبیا نہیں ہے، شام کے اردگرد بہت سے ممالک ہیں اور دنیا کے ایک حساس خطے میں واقع ہے اور وہ اسرائیلی جعلی حکومت، ترکی، عراق، اردن اور لبنان کی سرحدوں پر واقع ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بشارالاسد کی حکومت تین ماہ میں گر جائے گی۔ میں نے ان سے کہا کہ حتی تین سالوں میں بھی نہیں گرے گی۔ ہمارے درمیان بحث ہوئی اور میں نے ان سے کہا: “مختصراً میں آپ لوگوں کو بتا دوں کہ شام کا مسئلہ برفی بندوق ہے جو داخلی اور قبائلی طور پر شروع ہوتا ہے اور پھر علاقائی اور اس کے بعد بین الاقوامی مسئلہ میں تبدیل ہو جاتا ہے لہذا شام کا زوال ناممکن ہے” وہ کہنے لگے: تمہیں شام کے بارے میں شکایت تھی کیونکہ وہ آپ کے خلاف دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں! میں نے ان سے کہا کہ اب ہم (شام اور عراق) خطرے میں ہیں اور اگر دہشت گردی شام پر قابض ہو جاتی ہے تو ۔۔ عراق، لبنان، اردن سب مٹ جائیں گے اور اسرائیل تک بھی دہشت گردی پہنچ جائے گی۔
بہر حال میرے اور ان کے درمیان شدید اختلاف ہو گیا۔ وہ شام کا مکمل محاصرہ کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے شام کا فضائی، زمین اور سمندری محاصرہ کر لیا اور صرف ایک جگہ باقی بچی جہاں سے اس کی حمایت ہو رہی تھی اور وہ عراق تھا۔ شام کے محاصرہ کے سلسلہ میں مجھ پر کافی دباؤ تھا۔ لیکن میں نے انکار کر دیا! میں نے دباؤ قبول نہیں کیا اور میں نے شام کی پروازیں بند نہیں کی اور حضرت زینب(س) کے دفاع کے لئے شام جانے والے لوگوں کو بھی نہیں روکا۔ داعش اور امریکی اس موقف سے کافی پریشان ہوئے اور آخرکار انہوں نے کہا: جیسا کہ امریکی وزیر خارجہ نے ہوشیار زیباری سے کہا: مالکی نے خطے میں ہماری سازشوں اور منصوبوں کو ناکام بنا دیا۔ کیونکہ میں نے شامی حکومت کو زوال سے روکا۔ حتی کے وقت کے امریکی صدر اوباما کے نائب صدر بائیڈن کو ایک کال کے دوران میں نے کہا: آپ کیا چاہتے ہو؟ کیا شام کے محاصرہ کی تکمیل کے سوا کچھ اور چاہتے ہو؟ میں تو کوبا کے محاصرہ کا بھی مخالف تھا تو شام کےمحاصرہ کی حمایت کیسے کر سکتا تھا؟ اور میں آپ کو صاف صاف بتا دوں اگر مجھے یہ محسوس ہوا کہ بشار الاسد کی حکومت گرنے جا رہی ہے تو میں عراقی فوج کو شام میں جنگ کے لئے لے جاؤں گا لہذا مجھ پر اصرار نہ کرو اور دباؤ نہ ڈالو۔ اسی وجہ سے میرے ساتھ امریکی مخالفت شروع ہوگئی اور وہاں ہی سے عراق میں ہمارے مخالف تحریک کا آغاز ہوا اور دہشت گردوں کی حمایت اور دہشت گرد تنظیموں کی حمایت اور الانبار میں دھرنے پر مبنی مخالف تحریک کی امریکی حمایت کا آغاز ہوا۔ امریکہ نے ان احتجاجوں سے اتفاق کیا جبکہ احتجاج بین الاقوامی روڈ بند کر رہے تھے لیکن وہ امریکہ جو دنیا میں ہر جزئی چیز پر بات کرتا تھا اس نے ایک لفظ بھی نہیں کہا اور۔ جبکہ اس نے اپنے طیاروں کے ساتھ مراکز کی تصویرکشی کی۔ عراق اور شام کی سرحد پر صحرا میں کیمپ لگانے کی اجازت دی۔
عراق کی سرحدوں کے اندر؟
عراق کی سرحدوں کے اندر۔ ہم نے ان سے مطالبہ کیا کہ ہمیں استعمال کے لئے دو پرانے ایف۱۶ طیارے دیں کیونکہ ہمارے پاس طیارے نہیں ہیں اور اس کے بجائے ہم نے آپ سے جو نئے طیارے خریدے ہیں وہ دیں گے لیکن انہوں نے قبول نہیں کیا۔
پورا سال وہ ہمیں وعدہ دیتے رہے کہ وہ ان کمپوں پر بمباری کریں گے لیکن انہوں نے جھوٹ بولا اور ان پر حملہ نہیں کیا۔۔۔انہوں نے کہا کہ ہم اردن سے ان پر حملہ کریں گے ہم نے ان سے کہا کہ اردن سے ہمارا معاہدہ نہیں ہے اور یہ پارلیمنٹ مشکل ہے اور ایسا کرنا ممکن نہیں ہے! یہ حاکمیت کا مسئلہ ہے۔ بہر حال ان کا موقف منفی تھا اور جب احتجاج شروع ہوئے تو امریکیوں نے ان کی حمایت کی اور ان کا خیرمقدم کیا اور اس چیز نے عراق کو منظم کیا اور ان کی افواج کا نکالا اور شام کا ساتھ دیا۔
کیا یہ توقع کی جا رہی تھی کہ یہ دباؤ امریکی فوجیوں کی تعمیر نو (عراق میں) اور عراق سے ان کے انخلاء کے بعد ان کی واپسی کے لئے منصوبہ تھا؟ یہ سچ ہے؟
عراق کو سزا دینے کے لئے وہ واپس نہیں آ سکتے تھے لیکن آخر کار معین ہوا کہ جب میں نے حکومت چھوڑ دی تو انہوں نے ہمارے بعد اقتدارمیں آنے والی حکومت پر دباؤ ڈالا اور اپنی افواج کو عراق واپس بھیج دیا اور بڑے پیمانے پر بین الاقوامی اتحاد کے نام پر وہ عراق میں داخل ہوئے۔ یہ مسئلہ ہمیں یقین دلاتا ہے کہ جو دباؤ ڈالا جا رہا تھا وہ واپسی کے لئے تھا۔ اگر موقع ہوتا اور میری حکومت ہوتی تو میں انہیں واپس آنے کی اجازت نہ دیتا کیونکہ ہم نے انہیں عراق سے نکالا اس کی وجہ یہ ہے کہ عراقی آئین غیر ملکی فوجی اڈوں کے وجود کی اجازت نہیں دیتا ہے۔
جب احتجاج شروع ہوا اور وہ ایک سال تک جاری رہا، اسی دوران داعش کو تشکیل دیا گیا۔ داعش الانبار میں مظاہرین کے خیموں میں تشکیل دی گئی۔ عراق میں دھرنوں سے قبل داعش کا وجود نہیں تھا، القاعدہ موجود تھی لیکن ایک گروہ نے القاعدہ سے الگ ہو کر داعش تشکیل دی اور ہم دھرنوں کے اختتام کو پہنچ گئے۔ عملی طور پر جب ہم نے مظاہرین کے خیموں کا خاتمہ کیا تو داعش صحرا میں تیار تھی اور علاقائی ممالک اور امریکہ کی طرف سے براہ راست اور وسیع پیمانہ پر اسے حمایت تھی۔ یہ ہوا کہ داعش نے مختلف علاقوں میں پیش قدمی کی۔ داعش قبائلی۔ سیاسی مسئلہ کا ایک حصہ تھا جس پر عراق کے کچھ سیاسی رہنماؤں نے کام کیا تھا جنہوں نے موصل کے زوال اور صلاح الدین کے زوال کا ساتھ دیا تھا۔ داعش کا قیام امریکہ کے حکم اور اس کی حمایت اور مالی اعانت اور کچھ علاقائی حکومتوں کے ذریعہ عمل میں لایاگیا۔
اگر ہم داعش کے ظہور اور کچھ علاقوں پر قبضہ کے بارے میں بیان کرنا چاہیں تو ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ یہاں ہماری بحث داعش سے جنگ میں امریکی موقف اور الحشد الشعبی کے قیام اور داعش کے خلاف اس سے مقابلہ کے بارے میں ہوگی۔
اگلا سوال الحشد الشعبی تنظیم کے قیام سے متعلق ہے، الحشد الشعبی تنظیم کی تشکیل کا آغاز کہاں سے ہوا؟ بہت سی متضاد خبریں ہیں جن میں سے بعض یہ کہتی ہیں کہ الحشد الشعبی کو مختلف طریقوں اور مختلف ناموں سے تشکیل دیا گیا تھا۔ شائد وہ لوگ جو اس دور یا زمانے کے ناظر ہیں وہ الحشدالشعبی تنظیم کے قیام کو روضوں اور مقدسات کا دفاع کرنے والی فوج کے ساتھ آپ کا تعاون سمجھیں، اس موقف کے بارے میں ہم پوچھنا چاہتے ہیں اور ہم آپ سے اس کی تفصیلات کے بارے میں کچھ پوچھنا چاہتے ہیں۔
جب ہم نے دھرنوں کو ختم کرایا اور داعش کے خلاف جنگ شروع ہوئی تو ہماری وزراء کی کونسل سے ایک میٹنگ ہوئی اور میں نے محسوس کیا کہ فوج اور پولیس ان مغربی علاقوں میں اپنے سیاسی اور قبائلی اور معلوماتی پس منظر کے ساتھ مزاحمت کی طاقت نہیں رکھتے اور فوج ناکام ہوکر پسپائی اختیار کرے گی۔ جیسا کہ موصل میں ہوا۔ موصل میں جنگ واقع نہیں ہوئی بلکہ فوج، پولیس، افسروں اور کمانڈروں کی پسپائی سیاسی پارٹیوں اور تنظیموں کی وجہ سے ہوئی جو ان سے منسوب تھے۔ میں نے صدارتی محل کے اندر ایک کانفرنس میں وزراء سے بات چیت اور خطاب کیا اور قومی تجربات سے استفادہ کیا اور میں نے اپنے تجربات بھی بیان کئے۔ جب ملک اس مرحلہ پر پہنچتا ہے تو حکمران قوم کا رخ کرتے ہیں اور قوم کی ہمت بڑھاتے ہیں۔ ایران نے کمیٹیوں سے مدد لی، عوامی کمیٹیاں یا وہی بسیجی کمیٹیاں، روس نے اپنے روسی انقلاب میں عوامی کمیٹیوں سے مدد لی، اسی طرح الجیریا نے بھی۔ لہذا یہ فوج کا متبادل ہے جو اندرونی قبائلی صورتحال کے نتیجہ میں اس اندرونی شکست سے دوچار ہوئی۔ میرے پاس اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تھا کہ میں اپنے وزیروں کی موجودگی میں عراقی عوام سے مطالبہ کروں کہ وہ ملک کے دفاع کے لئے اسلحہ اٹھائیں یہاں سے مزاحمتی گروہوں نے اپنی حرکت کا آغاز کیا۔
کہ جو عملی طور پرموجود تھے؟
ہاں عملی طور پر وہ موجود تھے اور بعض کے پاس جو ہتھیار تھے انہوں نے اپنے پاس محفوظ رکھے ہوئے تھے۔ میں نے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ داعش کے خلاف لڑنے کے لئے جائیں جرف الصخر میں، بغداد اور الانبار کے مابین سرحدوں پر، ہوئی اڈے اور التاجی کے علاقے میں۔ ابتدا میں ہم نے بغداد کی حمایت کرنا چاہی۔ میں نے مزاحمتی گروہوں کو دعوت دی اور عملی طور پر بھی وہ سب ہتھیار اٹھا کر محاذوں پر چلے گئے۔ ہم نے دیکھا کہ محاذوں پر رجمنٹوں اور ڈویژنوں میں بہت کم فوج موجود تھی۔ لہذا میں نے سب سے پہلا کام جو کیا وہ یہ تھا کہ ان مسلح گروہوں کو رجمنٹ اور ڈویژنوں میں داخل کیا تا کہ وہ مضبوطی کے ساتھ لڑ سکیں اور عملی طور پر پائداری کا ثبوت دیں اور ان علاقوں کے قبائل ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہو گئے۔ جیسے تمیم، البو، عامر اور دوسرے قبائل۔میں نے اس تمام قبائل کو مسلح کیا اور انہوں نے مسلح افراد کا ساتھ دیا اور انہوں نے باقی ماندہ فوج اور پولیس کا ساتھ دیا اور انہوں نے بغداد کی حمایت کرنے والی دیوار بنائی نیز انہوں نے داعش کو پیچھے دھکیل دیا جس کا مقصد بغداد میں داخل ہونا تھا۔ ابتدا میں مسلح گروہ محاذوں میں شامل ہوئے اور وہ مسلح گروہ کئی مہینوں تک طویل عرصے تک لڑتے رہے۔ مرجع کے فتویٰ نے اس قومی کام کوقومی اور روحانی جذبہ عطا کیا اور باعث بنا کہ لوگ وسیع پیمانے پر فوجوں کی شکل میں محاذوں پر جائیں جسے بعد میں ہم نے الحشد الشعبی (عوامی قوتیں) نام دیا۔
الحشد الشعبی تنظیم کی تشکیل سے پہلے ہم اس جگہ (جناب المالکی کے گھر) بیٹھتے تھے اور منصوبہ بندی کرتے تھے، حاج قاسم رحمۃ اللہ علیہ اور ابو مہدی بھی موجود ہوتے تھے اور ہم منصوبوں، حرکت کی کیفیت اور مزاحمت کا جائزہ لیتے تھے، خواہ وہ سامراہ کا محاذ ہو، خواہ بغداد کا ہو، یا جرف الصخر یا حتی کربلا کی حمایت کرنا ہو۔ ہم تقریباً ہر زور یہاں بیٹھتے تھے، فیصلہ کرتے تھے اور منصوبہ بناتے تھے اور جنگی محاذ سے ملحق ہونے والے فوجی اور مزاحمتی گروہوں کو ضروری ہدایات دیتے تھے۔
یہ الحشد الشعبی کے قیام کا آغاز تھا۔ الحشد الشعبی فتویٰ صادر ہونے سے پہلے قائم ہوئی اور فتویٰ نے مسلح گروہوں کے کردار کو بھرپور حمایت اور مدد فراہم کی۔ فتویٰ کے بعد مسلح اور منظم گروہوں کا کام عوامی شکل میں بدل گیا اسی وجہ سے ہم نے اس کا الحشدالشعبی نام رکھا، الحشد الشعبی کی تنظیم تشکیل پائی اور اس کا حکم جاری ہوا اور اس کے سربراہ اور نائب سربراہ بن گئے۔ اس کے بعد الحشد الشعبی کے ڈھانچے نے اپنی شکل اختیار کرنا شروع کر دی۔ ابتدا میں الحشد الشعبی منظم نہیں تھی بلکہ ایسی کاروائی تھی کہ عوامی تحریک کہتے ہیں۔ یعنی جو بھی ہتھیار اٹھا سکتا تھا وہ مقابلہ کے لئے جاتا اور ہمارا اور گروپوں میں شامل دوسرے بھائیوں کا کردار یہ تھا کہ ہم انہیں قبول کر کے ہدایت دیں اور ان کی صلاحیتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بغداد، سامراہ، کربلا اور صحرا میں اس کے (داعش) محاصرہ کے لئے متحرک کریں۔ واقعات رونما ہونے سے پہلے میرے لئے واضح تھا کہ یہ روز روشن کی طرح رونما ہوں گے۔ ۲۰۱۲ میں نے ان سے کہا تھا کہ شام میں ہونے واقعات کے بعد کالی آندھی ہماری طرف آئے گی۔ کچھ صوبوں پر قبضہ ہو جائے گا، عراقی فوج کو شکست ہو گی اور ہم عراق میں خطرناک صورت حال کامقابلہ کرنے کے لئے قوم کے نیک کرداراور خیر خواہ افراد سے مدد لینے کے لئے مجبور ہو جائیں گے۔ عملی طور پر بھی میں نے جو پیشگوئی کی تھی وہی رونما ہوئی اور الحشد الشعبی تنظیم نے مختلف میدانوں حکمت عملی اختیار کر لی۔ اس کی فوج اور دوسرے مسائل تشکیل پائے یہاں تک کہ اس میں بدلاؤ آ گیا اور اس کی صورتحال اس مقام تک پہنچ گئی جہاں آج ہے۔ یقیناً اس کی منصوبہ بندی میں ابومہدی اور حاج قاسم کی کاوشیں واقعی قابل تحسین ہیں۔ جب الحشد الشعبی تشکیل پائی تو اور جب داعش کا وجود سامنے آیا اور موصل اورصلاح الدین کے صوبے ان کے قبضے میں چلے گئے۔ البتہ الانبار پر قبضہ نہیں ہوا تھا بلکہ صوبے کے کچھ حصہ ان کے قبضہ میں چلے گئے۔ ہمارے پاس اسلحہ تھا جو ہم نے امریکہ سے خریدا تھا اور امریکی اسلحہ بھی تھا جو عراق میں تھا۔ ہیلی کاپٹر، توپخانے، ٹینک اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے دوسرے ہتھیار۔ یہیں سے ہی امریکہ کا موقف واضح ہو گیا جو ہماری شکست کا خواہاں تھا۔ انہوں نے ہمیں سامان دینا چھوڑ دیا، انہوں نے ہمیں طیاروں اور ہیلی کاپٹروں اور ٹینکوں کا سامان بھی بند کر دیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے بند گاڑیاں بھی دینا بند کر دیں نیز انہوں نے انسداد دہشت گردی کا ساز و سامان دینا بھی بند کر دیا کیونکہ ان کے پاس خصوصی ہتھیار تھے۔ ہم جب بھی خریدے گئے اسلحے یا سامان تک پہنچنے کی کوشش کرتے تو ناکام ہو جاتے۔
مثال کے طور پر وہ ہمیں ابرامس ٹینک دیتے تھے جن کی مار ۶۰۰میٹر اور اس کی گولیاں نشانہ دار تھیں اور یہ چیز ان ابرامس ٹینک کے اوزار اور ساز و سامان میں نہیں تھی جن کی مار ۱۲ کیلو میٹر تھی اور وہ بہت مضبوط تھے۔ امریکیوں کا موقف یہ تھا، انہوں نے ہماری تمام حمایت چھوڑ دی اور سب چیزیں بند کر دیں اور ہمیں کچھ بھی نہیں دیا بلکہ انہوں نے داعش سے وابستہ گروہوں کی حمایت شروع کر دی!۔
ایسی صورتحال میں ہمیں کہاں جانا چاہئے تھا؟ میں نے مختلف ممالک میں وفود بھیجے پولینڈ اور بلغاریہ اور ہم نے ان سے اسلحہ خریدا لیکن ان کے ہتھیار ہم تک تیزی سے نہیں پہنچ سکتے تھے کیونکہ انہوں نے ہمیں فروخت کے لئے تیار ہتھیار پیش نہیں کئے بلکہ وہ اس دوران اسلحہ بنا رہے تھے جب ہم داعش کا مقابلہ کر رہے تھے۔ داعش، ہماری افواج کے پاس سے زیادہ ہتھیاروں کے ساتھ ظاہر ہوئی شائد ہمارے پاس ٹینک موجود تھے لیکن یہ جنگ ٹینکوں کی جنگ نہیں تھی۔
کیا داعش کا کچھ اسلحہ فوج کا اسلحہ تھا کہ جب وہ شہروں میں داخل ہوئی تو اس کے ہاتھ لگا؟
ہاں کچھ اسلحہ پر اس نے قبضہ کر لیا تھا حقیقت میں موصل میں اس نے واضح طور پر کچھ اسلحہ پر قبضہ کر لیا لیکن موصل میں زیادہ تر اسلحہ کردوں کے ہاتھوں میں آ گیا تھا، خاص طور پر کرکوک اور موصل میں اسلحہ کردوں کے قبضہ میں آ گیا۔
کیا کردوں نے یہ اسلحہ داعش کے خلاف استعمال کیا یا ہمیں اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے؟
بہتر لفظوں میں کہوں، کرد اسلحہ اٹھا کر لے گئے اور جب داعش نے ان کا رخ کیا تو انہوں نے کچھ اسلحہ استعمال کیا لیکن وہ اس وقت تک داعش کا مقابلہ نہیں کر سکے جب تک اسلامی جمہوریہ کی مداخلت نہیں ہوئی اور اسی دوران ہم نے بھی مداخلت کی۔
تھا اور ہمیں بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، میں جہاز پر سوار ہو کر روس جانے اور پوتن سے ملاقات کرنے پر مجبور ہو گیا اور میں نے ان سے کہا کہ وہ ہمیں جلد اسلحہ دیں، ۲۸ مئی اور ۳۵ مئی جیسے پیشرفتہ طیارے اور جنگ کے دوسرے ضروری ہتھیار اور روس نے بھی ہمیں جلدی سے لیس کر دیا۔
لیکن حقیقت میں جس شخص نے ہماری مدد کی اور ہتھیاروں کی ہماری ضرورت کو پورا کیا خدا اس پر رحم کرے وہ حاج قاسم تھے۔ یہاں اس جگہ رات کے وقت ہم اسلحہ کی قسم پر اتفاق کرتے تھے اور اگلے دن اسلحہ فوری طور پر اور براہ راست عراق میں داخل ہو جاتا تھا۔ اسلحہ مفت نہیں تھا ہم اسے خریدتے تھے۔ دوسرے ممالک سے بھی اسلحہ خریدتے تھے لیکن اسلحہ زیادہ مقدار میں دستیاب نہیں تھا۔ صرف حاج قاسم ہی تھے جو ضرورت پڑتے ہی ایرانی فوج اور سپاہ پاسداران ایران سے اسلحہ لاتے تھے اور وہ اسے جنگ میں اپنے ساتھ رکھتے اور انہوں نے اس کام اور اس قدم کے ذریعہ صورتحال کو تبدیل کیا۔ انہوں نے ہمیں اسلحہ، ساز و سامان اور سہولیات فراہم کیں اور اس کے علاوہ جنگی حکمت عملی اور فوجی تجزیہ اور فوجی معلومات اور اپنے ساتھ اپنے کمانڈروں کو میدان میں لاتے تھے۔ یہ چیز ان بعض ماہرین کے خلاف تھی جو فوجی قوتوں اور الحشدالشعبی کی افواج کا ساتھ دیتے تھے۔ ہم بہت سے مختلف اسلحے، سامان، مشینری اور ڈرون خریدتے تھے جو جنگ میں استعمال ہوتے تھے اور ایران ہماری ضروریات کو پورا کرتا تھا۔ ہمیں یہاں تک کہ سوخو طیاروں کی اشد ضرورت تھی اور ہم نے حاج قاسم سے کہا وہ ہمیں ایرانی سوخو بیچیں اور عملی طور پر ہم ان کی مدد سے داعش کی بہت سی تخریبکارانہ سرگرمیوں کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوئے۔
حاج قاسم رحمت اللہ علیہ اور حاج ابومہدی کی موجودگی میں ہم کاموں کو تقسیم کرتے تھے اور حاج ابومہدی نے راستے کھولنے اور سامراہ کی جانب جانے والی سڑک کی حمایت کو اپنے ذمہ لیا۔ سامراہ کی سڑک کھولنے کا کام بہت سخت تھا کیونکہ پوری سڑک پر شدت پسندوں کا کنٹرول تھا۔ اس علاقے میں داعش نہیں تھی، امانتداری کے تحفظ کے لئے مجھے یہ کہنا ضروری ہے کہ ہم نے صرف داعش کا مقابلہ نہیں کیا۔ نہیں۔۔۔ وہ لوگ جنہوں نے ہمارے خلاف جنگ کی اور ہم ان کے خلاف لڑے وہ علاقے کے لوگوں میں سے کچھ فرقہ پرست تھے، حقیقت میں یہ فرقہ وارانہ تحریک تھی اور داعش نے اس سے استفادہ کیا۔ داعش کو مناسب فضا اور ماحول ملا جس پر اس نے حرکت کرنا شروع کر دی ورنہ یہ کہنا ضروری ہے کہ یہ جنگ بنیادی طور ایک فرقہ وارانہ جنگ تھی۔ فرقہ پرست وہی قبائلی شیخ اور سیاسی شخصیات تھیں جنہوں نے کہا کہ ہم داعش کو نہیں دیکھتے۔ حقیقت میں ہمارے بچوں نے ہمارے خلاف جنگ لڑی اور وہ بھی ایک فرقہ وارانہ تحریک اور ان میں سے بعض نے مجھ سے کہا:۱۹۹۱میں ہمارے خلاف ایک تحریک چلائی گئی اور ہم بھی ۲۰۱۴ میں آپ کے خلاف تحریک شروع کریں گے۔
کیا انہوں نے یہی جملہ کہا۔۔۔؟
اسی متن کے ساتھ۔ حاج ابومہدی رحمت اللہ علیہ نے اس انتہائی خطرناک سڑک کو کھولا کیونکہ سامراہ کی طرف جانے والے تمام شہر ان کے کنٹرول میں تھے اور بہت سی جھڑپیں اسی سڑک پر ہوئیں۔ ابومہدی رحمت اللہ علیہ باغوں میں ایک اور راستہ کھولنے پر مجبور ہو گئے اور ٹینکوں کو اسی راستے سے گزارنا پڑا۔ وہ ٹینک جو سامراہ پہنچنے میں کامیاب ہوئے اور انہوں نے سڑکوں پر کنٹرول شدہ باندھوں کا محاصرہ کیا سڑک کھل گئی اور رفت و آمد کا آغاز ہو گیا۔
اس کے بعد حاج ابومہدی اور حاج قاسم کی حمایت اور منصوبہ بندی کے ذریعہ ہم امرلی گئے جو ۹۰ دن سے محاصرہ میں تھا اور عملی طور پر الحشدالشعبی فوجیں امرلی گئیں اور ہم امرلی کا محاصرہ کرنے والے انتہا پسندوں کا محاصرہ توڑنے میں کامیاب ہو گئے۔ اسی طرح ہم امرلی کا محاصرہ توڑ کر معمول کی زندگی کو واپس لانے میں بھی کامیاب ہو گئے۔ المختصر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگرچہ بہت ساری تفصیلات موجود ہیں کہ عراق میں حمایت، اسلحہ اور مہارت سب یکجا ہوئے اور حاج قاسم اور حاج ابومہدی المہندس کی براہ راست حمایت اور مدد سے یہ کام ہوا۔
اس راستے میں آپ کی سرگرمی کے دوران سیاسی اور جہادی پہلو میں اگر کوئی مخصوص مسئلہ یا اہم اور ممتاز موقف پایا جاتا ہے اور اسے آپ بیان کرنا چاہتے ہیں تو برائے مہربانی بیان کریں؟
میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ حاج قاسم سے میرے تمام روابط واقعات سے بھرے ہوئے ہیں جو مجھے ہر روز یاد آتے ہیں شائد سب سے اہم یاد جو میرے ذہن میں آتی ہے وہ راتیں ہیں جن میں ہم منصوبے بناتے تھے اور انجام پانے والی کاروائی کے لئے منصوبہ بندی کرتے تھے۔۔۔ کچھ لوگ الحشد الشعبی کے ابتدائی کام کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ لکھنا چاہتے تھے میں نے انہیں نقشے بتائے اور ان پر تبادلہ خیال کرنے ہم راتوں بیٹھتے تھے میرے خیال میں وہ ابھی یہاں (ان کے گھر میں ان کے خصوصی دفتر میں) ہوں گے یا ہمارے بھائی انہیں کسی اور جگہ لے گئے ہیں۔
یہ وہی الحشد الشعبی کا آغاز تھا اس طرح کہ حاج قاسم اور ابومہدی انہیں (نقشوں) لاتے تھے اور یہاں رکھ کر انہیں پھیلاتے تھے اور فیصلے کرتے تھے۔ حاج قاسم اپنی مہارت کی بنا پر ایک فوجی اور میدانی کمانڈر کے عنوان سے افواج کی نقل و حرکت کے لئے یا الحشد الشعبی کے نام سے جو قوتیں تھیں ان کے لئے منصوبہ بندی کرتے تھے۔
حاج قاسم کے ساتھ میری یادیں روزانہ کی یادیں تھیں میں انہیں کسی ایک واقعہ میں خلاصہ نہیں کر سکتا۔ ان کے ساتھ میری یادیں روزانہ مقابلوں کی تحریک اور جدوجہد پر مبنی یادیں تھیں۔ جنگ کے سلسلہ میں سب سے پہلا واقعہ یہ ہے کہ جب وہ ہوائی اڈے کے قریب پہنچ گئے تو کیونکہ یہ علاقے الانبار کے ساتھ ملتے ہیں لہذا ہوائی اڈے کے علاقے پر دباؤ بڑھتا گیا۔ اس مقام پر حاج قاسم، ابومہدی اور میں سب مل کر یہ سوچ رہے تھے کہ اس حملے کے خلاف ہوائی اڈے کا دفاع کیسے کیا جائے۔ حاج قاسم نے جو منصوبہ تیار کیا اس پر ہم نے عمل درآمد کیا اور اس منصوبے کے تحت ہم نے قبائل میں جذبہ پیدا کیا یہ ایسا منصوبہ تھا جو خوشی پر مبنی تھا کیونکہ ہم داعش کو اس کی مدد سے شکست دینے اور ان عناصر کو پسپا کرنے میں کامیاب ہوئے جو ایئرپورٹ پر حملہ کرنا چاہتے تھے۔
داعش کے ساتھ جنگ کے دوران میری پوری زندگی یادوں سے بھری ہوئی ہے میں اسے ایک واقعہ میں خلاصہ نہیں کر سکتا۔
وزیر اعظم کے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد میں دیالہ کے اوپری جنگی علاقوں میں گیا۔ ہم داعش اور اپنی افواج کے مابین ایک ایسے علاقے میں پہنچے جہاں فوج اور الحشد الشعبی ایک ساتھ تھے۔ صورتحال خطرناک تھی اور مجھے وہاں زیادہ دیر تک رہنے کی اجازت نہیں دی گئی کیونکہ گولہ باری جاری تھی۔ ایک لمحے کے لئے میں نے دیکھا کہ حاج قاسم کار سے اترے وہ دشمن کے محاذ اور جنگی علاقے سے آئے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کہاں تھے اور وہاں کیسے گئے؟ انہوں نے مجھ سے کہا: آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ یہ شخص (محاذ پر) موجود رہتا تھا اور عراق سے باہر کسی دفتر میں نہیں بیٹھتا تھا اور نہ ہی اس دفتر سے جنگ کی رہنمائی کرتا تھا اور نہ ہی وہ عراق سے باہر کسی دفتر سے اپنی مدد کی پیش کش کرتا تھا بلکہ وہ فرنٹ لائن پر تھاجہاں میرے بھائی مجھے رہنے کی اجزات نہیں دیتے تھے اور وہ مجھے کہتے تھے کہ یہ علاقہ خطرناک ہے۔
محاصرے اور کامیابی کے بعد جب ہم کسی اور سفر پر الصقلاویہ گئے جیسے ہی ہم الصقلاویہ کی سرحد پر پہنچے تو انہوں نے مجھے روک دیا اور کہا کہ یہ علاقہ خطرناک ہے وہاں بھی میں نے دیکھا کہ حاج قاسم اپنی کار سے باہر نکلے اور ہمارے ساتھ کھڑے ہو
ان یادوں سے مجھے یہ تأثر ملتا ہے کہ یہ شخص خالص مذہبی شخص نہیں تھا بلکہ ایک میدانی شخص تھا اور وہ خود میدان میں جا کر جائزہ لیتا تھا۔ وہ بہت محبوب تھا اور اور تمام مجاہدین اس کی باتوں کو سنتے تھے خدا اسے غریق رحمت کرے۔
سیاسی میدان میں جب آپ وزیر اعظم تھے یا اس کے بعد کا مرحلہ، ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سب سے اہم لمحہ جس میں آپ کو محسوس ہوا ہو کہ وہ آپ کے ساتھ حتی عراق کے ساتھ ہیں وہ کون سا لمحہ تھا، آپ نے حاجی کی اہمیت کو کب پہچانا؟
حقیقت یہ ہے کہ میں نے حاجی سے آخری دن ملاقات کی تھی جب میں ایران میں تھا اور صدام کے زوال کے بعد ۹۔ ۴۔ ۲۰۰۳کے بعد جب میں نے عراق واپس آنے کا فیصلہ کیا تو میری ان سے واقفیت ہوئی۔ اس سے پہلے میں نے انہیں نہیں دیکھا تھا۔۔۔ ہم عراق واپس آئے اور امریکیوں اور بین الاقوامی قوتوں اور حکومتی کونسل کی تشکیل اور اس کے بعد قومی اسمبلی اور پھر عبوری حکومت اور پھر عارضی حکومت کے قیام کے سائے میں اس سیاسی راستہ کا آغاز کیا۔ ایسی تمام فضاؤں میں حاج قاسم سے میری واقفیت نہیں ہوئی بلکہ میں اس کے بعد ان سے آشنا ہوا جب ہم اسلامی جمہوریہ کے سامنے اپنی آغوش کھول رہے تھے اور ان سے تعلقات برقرار کر رہے تھے، ایران اور حضرت آیت اللہ سید خامنہ ای حفظہ اللہ کے ساتھ ہمارے تعلقات حاج قاسم کے ذریعہ برقرار ہوئے۔ وہی تھے جو ہمارے اور اسلامی جمہوریہ کے مابین مثبت ماحول پیدا کرتے تھے۔ اس وقت جنگ یا اسلحے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ عراق کو مدد کی ضرورت تھی۔ عراق کی حمایت کے دوران وہ ہمارے ساتھ تھے۔ حاج قاسم کے نزدیک عراق کا معاملہ محض ایک جنگ سے کہیں بڑا تھا۔ ان کی مدد صرف جنگ تک ہی محدود نہیں تھی، انہوں نے عراق کو خوراک، بجلی، گیس، ایندھن اور عراق کی ضرورت والی ہر چیز کے مسائل حل کرنے میں مدد کی، حاج قاسم ہی تھے جو ہمارے لئے یہ سب کچھ مہیا کرتے تھے۔
آخری سوال: مغربی ایشیاء میں حاج قاسم رحمت اللہ علیہ کی بین الاقوامی موجودگی، ایک نمایاں موجودگی تھی اب ان کی شہادت کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ اس موجودگی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ حاج قاسم جب مزاحمتی محور اور آزادی کے متلاشیوں کے عنوان سے مختلف ممالک میں داخل ہوئے۔۔۔ عراق میں، لبنان میں، شام میں، یمن میں اور دوسرے علاقوں میں تو انہیں اسی کردار سے پہچانا گیا۔ کیونکہ وہ ان تمام میدانوں میں موجود تھے اور اپنی فکری طاقت حتی مادی اور حمایت اور ایجاد و تنظیم کے لحاظ سے ان کی پرورش کرتے تھے۔ وہ غزہ میں موجود تھے، وہ خود جاتے تھے، لبنان میں وہ موجود تھے، شام میں وہ موجود تھے اور عراق میں بھی وہ موجود تھے۔ وہ مزاحمتی تحریک کو بہت اچھے انداز میں منظم کرتے تھے۔ انہوں نے بہت سی فیلڈز بھریں اور وہ مشہور ہو گئے۔ کوئی بھی تحریک چلانے والا حاج قاسم کے سامنے اپنی آغوش کھول دیتا تھا اور وہ ان سے اپنی تحریک کی حمایت کے لئے مدد لیتا تھا۔ حاج قاسم کی شہادت ان ممالک اور ان اقوام کے لئے ایک بہت بڑا نقصان ہے جو پریشانی کا شکار ہیں۔ اور جن کو ہم آزادی پسند ثقافتی تحریک، فکری، سیاسی، فوجی اور سیکیورٹی مزاحمت کے مالک سمجھتے تھے ان سب نے حاج قاسم کو کھو دیا۔۔۔ مجھے امید ہے کہ حاج قاسم کے جانشین اسی راستہ کو برقرار رکھیں گے اور اسی راستے کو جاری رکھیں گے جو حاج کا راستہ ہے اور ہم جانتے ہیں کہ وہ بھی حاج قاسم کی طرح ہیں۔ حاج قاسم ایک ایسے اسلامی انسان تھے جو یہ سوچتے تھے کہ امت مسلمہ کا وجود ہونا چاہئے اور اسے طاقتور ہونا چاہئے۔ اسی وجہ سے وہ حاج قاسم اور اسلامی جمہوریہ سے خوفزدہ تھے کہ انہوں نے اسکتبار اور اسرائیل کا مقابلہ کرنے اور اسے نابود کرنے کے لئے مضبوط محور تشکیل دیا۔
نوری المالکی، عراقی صدر کے نائب اور اس ملک کی اسلامی دعوۃ پارٹی کے سربراہ ایک ایسے سیاستدان ہیں جو ایران کو بخوبی جانتے ہیں۔ وہ ۲۰۰۶ سے ۲۰۱۵ تک عراق کے وزیر اعظم رہے ہیں ایران اور حاج قاسم سلیمانی سے ان کے مستقل تعلقات تھے۔ انہوں نے عراق میں داعش کے داخلے اور حشدالشعبی کی تشکیل اور عراق کو داعش سے نجات دینے میں حاج قاسم کی کردار پر گفتگو انجام دی۔
نوری المالکی نے ” ویژہ نامہ مکتب حاج قاسم” نامی مجموعہ کے ساتھ گفتگو میں حشدالشعبی کی تشکیل کے ابتدائی دنوں سے لے کر داعش کے خلاف اس فورس کی اہم کاروائیوں میں حاج قاسم سلیمانی کے ساتھ ان کی بہت سی گفتگو ہے کہ ذیل میں اس کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے۔
داعش کا بحران کب شروع اور یہ تنظیم عراق میں کیسے داخل ہوئی؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم، خداوند دو عظیم اور عزیز شہداء حاج قاسم سلیمانی اور حاج ابو مہدی المہندس پر رحمت نازل کرے، جہاد، خدمات، تلاش اور پائداری کے انجام کے عنوان سے وہ شہادت کے حقدار تھے، ہم نے ان کے ساتھ مشکل وقت گزارا لیکن اچھا وقت تھا کیونکہ ایمان، خدا پر اعتماد اور دین، نظام اور قانون شکنی کرنے والوں کا سامنا کرنے میں عشق و محبت سے لبریز وقت تھا۔
داعش کا مسئلہ سلامتی کا مسئلہ بننے سے پہلے درحقیقت ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ داعش ان موقفوں اور تنازعات اور بحرانوں کا نتیجہ ہے جو خطے میں پائے جاتے تھے، بحیثیت عراقی اور اسلامی جمہوریہ ہمارے درمیان کہ جسے ہم مزاحمت کا علاقہ کہنے کا حق رکھتے ہیں، مزاحمت اپنی تمام شاخوں اور ٹہنیوں کے ساتھ اپنے متحرک اور قوی مرکز یعنی جمہوری اسلامی کے ساتھ جس نے طویل عرصے سے مختلف ارادوں سے اس کا مقابلہ کیا چاہے وہ علاقائی ہوں جیسے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستیں یا بین الاقوامی سطح پر جیسے امریکہ۔ امریکہ اپنے منصوبے اور منافع کے تحت عرب اور اسلامی خطے میں تبدیلیاں کرنا چاہتا تھا اسی وجہ سے اس نے ایک اور موقف اختیار کیا کہ جس کی بنا پر اس نے ایران کے خلاف محاصرے اور پابندیاں لگانے کا راستہ اختیار کیا۔ اس کے بعد اس نے خطے میں ایران کے بازو کاٹنے کی کوشش کی تا کہ وہ اسرائیل کے حق میں مزاحمت کو کمزور کرے۔ اسرائیل، ممالک اور طاقتور تحریکوں کی شکل میں مزاحمتی محور سے بہت خوفزدہ تھا جیسے عراق میں الحشد الشعبی، اسی طرح لبنان، شام، فلسطین اور یمن میں بھی ۔ داعش کو وجود میں لانے کے عوامل اور پس منظر یہ تھا اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں: عراق کے سامنے امریکی موقف اس ملک کی دشمنی اور مخالفت کی شکل میں ظاہر ہوا کہ جس کے متعدد عوامل تھے منجملہ: ۲۰۱۱ کے آخر میں امریکی فوجیوں کا عراق سے انخلاء، امریکی وقار اور اس کے فخر کے لئے ایک زخم سمجھا جانے لگا کیونکہ اگر امریکہ کسی ملک میں داخل ہوا ہے تو عراق کے علاوہ وہ کسی ملک سے ابھی تک واپس نہیں گیا ہے۔ سیاستدانوں کی نسبت امریکی افواج عراق سے انخلاء اور اس سے دستبرداری کے معاملہ میں زیادہ پریشان تھی اور وہ واضح طور پر یہ کہتی تھی کہ انہیں عراق واپس جانا چاہئے اور واپسی کے لئے وہ بہانہ تلاش کر رہے تھے۔
ایک اور مسئلہ جس نے تنازعہ کو جنم دیا اور داعش کے وجود میں آنے کا سبب بنا وہ شام کا مسئلہ تھا۔ کیونکہ ہمارا موقف بالکل واضح اور صریح تھا اور میں نے یہ بات واشنگٹن اور میرے اور اوباما کے درمیان مشترکہ پریس کانفرنس میں کہی۔ یہ موقف میں نے ایک اہم اجلاس میں ہلیری کلنٹن ( وقت کی وزیر خارجه ) اور متعدد دیگر افراد کی موجودگی میں بھی بیان کیا اور میں نے ان سے کہا: میں آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ بشارالاسد کی حکومت نہیں گرے گی اور یہ غلط فہمی ہے کہ وہ گر جائے گی اور ہم اسے ہرگز نہیں گرنے دیں گے کیونکہ شام لیبیا نہیں ہے، شام کے اردگرد بہت سے ممالک ہیں اور دنیا کے ایک حساس خطے میں واقع ہے اور وہ اسرائیلی جعلی حکومت، ترکی، عراق، اردن اور لبنان کی سرحدوں پر واقع ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بشارالاسد کی حکومت تین ماہ میں گر جائے گی۔ میں نے ان سے کہا کہ حتی تین سالوں میں بھی نہیں گرے گی۔ ہمارے درمیان بحث ہوئی اور میں نے ان سے کہا: “مختصراً میں آپ لوگوں کو بتا دوں کہ شام کا مسئلہ برفی بندوق ہے جو داخلی اور قبائلی طور پر شروع ہوتا ہے اور پھر علاقائی اور اس کے بعد بین الاقوامی مسئلہ میں تبدیل ہو جاتا ہے لہذا شام کا زوال ناممکن ہے” وہ کہنے لگے: تمہیں شام کے بارے میں شکایت تھی کیونکہ وہ آپ کے خلاف دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں! میں نے ان سے کہا کہ اب ہم (شام اور عراق) خطرے میں ہیں اور اگر دہشت گردی شام پر قابض ہو جاتی ہے تو ۔۔ عراق، لبنان، اردن سب مٹ جائیں گے اور اسرائیل تک بھی دہشت گردی پہنچ جائے گی۔
بہر حال میرے اور ان کے درمیان شدید اختلاف ہو گیا۔ وہ شام کا مکمل محاصرہ کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے شام کا فضائی، زمین اور سمندری محاصرہ کر لیا اور صرف ایک جگہ باقی بچی جہاں سے اس کی حمایت ہو رہی تھی اور وہ عراق تھا۔ شام کے محاصرہ کے سلسلہ میں مجھ پر کافی دباؤ تھا۔ لیکن میں نے انکار کر دیا! میں نے دباؤ قبول نہیں کیا اور میں نے شام کی پروازیں بند نہیں کی اور حضرت زینب(س) کے دفاع کے لئے شام جانے والے لوگوں کو بھی نہیں روکا۔ داعش اور امریکی اس موقف سے کافی پریشان ہوئے اور آخرکار انہوں نے کہا: جیسا کہ امریکی وزیر خارجہ نے ہوشیار زیباری سے کہا: مالکی نے خطے میں ہماری سازشوں اور منصوبوں کو ناکام بنا دیا۔ کیونکہ میں نے شامی حکومت کو زوال سے روکا۔ حتی کے وقت کے امریکی صدر اوباما کے نائب صدر بائیڈن کو ایک کال کے دوران میں نے کہا: آپ کیا چاہتے ہو؟ کیا شام کے محاصرہ کی تکمیل کے سوا کچھ اور چاہتے ہو؟ میں تو کوبا کے محاصرہ کا بھی مخالف تھا تو شام کےمحاصرہ کی حمایت کیسے کر سکتا تھا؟ اور میں آپ کو صاف صاف بتا دوں اگر مجھے یہ محسوس ہوا کہ بشار الاسد کی حکومت گرنے جا رہی ہے تو میں عراقی فوج کو شام میں جنگ کے لئے لے جاؤں گا لہذا مجھ پر اصرار نہ کرو اور دباؤ نہ ڈالو۔ اسی وجہ سے میرے ساتھ امریکی مخالفت شروع ہوگئی اور وہاں ہی سے عراق میں ہمارے مخالف تحریک کا آغاز ہوا اور دہشت گردوں کی حمایت اور دہشت گرد تنظیموں کی حمایت اور الانبار میں دھرنے پر مبنی مخالف تحریک کی امریکی حمایت کا آغاز ہوا۔ امریکہ نے ان احتجاجوں سے اتفاق کیا جبکہ احتجاج بین الاقوامی روڈ بند کر رہے تھے لیکن وہ امریکہ جو دنیا میں ہر جزئی چیز پر بات کرتا تھا اس نے ایک لفظ بھی نہیں کہا اور۔ جبکہ اس نے اپنے طیاروں کے ساتھ مراکز کی تصویرکشی کی۔ عراق اور شام کی سرحد پر صحرا میں کیمپ لگانے کی اجازت دی۔
عراق کی سرحدوں کے اندر؟
عراق کی سرحدوں کے اندر۔ ہم نے ان سے مطالبہ کیا کہ ہمیں استعمال کے لئے دو پرانے ایف۱۶ طیارے دیں کیونکہ ہمارے پاس طیارے نہیں ہیں اور اس کے بجائے ہم نے آپ سے جو نئے طیارے خریدے ہیں وہ دیں گے لیکن انہوں نے قبول نہیں کیا۔
پورا سال وہ ہمیں وعدہ دیتے رہے کہ وہ ان کمپوں پر بمباری کریں گے لیکن انہوں نے جھوٹ بولا اور ان پر حملہ نہیں کیا۔۔۔انہوں نے کہا کہ ہم اردن سے ان پر حملہ کریں گے ہم نے ان سے کہا کہ اردن سے ہمارا معاہدہ نہیں ہے اور یہ پارلیمنٹ مشکل ہے اور ایسا کرنا ممکن نہیں ہے! یہ حاکمیت کا مسئلہ ہے۔ بہر حال ان کا موقف منفی تھا اور جب احتجاج شروع ہوئے تو امریکیوں نے ان کی حمایت کی اور ان کا خیرمقدم کیا اور اس چیز نے عراق کو منظم کیا اور ان کی افواج کا نکالا اور شام کا ساتھ دیا۔
کیا یہ توقع کی جا رہی تھی کہ یہ دباؤ امریکی فوجیوں کی تعمیر نو (عراق میں) اور عراق سے ان کے انخلاء کے بعد ان کی واپسی کے لئے منصوبہ تھا؟ یہ سچ ہے؟
عراق کو سزا دینے کے لئے وہ واپس نہیں آ سکتے تھے لیکن آخر کار معین ہوا کہ جب میں نے حکومت چھوڑ دی تو انہوں نے ہمارے بعد اقتدارمیں آنے والی حکومت پر دباؤ ڈالا اور اپنی افواج کو عراق واپس بھیج دیا اور بڑے پیمانے پر بین الاقوامی اتحاد کے نام پر وہ عراق میں داخل ہوئے۔ یہ مسئلہ ہمیں یقین دلاتا ہے کہ جو دباؤ ڈالا جا رہا تھا وہ واپسی کے لئے تھا۔ اگر موقع ہوتا اور میری حکومت ہوتی تو میں انہیں واپس آنے کی اجازت نہ دیتا کیونکہ ہم نے انہیں عراق سے نکالا اس کی وجہ یہ ہے کہ عراقی آئین غیر ملکی فوجی اڈوں کے وجود کی اجازت نہیں دیتا ہے۔
جب احتجاج شروع ہوا اور وہ ایک سال تک جاری رہا، اسی دوران داعش کو تشکیل دیا گیا۔ داعش الانبار میں مظاہرین کے خیموں میں تشکیل دی گئی۔ عراق میں دھرنوں سے قبل داعش کا وجود نہیں تھا، القاعدہ موجود تھی لیکن ایک گروہ نے القاعدہ سے الگ ہو کر داعش تشکیل دی اور ہم دھرنوں کے اختتام کو پہنچ گئے۔ عملی طور پر جب ہم نے مظاہرین کے خیموں کا خاتمہ کیا تو داعش صحرا میں تیار تھی اور علاقائی ممالک اور امریکہ کی طرف سے براہ راست اور وسیع پیمانہ پر اسے حمایت تھی۔ یہ ہوا کہ داعش نے مختلف علاقوں میں پیش قدمی کی۔ داعش قبائلی۔ سیاسی مسئلہ کا ایک حصہ تھا جس پر عراق کے کچھ سیاسی رہنماؤں نے کام کیا تھا جنہوں نے موصل کے زوال اور صلاح الدین کے زوال کا ساتھ دیا تھا۔ داعش کا قیام امریکہ کے حکم اور اس کی حمایت اور مالی اعانت اور کچھ علاقائی حکومتوں کے ذریعہ عمل میں لایاگیا۔
اگر ہم داعش کے ظہور اور کچھ علاقوں پر قبضہ کے بارے میں بیان کرنا چاہیں تو ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ یہاں ہماری بحث داعش سے جنگ میں امریکی موقف اور الحشد الشعبی کے قیام اور داعش کے خلاف اس سے مقابلہ کے بارے میں ہوگی۔
اگلا سوال الحشد الشعبی تنظیم کے قیام سے متعلق ہے، الحشد الشعبی تنظیم کی تشکیل کا آغاز کہاں سے ہوا؟ بہت سی متضاد خبریں ہیں جن میں سے بعض یہ کہتی ہیں کہ الحشد الشعبی کو مختلف طریقوں اور مختلف ناموں سے تشکیل دیا گیا تھا۔ شائد وہ لوگ جو اس دور یا زمانے کے ناظر ہیں وہ الحشدالشعبی تنظیم کے قیام کو روضوں اور مقدسات کا دفاع کرنے والی فوج کے ساتھ آپ کا تعاون سمجھیں، اس موقف کے بارے میں ہم پوچھنا چاہتے ہیں اور ہم آپ سے اس کی تفصیلات کے بارے میں کچھ پوچھنا چاہتے ہیں۔
جب ہم نے دھرنوں کو ختم کرایا اور داعش کے خلاف جنگ شروع ہوئی تو ہماری وزراء کی کونسل سے ایک میٹنگ ہوئی اور میں نے محسوس کیا کہ فوج اور پولیس ان مغربی علاقوں میں اپنے سیاسی اور قبائلی اور معلوماتی پس منظر کے ساتھ مزاحمت کی طاقت نہیں رکھتے اور فوج ناکام ہوکر پسپائی اختیار کرے گی۔ جیسا کہ موصل میں ہوا۔ موصل میں جنگ واقع نہیں ہوئی بلکہ فوج، پولیس، افسروں اور کمانڈروں کی پسپائی سیاسی پارٹیوں اور تنظیموں کی وجہ سے ہوئی جو ان سے منسوب تھے۔ میں نے صدارتی محل کے اندر ایک کانفرنس میں وزراء سے بات چیت اور خطاب کیا اور قومی تجربات سے استفادہ کیا اور میں نے اپنے تجربات بھی بیان کئے۔ جب ملک اس مرحلہ پر پہنچتا ہے تو حکمران قوم کا رخ کرتے ہیں اور قوم کی ہمت بڑھاتے ہیں۔ ایران نے کمیٹیوں سے مدد لی، عوامی کمیٹیاں یا وہی بسیجی کمیٹیاں، روس نے اپنے روسی انقلاب میں عوامی کمیٹیوں سے مدد لی، اسی طرح الجیریا نے بھی۔ لہذا یہ فوج کا متبادل ہے جو اندرونی قبائلی صورتحال کے نتیجہ میں اس اندرونی شکست سے دوچار ہوئی۔ میرے پاس اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تھا کہ میں اپنے وزیروں کی موجودگی میں عراقی عوام سے مطالبہ کروں کہ وہ ملک کے دفاع کے لئے اسلحہ اٹھائیں یہاں سے مزاحمتی گروہوں نے اپنی حرکت کا آغاز کیا۔
کہ جو عملی طور پرموجود تھے؟
ہاں عملی طور پر وہ موجود تھے اور بعض کے پاس جو ہتھیار تھے انہوں نے اپنے پاس محفوظ رکھے ہوئے تھے۔ میں نے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ داعش کے خلاف لڑنے کے لئے جائیں جرف الصخر میں، بغداد اور الانبار کے مابین سرحدوں پر، ہوئی اڈے اور التاجی کے علاقے میں۔ ابتدا میں ہم نے بغداد کی حمایت کرنا چاہی۔ میں نے مزاحمتی گروہوں کو دعوت دی اور عملی طور پر بھی وہ سب ہتھیار اٹھا کر محاذوں پر چلے گئے۔ ہم نے دیکھا کہ محاذوں پر رجمنٹوں اور ڈویژنوں میں بہت کم فوج موجود تھی۔ لہذا میں نے سب سے پہلا کام جو کیا وہ یہ تھا کہ ان مسلح گروہوں کو رجمنٹ اور ڈویژنوں میں داخل کیا تا کہ وہ مضبوطی کے ساتھ لڑ سکیں اور عملی طور پر پائداری کا ثبوت دیں اور ان علاقوں کے قبائل ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہو گئے۔ جیسے تمیم، البو، عامر اور دوسرے قبائل۔میں نے اس تمام قبائل کو مسلح کیا اور انہوں نے مسلح افراد کا ساتھ دیا اور انہوں نے باقی ماندہ فوج اور پولیس کا ساتھ دیا اور انہوں نے بغداد کی حمایت کرنے والی دیوار بنائی نیز انہوں نے داعش کو پیچھے دھکیل دیا جس کا مقصد بغداد میں داخل ہونا تھا۔ ابتدا میں مسلح گروہ محاذوں میں شامل ہوئے اور وہ مسلح گروہ کئی مہینوں تک طویل عرصے تک لڑتے رہے۔ مرجع کے فتویٰ نے اس قومی کام کوقومی اور روحانی جذبہ عطا کیا اور باعث بنا کہ لوگ وسیع پیمانے پر فوجوں کی شکل میں محاذوں پر جائیں جسے بعد میں ہم نے الحشد الشعبی (عوامی قوتیں) نام دیا۔
الحشد الشعبی تنظیم کی تشکیل سے پہلے ہم اس جگہ (جناب المالکی کے گھر) بیٹھتے تھے اور منصوبہ بندی کرتے تھے، حاج قاسم رحمۃ اللہ علیہ اور ابو مہدی بھی موجود ہوتے تھے اور ہم منصوبوں، حرکت کی کیفیت اور مزاحمت کا جائزہ لیتے تھے، خواہ وہ سامراہ کا محاذ ہو، خواہ بغداد کا ہو، یا جرف الصخر یا حتی کربلا کی حمایت کرنا ہو۔ ہم تقریباً ہر زور یہاں بیٹھتے تھے، فیصلہ کرتے تھے اور منصوبہ بناتے تھے اور جنگی محاذ سے ملحق ہونے والے فوجی اور مزاحمتی گروہوں کو ضروری ہدایات دیتے تھے۔
یہ الحشد الشعبی کے قیام کا آغاز تھا۔ الحشد الشعبی فتویٰ صادر ہونے سے پہلے قائم ہوئی اور فتویٰ نے مسلح گروہوں کے کردار کو بھرپور حمایت اور مدد فراہم کی۔ فتویٰ کے بعد مسلح اور منظم گروہوں کا کام عوامی شکل میں بدل گیا اسی وجہ سے ہم نے اس کا الحشدالشعبی نام رکھا، الحشد الشعبی کی تنظیم تشکیل پائی اور اس کا حکم جاری ہوا اور اس کے سربراہ اور نائب سربراہ بن گئے۔ اس کے بعد الحشد الشعبی کے ڈھانچے نے اپنی شکل اختیار کرنا شروع کر دی۔ ابتدا میں الحشد الشعبی منظم نہیں تھی بلکہ ایسی کاروائی تھی کہ عوامی تحریک کہتے ہیں۔ یعنی جو بھی ہتھیار اٹھا سکتا تھا وہ مقابلہ کے لئے جاتا اور ہمارا اور گروپوں میں شامل دوسرے بھائیوں کا کردار یہ تھا کہ ہم انہیں قبول کر کے ہدایت دیں اور ان کی صلاحیتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بغداد، سامراہ، کربلا اور صحرا میں اس کے (داعش) محاصرہ کے لئے متحرک کریں۔ واقعات رونما ہونے سے پہلے میرے لئے واضح تھا کہ یہ روز روشن کی طرح رونما ہوں گے۔ ۲۰۱۲ میں نے ان سے کہا تھا کہ شام میں ہونے واقعات کے بعد کالی آندھی ہماری طرف آئے گی۔ کچھ صوبوں پر قبضہ ہو جائے گا، عراقی فوج کو شکست ہو گی اور ہم عراق میں خطرناک صورت حال کامقابلہ کرنے کے لئے قوم کے نیک کرداراور خیر خواہ افراد سے مدد لینے کے لئے مجبور ہو جائیں گے۔ عملی طور پر بھی میں نے جو پیشگوئی کی تھی وہی رونما ہوئی اور الحشد الشعبی تنظیم نے مختلف میدانوں حکمت عملی اختیار کر لی۔ اس کی فوج اور دوسرے مسائل تشکیل پائے یہاں تک کہ اس میں بدلاؤ آ گیا اور اس کی صورتحال اس مقام تک پہنچ گئی جہاں آج ہے۔ یقیناً اس کی منصوبہ بندی میں ابومہدی اور حاج قاسم کی کاوشیں واقعی قابل تحسین ہیں۔ جب الحشد الشعبی تشکیل پائی تو اور جب داعش کا وجود سامنے آیا اور موصل اورصلاح الدین کے صوبے ان کے قبضے میں چلے گئے۔ البتہ الانبار پر قبضہ نہیں ہوا تھا بلکہ صوبے کے کچھ حصہ ان کے قبضہ میں چلے گئے۔ ہمارے پاس اسلحہ تھا جو ہم نے امریکہ سے خریدا تھا اور امریکی اسلحہ بھی تھا جو عراق میں تھا۔ ہیلی کاپٹر، توپخانے، ٹینک اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے دوسرے ہتھیار۔ یہیں سے ہی امریکہ کا موقف واضح ہو گیا جو ہماری شکست کا خواہاں تھا۔ انہوں نے ہمیں سامان دینا چھوڑ دیا، انہوں نے ہمیں طیاروں اور ہیلی کاپٹروں اور ٹینکوں کا سامان بھی بند کر دیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے بند گاڑیاں بھی دینا بند کر دیں نیز انہوں نے انسداد دہشت گردی کا ساز و سامان دینا بھی بند کر دیا کیونکہ ان کے پاس خصوصی ہتھیار تھے۔ ہم جب بھی خریدے گئے اسلحے یا سامان تک پہنچنے کی کوشش کرتے تو ناکام ہو جاتے۔
مثال کے طور پر وہ ہمیں ابرامس ٹینک دیتے تھے جن کی مار ۶۰۰میٹر اور اس کی گولیاں نشانہ دار تھیں اور یہ چیز ان ابرامس ٹینک کے اوزار اور ساز و سامان میں نہیں تھی جن کی مار ۱۲ کیلو میٹر تھی اور وہ بہت مضبوط تھے۔ امریکیوں کا موقف یہ تھا، انہوں نے ہماری تمام حمایت چھوڑ دی اور سب چیزیں بند کر دیں اور ہمیں کچھ بھی نہیں دیا بلکہ انہوں نے داعش سے وابستہ گروہوں کی حمایت شروع کر دی!۔
ایسی صورتحال میں ہمیں کہاں جانا چاہئے تھا؟ میں نے مختلف ممالک میں وفود بھیجے پولینڈ اور بلغاریہ اور ہم نے ان سے اسلحہ خریدا لیکن ان کے ہتھیار ہم تک تیزی سے نہیں پہنچ سکتے تھے کیونکہ انہوں نے ہمیں فروخت کے لئے تیار ہتھیار پیش نہیں کئے بلکہ وہ اس دوران اسلحہ بنا رہے تھے جب ہم داعش کا مقابلہ کر رہے تھے۔ داعش، ہماری افواج کے پاس سے زیادہ ہتھیاروں کے ساتھ ظاہر ہوئی شائد ہمارے پاس ٹینک موجود تھے لیکن یہ جنگ ٹینکوں کی جنگ نہیں تھی۔
کیا داعش کا کچھ اسلحہ فوج کا اسلحہ تھا کہ جب وہ شہروں میں داخل ہوئی تو اس کے ہاتھ لگا؟
ہاں کچھ اسلحہ پر اس نے قبضہ کر لیا تھا حقیقت میں موصل میں اس نے واضح طور پر کچھ اسلحہ پر قبضہ کر لیا لیکن موصل میں زیادہ تر اسلحہ کردوں کے ہاتھوں میں آ گیا تھا، خاص طور پر کرکوک اور موصل میں اسلحہ کردوں کے قبضہ میں آ گیا۔
کیا کردوں نے یہ اسلحہ داعش کے خلاف استعمال کیا یا ہمیں اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے؟
بہتر لفظوں میں کہوں، کرد اسلحہ اٹھا کر لے گئے اور جب داعش نے ان کا رخ کیا تو انہوں نے کچھ اسلحہ استعمال کیا لیکن وہ اس وقت تک داعش کا مقابلہ نہیں کر سکے جب تک اسلامی جمہوریہ کی مداخلت نہیں ہوئی اور اسی دوران ہم نے بھی مداخلت کی۔
تھا اور ہمیں بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، میں جہاز پر سوار ہو کر روس جانے اور پوتن سے ملاقات کرنے پر مجبور ہو گیا اور میں نے ان سے کہا کہ وہ ہمیں جلد اسلحہ دیں، ۲۸ مئی اور ۳۵ مئی جیسے پیشرفتہ طیارے اور جنگ کے دوسرے ضروری ہتھیار اور روس نے بھی ہمیں جلدی سے لیس کر دیا۔
لیکن حقیقت میں جس شخص نے ہماری مدد کی اور ہتھیاروں کی ہماری ضرورت کو پورا کیا خدا اس پر رحم کرے وہ حاج قاسم تھے۔ یہاں اس جگہ رات کے وقت ہم اسلحہ کی قسم پر اتفاق کرتے تھے اور اگلے دن اسلحہ فوری طور پر اور براہ راست عراق میں داخل ہو جاتا تھا۔ اسلحہ مفت نہیں تھا ہم اسے خریدتے تھے۔ دوسرے ممالک سے بھی اسلحہ خریدتے تھے لیکن اسلحہ زیادہ مقدار میں دستیاب نہیں تھا۔ صرف حاج قاسم ہی تھے جو ضرورت پڑتے ہی ایرانی فوج اور سپاہ پاسداران ایران سے اسلحہ لاتے تھے اور وہ اسے جنگ میں اپنے ساتھ رکھتے اور انہوں نے اس کام اور اس قدم کے ذریعہ صورتحال کو تبدیل کیا۔ انہوں نے ہمیں اسلحہ، ساز و سامان اور سہولیات فراہم کیں اور اس کے علاوہ جنگی حکمت عملی اور فوجی تجزیہ اور فوجی معلومات اور اپنے ساتھ اپنے کمانڈروں کو میدان میں لاتے تھے۔ یہ چیز ان بعض ماہرین کے خلاف تھی جو فوجی قوتوں اور الحشدالشعبی کی افواج کا ساتھ دیتے تھے۔ ہم بہت سے مختلف اسلحے، سامان، مشینری اور ڈرون خریدتے تھے جو جنگ میں استعمال ہوتے تھے اور ایران ہماری ضروریات کو پورا کرتا تھا۔ ہمیں یہاں تک کہ سوخو طیاروں کی اشد ضرورت تھی اور ہم نے حاج قاسم سے کہا وہ ہمیں ایرانی سوخو بیچیں اور عملی طور پر ہم ان کی مدد سے داعش کی بہت سی تخریبکارانہ سرگرمیوں کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوئے۔
حاج قاسم رحمت اللہ علیہ اور حاج ابومہدی کی موجودگی میں ہم کاموں کو تقسیم کرتے تھے اور حاج ابومہدی نے راستے کھولنے اور سامراہ کی جانب جانے والی سڑک کی حمایت کو اپنے ذمہ لیا۔ سامراہ کی سڑک کھولنے کا کام بہت سخت تھا کیونکہ پوری سڑک پر شدت پسندوں کا کنٹرول تھا۔ اس علاقے میں داعش نہیں تھی، امانتداری کے تحفظ کے لئے مجھے یہ کہنا ضروری ہے کہ ہم نے صرف داعش کا مقابلہ نہیں کیا۔ نہیں۔۔۔ وہ لوگ جنہوں نے ہمارے خلاف جنگ کی اور ہم ان کے خلاف لڑے وہ علاقے کے لوگوں میں سے کچھ فرقہ پرست تھے، حقیقت میں یہ فرقہ وارانہ تحریک تھی اور داعش نے اس سے استفادہ کیا۔ داعش کو مناسب فضا اور ماحول ملا جس پر اس نے حرکت کرنا شروع کر دی ورنہ یہ کہنا ضروری ہے کہ یہ جنگ بنیادی طور ایک فرقہ وارانہ جنگ تھی۔ فرقہ پرست وہی قبائلی شیخ اور سیاسی شخصیات تھیں جنہوں نے کہا کہ ہم داعش کو نہیں دیکھتے۔ حقیقت میں ہمارے بچوں نے ہمارے خلاف جنگ لڑی اور وہ بھی ایک فرقہ وارانہ تحریک اور ان میں سے بعض نے مجھ سے کہا:۱۹۹۱میں ہمارے خلاف ایک تحریک چلائی گئی اور ہم بھی ۲۰۱۴ میں آپ کے خلاف تحریک شروع کریں گے۔
کیا انہوں نے یہی جملہ کہا۔۔۔؟
اسی متن کے ساتھ۔ حاج ابومہدی رحمت اللہ علیہ نے اس انتہائی خطرناک سڑک کو کھولا کیونکہ سامراہ کی طرف جانے والے تمام شہر ان کے کنٹرول میں تھے اور بہت سی جھڑپیں اسی سڑک پر ہوئیں۔ ابومہدی رحمت اللہ علیہ باغوں میں ایک اور راستہ کھولنے پر مجبور ہو گئے اور ٹینکوں کو اسی راستے سے گزارنا پڑا۔ وہ ٹینک جو سامراہ پہنچنے میں کامیاب ہوئے اور انہوں نے سڑکوں پر کنٹرول شدہ باندھوں کا محاصرہ کیا سڑک کھل گئی اور رفت و آمد کا آغاز ہو گیا۔
اس کے بعد حاج ابومہدی اور حاج قاسم کی حمایت اور منصوبہ بندی کے ذریعہ ہم امرلی گئے جو ۹۰ دن سے محاصرہ میں تھا اور عملی طور پر الحشدالشعبی فوجیں امرلی گئیں اور ہم امرلی کا محاصرہ کرنے والے انتہا پسندوں کا محاصرہ توڑنے میں کامیاب ہو گئے۔ اسی طرح ہم امرلی کا محاصرہ توڑ کر معمول کی زندگی کو واپس لانے میں بھی کامیاب ہو گئے۔ المختصر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگرچہ بہت ساری تفصیلات موجود ہیں کہ عراق میں حمایت، اسلحہ اور مہارت سب یکجا ہوئے اور حاج قاسم اور حاج ابومہدی المہندس کی براہ راست حمایت اور مدد سے یہ کام ہوا۔
اس راستے میں آپ کی سرگرمی کے دوران سیاسی اور جہادی پہلو میں اگر کوئی مخصوص مسئلہ یا اہم اور ممتاز موقف پایا جاتا ہے اور اسے آپ بیان کرنا چاہتے ہیں تو برائے مہربانی بیان کریں؟
میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ حاج قاسم سے میرے تمام روابط واقعات سے بھرے ہوئے ہیں جو مجھے ہر روز یاد آتے ہیں شائد سب سے اہم یاد جو میرے ذہن میں آتی ہے وہ راتیں ہیں جن میں ہم منصوبے بناتے تھے اور انجام پانے والی کاروائی کے لئے منصوبہ بندی کرتے تھے۔۔۔ کچھ لوگ الحشد الشعبی کے ابتدائی کام کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ لکھنا چاہتے تھے میں نے انہیں نقشے بتائے اور ان پر تبادلہ خیال کرنے ہم راتوں بیٹھتے تھے میرے خیال میں وہ ابھی یہاں (ان کے گھر میں ان کے خصوصی دفتر میں) ہوں گے یا ہمارے بھائی انہیں کسی اور جگہ لے گئے ہیں۔
یہ وہی الحشد الشعبی کا آغاز تھا اس طرح کہ حاج قاسم اور ابومہدی انہیں (نقشوں) لاتے تھے اور یہاں رکھ کر انہیں پھیلاتے تھے اور فیصلے کرتے تھے۔ حاج قاسم اپنی مہارت کی بنا پر ایک فوجی اور میدانی کمانڈر کے عنوان سے افواج کی نقل و حرکت کے لئے یا الحشد الشعبی کے نام سے جو قوتیں تھیں ان کے لئے منصوبہ بندی کرتے تھے۔
حاج قاسم کے ساتھ میری یادیں روزانہ کی یادیں تھیں میں انہیں کسی ایک واقعہ میں خلاصہ نہیں کر سکتا۔ ان کے ساتھ میری یادیں روزانہ مقابلوں کی تحریک اور جدوجہد پر مبنی یادیں تھیں۔ جنگ کے سلسلہ میں سب سے پہلا واقعہ یہ ہے کہ جب وہ ہوائی اڈے کے قریب پہنچ گئے تو کیونکہ یہ علاقے الانبار کے ساتھ ملتے ہیں لہذا ہوائی اڈے کے علاقے پر دباؤ بڑھتا گیا۔ اس مقام پر حاج قاسم، ابومہدی اور میں سب مل کر یہ سوچ رہے تھے کہ اس حملے کے خلاف ہوائی اڈے کا دفاع کیسے کیا جائے۔ حاج قاسم نے جو منصوبہ تیار کیا اس پر ہم نے عمل درآمد کیا اور اس منصوبے کے تحت ہم نے قبائل میں جذبہ پیدا کیا یہ ایسا منصوبہ تھا جو خوشی پر مبنی تھا کیونکہ ہم داعش کو اس کی مدد سے شکست دینے اور ان عناصر کو پسپا کرنے میں کامیاب ہوئے جو ایئرپورٹ پر حملہ کرنا چاہتے تھے۔
داعش کے ساتھ جنگ کے دوران میری پوری زندگی یادوں سے بھری ہوئی ہے میں اسے ایک واقعہ میں خلاصہ نہیں کر سکتا۔
وزیر اعظم کے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد میں دیالہ کے اوپری جنگی علاقوں میں گیا۔ ہم داعش اور اپنی افواج کے مابین ایک ایسے علاقے میں پہنچے جہاں فوج اور الحشد الشعبی ایک ساتھ تھے۔ صورتحال خطرناک تھی اور مجھے وہاں زیادہ دیر تک رہنے کی اجازت نہیں دی گئی کیونکہ گولہ باری جاری تھی۔ ایک لمحے کے لئے میں نے دیکھا کہ حاج قاسم کار سے اترے وہ دشمن کے محاذ اور جنگی علاقے سے آئے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کہاں تھے اور وہاں کیسے گئے؟ انہوں نے مجھ سے کہا: آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ یہ شخص (محاذ پر) موجود رہتا تھا اور عراق سے باہر کسی دفتر میں نہیں بیٹھتا تھا اور نہ ہی اس دفتر سے جنگ کی رہنمائی کرتا تھا اور نہ ہی وہ عراق سے باہر کسی دفتر سے اپنی مدد کی پیش کش کرتا تھا بلکہ وہ فرنٹ لائن پر تھاجہاں میرے بھائی مجھے رہنے کی اجزات نہیں دیتے تھے اور وہ مجھے کہتے تھے کہ یہ علاقہ خطرناک ہے۔
محاصرے اور کامیابی کے بعد جب ہم کسی اور سفر پر الصقلاویہ گئے جیسے ہی ہم الصقلاویہ کی سرحد پر پہنچے تو انہوں نے مجھے روک دیا اور کہا کہ یہ علاقہ خطرناک ہے وہاں بھی میں نے دیکھا کہ حاج قاسم اپنی کار سے باہر نکلے اور ہمارے ساتھ کھڑے ہو
ان یادوں سے مجھے یہ تأثر ملتا ہے کہ یہ شخص خالص مذہبی شخص نہیں تھا بلکہ ایک میدانی شخص تھا اور وہ خود میدان میں جا کر جائزہ لیتا تھا۔ وہ بہت محبوب تھا اور اور تمام مجاہدین اس کی باتوں کو سنتے تھے خدا اسے غریق رحمت کرے۔
سیاسی میدان میں جب آپ وزیر اعظم تھے یا اس کے بعد کا مرحلہ، ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سب سے اہم لمحہ جس میں آپ کو محسوس ہوا ہو کہ وہ آپ کے ساتھ حتی عراق کے ساتھ ہیں وہ کون سا لمحہ تھا، آپ نے حاجی کی اہمیت کو کب پہچانا؟
حقیقت یہ ہے کہ میں نے حاجی سے آخری دن ملاقات کی تھی جب میں ایران میں تھا اور صدام کے زوال کے بعد ۹۔ ۴۔ ۲۰۰۳کے بعد جب میں نے عراق واپس آنے کا فیصلہ کیا تو میری ان سے واقفیت ہوئی۔ اس سے پہلے میں نے انہیں نہیں دیکھا تھا۔۔۔ ہم عراق واپس آئے اور امریکیوں اور بین الاقوامی قوتوں اور حکومتی کونسل کی تشکیل اور اس کے بعد قومی اسمبلی اور پھر عبوری حکومت اور پھر عارضی حکومت کے قیام کے سائے میں اس سیاسی راستہ کا آغاز کیا۔ ایسی تمام فضاؤں میں حاج قاسم سے میری واقفیت نہیں ہوئی بلکہ میں اس کے بعد ان سے آشنا ہوا جب ہم اسلامی جمہوریہ کے سامنے اپنی آغوش کھول رہے تھے اور ان سے تعلقات برقرار کر رہے تھے، ایران اور حضرت آیت اللہ سید خامنہ ای حفظہ اللہ کے ساتھ ہمارے تعلقات حاج قاسم کے ذریعہ برقرار ہوئے۔ وہی تھے جو ہمارے اور اسلامی جمہوریہ کے مابین مثبت ماحول پیدا کرتے تھے۔ اس وقت جنگ یا اسلحے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ عراق کو مدد کی ضرورت تھی۔ عراق کی حمایت کے دوران وہ ہمارے ساتھ تھے۔ حاج قاسم کے نزدیک عراق کا معاملہ محض ایک جنگ سے کہیں بڑا تھا۔ ان کی مدد صرف جنگ تک ہی محدود نہیں تھی، انہوں نے عراق کو خوراک، بجلی، گیس، ایندھن اور عراق کی ضرورت والی ہر چیز کے مسائل حل کرنے میں مدد کی، حاج قاسم ہی تھے جو ہمارے لئے یہ سب کچھ مہیا کرتے تھے۔
آخری سوال: مغربی ایشیاء میں حاج قاسم رحمت اللہ علیہ کی بین الاقوامی موجودگی، ایک نمایاں موجودگی تھی اب ان کی شہادت کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ اس موجودگی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ حاج قاسم جب مزاحمتی محور اور آزادی کے متلاشیوں کے عنوان سے مختلف ممالک میں داخل ہوئے۔۔۔ عراق میں، لبنان میں، شام میں، یمن میں اور دوسرے علاقوں میں تو انہیں اسی کردار سے پہچانا گیا۔ کیونکہ وہ ان تمام میدانوں میں موجود تھے اور اپنی فکری طاقت حتی مادی اور حمایت اور ایجاد و تنظیم کے لحاظ سے ان کی پرورش کرتے تھے۔ وہ غزہ میں موجود تھے، وہ خود جاتے تھے، لبنان میں وہ موجود تھے، شام میں وہ موجود تھے اور عراق میں بھی وہ موجود تھے۔ وہ مزاحمتی تحریک کو بہت اچھے انداز میں منظم کرتے تھے۔ انہوں نے بہت سی فیلڈز بھریں اور وہ مشہور ہو گئے۔ کوئی بھی تحریک چلانے والا حاج قاسم کے سامنے اپنی آغوش کھول دیتا تھا اور وہ ان سے اپنی تحریک کی حمایت کے لئے مدد لیتا تھا۔ حاج قاسم کی شہادت ان ممالک اور ان اقوام کے لئے ایک بہت بڑا نقصان ہے جو پریشانی کا شکار ہیں۔ اور جن کو ہم آزادی پسند ثقافتی تحریک، فکری، سیاسی، فوجی اور سیکیورٹی مزاحمت کے مالک سمجھتے تھے ان سب نے حاج قاسم کو کھو دیا۔۔۔ مجھے امید ہے کہ حاج قاسم کے جانشین اسی راستہ کو برقرار رکھیں گے اور اسی راستے کو جاری رکھیں گے جو حاج کا راستہ ہے اور ہم جانتے ہیں کہ وہ بھی حاج قاسم کی طرح ہیں۔ حاج قاسم ایک ایسے اسلامی انسان تھے جو یہ سوچتے تھے کہ امت مسلمہ کا وجود ہونا چاہئے اور اسے طاقتور ہونا چاہئے۔ اسی وجہ سے وہ حاج قاسم اور اسلامی جمہوریہ سے خوفزدہ تھے کہ انہوں نے اسکتبار اور اسرائیل کا مقابلہ کرنے اور اسے نابود کرنے کے لئے مضبوط محور تشکیل دیا۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب