جنرل قاسم سلیمانی نے 11 مارچ 1957 کو ایرانی ضلع کرمان کے ایک دیہات رابر کے سلیمانی قبیلے میں آنکھ کھولی 18 سال کی عمر میں ادارہ فراہمی آب میں ملازمت اختیار کی کچھ عرصے بعد جب امام خمینی کی قیادت میں انقلاب اسلامی کی تحریک شروع ہوئی تو انہوں نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ضلع کرمان میں شاہ مخالف مظاہروں میں فرنٹ پہ رہے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد 1981 میں سپاہ پاسداران انقالب اسلامی میں بھرتی ہوئے امریکہ کی جانب سے صدام کے ذریعے ایران پر مسلط کردہ جنگ میں سردار قاسم سلیمانی نے ضلع کرمان کی دو بٹالینز کی قیادت کی اسکے بعد ترقی اور بہادری کا ایسا سفر شروع ہوا جس نے قاسم سلیمانی کو شہید قاسم سلیمانی بنایاانہوں نے اٹھتے بیٹھتے ہر کام میں صرف اور صرف خدا وند متعال کی ذات کو محور ٹھہرایا اخلاص و مروت اور سادہ زیستی ان کا خاصہ رہا کسی نمود و نمائش اور مقام و منزلت کی لالچ کئے بغیر ملکی و غیر ملکی محاذوں پر بیک وقت خدمات سرانجام دیتے رہے چاہے ایران کے داخلی مسائل و مشکلات ہوں یا فلسطین و یمن و شام و عراق کے مظلوموں کی مدد حاج قاسم نے کبھی کوتاہی نہیں برتی بقول رہبر معظم انقلاب شہید کی سادہ زیستی کا عالم یہ تھا کہ جب کسی میٹنگ میں شریک ہوتے تو کسی کونے میں خاموشی سے بیٹھ جاتے اور جب تک ان سے کوئی رائے نہ مانگی جاتی وہ بالکل خاموش رہتے یا امام جمعہ تہران کے مطابق جب شہید سلیمانی کے کسی دوست نے ان سے کہا کہ حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ صدارتی انتخابات میں بطور امیدوار حصہ لیں تو انہوں نے فرمایا تھا میں تو صرف اور صرف شہادت کا امیدوار ہوں۔شہید کی شخصیت بیک وقت اتنی خصوصیات کا مجموعہ تھی کہ ان سب کا ذکر اس مختصر مقالے میں ممکن ہی نہیں شہید سلیمانی کسی مقام و مرتبے کا لالچ دل میں لئے بغیر ایک انتہائی زیرک سیاستدان تھے چند دن پہلے ایک پروگرام “انتقامی کہ سخت شد” میں ایک اعلی ایرانی سیاسی شخصیت کا کہنا تھا کہ شہید نے ایک دفعہ ٹیلیفونک رابطے کے ذریعے مجھ سے کہا کہ یہ امریکی قابل اعتماد نہیں اور کسی بھی صورت میں ان پہ اعتماد نہیں کیا جا سکتا چونکہ ایک طرف ہمارے ساتھ مذاکرات کی میز پہ بیٹھے ہیں تو دوسری طرف بدنام زمانہ داعش کو اسلحہ سے لیس کررہے ہیں جس کے مکمل ثبوت ہمارے پاس موجود ہیں۔شہید کی ماہرانہ سیاست کی کئی مثالیں موجود ہیں مثلا ایک سربراہمملکت کے ساتھ صرف دو گھنٹے کی ملاقات میں انہوں نے کایا ہیپلٹ دی سردار سلیمانی کے ساتھ ملاقات سے پہلے وہ شام مخالف دھڑوںکے ساتھ تھے تو صرف دو گھںٹوں کی ملاقات نے انہیں شامی عوامکے ساتھ کھڑا کر دیاشہید قاسم سلیمانی کی ہمہ جھت شخصیت کا ایک اور روشن پہلو دنیا بھرکے محروم اور مظلوم طبقے کی حمایت تھی شہید دہشتگردی کے خلافہمیشہ برسرپیکار رہے اور ظلم کے ستائے ہوئے مظلوم عوام خصوصافلسطینیوں اور یمنیوں کی حمایت اور ہر قسم کی مدد میں پیش پیش رہےسردار سلیمانی نے قبلہ اول کے دفاع اور اسرائیل کو شکست پذیر ثابتکرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔جہاد اسلامی فلسطین کے سیکریٹری جنرل زیاد نخالہ کہتے ہیں کہ حاجقاسم سلیمانی نے فلسطینی مزاحمت کو مستحکم کرنے میں نمایاں کردارادا کیا انہوں نے مختلف فلسطینی گروہوں کو ایک مضبوط اور مسلح فوج میں تبدیل کیا اور ہمیشہ اس کوشش میں رہے کہ ان مزاحمتی تحریکوں کو مضبوط سے مضبوط تر کیا جائے چونکہ امریکہ و اسرائیل کی فلسطین کے بارے میں ہمیشہ سے یہ پلاننگ رہی کہ وہاں کے عوام کو انتہائی کسمپرسی کی حالت میں رکھا جائے تاکہ وہ مزاحمت کا خیال دل سے نکال کرگھٹنے ٹیکنے پہ مجبور ہو جائیں لیکن یہ شہید سلیمانی ہی تھے جنہوں نے اس حوالے سے فلسطینی مزاحمت کو اتنا مضبوط کیا کہ وہ آج بھی منحوس صیہونی رژیم کے سامنے سینہ سپر ہیں۔حزب اللہ کی 33 روزہ جنگ میں شاندار کامیابی ہو یا غزہ کے 22 روزہ معرکے میں دشمن کی شکست یہ سب شھید قاسم کے کارناموں کی عکاس ہیں سردار سلیمانی کی اسی شجاعت اور حکمت کی بدولت ہی اسمعیل ھنیہ نے شہید قدس کے خطاب سے نوازا جبکہ ایرانی سپریم لیڈر و قائد انقلاب اسلامی نے شہید کو بین الاقوامی مزاحمت کا علمبرار قرار دیا۔شہید سلیمانی کی خصوصیات میں سے ایک انکی معنویت اور خدا کی ذات سے عشق تھا اسی عشق کا نتیجہ دنیا نے دیکھا کہ کس طرح بغداد سے انکے آبائی شہر کرمان تک کتنے شہروں میں عوام الناس کے سمندر نے انہیں اشکبار آنکھوں سے الوداع کیا۔اتنی مصروفیت سے بھرپور زندگی گزارنے والے حاج قاسم نے ایم اے کی ڈگری حاصل کی انکا شمار انتہائی اہل مطالعہ افراد میں سے ہوتا تھا۔میدان کارزار میں انکی شجاعت اور اپنے دوستوں اور ماتحت افراد کے ساتھ محبت اور خلوص کا عالم یہ تھا کہ کبھی کسی سے نہ کہتے کہ میدان میں جاو بلکہ خود فرنٹ لائن پہ رہتے اور دوسروں سے کہتے میرے پیچھے رہیں۔داعش کے ساتھ نبرد آزمائی کے دوران سردار سلیمانی کبھی بھی اپنے وطن اور عوام سے غافل نہیں رہے جب داعش کے ساتھ جنگ عروج پر تھی اسی دوران ایرانی صوبے خوزستان میں بدترین سیلاب آیا تو شہید وہاں پر بھی اپنے ہم وطنوں کی خدمت میں پیش پیش رہے۔عوام الناس کے اموال اور بیت المال کے بارے میں شہید انتہائی حساس تھے دوران جنگ ہمیشہ اپنے ہم رزم افراد کو یہ نصیحت کرتے کہ کسی کی املاک کو نقصان پہنچانے سے حتی الامکان گریز کریں۔زندہ شہید کی شہرت رکھنے والا یہ بہترین انسان بالآخر 3 جنوری 2020 کو رات ایک بجکر بیس منٹ پہ اس دنیا کے بدترین افراد کہ جنہیں انسان کہنا انسانیت کو شرمسار کر دیتا ہے کے ہاتھوں اپنے معبود حقیقی سے جا ملا دنیا بھر کے مظلوموں کے دل خون ہوئے لیکن شہید کے مقدس خون سے نمو پا کر عالمی مزاحمت مزید مضبوطی کی جانب گامزن ہے اسرائیل کی نابودی اور بیت المقدس کی آزادی کے دن قریب ہیں مگر سانحہ بغداد کے قاتلین، عاملین اور آمرین یہ یاد رکھیں کہ انکو اس جرم کی سزا ضرو بھگتنی ہوگی۔
جنرل قاسم سلیمانی دھرتی پہ بسنے والے ہر مظلوم دل کی آواز
Mar 05 2023
جنرل قاسم سلیمانی نے 11 مارچ 1957 کو ایرانی ضلع کرمان کے ایک دیہات رابر کے سلیمانی قبیلے میں آنکھ کھولی 18 سال کی عمر میں ادارہ فراہمی آب میں ملازمت اختیار کی کچھ عرصے بعد جب امام خمینی کی قیادت میں انقلاب اسلامی کی تحریک شروع ہوئی تو انہوں نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ضلع کرمان میں شاہ مخالف مظاہروں میں فرنٹ پہ رہے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد 1981 میں سپاہ پاسداران انقالب اسلامی میں بھرتی ہوئے امریکہ کی جانب سے صدام کے ذریعے ایران پر مسلط کردہ جنگ میں سردار قاسم سلیمانی نے ضلع کرمان کی دو بٹالینز کی قیادت کی اسکے بعد ترقی اور بہادری کا ایسا سفر شروع ہوا جس نے قاسم سلیمانی کو شہید قاسم سلیمانی بنایاانہوں نے اٹھتے بیٹھتے ہر کام میں صرف اور صرف خدا وند متعال کی ذات کو محور ٹھہرایا اخلاص و مروت اور سادہ زیستی ان کا خاصہ رہا کسی نمود و نمائش اور مقام و منزلت کی لالچ کئے بغیر ملکی و غیر ملکی محاذوں پر بیک وقت خدمات سرانجام دیتے رہے چاہے ایران کے داخلی مسائل و مشکلات ہوں یا فلسطین و یمن و شام و عراق کے مظلوموں کی مدد حاج قاسم نے کبھی کوتاہی نہیں برتی بقول رہبر معظم انقلاب شہید کی سادہ زیستی کا عالم یہ تھا کہ جب کسی میٹنگ میں شریک ہوتے تو کسی کونے میں خاموشی سے بیٹھ جاتے اور جب تک ان سے کوئی رائے نہ مانگی جاتی وہ بالکل خاموش رہتے یا امام جمعہ تہران کے مطابق جب شہید سلیمانی کے کسی دوست نے ان سے کہا کہ حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ صدارتی انتخابات میں بطور امیدوار حصہ لیں تو انہوں نے فرمایا تھا میں تو صرف اور صرف شہادت کا امیدوار ہوں۔شہید کی شخصیت بیک وقت اتنی خصوصیات کا مجموعہ تھی کہ ان سب کا ذکر اس مختصر مقالے میں ممکن ہی نہیں شہید سلیمانی کسی مقام و مرتبے کا لالچ دل میں لئے بغیر ایک انتہائی زیرک سیاستدان تھے چند دن پہلے ایک پروگرام “انتقامی کہ سخت شد” میں ایک اعلی ایرانی سیاسی شخصیت کا کہنا تھا کہ شہید نے ایک دفعہ ٹیلیفونک رابطے کے ذریعے مجھ سے کہا کہ یہ امریکی قابل اعتماد نہیں اور کسی بھی صورت میں ان پہ اعتماد نہیں کیا جا سکتا چونکہ ایک طرف ہمارے ساتھ مذاکرات کی میز پہ بیٹھے ہیں تو دوسری طرف بدنام زمانہ داعش کو اسلحہ سے لیس کررہے ہیں جس کے مکمل ثبوت ہمارے پاس موجود ہیں۔شہید کی ماہرانہ سیاست کی کئی مثالیں موجود ہیں مثلا ایک سربراہمملکت کے ساتھ صرف دو گھنٹے کی ملاقات میں انہوں نے کایا ہیپلٹ دی سردار سلیمانی کے ساتھ ملاقات سے پہلے وہ شام مخالف دھڑوںکے ساتھ تھے تو صرف دو گھںٹوں کی ملاقات نے انہیں شامی عوامکے ساتھ کھڑا کر دیاشہید قاسم سلیمانی کی ہمہ جھت شخصیت کا ایک اور روشن پہلو دنیا بھرکے محروم اور مظلوم طبقے کی حمایت تھی شہید دہشتگردی کے خلافہمیشہ برسرپیکار رہے اور ظلم کے ستائے ہوئے مظلوم عوام خصوصافلسطینیوں اور یمنیوں کی حمایت اور ہر قسم کی مدد میں پیش پیش رہےسردار سلیمانی نے قبلہ اول کے دفاع اور اسرائیل کو شکست پذیر ثابتکرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔جہاد اسلامی فلسطین کے سیکریٹری جنرل زیاد نخالہ کہتے ہیں کہ حاجقاسم سلیمانی نے فلسطینی مزاحمت کو مستحکم کرنے میں نمایاں کردارادا کیا انہوں نے مختلف فلسطینی گروہوں کو ایک مضبوط اور مسلح فوج میں تبدیل کیا اور ہمیشہ اس کوشش میں رہے کہ ان مزاحمتی تحریکوں کو مضبوط سے مضبوط تر کیا جائے چونکہ امریکہ و اسرائیل کی فلسطین کے بارے میں ہمیشہ سے یہ پلاننگ رہی کہ وہاں کے عوام کو انتہائی کسمپرسی کی حالت میں رکھا جائے تاکہ وہ مزاحمت کا خیال دل سے نکال کرگھٹنے ٹیکنے پہ مجبور ہو جائیں لیکن یہ شہید سلیمانی ہی تھے جنہوں نے اس حوالے سے فلسطینی مزاحمت کو اتنا مضبوط کیا کہ وہ آج بھی منحوس صیہونی رژیم کے سامنے سینہ سپر ہیں۔حزب اللہ کی 33 روزہ جنگ میں شاندار کامیابی ہو یا غزہ کے 22 روزہ معرکے میں دشمن کی شکست یہ سب شھید قاسم کے کارناموں کی عکاس ہیں سردار سلیمانی کی اسی شجاعت اور حکمت کی بدولت ہی اسمعیل ھنیہ نے شہید قدس کے خطاب سے نوازا جبکہ ایرانی سپریم لیڈر و قائد انقلاب اسلامی نے شہید کو بین الاقوامی مزاحمت کا علمبرار قرار دیا۔شہید سلیمانی کی خصوصیات میں سے ایک انکی معنویت اور خدا کی ذات سے عشق تھا اسی عشق کا نتیجہ دنیا نے دیکھا کہ کس طرح بغداد سے انکے آبائی شہر کرمان تک کتنے شہروں میں عوام الناس کے سمندر نے انہیں اشکبار آنکھوں سے الوداع کیا۔اتنی مصروفیت سے بھرپور زندگی گزارنے والے حاج قاسم نے ایم اے کی ڈگری حاصل کی انکا شمار انتہائی اہل مطالعہ افراد میں سے ہوتا تھا۔میدان کارزار میں انکی شجاعت اور اپنے دوستوں اور ماتحت افراد کے ساتھ محبت اور خلوص کا عالم یہ تھا کہ کبھی کسی سے نہ کہتے کہ میدان میں جاو بلکہ خود فرنٹ لائن پہ رہتے اور دوسروں سے کہتے میرے پیچھے رہیں۔داعش کے ساتھ نبرد آزمائی کے دوران سردار سلیمانی کبھی بھی اپنے وطن اور عوام سے غافل نہیں رہے جب داعش کے ساتھ جنگ عروج پر تھی اسی دوران ایرانی صوبے خوزستان میں بدترین سیلاب آیا تو شہید وہاں پر بھی اپنے ہم وطنوں کی خدمت میں پیش پیش رہے۔عوام الناس کے اموال اور بیت المال کے بارے میں شہید انتہائی حساس تھے دوران جنگ ہمیشہ اپنے ہم رزم افراد کو یہ نصیحت کرتے کہ کسی کی املاک کو نقصان پہنچانے سے حتی الامکان گریز کریں۔زندہ شہید کی شہرت رکھنے والا یہ بہترین انسان بالآخر 3 جنوری 2020 کو رات ایک بجکر بیس منٹ پہ اس دنیا کے بدترین افراد کہ جنہیں انسان کہنا انسانیت کو شرمسار کر دیتا ہے کے ہاتھوں اپنے معبود حقیقی سے جا ملا دنیا بھر کے مظلوموں کے دل خون ہوئے لیکن شہید کے مقدس خون سے نمو پا کر عالمی مزاحمت مزید مضبوطی کی جانب گامزن ہے اسرائیل کی نابودی اور بیت المقدس کی آزادی کے دن قریب ہیں مگر سانحہ بغداد کے قاتلین، عاملین اور آمرین یہ یاد رکھیں کہ انکو اس جرم کی سزا ضرو بھگتنی ہوگی۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب