مواد

اس جنگ کو تم شروع کرو گے لیکن اس کا اختتام ہم کریں گے۔


Jan 03 2021
اس جنگ کو تم شروع کرو گے لیکن اس کا اختتام ہم کریں گے۔
جب بھی آپ ایرانی مداخلت کے بارے میں بات کرتے ہیں  تو آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان سب کے پیچھے قاسم سلیمانی کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے،  اور ان سب کو اجرا کرنے والے بھی قاسم سلیمانی ہیں۔
بہت سے لوگ ان کے نام سے بھی واقف نہیں ہیں  لیکن وہ کئی دہائیوں سے مشرق وسطی میں پس پردہ نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔
ہم  قاسم سلیمانی کو ایک قابل،  دلکش، با صلاحیت اور پر اعتماد شخصیت کے طور پر دیکھتے ہیں۔
یہ وہی تھے کہ جنہوں نے امریکی اور برطانوی فوجیوں پر مہلک حملوں کا حکم دیا تھا۔
علاقے میں ہتھیاروں کی ایک دوڑ  لگی تھی کہ جس کا رخ انہوں نے بدل دیا کہ: جس کا بم جتنا بڑا ہوگا اس کی دفاعی طاقت اتنی بڑی ہوگی۔
ایران کا فوجی ماسٹر ماینڈ اب ساری  دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
وہ ابتدا سے ہی ایک جاسوس اور ایک کمانڈر کی طرح تھے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ  اپنی کسی بھی ہم منصب سے زیادہ ہماری فوج میں اختیار رکھتے تھے۔
لیکن قاسم سلیمانی کون ہیں؟
اور کیا وہ علاقے میں مغربی افواج کے خلاف ایک نئی جنگ چھیڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
ہم انہیں مشرق کی موجودہ سیاسی پالیسیوں  کو جھت دینے والا کمانڈر کہہ سکتے ہیں۔
وہ میلوٹو کاک ٹیل سے جواب دے رہے ہیں۔
یہ سب سے بہترین استعمال ہے جو انہوں نے امریکی مشروب کوکا کولا کی بوتل کا کیا ہے۔
وہ شخص جو بعد میں مشرق وسطی کی ایک اہم شخصیت بن گیا۔
وہ ایرانی انقلاب کا بیٹا تھا۔
قاسم سلیمانی کا ایک بہترین پس منظر ہے۔
وہ ایران کے اسلامی انقلاب کے زمانے میں ہی وارد عمل ہوئے۔
وہ شدت سے انقلاب کے حامی تھے کیونکہ انقلاب نے ہی انہیں حوصلہ بخشا تھا۔
اس انقلاب نے امریکی حمایت یافتہ شاہی حکومت کاتختہ پلٹ دیا تھا،  اور آیۃ اللہ خمینی کو بر سر اقتدار لایا۔
ایران ایک اسلامی جمھوریت میں تبدیل ہو گیا۔ ایک ایسا مذھبی ملک کہ جو شیعہ سنی عقائد کی بنیاد پر بنا تھا۔
امریکہ اور اس کے تمام اتحادی اب اس ملک کے دشمن بن چکے تھے۔
آیۃ اللہ خمینی کا دنیا کے بارے میں نظریہ مکمل طور پر مغرب مخالف نظریہ تھا حتی کہ وہ اسرائیل کو بھی  اسلامی دنیا کے سب سے بڑے دشمن کے طور پر شمار کرتے تھے۔
یہ نوجوان تربیت لے رہے ہیں تاکہ خمینی کی دو کروڑ کی فوج کا حصہ بن سکیں۔
ایک نئی فوج وجود میں آئی، انقلابی فوج۔
جوان سلیمانی بھی اس فوج کا حصہ بنے ۔
قاسم سلیمانی اپنے پورے وجود کے ساتھ اس انقلاب کے نظریے پر یقین رکھتے تھے، وہ پوری طرح سے ایک انقلابی تھے،  اور رہبر معظم  سے ان کی وفاداری  مثالی تھی۔
آیۃ اللہ خمینی کو امریکی فوجی مداخلت کا خطرہ در پیش تھا،  اور اس  سے بڑھ کر عراق کے ساتھ جنگ کا خطرہ در پیش تھا۔
میرا نام قاسم سلیمانی ہے ، میں کرمان کی سپاہ پاسداران کا  حصہ ہوں۔
انقلاب کے چند ماہ بعد  ایران پر ہمسایہ ملک عراق نے صدام حسین کی رھبری میں حملہ کر دیا۔
ایک جوان کمانڈر کی حیثیت سے قاسم سلیمانی نے اپنا نام بنانا شروع کر دیا۔
میں کافی وقت سے حاج قاسم کو جانتا ہوں ، وہ میدان جنگ میں کئی طرح سے ایک ممتاز شخص تھے،  ایک مرتبہ وہ شدید زخمی ہو گئے تھے،  لیکن اس کے باوجود بھی وہ گھر واپس نہیں گئے بلکہ معمولی علاج و معالجےکے بعد میدان جنگ کی طرف پلٹ گئے، اسی وجہ سے لوگوں کے درمیان وہ ایک بلند مقام رکھتے تھے۔
عراق کے ساتھ آٹھ سالہ خونی  جنگ کے دوران دس لاکھ ایرانی مارے گئے،  مذھب سب کچھ بن چکا تھا دعا اور جنگ ایک دوسرے میں ضم ہو چکے تھے،
آخر کار سلیمانی صحیح سالم اس جنگ سے واپس لوٹ آئے، اور شھید زندہ کے نام سے معروف ہو گئے۔
ایران عراق جنگ نے قاسم سلیمانی کو وہ بنا دیا جو وہ ہیں۔
یہ سب قربانی اور شجاعت ایک عظیم مقصد کے لئے تھی۔
جب قاسم سلیمانی عراق سے جنگ کی حالت میں تھے  اس وقت اسلامی انقلاب مشرق وسطی کے  ایک دوسرے ملک میں بھی سرایت کر رہا تھا۔
حزب اللہ کو ایران نے بنایا ہے،  آیۃ اللہ خمینی نے ۸ سال قبل تہران میں اس گروہ کی بناید رکھی تھی۔
حزب اللہ  یعنی خدا کی جماعت لبنان میں اسرائیلی جارحیت کا جواب دینے کے لئے وجود میں آئی تھی۔
انقلاب اسلامی کے پس پردہ ھدف یہ تھا اور ہے کہ  دنیا ایک شیعہ رھبر کے زیر انتظام ہو۔
ایرانیوں کے راستے میں دو رکاوٹیں تھیں جن میں سے ایک امریکہ تھاکہ جسے وہ شیطان بزرگ کے نام سے پکارتے تھے  اور دوسرا اسرائیل تھاکہ جسے شیطان اصغر کے نام سے پکارتے تھے۔
حزب اللہ علاقے کی ایک بڑی فوجی طاقت بن گئی کہ جو اسرائیل اور امریکہ کے خلاف بڑے حملوں کو انجام دیتی تھی۔
امریکیوں کو یرغمال بنانے اور انہیں مارنے کے پیچھے ایران اور حزب اللہ کا ہاتھ تھا، وہ دنیا بھر سے مختلف افراد کو اغوا کرکے یرغمال بنا لیتے تھے ، یہی ان کا کام تھا۔
میں اپریل ۱۹۸۳میں ہونے والے بم دھماکوں میں بچ گیا تھا کہ جس میں ہمارا سفارت خانہ تباہ ہو گیا تھا، وہ وہاں امریکی فوجیوں پر بمباری کرنے آئے تھے، ایران اپنی سرحدوں سے باہر یہ سب صرف اس لئے کر رہا تھا تاکہ وہ  خود کو علاقے میں سپر پاور کے طور پر دکھا سکے، ہوشیار رہیں۔
اور ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ قاسم سلیمانی بیرون ملک افواج کے لئے ایران کے اعلی کمانڈر تھے۔
۹۰ کی دہائی میں سلیمانی قدس فوج کا حصہ بنے، سپاہ پاسداران کی سب سے خفیہ اور تربیت یافتہ فوج۔
قدس فوج وہی فوج ہے کہ جسے ہم سرد جنگ کے لئے  استعمال ہونے والی فوج کے طور پرپہچانتے ہیں، کہ جس کا کام دشمن کے اندر داخل ہونا اور اپنا نیٹورک تیار کرکے حساس مقامات تک دسترسی حاصل کرنا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایران کا جنگ کرنے کا ایک طریقہ ہے۔
سال ۱۹۹۸ امریکہ کو اب بھی شیطان بزرگ کے نام سے جانا جاتا تھا اور تب قاسم سلیمانی قدس فوج کے کمانڈر بن گئے اور بیرون ملک کے تمام فوجی آپریشن کی کمان اب ان کے ہاتھ میں تھی۔لیکن اب دنیا تبدیل ہو رہی تھی۔
کچھ منٹ پہلے ہی ایک ہوائی جہاز تجارتی مرکز کی ایک عمارت سے ٹکرایا ہے یہ ۲۱ویں صدی میں جنگ کا نیا چھرہ ہے۔
اس دن صبح میں  نیو یارک کے لئے نکلنے والا تھا،  آپ آسانی سے پہلی عمارت سے اٹھنے والے دھویں کو دیکھ سکتے تھے، اور جیسے ہی ہم ہوائی اڈے پر پہنچے تو دوسری عمارت پر بھی حملہ ہو گیا۔
تب ہمیں سمجھ آیا کہ یہ صرف ایک حادثہ نہیں تھا بلکہ ایک حملہ تھا۔
۱۱ ستمبر کے حملوں نے مشرق وسطی کو پہلے سے زیادہ توجھات کا مرکز بنا دیا تھا۔ حملہ کرنے والے کٹر سنی مسلمان تھے کہ جو نہ صرف مغرب بلکہ ایرانی شیعوں کے بھی دشمن تھے۔
طالبان مردہ باد، طالبان مردہ باد
ایرانی القاعدہ کے حملے میں مارے جانے والے امریکیوں کے لئے رو  رہے تھے۔
ہم سب سمجھ گئے تھے کہ ان تمام حادثات  نے ایسے حالات پیدا کر دئے ہیں کہ جن کے ذریعے ایران اور امریکہ مل کر کام کر سکتے ہیں۔ افغانستان میں ہمارا دشمن مشترک تھا۔ایک ہفتے کے اندر اندر میں جنیوا کے لئے جہاز میں سوار ہوا ۔
ریان کروکر اور قاسم سلیمانی کی جانب سے بھیجے گئے سفیر کے درمیان خفیہ مذاکرات کا آغاز ہوا ، وہ افغانستان میں القاعدہ کے اصلی محافظ طالبان کے خاتمے کا  طریقہ چاہتے تھے۔
انہوں نے ایک نقشہ پیش کیا کہ میں واضح تھا کہ کس طریقے سے طالبنا افغانستان میں لڑتے ہیں، اور اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے  ہماری مزید مدد کی کہ سب سے پہلے ہمیں کن اہداف پر حملہ کرنا چاہئے۔میں نے اس سے کہا، کیا میں نقشے سے نوٹ لے سکتا ہوں تو اس نے کہا کہ آپ نقشہ لے جا سکتے ہیں۔
بہت سارے کام جو ہم انجام دیتے تھے یا ان کے بارے میں بات کرتے تھے وہ صرف قاسم سلیمانی کے تیزی سے کام کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے تھا۔
طالبان ، القاعدہ کی طرح کٹر سنی تھے کہ جو امریکہ کے ساتھ ساتھ ایرانی شیعوں کے لئے بھی خطرہ تھے،
ہم نے اپنے برے تجربات کے بارے میں کبھی بات نہیں کی کہ ہم نے ایران کے ساتھ کیا کیا ور ایران نے ہمارے ساتھ کیا کیا،  وہ بس تیزی کے ساتھ کام شروع کرنا چاہتے تھے۔
کئی مہینوں سے امریکی سفیر  اپنے پرانے دشمن کے ساتھ مذاکرات کر رہے تھے، لیکن پھر ایک تقریر نے سب کچھ بدل دیا۔
ہمارا مقصد ایسی طاقتوں کا سد باب کرنا ہےکہ جو تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے ساتھ دہشتگردوں کی حامی اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کےلئے خطرہ ہیں۔
میرے ایک ساتھی نے مجھے نیند سے جگایا اور کچھ اس طرح کہا: جناب مجھے معلوم ہے کہ یہ خبر آپ کے لئے اچھی نہیں ہوگی، اور اس نے صحیح کہا تھا مجھے وہ خبر سن کے اچھا نہیں لگا۔
ایران جسارت کے ساتھ اپنے اسلحے کو اور اپنے دہشتگردوں کو ساری دنیا میں پھیلا رہا  ہے۔ ایران جیسے ملک اور اس کے اتحادی دہشتگرد ایک شیطانی تصویر کی طرح ہیں کہ جو اسلحے سے لیس ہو رہے ہیں تاکہ امن عالم کو خطرے میں ڈال سکیں۔
اس ایک رات کے بعد ہم افغانستان میں ایران کی بہترین مدد سے بہترین صورتحال برقرار کرنے کا موقع گنوا بیٹھے، جب کہ وہ ہمارے لئے بہت اہم موقع تھا، اور اس طرح ایران کے ساتھ ہمارے روابط کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ کچھ افراد کی شیطانی سے ہمکاری کا وہ دروازہ بند ہو گیا کہ جو آج دن تک دوبارہ نہیں کھل سکا۔
وایٹ ہاوس میں چند با اثر افراد کا اس بات پر اصرار تھا کہ ایران علاقے میں ان کا سب سے طاقتور اور اصلی دشمن ہے۔ لیکن ایک سال سے امریکہ مشرق وسطی کے ایک اور ملک سے جنگ کی حالت میں تھا۔
وایٹ ہاوس نے اعلان کیا کہ چند منٹ پہلے ہی عراق کے خلاف ایک فوجی آپریشن کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
میں عراق پر امریکی حملے کےدوران سال ۲۰۰۳ کے مارچ کے آخر میں عراق کے بغداد میں داخل ہوا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ایران ابتدا سے ہی عراق میں داخل ہو چکا تھا۔
عراق پر امریکی حملہ امریکیوں کا قاسم سلیمانی کی نجی زندگی کے بارے میں جاننے کا باعث بنا۔
ایران خطے کی ان پیچیدہ متحرک پالیسیوں میں سے ایک پر عمل پیرا تھا کہ جسے ہم سمجھنا چاہتے تھے۔ وہ ان طاقتور  ترین فوجوں میں سے تھے کہ جنہیں آپ کبھی بھی نظر انداز نہیں کر سکتے تھے۔
ہمارے اس حملے کے بعد ایران نے خود سے فیصلہ کر لیا کہ ہم  امریکیوں کا ارداہ ملک کے مشرقی علاقے پر قبضے کا ہے جب کہ امریکی مغربی علاقے میں موجود تھے اور ملک کے جنوبی حصے پر بھی امریکیوں کا کنٹرول تھا۔
مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے ان حالات کو اپنے لئے خطرے کے طور پر محسوس کیا۔
ایران ، عراق میں امریکہ کی بڑھتی ہوئی طاقت اور صدام حسین کے کم ہوتے اثر و رسوخ سے خوفزدہ تھے۔
قاسم سلیمانی اب ایران کی مسلح افواج کے لیڈر  اور  حکمت عملی ترتیب دینے والے بن چکے تھے۔ لیکن صرف چند مغربی فوجی عہدے داروں کو ہی اس بات کی خبر تھی۔
میں نے ایک بار اتفاقا قاسم سلیمانی کو دیکھا تھا لیکن سچ کہوں تو بظاھر وہ بالکل بھی کسی فوج کے کمانڈر نہیں لگتے تھے۔ وہ بہت ہی تجربے کار آدمی تھے۔ ایک مضبوط انسان کہ جس کے اندر بہترین فوجی صلاحیتیں پائی جاتی تھیں۔ المختصر ایک ماہر ۔
قاسم سلیمانی ہمیشہ ان چیزوں پر توجہ دیتے تھے کہ جو عراق کےغیر متعادل اور کمزور ہونے کا باعث بن سکتی تھیں۔ تو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بغداد  میں کس کی حکومت ہے کیونکہ جو کام صدام حسین نے کئے وہ اور کوئی نہیں کر سکتا، یعنی ایران کے وجود کو خطرے میں ڈالنے کا کام۔
ایران کا ہمیشہ سے عراق میں اثرو رسوخ رہا ہے، عراق کی دو تہائی آبادی ایرانیوں کی طرح شیعہ مسلمان ہیں۔
وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ سنی جنگجو طاقتور ہوتے جا رہے تھے۔
۲۰۰۶ میں  انہوں نے شیعوں کے ایک اہم ترین مقام کو حملے کا نشانہ بنایا۔
مسجد آل عسکری پر دہشت گردانہ حملے نے قومی تعصب کو اپنی انتہا پر پہنچا دیا۔
نوری المالکی نے عراق کے وزیراعظم کے لئے اندراج کروایا۔
عراق بحرانی صورتحال سے گذر رہا تھا اور آسمان سے بارش کی طرح میزائیل برس رہے تھے۔ سڑکیں جنازوں سے بھر چکی تھیں۔
شیعہ مسجد میں بم دھماکہ ، نقطہ عطف ثابت ہوا تھا، کہ جس نے تمام فرقوں کو میدان جنگ میں دھکیل دیا تھا۔
یہ ایران کے لئے ایک اچھا موقع تھا کہ وہ اپنے شیعہ بھائیوں کو عراق میں ایک منظم فوجی طاقت میں تبدیل کر کے ان کی مدد کرے۔
ایران نہ صرف عراق کے بدلتے ہوئے حالات کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش میں تھا بلکہ علاقے کی دوسری طاقتوں سے مقابلے کے لئے اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کر رہا تھا۔
عراق میں ایرانی سیاست کی ذمہ داری قاسم سلیمانی کے کاندھوں پر تھی لیکن وہ کبھی بھی خود کو ظاہر نہیں کرتے تھے۔
مجھے یاد نہیں کہ میں نے سب سے پہلی مرتبہ کس کے منہ سے قاسم سلیمانی کا نام سنا تھا، اور یہ بھی معلوم نہیں کہ کب پہلی بار قاسم سلیمانی کا نام سنا تھا۔
مجھے اتنا یاد ہے کہ میں جاسوسی کی اطلاعات کو پڑھ رہا تھااور انہیں کے درمیان میں میں نے قاسم سلیمانی کا نام پڑھا تھا، یہ بات واضح تھی کہ وہ دور سے اپنی فوج کی مدیریت کر رہے تھے۔
ہم جانتے تھے کہ وہ وہاں موجود ہیں لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا  کہ ہم نے ان کا نام سنا ہوا یا ان تک پہنچنے کا سراغ ہمار ے ہاتھ لگا ہو۔
لیکن قدس فوج کے پس پردہ قاسم سلیمانی شیعہ جنگجووں کی حمایت کرتے تھے۔
قیس خزعلی خط مقدم پر لڑنے والے ایک جدود گروہ کے رھبر تھے۔
مقاومت: ہر حملے کے جواب میں ایک قدرتی چیز  ہے۔
امریکی فوجیں ایسی فوجیں تھیں کہ جو سراپا دہشت اور ظلم تھیں۔
آہستہ آہستہ ہمارے لئے واضح ہو گیا تھا کہ وہ   عراق کی شیعہ اور عربی طاقتوں کو استعمال کر رہے ہیں، انہیں ایران لے جا کے انہیں تربیت دیتے ہیں  اور پھر انہیں واپس عراق بھیجتے ہیں، اور اس دوران انہیں بہترین ہتھیاروں سے مسلح کرتے ہیں۔
ایران کی ایک امریکہ مخالف پالیسی اور حکمت عملی ہے، اور ہم بھی امریکی حملے کے خلاف ایک قوم پرست مزاحمت کا احساس رکھتے تھے، اور اسی وجہ سے ہم اپنے مشترکہ عزائم تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
شیعہ عسکریت پسندوں کی جانب سے اتحادی گروہوں پر حملے بڑھتے جا رہے تھے۔یہ بات واضح ہوتی جا رہی تھی کہ ان حملوں کے پیچھے قاسم سلیمانی کا ہاتھ ہے، اور اب وہ امریکہ کی اولین ترجیحات میں شامل تھے۔
ہمیں خبر ملی کہ کچھ لوگ شمال عراق میں داخل ہو رہے ہیں اور ہمیں ملنے والی رپورٹس کی بنیاد پر ہمیں لگا کہ قاسم سلیمانی بھی ان میں شامل ہیں۔
اب ہمیں فیصلہ کرنا تھا کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے، کیا زمینی راستے سے ان پر حملہ کریں؟ ان پر بمباری کریں یا پھر کچھ نہ کریں؟
سب سے پہلے تو ہم سو فیصد مطمئن ہونا چاہتے تھے کہ قاسم سلیمانی بھی ان میں شامل ہیں اور پھر ہمیں یہ بھی دیکھنا تھا کہ کیا ان پر حملہ کرنا یا انہیں ماردینا ہمارے لئے فائدہ مند ہوگا؟
یہ کام بہت زیادہ خطرناک تھا اور یہ عام فوجی آپریشن کی طرح بالکل نہیں تھا۔یہ کام بالکل پولیس  کے آپریشن کی طرح تھا۔
امریکیوں نے حملہ کر کے ۵ ایرانیوں کو گرفتار کر لیا،  جب کہ ان کا کہنا تھا کہ وہ سرکاری لوگ ہیں۔
ہمیں اپنی تفشیش اور تحقیق کے دوران پتہ چلا کہ وہ سب سیکیورٹی فورسز کا حصہ بن سکتے ہیں، لیکن ہمیں کبھی معلوم نہیں ہو سکا کہ کیا قاسم سلیمانی ان کے ساتھ تھے یا نہیں۔
ہمیں ایسا لگا کہ وہ  ان میں شامل ہیں کہ لیکن بعد میں ہمیں ان کے موجود ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی خاص جگہ پر ان سے الگ ہو گئے تھے۔
ایسا لگتا ہے کہ سلیمانی بھاگ سکتے تھے، ان کا رد عمل بہت سخت اور سنگین تھا۔
ہم پر ایک ایسا حملہ ہوا تھا کہ جو بہت دقت کے ساتھ ترتیب دیا گیا تھا۔ حملہ آور اس علاقے میں داخل ہونا چاہتے تھے کہ جہاں امریکی فوجی تھے۔ انہوں نے کالی جنگی گاڑیوں کہ جن کی روشنی بہت تیز تھی اور ہر اس چیز کا استعمال کیا کہ جو ہماری فوج استعمال کرتی ہے،  وہ عمارت کے داخلی حفاظتی انتظامات کو چکمہ دینے میں کامیاب ہو گئے اور بالآخر وہ بنا کسی نقصان کے فوجی اڈے کے اندر داخل ہو گئے، اور ان سب کو چکمہ دینے کے بعد انہوں نے چند امریکی فوجیوں کو اغوا کر لیا۔
۵ امریکی فوجی امریکی اڈے سے اغواکر لئے گئے،  اسے ایک بہترین فوجی آپریشن مانا جاتا ہے۔
اس حملے نے ہمیں جنگ کے ایک مرحلے میں داخل کر دیا تھا، وہ اب صرف ایک عام سے جنگجو نہیں تھے،  ان کا یہ حملہ ایک بہترین فوجی آپریشن کی حد کا تھا  کہ جو بہترین تربیت یافتہ افراد کے ذریعے انجام دیا گیا تھا۔
ایک امریکی فوجی اس حملے میں مارا گیا اور باقی ۴ فوجی کچھ دن بعد ایک گاڑی میں مردہ حالت میں پائے گئے۔
ہم نے اس گاڑی کو ڈھونڈ لیا کہ جس میں امریکی فوجی تھے، ان میں سے  ایک کی نام کی پلیٹ خون میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اس طرح انہوں  نے امریکی فوجیوں کے دلوں میں خوف پیدا کر دیا تھا۔ اور ہمیں اس بات کا یقین ہو گیا کہ ان سب کے پیچھے قدس فورس کا ہاتھ ہے۔
اورقاسم سلیمانی؟
ہمارا یہی ماننا تھا کہ قدس فورس جو کچھ بھی کرتی ہےوہ قاسم سلیمانی کے کہنے پر ہوتا ہے۔
اس وقت تک وہ ایک بہت ہی قابل احترام شخصیت بن چکے تھے، وہ کوئی افسانوی کردار نہیں تھے، لیکن میرا یہ ماننا ہے کہ وہ نھایت ہی قدرت مند اور با صلاحیت انسان تھے۔
آخر عراق کے جنوب میں برطانوی فوج کے ہاتھوں کچھ سراغ لگے۔
ہمارے جاسوسوں نے ہمیں خبر دی کہ دشمن کا ایک برا کمانڈر ہمارے اڈے کے قریب ہے، اور اسی لئے ہم نے اپنی خصوصی فوج کو حکم دیا کہ وہ حملے کے لئے تیار رہیں۔ اور جسے ہماری فوج نے گرفتار کیا وہ خز علی کا بھائی تھا۔ ان کے لیپ ٹاپ میں ہمیں ایران کے متعلق اور چند خشونت آمیز سراغ ملے۔ انہوں نے ہر چیز کو ڈیجیٹل کر دیا تھا، مثلا جو کچھ  بھی ان کے پاس تھا یا جو کچھ بھی امریکی فوجیوں کی جیبوں سے ملا تھا وہ سب کمپیوٹر میں محفوظ تھا، اور یہ سب چیزیں ہم نے ان کے کمپیوٹر سے نکال لی تھیں۔ اس طرح ہمارے لئے یہ بات واضح ہو گئی کہ وہ در اصل اپنے کام کی رپورٹ ایرانی فوج کو دینا چاہتے تھے۔
لیکن اس کے رد عمل سے ہمیں صاف پتہ چل گیا کہ وہ قاسم سلیمانی کے زیر نگرانی ایک فوجی جنرل ہے کہ جو ہمیں منحرف کرنا چاہتا ہے تاکہ ہمارا دھیان قاسم سلیمانی پر نہ جائے، کیونکہ وہ خیز علی کے ذریعے اپنے کام انجام دیتے تھے۔
جیل میں تفشیش کے دوران قیس خز علی نے  ان تمام حادثات میں ایران کے کردار کی تفصیلات ظاہر کر دیں، اور آج بھی وہ اس بات سے انکار نہیں کرتے۔
بعض اوقات انٹلیجنس فورس بہت بے وقوف ہوتی ہے، ایران نے کبھی بھی مقاومتی تنظیموں کی حمایت سے انکار نہیں کیا تھا۔ اور میں نے بھی کبھی اس بات سے انکار نہیں کیا، حتی کہ آج جب میں جیل سے آزاد ہو چکا ہوں۔میں پھر سے کہتا ہوں کہ ایران مزاحمتی تنظیموں کا حامی ہے اور یہ کوئی چھپی ہوئی بات نہیں ہے۔
یہ بات ایرانیوں کے لئے بہت شرمندگی کا باعث بنی، وہ اپنے آپ کو ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے اور پس پردہ رہنا چاہتے تھے، بالکل ایک آکٹوپس کی طرح کہ جب آپ اسے ہاتھ لگانا چاہیں تو اپنے آپ کو پیچھے کھینچ لیتا ہے۔ اسی طرح وہ اپنے عقائد اور خیالات کو علاقے میں پھیلانا چاہتے ہیں کہ جب ہم انہیں پکڑ لیتے ہیں تو پھر کئی ہفتوں تک ان کی کوئی خبر نہیں رہتی، اور اس دوران وہ بین الاقوامی سطح پر اپنی آبروپامال ہونے دیتے ہیں۔
یہ آپریشن اس بات کا ثبوت تھا کہ ہم ایران کے ساتھ ایک خفیہ جنگ کی حالت میں ہیں۔
اس خفیہ جنگ کے ذریعے  قاسم سلیمانی کا مقصد جنوبی عراق میں فعال برطانوی فوج کو نقصان پہنچانا تھا۔
عراق کی جنگ میں ۱۷۹  امریکی فوجی مارے گئے۔بہت سے فوجی زخمی ہوئے اور بہت سے معذور۔ ۲۰۰۷ کا سال ایک بڑی تبدیلی کا ساتھ تھا، عراق پر حملے کے بعد سے تشدد کا وہ بد ترین دور تھا۔ میرے وہاں کام کے دوران ۴۱ افراد مارے گئے اور ایک قابل ذکر تعداد زخمی بھی ہوئی۔ ان حادثات میں سب سے بڑا حادثہ وہ تھا کہ جب ایک کرین نے ایک جنگی  گاڑی کو روند دیا اور ۴ افراد مارے گئے اور اس میں سب سے وحشتناک بات یہ ہے کہ اس گاڑی میں دو خواتین بھی تھیں اور ان میں سے ایک  پرنس  ھیری سینڈ ھرٹیس کی ساتھی تھیں۔
آپ مکمل طور پر اس بات کو سمجھ لیں گے کہ برطانیہ عراق کی جنگ میں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہو رہا تھا۔
کچھ عرصے بعد مزید خطرناک ہتھیاروں سے اتحادی گروہ پر حملہ ہوا۔
Ecs میزائیل۔
جو لوگ بھی اس میزائیل کی زد میں آتے تھے وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے مارے جاتے تھے، اور ہم پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے تھے اس کے چھروں کی وجہ سے کہ جو جسم میں دھنس جاتے تھے،  یہ کوئی قابل دید واقعہ نہیں ہوتا تھا۔ یہ بمب لوگوں کے ٹکڑے کر دیتے تھے۔
“ٹروی”  نام کی خاص  فوج کو اس اسلحے کا گودام تلاش کرنے اور اسے استعمال کرنے والے افراد کو ختم کرنے کا ہدف سونپا گیا، اس سے پہلے کوئی بھی عمومی طور پر ان کے کام کے بارے میں بات نہیں  کرتا تھا۔
ہمیں معلوم تھا کہ عراق میں ایسے ہتھیار تیار کرنے کی ٹیکنالوجی نہیں ہے، پس یعنی  ای ایف پی تیار کرنے والی ٹیکنالوجی ایران سے آ رہی تھی، اور ای ایف پی پر موجود نمبر اور ای ایف پی کے پیکٹ  پر لکھی ہوئی چیزوں نے اس بات کو ہمارے لئے ثابت کر دیا۔
یہ بارودی مواد ایران اور عراق کے درمیان کمزور سرحدی علاقوں سے داخل کیا جاتا تھا، ان میں سے ایک جنوبی عراق کے سرحدی علاقے تھے۔
وہاں جھاڑیاں بہت زیادہ ہیں،  کشتیوں کے گذرنے کے لئے تنگ راستے ہیں،  جب وہ اس دلدلی علاقے میں پہنچ جاتے تھے تو پھر جیسے بھی ہتھیار ان کے پاس ہوں ، آپ ان کا پیچھا نہیں کر سکتے۔
ان کا بنیادی کام  علاقای جنگجووں کو راکٹ اور میزائیلوں سے لیس کرنا تھا۔ اور ہم جانتے تھے کہ یہ سب کچھ ہو رہا ہے لیکن ہم انہیں روکنے سے قاصر تھے۔
ہم ہر روز باغیوں کے ساتھ چوہے بلی کا کھیل ، کھیل رہے تھے۔
ان کے ہتھیار جتنے بڑے ہوتے تھے ہماری فوج بھی اتنی ہی بڑی ہوتی تھی۔
چاہے آپ جتنا بھی تیارہو کران کے مقابلے پر جائیں، وہ آپ کو چکمہ دینے کا کوئی نہ کوئی راستہ ڈھونڈ ہی لیتے تھے۔
یہ تمام چیزیں  ایران کی جانب سے ، سپاہ قدس کی جانب سے اور احتمالا قاسم سلیمانی کی جانب سے انجام دی جا رہی تھیں۔ ہاں بالکل مجھے لگتا ہے کہ وہ ہمارے اندر ڈر پیدا کرنا چاہتے تھے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ  وہ صرف جنگ نہیں چاہتے تھے بلکہ وہ ہمیں یہ بتانا چاہتے تھے  کہ یہاں سے نکل جانا ہی ہمارے لئے بہتر ہوگا۔
سال ۲۰۰۷ کے اواخر میں ایک شیعہ گروہ نے ایک چھوٹی برطانوی ٹولی کو محاصرے میں لے لیا۔ بہت سارے مزاحمتی گروہ تھے کہ جو بصرہ پر حکومت کرتے تھے، بصرہ ایک خطرناک جگہ بن چکی تھی، بصرہ بالکل مدینہ کی طرح ایک اہم شھر تھا کہ جہاں تیل اور بندرگاہ بھی تھی، تو بصرہ کا ہمارے ہاتھ سے نکل جانا یعنی عراق کا ہمارے ہاتھ سے نکل جانا۔ میں نے امریکن آرمی کے کمانڈر  ڈیویڈ   پٹریوس کو فون ملایا، میں نے ان سےکہا کہ ہم نے بصرہ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے مجھ سے پوچھا ، کیا آپ ہمارے ساتھ ہیں؟  میں نے کہا ہاں، لیکن ابھی جنگ میں مت الجھیں، آپ کی فوجیں ہماری مدد کے بغیر اپنے حریف کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔
لیکن وزیراعظم نوری المالکی بصرہ جانے پر مصرتھے۔  قاسم سلیمانی کی حمایت یافتہ شیعہ ملیشیا نے شھر کو قبضے میں لے لیا تھا،  المالکی کی جان خطرے میں تھی۔
ڈیویڈ اور میں اپنے دفتر میں فون کو سپیکر پہ ڈال کر المالکی سے کر رہے تھے اور  آسانی سے میزئیلوں کی آوازیں سن سکتے تھے۔ جنرل پیٹرسن اور مجھے پورا یقین تھا کہ وہ ہار جائیں گے۔
جنگ کے درمیان میں جنرل پیٹرسن کو بتایا گیا کہ  عراقی صدر کو بغداد میں ایران کا پیغام ملا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں ابھی قاسم سلیمانی سے مل کے آ رہا ہوں، جو کہ بہت تعجب والی بات تھی۔ اور انہوں نے کہا کہ میں قاسم سلیمانی کی طرف سے تمہارے لئے پیغام لایا ہوں کو جو ایسے ہے:  جنرل پیٹریس آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ میں قاسم سلیمانی  عراق، شام، افغانستان اور غزہ میں ایرانی سیاسی پالیسیوں کو کنٹرول کرتا ہوں۔  ان کا کہنے کا مقصد یہ ہے تھا کہ آپ میرے ساتھ مذاکرات کر لیں۔  باقی تمام لوگوں حتی کہ ایرانی سفیر کو بھی بھول جائیں،  ہمیں مذاکرات  جرنے چاہئیں، سچ کہوں تو یہ ایک نہایت ہی حیرت انگیز واقعہ تھا،  کیونکہ اگر آپ غور کریں تو اس وقت ہم عراق میں سب سے بڑی طاقت کے طور پر موجود تھے۔
وہ پہلا موقع تھا کہ جب ہمیں ان کا سراغ ملا اور ہم نے آپس میں کہا کو آو اس بارے میں بات کریں۔  اس سے پہلے سب کچھ ، یہاں تک جنگ کے آغاز میں صرف بندوق کی زبان میں ہوتا تھا لیکن اس سے انہیں کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔
عراقی صدر نے میری طرف دیکھا  کیونکہ وہ جاننا چاہتے تھے کہ قاسم سلیمانی کو کیا جواب دیا جائے، میں نے ان سے کہا،  انہیں جو کرنا ہے کرنے دیں، میں کسی دوسرے یا تیسرے درجے کے جنرل کے ساتھ ملاقات نہیں کروں گاکہ جو ہمارے فوجیوں کو مار رہا ہے، میں ان کے ساتھ ایک میز پر نہیں بیٹھ سکتا۔
۹ دن کی جھڑپوں اور امریکی فوجیوں کی مدد سے بصرہ کے حالات تبدیل ہو گئے، شیعہ ملیشیا اور قاسم سلیمانی کو شکست ہوئی۔
بصرے میں فوجی آپریشن اس ہفتے کے آخر تک تمام ہو جائے گا، یہ سخت کام مخفی مذاکرات کے ذریعے انجام پایا، ایران کے سرکاری عہدے داروں کی جانب سے دخالت کی رپورٹس بھی موجود ہیں۔
ایرانیوں نے ہم سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ کیا ہم شیعہ مزاحمتی گروہوں کو ایران میں داخل ہونے کی اجازت دیں گے یا نہیں، میں نے کہا کہ انہیں اپنے ساتھ لے جائیں، ہمیں ان کی ضرورت نہیں ہے، انہیں ایران لے جائیں، تو وہ سب ایران چلے گئے۔
وہ پہلا موقع تھا کہ جب میں نے قاسم سلیمانی سے ملاقات کی اور اس کے بعد  جب بھی میں ایران جاتا تھا یا وہ عراق آتے تھے  تو ہماری ایک دوسرے سے ملاقات ہوتی تھی، یہ ہمارے مابین روابط کا آغاز تھا۔
۲۰۰۸ میں برطانوی فوجیں بصرہ سے نکل گئیں اور بصرہ کا کنٹرول عراقی فوج کے ہاتھ میں چلا گیا، لیکن شھر میں ابھی بھی ایران کا اثر و رسوخ باقی تھا۔
جیسا کہ جنرل پیٹریوس نے کہا کہ  ایک آزادی طلب فوج بعد میں ایک عسکری پسند فوج بن جاتی ہے۔ اسی طرح ایرانی ، مسلسل عراقی سیاستدانوں کو ابھار رہے تھے کہ وہ ہمیں عراق سے نکال دیں، اور سچ یہ ہے کہ انہیں کون قصور وار کہہ سکتا ہے؟
قاسم سلیمانی عراقی جنگ میں امریکہ اور برطانیہ کے مقابلے میں ایک فاتح بن چکے تھے، لیکن مشرق وسطی کے حالات اتنی تیزی سے بدل رہے تھے  کہ دشمنوں کے اتحاد کا امکان ہر وقت موجود رہتا تھا۔
سال ۲۱۰۴ کا موسم گرما ایک ایسا وقت تھا کہ جب جو کوئی بھی اس علاقے پر توجہ رکھے ہوئے تھا اسے یہ سب ہمیشہ یاد رہتا۔ جس تیزی کے ساتھ داعش حرکت کر رہی تھی وہ اربیل اور بغداد کی سرحدوں تک پہنچ چکی تھی۔ دولت اسلامیہ یا عراقیوں کے بقول داعش   نے  شمالی عراق کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔انہوں نے سینکڑوں عراقی فوجیوں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا۔
یہ ہم سب کے لئے حیران کن لمحہ تھا، اور خاص کرعراقیوں کے لئے بہت حیران کن تھا، اور ہمیں ان سب نے ہلا کر رکھ دیا تھا۔
سب کہہ رہے تھے کہ داعش اربیل کی طرف آ رہی ہے۔ لوگ وحشت زدہ تھے کہ اگر داعش یہاں تک پہنچ گئی تو وہ ان کی عورتوں کو غلام بنا لیں گے، اور مردوں کو قتل کر دیں گے، اب ہمارے پاس بھاگنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔
کرد خاص توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے،  وہ واشنگٹن کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش میں تھے تاکہ انہیں بتا سکیں کہ حالات بہت سنجیدہ ہیں اور آپ کو میدان میں اترنا پڑے گا۔
عراق کا دوسرا بڑا شھر موصل داعش کے قبضے میں جا چکا تھا۔
موصل پر قبضہ کرنے کے بعد وہ امریکی اسلحے تک پہنچنے  کی تلاش میں تھے۔ ہمارے پاس روسی ساخت کا قدیم اسلحہ تھا  اور جنگی گاڑیاں تو بالکل نہیں تھیں، ہمارے پاس اینٹی ٹینک سیسٹم نہیں تھا۔ ہمارے پاس سنایپر نہیں تھے، ہمارے پاس کچھ نہیں تھا۔
امریکہ اب ہمیں ہتھیار نہیں دیتا تھا اس لئے داعش کے مقابلے کے لئے ہمارے پاس کچھ نہیں تھا۔ اور میں واضح طور پر بتاتا چلوں کہ ہم نے ایران سے مدد طلب کی تھی۔اور ایران نے ہمارا ساتھ دیا اس لئے ہم ہمیشہ ان کے شکر گذار رہیں گے۔
دولت اسلامیہ ایک کٹر سنی تنظیم تھی کہ جسے  القاعدہ کی باقیات بھی کہا جا سکتا ہے۔ قاسم سلیمانی جانتے تھے کہ داعش بہت جلد ہی  ایران اور شیعوں کے لئے خطرہ بن سکتی ہے، ان کی فوجوں نے اولین فرصت میں سرحد پار کی تاکہ کرد مزاحمین  سے جا ملیں۔
دو فوجی ہمارے پاس آئے انہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ ایرانی فوجی ہیں، انہوں نے ہم سے پوچھا کہ ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے؟ میں نے ۹ قسم کے اسلحے کی فہرست بنا کے ان کے حوالے کر دی۔دو دن بعد اسلحہ پہنچ گیا۔
تین ایرانی ہوائی جہاز اربیل کے ہوائی اڈے پر اترے کہ جو اسلحے سے بھرے ہوئے تھے۔ کچھ گھنٹے بعد پشمرکا  اور ایرانی فورسز نے ہمارے علاقے کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ جتنا اسلحہ بھی ایرانی ہمیں دیتے تھے وہ قاسم سلیمانی کی تائید سے ملتا تھا۔
یہ سنایپر ایم ۹۹ ہے جو ہمیں ایران سے ملا ہے۔یہ پہلے ہمارے پاس نہیں تھا اور اس ہتھیار نے داعش پر بہت اثر ڈالا۔
جدید اسلحے کے باوجود بھی کرد فوجیں داعش کا مقابلہ نہیں کر پا رہی تھیں۔ اب سارا عراق خطرے میں تھا۔ عراقی حکومت شیعہ ملیشیا کی مدد لینے پر مجبور ہوگئی کہ جنہوں نے جنگ کے دوران بہت سے برطانوی فوجیوں کو مارا تھا۔
قیس خزعلی جیل سے رہا ہو گئے،  اور انہوں نے اپنے گروہ کو لڑنے کے لئے تیار کیا۔
ہم اس جنگ میں شریک تھے، ایران نے داعش کے مقابلے میں عراق کی حمایت کی تھی، بہت سریع اور بہت زیادہ حمایت۔ اس پوری جنگ کا دارو مدار جس شخص پر تھا وہ قاسم سلیمانی تھے۔
ایک مرتبہ پھر قاسم سلیمانی حالات کو کنٹرول کر رہے تھے، لیکن اس مرتبہ وہ بالکل سامنے تھے۔
وہ ایک وقت میں ہر جگہ ہوتے تھے  اور مشہور ہو چکے تھے۔ وہ ایسی جگہوں پہ جاتے تھے کہ جہاں پہلے وہ کھلے عام کبھی نہیں جاتے تھے۔
ہم نے قاسم سلیمانی اور ان کی فوج کے پہنچنے کے فورا بعد  کمانڈ سینٹر بنا لیا تھا۔
سب لوگ کہتے تھے کہ تصویر نہ بنا ئیں کیونکہ قاسم سلیمانی وہیں ہیں  کہ جب میں فوٹو بناتا تھا تو وہ ناراض نہیں ہوتے تھے۔ وہ نہایت ہی تواضع کے ساتھ فوجیوں سے ملاقات کرتے تھے۔ وہ فوجیوں کے دل جیتنا چاہتے تھے۔ وہ لوگ قاسم سلیمانی کو ایک ایرانی جنرل کے طور پر نہیں بلکہ اپنی ہی طرح ایک پاک مجاھد کے طور پر دیکھتے تھے۔
ایک ۲۵ سالہ نوجوان کے لئے کہ جس نے کوئی بلٹ پروف جیکٹ نہیں پہنی  اور جنگجووں کے ساتھ مل کے لڑ رہا ہے کے لئے یہ بات عجیب ہے کہ اس کے والد کی عمر کا ایک شخص  صرف عام سے کپڑے پہنے ہوئے میدان جنگ میں آرام سے چل رہا ہے۔ اس سب میں ایک ضروری پیغام ہے  کہ یہ شخص نڈر ہے اور ہمیں اس کی پیروی کرنی چاہئے۔
وہ عرفانی اور معنوی شخصیت تھے۔ اور عام فوجی شخصیتوں سے بالکل مختلف تھے کہ جنہیں ہم ہردن دیکھتے ہیں۔
میرا ماننا ہے کہ ان جیسا آدمی سوچتا ہے کہ وہ خود اپنی تقدیر لکھ رہا ہے۔ انہیں موت سے فرق نہیں پڑتا  وہ موت کو الگ طریقے سے دیکھتے ہیں ، وہ اپنا مقصد پورا کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔
شاید میڈیا کی طاقت سے آشنائی کا نتیجہ تھا کہ وہ موقع ان کے ہاتھ لگ چکا تھا کہ جب وہ خود کو ظاہر کر سکتے تھے۔ اور اتنے سالوں کے مخفی اور پس پردہ کاموں کے بعد اب وقت آ چکا تھا کہ وہ منظر عام پر آئیں۔
رسول اللہ کی جنگوں میں فتح کی سب سے بڑی وجہ ان کا ایمان کامل تھا۔
بالآخر برطانیہ اور امریکہ متحد ہو کر داعش کے مقابلے پر آ گئے، اور اس مرتبہ انہوں نے خود قاسم سلیمانی اور  ایران سے رابطہ کیا۔
چونکہ داعش ایک خطرناک شیطانی سازش تھی، لہذا سلیمانی نے اس کے خلاف ایک بہترین سپاہی کا کردار نبھایا تھا۔ بہت سے معنا میں یہ امریکا کا اتحادی ہونے جیسا تھا لیکن ایک محدود وقت کے لئے ایسا کرنا عجیب بات تھی۔
اب کرد جنگجو ایسے حالات میں تھے کہ ہر طرف سے ان کے لئے مدد آ رہی تھی، جب ہتھیار  پشمرگا میں پہنچتے تھے تو اس میں مختلف ممالک کے صندوق ہوتے تھے مثلا امریکہ، جرمنی، ایران، برطانیہ ، اٹلی۔ لوگ پوچھتے تھے کہ کون سی گولیاں اچھی ہیں؟ ایرانی یا امریکی؟ ہم نہیں چاہتے تھے کہ اتحادی گروہ کو معلوم ہو کہ ہم ایرانی  اسلحے کا استعمال کر رہے ہیں، کیونکہ جب قاسم سلیمانی یا شیعہ جنگجو ہمارے درمیان ہوتے تھے تو امریکی ہماری ہوائی مدد نہیں کرتے تھے۔
اس دوران امریکی وزیر دفاع نے اعلان کیا کہ ہوائی حملوں میں اضافہ ہو سکتا ہے، لیکن  وہ محدود  علاقوں تک ہوں گے۔
کیونکہ ہم جانتے تھے کہ داعش کی نابودی کے بعد ہمیں کوشش کرنی ہوگی کہ شیعہ مزاحمتی گروہوں کو واپس لائیں تاکہ وہ عراقی حکومت کے زیر نگرانی رہیں، نہ کہ اپنے علاقائی رھبروں کے زیر نگرانی کہ جن میں سے بعض عراقی پارلیمنٹ کا بھی حصہ ہیں لیکن در اصل وہ سب قاسم سلیمانی کے زیر نگرانی ہیں۔
عالمی برادری کی مدد سے بالآخر ۵ سال بعد عراق داعش کے وجود سے پاک ہو گیا۔ شاید یہ قاسم سلیمانی ہی تھے کہ مغرب کو اس فتح پر جن کا شکریہ ادا کرنا چاہئے تھا۔
پس پردہ فعال شخصیت سے بڑھ کر اب قاسم سلیمانی ایران اور پورے خطے میں انقلاب کی علامت بن چکے تھے۔
قاسم سلیمانی کا ایک پس پردہ فعال شخصیت سے اس جنگ کے فاتح تک کا سفر واقعا حیرت انگیز ہے۔
در حقیقت ، قاسم سلیمانی اور آیۃ اللہ خامنہ ای اب اس بات کو سمجھ چکے تھے کہ وقت آچکا ہے کہ قاسم سلیمانی کو دنیا کے سامنے لایا جائے اور ان کے کردار کو واضح کیا جائے۔
ان واقعات نے ہم پر ظاہر کر دیا تھا کہ وہ دنیا پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور واقعا جب آپ ایک کمانڈر کی حیثیت سے کسی جنگ کو جیت کر واپس آ تے ہیں تو آپ کا وجود مزید پر اثر  ہو جاتا ہے۔
ایران میں ، قاسم سلیمانی کے تشکر اور ان کے اعزاز میں کارٹون فلمیں بھی بنائی گئیں کہ جس میں ان کا کردار امریکہ کی مخالف خلیجی فورس کے کمانڈرکا ہے۔
سلیمانی ایرانیوں کے لئے ایک عظیم کمانڈر بن چکے تھے۔انہیں ایک ماڈرن ہیرو کی طرح تصور کیا جاتا تھا کہ جو پوری طاقت کے ساتھ ظلم کے خاف لڑتاہے۔
قاسم سلیمانی کی فتوحات صرف عراق تک محدود نہیں تھیں،  یہ خفیہ کمانڈر  ایران کے ہمسایہ ملک شام کی طولانی جنگ کے بھی اصلی کھلاڑی تھے۔
ہم اس جگہ کو تمہارا قبرستان بنا دیں گے۔
شام میں شدت بڑھتی جا رہی ہے، حالیہ جھڑپوں میں ڈیموکریٹیک اور حکومتی فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں،  حالیہ احتجاجات کو شروع ہوئے ۶ مہینے گذر چکے ہیں۔
جب شام میں مشکلات شروع ہوئیں تو ہمیں ایک بات کا یقین تھا  کہ ایران کسی بھی صورت میں اسد حکومت کا تختہ نہیں پلٹنے دے گا، ایران ان کا واحد اتحادی تھا کہ جو ان کی مدد کر سکتا تھا۔
اسد خاندان کے زیر حکومت شام، کئی دہائیوں سے ایران کے اتحادیوں میں شمار ہوتا ہے، بشار الاسد کا تعلق اس اقلیت سے تھا کہ جن کا تعلق  شیعوں سے تھا۔ جب ان کی حکومت نابودی کے دہانے پر تھے تو قاسم سلیمانی ان کی مدد کو پہونچے۔
کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ بشار الاسدکے ہاتھوں سے حکومت نکلنے والی تھی، اس وقت پہلے قدس فورس  اور پھر متعدد ایرانی افواج ان کی مدد کو شام پہنچیں، اور پھر لبنان سے حزب اللہ بھی وارد ہوئی کہ جو بہت ہی زیادہ تربیت یافتہ ہیں اور انہوں نے  مختلف شیعہ مزاحمتی گروہوں کو شام میں داخل کیا۔
ان مزاحمتی رہبروں  میں سے ایک قیس خز علی  بھی تھے، عراقی جنگ میں برطانوی فوجوں کے لئے عذاب کے  فرشتے۔
اگر ہم دہشتگردوں کے مقابلے میں شامی حکومت کی مدد نہ کرتے تو ہم آج تک اپنے ملک عراق میں ان دہشتگردوں سے لڑنا پڑتا۔
ایران کو ایک تلخ فاتح کے طور پر یاد کیا جائے گا، حلب شھر میں بشار الاسد کے خلاف باغیوں کی جنگ ختم ہو چکی ہے۔
میرا ماننا ہے کہ اسد حکومت کو بچانے میں قاسم سلیمانی نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
اسد حکومت اہل نہیں تھی، حتی کہ ۲ یا ۳ سال تک بھی ملک چلانے کے قابل نہیں تھی، وہ بالکل نا بودی کے دہانے پر تھی۔
تھکا دینے والے ۸ سالوں میں،  ایران اور  روس کی حمایت یافتہ اسد فوج نے  شام میں اپنی حکومت کو بچا  لیا۔
قاسم سلیمانی شام کی سڑکوں پر ظاہر ہوئے تاکہ اپنی جیت کا اظہار کر سکیں۔
ہم اس جیت کو خدا اور ائمہ کے نام کرتے ہیں، یہ سب ان کی مدد سے حاصل ہوا ہے۔ میں آپ کے ہاتھ اور پاوں کو چوموں گا۔
قاسم سلیمانی کے اسٹریٹجیک منصوبے نے مشرق وسطی میں ایران کے اثر و رسوخ میں اضافہ کر دیا،  عراقی حکومت شیعہ اکثریت کے ہاتھوں میں جا چکی تھی کہ جن کے ایران سے قریبی تعلقات  ہیں۔ شام میں بھی ایرانی اتحادی اسد، ایک نیم مردہ ملک کو چلا رہے تھے اور لبنان میں شیعہ عسکری گروہ حزب اللہ روز بہ روز مضبوط ہوتا جا رہا تھا۔
میں سی آی اے کے رئیس کے پاس گیا، اور وہاں آپ خطے میں ہونے والی تمام تبدیلیوں اور حرکات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں، اور یہ وہ تبدیلیاں تھیں کہ جن کے ماسٹر ماینڈ قاسم سلیمانی تھے، اور ان تبدیلیوں کے ذریعے وہ ہلال شیعی کا قیام چاہتے تھے، اور پہلی مرتبہ وہ بلا واسطہ طور پر ایران سے لبنان کا سفر کئے بغیر  ایران اور حزب اللہ کے درمیان رابطہ برقرار کرنا چاہتے تھے۔
سلیمانی کی نگاہیں اب اپنے آخری ہدف پر تھیں، آمریکہ، اور شیطان اصغر اسرائیل۔
قاسم سلیمانی کا منصوبہ ہی ایرانی منصوبہ ہے۔ وہ بحیرہ روم میں ایران اور شام کے ساحلوں تک ایک راستہ بنانا چاہتے تھے کہ جو عراق سے گذرتا ہو ، اور اس کی مدد سے بہت بڑی تعداد میں اسلحہ اور فوجی تنصیبات بنا ہوائی جہاز کے لائی اور لے جائی جا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ طریقہ اسرائیل کو محاصرے میں لینے کے لئے ان کے لئے مددگار ثابت ہوگا۔
قدس یروشیلم کا عربی نام ہے، قاسم سلیمانی اسی یروشیلم یا قدس فورس کے کمانڈر ہیں، ان کا اصلی ھدف اس مقدس شھر کی آزادی اور اسرائیل کی شکست ہے۔
سرکاری سطح پر ایران کئی مرتبہ اس بات کا اعلان کر چکا ہے کہ ان کا مقصد اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے، اور یقینا ہم انہیں ایسا نہیں کرنے دیں گے۔
اسرائیل ، شمال اور جنوب میں قاسم سلیمانی کی دست پروردہ تنظیموں سے مقابلہ کرتا ہے، قاسم سلیمانی فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کو اسلحہ فراہم کرتے ہیں، اور اسرائیل کے ساتھ ایک لمبی جنگ کی صورت میں غزہ کی  حمایت کی یقین دہانی کرواتے ہیں۔
اسرائیلی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ لبنان میں قدیم ایرانی اتحادی حزب اللہ کے پاس بھی ایرانی ہتھیار موجود ہیں، یہ حمایت عراق میں موجود شیعہ تنظیموں کی حمایت سے مشابہت رکھتی ہے۔
اس وقت جو کام وہ کرنا چاہتے ہیں وہ حزب اللہ کے راکٹوں کو تبدیل کرنا ہے تاکہ وہ اس کی طاقت میں مزید اضافہ کر سکیں۔ ہمیں ان سب چیزوں کو سنجیدگی سے لینا ہوگا، کیونکہ اس وقت حزب اللہ کے ۱ لاکھ ۲۰ ہزار سے ۱ لاکھ ۵۰ ہزار تک راکٹ موجود ہیں۔
عراق میں قاسم سلیمانی کے قدیمی دوست، قیس خز علی نے بھی لبنانی سرحد پر کام کرنا شروع کر دیا ہے۔
ہم دل و جان سے لبنانی عوام اور فلسطینی عوام کے بلند مقاصد میں  ان کی حمایت کرنے کے لئے تیار ہیں، اورغاصب  اسرائیلی حکومت کہ جنہوں نے اسلام کو اسیر بنا لیا ہے سے لڑنے کے لئے آمادہ ہیں۔
لبنان اور اسرائیل کی سرحد پر میرا موجود ہونا  خطے میں میرے سیاسی اثر و رسوخ کی نشاندہی کے لئے تھا۔
اسرائیل کو آپ سے کیوں ڈرنا چاہئے؟ اسرائیل کو قاسم سلیمانی اور ایران سے کیوں ڈرنا چاہئے؟
اگر اسرائیل لوگوں کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا اور اپنی حدود سے باہرنکلنےکی آرزو نہیں رکھتا تو اسے ہم سے نہیں ڈرنا چاہئے۔ لیکن اگر وہ اپنی فوجوں کو ہر جگہ بھیجنا چاہتا ہے اور خطے کے عرب ممالک  پر اثر انداز ہونا چاہتا ہے تو اسے ڈرنا چاہئے۔
گولان کی پہاڑیاں کہ جو در اصل شام کی سرحد میں واقع ہیں،لیکن ۵۰  سالوں سے اسرائیل کے قبضے میں ہیں۔  یہ پہاڑیاں شمالی علاقے میں ایران اور اسرائیل کے درمیان نیا جنگی محاز ہیں۔
جنرل نیتزان آلو ن قاسم سلیمانی کے مقابلے میں اسرائیلی فوجی آپریشن کی کمانڈ کرتے ہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ قدس فورس نے شام میں دخالت کی ہے، میرا ماننا ہے کہ ایرانی فوج سمجھ چکی ہے کہ اگر وہ شام میں اپنے فوجی کیمپ اور فوجی اڈے بناتی ہے تو انہیں وہاں سےکوئی نہیں نکال سکتا۔
قاسم سلیمانی نے شام میں اسرائیل کے دفاعی نظام کا معائنہ کرنا  شروع کر دیا تھا۔ اس کام کے لئے وہ اسرائیل کی طرف ڈرون بھیجا کرتے تھے کہ جو اسرائیلوں کے بقول مسلح ہوتے تھے۔
میری پوری توجہ اسرائیلی فضا اور اس کے لوگوں کی حفاظت پر مامور تھی۔
مجھے یاد ہے کہ دھند تھی اور میں ہیلی کاپٹر کی طرف جا رہا تھا،  پرواز کے ۲۰ یا ۳۰ منٹ ہم بادلوں کے اوپر تھے، میں نے بہت تیزی کے ساتھ ہدف کو مشخص کیا  اور اسے تباہ کرنے کے لئے اس کی مشخصات نکالیں۔
آپ ہدف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔  ہدف نے سرحد پار کر لی ہے۔ اور ہم نے حملہ کیا۔ حملہ کامیاب رہا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاھو  کا کہنا ہے کہ ایران ساری دنیا میں ہمارے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اور اب ان کا نیا محاز شام کی سرحد پر ہے۔
ایران نے ہمارے لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے ڈرون بھیجنے سے انکار کیا ہے، یہ رہا اس ایرانی ڈرون کا ایک حصہ، اس کے نابود ہونے کے بعد یہ اس کا باقی ماندہ حصہ ہے۔
اسرائیل نے قدس فورس کے اڈے پر حملہ کیا کہ جس پر اسرائیل کا الزام تھا  کہ ڈرون وہاں سے بھیجا گیا تھا۔ اسرائیل کے مطابق اس دن سے اب تک انہوں  نے ایران کے راکٹ حملوں کے جواب میں شام میں بہت سے حملوں کو ناکام بنایا ہے۔
قاسم سلیمانی اور قدس فروس کو لگتا ہے کہ وہ اسرائیل کے آہنی دفاعی نظام  پر ایک میزائیل داغ کر اسے ڈرا دیں گے، کچھ وقت پہلے وہ تجربہ کر چکے ہیں، بالکل اسی جگہ جہاں ہم کھڑےہیں ۳۲ راکٹ داغے گئے تھے۔ہم نے ان کے حملوں کے جواب میں قدس فورس کی بہت سی تنصیبات کو تباہ کر دیا تھا۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے شام میں ایرانی اڈوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے، اسرائیل کا کہنا ہے کہ ایران کی سپاہ قدس ان کے نشانے پرہے۔
کیا آپ کو لگتا ہے کہ قاسم سلیمانی نے ان حملوں سے عبرت حاصل کی؟
مجھے لگتاہے کہ انہوں نے ہمیں کمزور سمجھ لیا ہے اور انہیں لگتا ہے کہ وہ ہمارے حریف بن سکتے ہیں، لیکن مجھے نہیں لگتاکہ انہوں نے ابھی درس حاصل کیا ہے۔
اگر اسرائیل چاہے تو کیا وہ قاسم سلیمانی کو مار سکتا ہے؟
میں صرف اتنا کہوں گا کہ ہر دہشتگرد،  اور در حقیقت قاسم سلیمانی بھی ایک دہشتگرد ہیں اور قدس فورس بھی دہشتگردو کی فہرست میں ہے،  تو ہر دہشتگرد  کو اچھے سے جان لینا چاہئے کہ وہ نشانہ بن سکتا ہے  اور دہشتگردو ں کے لئے کوئی محفوظ مقام موجود نہیں ہے۔
آج مشرق وسطی کی حقیقت مختلف ہے، امریکی صدر ٹرامپ نے  رسمی طور پر داعش کے خلاف جنگ میں جیت کا اعلان کر دیا ہے۔ وہ عراق اور شام سے اپنی فوجیں واپس بلا رہے ہیں لیکن انہوں نے امریکہ کے پرانے دشمن کو کچھ اور مہلت دی ہے۔
میری حکومت کا حتمی فیصلہ دنیا میں دہشتگردوں کی سب سے بڑی حامی یعنی ایرانی بنیاد پرست حکومت کا مقابلہ کرنا ہے۔ ان کی حکومت بہت زیادہ تند اور سخت ہے اور وہ بہت ہی زیادہ برے کام انجام دیتی ہے۔
اور اب قاسم سلیمانی دشمن کا چہرہ اور اس کی آواز ہیں۔
اپنے کاموں کی سزا پائے بغیر ہی وہ خطے میں نا امنی ایجاد کر رہے ہیں، یہ وہ دشمن ہے کہ جسے ہمیں ختم کرنا ہوگا۔
کیا ابھی تک امریکا نے قاسم سلیمانی کو مارنے کا کوئی فیصلہ کیا ہے؟
سچ کہوں تو میں اس بارے میں کچھ نہیں بتا سکتا کہ حکومت نے قاسم سلیمانی کے قتل کا کوئی منصوبہ بنایا ہے یا نہیں۔ لیکن میں اس بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا  ہوں کہ جب میں جنگی کمانڈر تھا تو عراق میں وہ بالکل خفیہ تھے اور کہاں اب کہ وہ حوثیوں کے ساتھ سیلفی فوٹو لے رہے ہوتے ہیں۔
تو شاید آپ کا دل بھی چاہتا  ہے کہ انہیں قتل کیا جائے؟
سچ کہوں تو یہ بہت شاندار ہوگا کہ اگر ہم قاسم سلیمانی کے اثر و رسوخ کو نابود کر سکیں۔
تم ہمیں ڈرا رہے ہو؟  تمہارا حریف میں ہوں۔ قدس فورس تمہاری حریف ہے۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ امریکہ میں ہمارے بہت سے دوست ہیں اور برے لوگوں سے لوگ ہمیشہ نفرت کرتے ہیں  اور قاسم سلیمانی نے خود کو اس مقام پر لا کر کھڑا کر دیا  تھا، وہ عالمی دہشتگردی کے اصلی عامل ہیں،  سچ کہوں تو  انہوں نے شیطان کے ہاتھ بھی باندھ دئے ہیں۔ میں انہیں ایک برے انسان کے طور پر نہیں دیکھتا ہوں۔
مجھے لگتا ہے کہ انہیں ایک عام انسان کی طرح دیکھیں، جس طرح ہم اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں اسی طرح وہ بھی اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں۔ جس طرح میں اپنے ملک کی حفاظت کرنا چاہتا ہوں اسی طرح وہ بھی اپنے ملک کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں۔
تم بہت بڑی غلطی کر رہے ہو۔ تم خطے میں ہماری طاقت سے بخوبی واقف ہو۔
ہم ان کی ہی زبان میں انہیں جواب دے سکتے ہیں اور ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ لیکن مجھے لگتا  ہے کہ اگر ہم مشرق وسطی میں امن چاہتے ہیں  تو ہمیں جاننا ہوگا وہ کہاں سے آئے ہیں اور وہ کیا چاہتے ہیں ، یا پھر ہم ہمیشہ ایران کے ساتھ جنگ کی حالت میں رہیں۔
اس ویڈیو کو سب ٹایٹل کرنے کا مقصد اس کے مندرجات کی توثیق نہیں ہے، یہ صرف معلوماتی مقاصد کے لئے ہے۔
اس جنگ کو تم شروع کرو گے لیکن اس کا اختتام ہم کریں گے۔
ہمیں ذلت قبول نہیں ہے، ہمیں ذلت قبول نہیں ہے
 


نظری برای این مطلب ثبت نشده است.

رائے

ارسال نظر برای این مطلب