ایک ایسا سپرمین جس نے کئی بار اپنی جان ہتھیلی پر رکھی
۱۔ جنرل سلیمانی ایک زندہ شہید ہیں
جنرل سلیمانی جانثار بھی ہیں اور شہید بھی۔اس شرط کے ساتھ لوگ اس راستے پر چلیں۔ یقیناً یہ شرط و شروط سب کے لئے ہیں۔جب تک تم خدا کی راہ پر قائم رہو گے تو نیک لوگوں میں شامل رہو گے۔ اگر تم راستے سے ہٹ گئے تو سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ہم سبھی ایسے ہی ہیں۔میں بھی ایسا ہی ہوں۔اگر ہم نے ٹیڑھا راستہ اختیار کیا تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم وہ ہیں جنہوں نے فلاں کام انجام دیا۔جن لوگوں نے خدا کی راہ میں جہادکیا ، ان کا جہاد محفوظ ہے۔ یہ وہ ذخیرہ ہے جو خداوندمتعال نے ان کے لئے اس دنیا میں محفوظ رکھا ہوا ہے۔ ۱۲۔۲۔۱۳۸۴ھ،ش۔
۲۔ وہ شخص جس نے کئی بار اپنی جان کو اپنی ہتھیلی پر رکھا
خدا کی راہ میں جدوجہد ان چیزوں کے ساتھ قابل مقابلہ اور قابلِ تلافی نہیں ہے۔ خداوندمتعال فرماتا ہے: إنّ الله اشتْرَىَ منِ المْؤُمْنِیِن أنَفسُهمُ و أمَوْاَلهَمُ بأِنَ لهَمُ الجْنَةَّ یقُاَتلِوُن فیِ سَبیِلِ الله فیَقَتْلُوُن و یقُتْلَوُن” خدا کی راہ میں جدوجہدکے سامنے جو کچھ موجود ہے اور خداوندمتعال اس کی راہ میں جان و مال کی قربانی پیش کرنے کے نتیجہ میں عطا کرے گا، وہ جنت ہے ، خدا کی خوشنودی ہے۔۔الحمدللہ تم سبھی لوگوں نے یہ جدوجہد کی اور تلاش کی۔الحمد للہ، خداوندمتعال نے ہمارے اس بہت ہی عزیز بھائی ۔ جناب سلیمانی۔کو بھی توفیق دی۔انہوں نے کئی بار خدا کی راہ میں،خدا کے لئے اور خدا کی خوشنودی کے لئے اپنی جان کو دشمن کے حملوں میں پیش کیا اور جہاد کیا۔ان شاء اللہ خداوندمتعال انہیں جزا اور اجر عطا کرے اور ان کی زندگی کو سعادت کی زندگی اوران کے انجام کو شہادت قرار دے لیکن ابھی نہیں۔ اسلامی جمہوریہ کو ابھی ان سے کئی سال کام ہے۔اور آخر کاران شاء اللہ ان کا انجام شہادت ہو۔ ۱۹۔۱۲۔۱۳۹۷ھ۔ش۔
۳۔جب اس نے حاج قاسم کودیکھا۔۔۔
اس محترمہ عراقی ڈاکٹر نے ہمارے اس دوست سے بتایا تھا کہ ایران کے میرے پہلے اور دوسرے دورے پر۔صدام کے جانے کے بعد۔میں جس ایرانی کو دیکھتی تھی تو سوچتی تھی کہ اس (شخص)نے میرے دونوں بھائیوں کو مارا ہے جو جنگ میں مار ڈالے گئے تھے۔میں اس نظریہ سے دیکھتی تھی۔ مجھے ان سے نفرت تھی۔اب ان کی بات کا نتیجہ یہ ہے کہ یہاں تک کہ میں نے “سلیمانی “کو دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ سلیمانی آ کر اس طرح کی فداکاری انجام دے رہے ہیں تو معاملہ بالکل برعکس ہوگیا۔ ۳۱۔۳۔ ۱۳۹۵ھ، ش۔
۴۔ ہمارے دل بھی وہاں آپ کے ساتھ ہیں
ہمارے دل وہاں آپ کے ساتھ ہیں۔ ان شاء اللہ کامیابی نصیب ہو۔جناب سلیمانی آپ بھی ہماری نظر میں زندہ شہید ہیں۔میدان جنگ میں کئی بار آپ شہادت کی سرحد پر پہنچے۔شہادت کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی جان کو اپنی ہتھیلی پررکھ کر خدا کے راستے میں پیش کرے۔کبھی یہ معاملہ ہو جاتا ہے اور اپنے اختتام پر پہنچتاہے لیکن بعض اوقات یہ معاملہ انجام نہیں پاتا۔اور دوسری اور تیسری بار اور اس کے بعد کئی باروہ اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھتا ہے۔سپاہ کے اعلیٰ سطح اور نیک کردار بھائیو آپ ایسے ہی ہو۔آپ لوگوں کو شہادت کی فضیلت کئی بار ملی ہے۔ان شاء اللہ ان فضیلتوں کو اپنے لئے محفوظ رکھو اور طویل زندگی کے بعدسرافراز اورنیکیوں سے لبریز زندگی کے ساتھ خدا سے ملاقات کرو۔۲۶۔۸۔۱۳۷۶ھ،ش۔
۵۔دنیا کی تمام اقوام کے لئے حاج قاسم کی خدمات
میں اپنے پورے وجود کے ساتھ خداوندمتعال کا شکر گزار ہوں کہ جس نے آپ اور آپ کے عظیم ساتھیوں کی فداکارانہ اور بے لوث جدوجہد کو مختلف سطحوں پربرکت عطا فرمائی اور اس نے شجرۂ خبیثہ کو جسے دنیا کے ظالموں نے سینچا تھا ، آپ نیک بندوں کے ذریعہ شام اور عراق میں جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔۔اس کینسر اور جان لیوا غدود کو ختم کرنے کے ذریعہ آپ نے نہ صرف خطے کے ممالک اور عالم اسلام کی بلکہ تمام اقوام اور انسانیت کی خدمت کی ہے۔یہ خدائی نصرت اور “وَ ما رَمَیتَ اذِ رَمَیتَ وَ لکِنَّ ا لله رَمی” کا مصداق تھا جو آپ اور آپ کے ساتھیوں کی دن و رات جدوجہد کا صلہ دیا گیا ہے۔۳۰۔۸۔۱۳۹۶ھ،ش۔
۱۔ جنرل سلیمانی ایک زندہ شہید ہیں
جنرل سلیمانی جانثار بھی ہیں اور شہید بھی۔اس شرط کے ساتھ لوگ اس راستے پر چلیں۔ یقیناً یہ شرط و شروط سب کے لئے ہیں۔جب تک تم خدا کی راہ پر قائم رہو گے تو نیک لوگوں میں شامل رہو گے۔ اگر تم راستے سے ہٹ گئے تو سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ہم سبھی ایسے ہی ہیں۔میں بھی ایسا ہی ہوں۔اگر ہم نے ٹیڑھا راستہ اختیار کیا تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم وہ ہیں جنہوں نے فلاں کام انجام دیا۔جن لوگوں نے خدا کی راہ میں جہادکیا ، ان کا جہاد محفوظ ہے۔ یہ وہ ذخیرہ ہے جو خداوندمتعال نے ان کے لئے اس دنیا میں محفوظ رکھا ہوا ہے۔ ۱۲۔۲۔۱۳۸۴ھ،ش۔
۲۔ وہ شخص جس نے کئی بار اپنی جان کو اپنی ہتھیلی پر رکھا
خدا کی راہ میں جدوجہد ان چیزوں کے ساتھ قابل مقابلہ اور قابلِ تلافی نہیں ہے۔ خداوندمتعال فرماتا ہے: إنّ الله اشتْرَىَ منِ المْؤُمْنِیِن أنَفسُهمُ و أمَوْاَلهَمُ بأِنَ لهَمُ الجْنَةَّ یقُاَتلِوُن فیِ سَبیِلِ الله فیَقَتْلُوُن و یقُتْلَوُن” خدا کی راہ میں جدوجہدکے سامنے جو کچھ موجود ہے اور خداوندمتعال اس کی راہ میں جان و مال کی قربانی پیش کرنے کے نتیجہ میں عطا کرے گا، وہ جنت ہے ، خدا کی خوشنودی ہے۔۔الحمدللہ تم سبھی لوگوں نے یہ جدوجہد کی اور تلاش کی۔الحمد للہ، خداوندمتعال نے ہمارے اس بہت ہی عزیز بھائی ۔ جناب سلیمانی۔کو بھی توفیق دی۔انہوں نے کئی بار خدا کی راہ میں،خدا کے لئے اور خدا کی خوشنودی کے لئے اپنی جان کو دشمن کے حملوں میں پیش کیا اور جہاد کیا۔ان شاء اللہ خداوندمتعال انہیں جزا اور اجر عطا کرے اور ان کی زندگی کو سعادت کی زندگی اوران کے انجام کو شہادت قرار دے لیکن ابھی نہیں۔ اسلامی جمہوریہ کو ابھی ان سے کئی سال کام ہے۔اور آخر کاران شاء اللہ ان کا انجام شہادت ہو۔ ۱۹۔۱۲۔۱۳۹۷ھ۔ش۔
۳۔جب اس نے حاج قاسم کودیکھا۔۔۔
اس محترمہ عراقی ڈاکٹر نے ہمارے اس دوست سے بتایا تھا کہ ایران کے میرے پہلے اور دوسرے دورے پر۔صدام کے جانے کے بعد۔میں جس ایرانی کو دیکھتی تھی تو سوچتی تھی کہ اس (شخص)نے میرے دونوں بھائیوں کو مارا ہے جو جنگ میں مار ڈالے گئے تھے۔میں اس نظریہ سے دیکھتی تھی۔ مجھے ان سے نفرت تھی۔اب ان کی بات کا نتیجہ یہ ہے کہ یہاں تک کہ میں نے “سلیمانی “کو دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ سلیمانی آ کر اس طرح کی فداکاری انجام دے رہے ہیں تو معاملہ بالکل برعکس ہوگیا۔ ۳۱۔۳۔ ۱۳۹۵ھ، ش۔
۴۔ ہمارے دل بھی وہاں آپ کے ساتھ ہیں
ہمارے دل وہاں آپ کے ساتھ ہیں۔ ان شاء اللہ کامیابی نصیب ہو۔جناب سلیمانی آپ بھی ہماری نظر میں زندہ شہید ہیں۔میدان جنگ میں کئی بار آپ شہادت کی سرحد پر پہنچے۔شہادت کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی جان کو اپنی ہتھیلی پررکھ کر خدا کے راستے میں پیش کرے۔کبھی یہ معاملہ ہو جاتا ہے اور اپنے اختتام پر پہنچتاہے لیکن بعض اوقات یہ معاملہ انجام نہیں پاتا۔اور دوسری اور تیسری بار اور اس کے بعد کئی باروہ اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھتا ہے۔سپاہ کے اعلیٰ سطح اور نیک کردار بھائیو آپ ایسے ہی ہو۔آپ لوگوں کو شہادت کی فضیلت کئی بار ملی ہے۔ان شاء اللہ ان فضیلتوں کو اپنے لئے محفوظ رکھو اور طویل زندگی کے بعدسرافراز اورنیکیوں سے لبریز زندگی کے ساتھ خدا سے ملاقات کرو۔۲۶۔۸۔۱۳۷۶ھ،ش۔
۵۔دنیا کی تمام اقوام کے لئے حاج قاسم کی خدمات
میں اپنے پورے وجود کے ساتھ خداوندمتعال کا شکر گزار ہوں کہ جس نے آپ اور آپ کے عظیم ساتھیوں کی فداکارانہ اور بے لوث جدوجہد کو مختلف سطحوں پربرکت عطا فرمائی اور اس نے شجرۂ خبیثہ کو جسے دنیا کے ظالموں نے سینچا تھا ، آپ نیک بندوں کے ذریعہ شام اور عراق میں جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔۔اس کینسر اور جان لیوا غدود کو ختم کرنے کے ذریعہ آپ نے نہ صرف خطے کے ممالک اور عالم اسلام کی بلکہ تمام اقوام اور انسانیت کی خدمت کی ہے۔یہ خدائی نصرت اور “وَ ما رَمَیتَ اذِ رَمَیتَ وَ لکِنَّ ا لله رَمی” کا مصداق تھا جو آپ اور آپ کے ساتھیوں کی دن و رات جدوجہد کا صلہ دیا گیا ہے۔۳۰۔۸۔۱۳۹۶ھ،ش۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب