مواد

حاج قاسم کے بارے میں ناگفتہ باتیں


Jan 03 2021
حاج قاسم کے بارے میں ناگفتہ باتیں
داعش کے بارے میں رہبر معظم انقلاب کے مشوروں سے لے کر سعودی عرب کے بارے میں جنرل کی رائے تک۔
شہید جنرل قاسم سلیمانی کے بارے میں المیادین نیوز ایجنسی کے خصوصی پروگرام میں جنرل سلیمانی کی پروفائل میں داعش کے خلاف جنگ سے متعلق رہبر معظم انقلاب کے مشورے، سعودیوں کے بارے میں جنرل کی رائے اور سابق لبنانی وزیر اعظم کے رجحان جیسی ناگفتہ باتیں پیش کی گئیں۔
المیادین نیوز ایجنسی نے شہید قاسم سلیمانی کے بارے میں ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے ساتھ اپنے انٹرویو کے علاوہ  ایک سابق سفارتکار “امیر موسوی” سے بھی گفتگو کی۔
اس انٹرویو میں موسوی نے جنرل شہید سلیمانی کی شخصیت کے مختلف سیاسی اور عسکری پہلوؤں کے بارے میں المیادین نیوز ایجنسی کے مختلف سوالات کے جوابات دئے اور ان کے بارے میں کچھ ناگفتہ باتوں کا تذکرہ کیا۔
سعد الحریری کی جنرل سے ملاقات کی تمنا
جنرل سلیمانی کی کارکردگی کے بارے میں موسوی نے کہا کہ وہ ایک ایسے شخص تھے جن کے خطے کی تمام جماعتوں سے اچھے تعلقات تھے۔ مثال کے طور پر عراق میں اس کے برخلاف جو کہا جاتا ہے کہ ان کے تعلقات صرف ایک گروہ سے تھے بالکل ایسا نہیں ہے۔ وہ عراق میں تمام جماعتوں سے جڑے ہوئے تھے۔ کردستان یا الانبار میں اگر کوئی مشکل پیش آتی تو وہ وہاں حاضر ہو جاتے۔ مثال کے طور پرجنوبی کردستان میں الانبار میں سنی قبائل کے ساتھ ان کا رابطہ تھا اور بعض اوقات اگر کوئی مشکل پیش آتی تو وہ اسے حل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ہرگز ایسا نہیں تھا کہ وہ ایک گروہ پر منحصر ہوں۔ لبنان میں بھی ایسا تھا۔ مثلا جب سعد الحریری نے تہران کا سفر کیا تو وہ حقیقت میں جنرل سلیمانی کے ساتھ ملاقات کا شوق رکھتے تھے۔ میں اس بات کی تصدیق یا تردید نہیں کر سکتا کہ یہ ملاقات ہوئی یا نہیں ہوئی لیکن وہ ان سے ملنے کا کافی شوق رکھتے تھے۔ لبنان میں حتی وہ لوگ جو اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف سخت موقف اختیار کئے ہوئے تھے جب وہ سنتے تھے کہ شہید سلیمانی قریب ہی کسی جگہ تشریف لائے ہیں تو وہ ان کے ساتھ ملاقات اور اجلاس کی خواہش کرتے تھے۔
بڑے مقاصد کے لئے قوم اور مذہب سے بڑھ کر طرز عمل
اس سوال پر کہ ان رجحانات کا کیا مطلب ہے موسوی نے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس شخص نے بھی ان سے ملاقات کی یا ان کے ساتھ زندگی بسر کی ہے اسے معلوم ہے کہ ان کی دو نمایاں خصوصیات تھیں: پہلی یہ کہ وہ قوم و مذہب سے بڑھ کر سوچتے تھے۔ دوسری یہ کہ وہ سیاست اور پارٹی بازی سے دور رہتے تھے خواہ عراق، لبنان، فلسطین اور یہاں تک کہ ایران میں بھی۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ ہمیں مرکزی اور بنیادی امور کو سمجھنا چاہئے۔ یہ حکمت عملی سبب بنی تھی کہ وہ چھوٹے معاملات کو نظر انداز کر دیں۔ وہ فریقین کے مابین تفہیم و تفاہم ایجاد کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ وہ سمجھوتے کے لئے کسی رکاوٹ کے قائل نہیں تھے اور ان کا واحد مقصد خطے میں امریکی۔ صیہونی منصوبوں کا مقابلہ تھا۔ اسی وجہ سے عمومی افکار کے برخلاف ان تک پہنچنا آسان تھا۔ مثال کے طور پر مجھے یاد ہے کہ ایک عراقی شخصیت تہران ہوائی اڈے پر آئی تھی اور یہ سن کر شہید حیرت زدہ ہو گئے کہ فلاں ابھی ایئرپورٹ پر ہے اور آپ سے ملنا چاہتا ہے اور اس کے بعد اسے بغداد واپس جانا ہے۔ اگرچہ وہ تہران سے باہر تھے لیکن اس کے باوجود وہ تہران آئے اور ایئرپورٹ کے قریب جا کر اس شخصیت سے ملاقات کی۔ یہ رابطہ امت کے مسائل حل کرنے کے لئے تھا۔
فلسطینی وفد کے ایک مسئلہ کا کچھ منٹ میں حل:
فلسطینی مسئلہ کا بھی یہی حال تھا۔ البتہ بعض اوقات فلسطینی بھائیوں کے درمیان غزہ میں یا غزہ اورکرانہ باختری کے مابین مسائل پیدا ہوتے تھے۔ ان کے تعلقات سب سے اچھے تھے حتی کرانہ باختری کے فریقوں سے بھی۔ جب عزام الاحمد ایک وفد کے ساتھ محمود عباس کی جانب سے تہران آئے تو وہ وفد شہید کمانڈر سے ملنا چاہتا تھا، میں نہیں کہوں گا کہ یہ ملاقات ہوئی یا نہیں ہوئی لیکن یہ مسئلہ کچھ ہی منٹوں میں جنرل سلیمانی کی موجودگی میں حل ہو گیا۔ فلسطینی وفد بھی حیرت زدہ ہو گیا کہ کچھ منٹ کے اندر کیسے یہ مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ انہوں نے محمود عباس کے خلاف کوئی موقف اختیار کیا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا نہیں ایسا نہیں ہے۔ اہم یہ ہے کہ فلسطینیوں سمیت سب کے ساتھ معاملہ کرنا ضروری ہے کیونکہ مسئلہ اس سے بھی بڑا ہے اور وہ صیہونی حکومت کا مقابلہ اور اس کے خلاف عزم پیدا کرنا ہے۔ جو بھی انہیں قریب سے جانتا تھا اسے معلوم تھا کہ  عقلمندی، سادگی اور عاجزانہ سلوک ان کی خصوصیات تھیں۔ حتی وہ کچھ ملاقاتوں میں مترجم کے بجائے براہ راست گفتگو کرنا پسند کرتے تھے حالانکہ ان کے لئے عربی بولنا مشکل تھا۔ لیکن انہیں پسند تھا کہ بعض اوقات مترجم انہیں براہ راست رابطے کی اجازت دے۔
جنرل صرف سیکیورٹی کے آدمی نہیں تھے:
المیادین کے میزبان وفا سرایا نے کہا کہ جناب ظریف نے کہاکہ شہید سلیمانی ، جنرل سلیمانی سے زیادہ مؤثر ثابت ہوں گے۔ اس بیان کا مطلب کیا ہے انہوں نے کہا: یہ ان کی مظلومیت کی وجہ سے ہے۔ وہ خائنانہ اندازہ میں شہید کئے گئے اور وہ براہ راست میدان جنگ میں نہیں تھے۔ ہم نے ان کے لئے ایران اور خطے کے ممالک میں تقریبات کا مشاہدہ کیا یہاں تک کہ وینزویلا اور پارٹیوں کے رہنماؤں  میں بھی ۔ لوگوں کو شہید سلیمانی سے عجیب محبت تھی۔ جیسا کہ جناب وزیر [ظریف] نے کہا ہم نے یہ مختلف ممالک میں دیکھا ہے۔ وہ صرف ایک فوجی آدمی نہیں تھے بلکہ ایک ایسے آدمی تھے جنہوں نے لوگوں کے دلوں میں ایک مقام حاصل کیا تھا اور وہ مؤثر تھے۔ ان کے اور ابومہدی المہندس اور ان کے ساتھیوں کے خون نے لوگوں میں ہلچل مچا دی۔ موسوی نے کہا کہ اس کے برخلاف کہ جو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ایک سیکیورٹی کے آدمی تھے، وہ سفارتی سطح پر بھی سرگرم تھے اور مختلف ممالک کے عہدیداروں سے مختلف سطحوں پر ملاقات کیا کرتے تھے۔
سعودی عرب کے بارے میں جنرل کی رائے:
مثال کے طور پر سعودی عرب کے معاملے میں ایک اہم نکتہ ہے جس کا ذکر کرنا چاہئے۔ سعودی عرب [سعودیوں] کو ان کے وہموں سے نکالنا شہید کا منصوبہ تھا۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ ہمیں ان کی [سعودیوں] مدد کرنی چاہئے کیونکہ ان کے ذہنوں میں خطرناک وہم پائے جاتے ہیں جو خود کو اور معاشرے اور خطے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ کیونکہ وہ غلطیوں کا شکار ہیں اور امور کو ٹھیک سے نہیں دیکھتے۔ لہذا وہ ان کی مدد کرنا چاہتے تھے۔ یہاں تک کہ جب متحدہ عرب امارات، سعودی عرب یا بحرین سے سلامتی وفد آتے تھے وہ ان سے رابطہ برقرار کرنے کی کوشش کرتے تھے نیز ان کی رائے جاننا اور انہیں کچھ مشورہ دینا پسند کرتے تھے۔
وہ خطے میں مزاحمت کو مضبوط بنانا چاہتے تھے۔ جب انہوں نے خطے کے ممالک کے رہنماؤں سے ملاقات کی اور وہ  ان سے ان کی رائے چاہتے تھے تو وہ یاد دلاتے تھے کہ میں مزاحمتی محور کا مشیر ہوں، فیصلہ آپ خود کریں۔ آپ فلسطینی ہیں اور فیصلہ آپ کا ہے یا آپ لبنانی ہیں اور آپ وہ فیصلہ کریں جو آپ کے ملک کے لئے مناسب ہو۔ لگائے گئے الزامات کے برخلاف وہ کسی پر حکم نہیں لگاتے تھے۔
داعش کے خلاف جنگ کے بارے میں رہبر معظم کے مشورے:
المیادین نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے جنرل سلیمانی کی انسانی شخصیت کے بارے میں پوچھا اور کہا کہ جناب ظریف نے ہمارے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ایسا کئی بار ہوا ہے کہ انہوں نے انسانیت سوز مسائل کی وجہ سے کاروائی بند کی۔ موسوی نے کہا: میں جناب ظریف کی گفتگو میں کچھ اضافہ کر کے کہتا ہوں کہ وہ جنگجوؤں اور یہاں تک کہ داعشی عناصر کے ساتھ بھی ایسا سلوک کیا کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ امام خمینیؒ نے سپاہ اور ایران کے دوستوں سے کہا کہ حتی شام و عراق میں داعش کے خلاف جنگ میں جہاں تک ممکن ہو انہیں قتل نہ کرو اور انہیں اسیر بناؤ کیونکہ وہ نوجوان ہیں جن کو دھوکہ دیا گیا ہے۔ انہیں سعودی مفتیوں وغیرہ کے جاری کردہ فتوؤں کے ذریعہ دھوکہ دیا گیا ہے اور یہی چیز سبب بنی ہے کہ وہ شام ، عراق اور دیگر جگہوں پر اس طرح کے جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ وہ ہمیشہ مشورہ دیتے تھے کہ انہیں حتی الامکان قتل کرنے کے بجائے اسیر بنایا جائے۔ انہیں لا کر ان کی افکار کی اصلاح کی جائے کیونکہ بحرین، سعودی عرب اور دوسرے علاقوں میں درباری مبلغین نے ان کے خیالات تکفیری بنا دئے ہیں اور انہوں نے ان کے ذہنوں میں مجرمانہ خیالات پیدا کر دئے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب کے مشورہ کا نتیجہ: داعش کے عناصر کو راغب کرنا
لہذا وہ انسانی ذمہ داری کے حامل تھے نہ صرف اسلامی۔ ان کی کوشش تھی کہ ان افراد کے سلسلہ میں جہاں تک ممکن ہو جواز پیش کریں یہاں پر میں ان کی سادگی صرف ایک مثال بیان کروں گا۔ داعش کے کچھ اسیر جو شامی نوجوانوں کی اسارت میں تھے انہوں نے  آخرکار [شامی فوج کی صفوں میں]  دیرالزور کی آزادی کے لئے اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لئے شرکت کی۔ یعنی وہ اس مقام تک پہنچے اور ان کے پہنچنے کی وجہ یہ ہے کہ انہیں احساس ہو گیا کہ وہ غلطی پر تھے۔ لہذا اس کام کا نتیجہ یہ ہوا کہ شام کی آزادی کے لئے ان قوتوں سے استفادہ کیا گیا اور ان ہی کے ذرریعہ دوسرے تکفیریوں کو شکست دی جاتی تھی۔ لہذا میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک قسم کا مکتب ہے اور تاریخ میں باقی رہے گا۔
جنرل کے قتل پر قانونی کاروائی کی جائے گی
المیادین نے کہا ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ جنرل سلیمانی کے قتل کے مرتکب شخص کے خلاف کاروائی کی جائے۔ اس سلسلہ میں آپ کی رائے کیا ہے موسوی نے کہا: جناب ظریف بین الاقوامی وکلاء سے ملاقات کر رہے ہیں اور ان کے پاس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کے دیگر وزراء کے اعتراف سمیت دستاویزات موجود ہیں۔ شہید کے اہلخانہ نے بھی کہا ہے کہ ان کے چہلم پر وہ امریکی صدر اور اس کے وزراء پر قانونی طور پر مقدمہ کریں گے۔ اس معاملے کو قانونی طور پر آگے بڑھانے کے لئے محکمہ خارجہ اور ایرانی عدلیہ کے مابین ایک مشترکہ کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے اور وہ بین الاقوامی عدالتوں میں امریکی حکومت کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کے لئے تیار ہے کیونکہ ایران کے پاس اس کے مضبوط ثبوت ہیں۔ ٹرمپ کو تین الزامات کا سامنا ہے۔
جنرل کا دو یورپی ممالک کا سفر
المیادین نے ظریف کے اس بیان کی طرف مزید اشارہ کیا کہ بظاہر جنرل سلیمانی نے یورپ کا سفر نہیں کیا تھا لیکن وہ اسے بخوبی جانتے ہیں۔ موسوی نے کہا: نہیں میرے خیال میں انہوں نے یورپ اور لاتینی امریکہ خصوصاً لاتینی امریکہ کے دورے کئے۔ میری معلومات کے مطابق کم از کم وہ دو بار گئے تھے۔ انہوں نے کم از کم دو یورپی ممالک کا سفر کیا ہے خاص طور پر یورپ کے ایک دورے میں کچھ مشکلات پیش آئیں کہ جب وہ وہاں سے واپس آئے تو معلوم ہوا کہ وہ کون تھے۔
پروگرام کے اختتام پر وفا سرایا نے اعلان کیا کہ المیادین نیوز ایجنسی نے دہہ فجر کے ایام اور پارلیمانی انتخابات سے پہلے اپنے خصوصی پروگراموں کے تسلسل میں ایکسپیڈیسی کونسل کے سکریٹری، ڈاکٹر محسن رضائی اور سپاہ پاسداران جمہوری اسلامی ایران کے کمانڈر انچیف حسین سلامی کا انٹرویو لیا اور یہ انٹرویو سپاہ کے کمانڈر کا پہلا خصوصی پریس انٹرویو ہے۔
 


نظری برای این مطلب ثبت نشده است.

رائے

ارسال نظر برای این مطلب